اطمینان کے ساتھ نماز پڑھنے کی اہمیت

0

 

اطمینان کے ساتھ نماز پڑھنے کی اہمیت

نماز اسلام کی ستونوں میں سے ایک ہے اور مومن کا بنیادی ربطِ الٰہی ہے۔ صرف جسمانی حرکات ادا کر دینا کافی نہیں؛ نماز کا حقیقی مقصد دل کی تسکین، خشوع و خضوع، اور اللہ کے ساتھ پُراثر رابطہ قائم کرنا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے عام طور پر اردو میں "اطمینان" یا "طمأنینہ" اور فقہی و تصوفی اصطلاحات میں "خشوع" کہا جاتا ہے۔ یہ مضمون نماز میں اطمینان کی شرعی حیثیت، روحانی و اخلاقی افادیت، حصول کے طریقے اور رکاوٹوں کے علاج پر مفصل روشنی ڈالتا ہے۔

اطمینان/خشوع کی تعریف اور اصطلاحی معنی

  • اطمینان (طمأنینہ): دل کی وہ کیفیت جس میں اضطراب، نسیان یا بے چینی کم ہو اور نماز کے وقت دل پرسکون، حاضر اور اللہ کے ذکر میں مگن ہو۔
  • خشوع: قلبی تواضع، عاجزی اور حضورِ قلب؛ یعنی آنکھ، زبان اور اعضا کے ساتھ ساتھ دل کا بھی نماز میں شریک ہونا۔
    یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم خیال اور ملحق ہیں؛ اطمینان خارجی حرکات کی نرمی اور دل کی وقوفیت کا نتیجہ ہے، جبکہ خشوع بذاتِ خود دل کا نزولِ حضوریہ ہے۔

شرعی دلائل (قرآنی شواہد)

قرآنِ کریم نے مؤمنین کی سعادت کو ان کی نماز کے حال سے مربوط کیا ہے:

  • ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ١  الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ٢(سورہ المؤمنون: 1–2)

ترجمہ: یقیناً کامیاب ہو گئے ایمان والے، جو اپنی نمازوں میں عاجزی و خشوع اختیار کرتے ہیں۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سچے مؤمنوں کی پہلی صفت بیان فرمائی ہےخشوع یعنی دل کی نرمی، عاجزی اور اللہ کے حضور گہرے احساسِ بندگی کے ساتھ نماز پڑھنا۔

نماز میں خشوع صرف ظاہری سکون نہیں بلکہ دل کا جھک جانا، دنیا کے خیالات سے الگ ہو کر اللہ کی عظمت اور اپنی عاجزی کا احساس کرنا ہے۔

یہی کیفیت نماز کو روحانیت بخشتی ہے اور بندے کو کامیابی (فلاح) کے مقام تک پہنچاتی ہے۔

·         امام ابن کثیر لکھتے ہیں:

"خشوع کا مطلب ہے دل کا سکون، عاجزی، اور نگاہوں کا جھک جانا۔" ( تفسیر ابن کثیر، سورۃ المؤمنون: 2)

یعنی جو مومن نماز میں ایسے خشوع کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، وہی درحقیقت دنیا و آخرت میں کامیاب ہیں۔

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ مؤمنین کی کامیابی (فلاح) کا ایک لازمی نشان نماز میں خشوع ہے۔

  • نیز ارشاد ہے: ﴿اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ (سورہ عنکبوت: 45)

ترجمہ: (اے نبی ﷺ!) جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے، اسے تلاوت کیجیے، اور نماز قائم کیجیے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو دو عظیم ہدایات دی ہیں:

1.       تلاوتِ قرآن:
یعنی جو وحی آپ پر نازل کی گئی ہے، اسے پڑھتے رہیے، دوسروں کو سناتے رہیے، اور اس پر غور و فکر کیجیے۔
قرآن کی تلاوت محض زبانی نہیں بلکہ اس کے معانی پر تدبر اور عمل بھی مقصود ہے۔

2.     نماز قائم کرنا:
یعنی نماز کو اس کے ارکان، شرائط اور روح کے ساتھ ادا کیجیے۔ نماز بندے کو اللہ سے جوڑنے اور گناہوں سے روکنے کا ذریعہ ہے، جیسا کہ اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ(سورۃ العنكبوت: 45)
"
بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔"

یہ آیت نماز کی روحانی تاثیر اور اخلاقی قوت کو واضح کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی نماز — وہ جو خشوع، اخلاص اور اللہ کی یاد سے بھری ہو — بندے کے کردار کو اس قدر سنوارتا ہے کہ وہ فحشاء (یعنی بے حیائی، زنا، عریانی، گناہِ کبیرہ) اور منکر (یعنی ہر وہ عمل جو عقل، شریعت اور اخلاق کے خلاف ہو) سے خود بخود بچنے لگتا ہے۔

1 . فحشاء اور منکر کی وضاحت:

·         فحشاء: تمام کھلے یا چھپے گناہ، خاص طور پر جنسی بے راہ روی، عریانی، اور اخلاقی بگاڑ۔

·         منکر: ہر وہ کام جسے دین اور عقل ناپسند کرے، جیسے ظلم، دھوکہ، چوری، غیبت، بددیانتی وغیرہ۔

2 .  نماز کیسے روکتی ہے؟

(الف)  یادِ الٰہی کے ذریعے:

نماز میں بندہ بار بار اللہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، اُس کی بڑائی بیان کرتا ہے، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔
یہ مسلسل تعلق دل میں تقویٰ پیدا کرتا ہے، جو گناہوں سے روکنے کی اصل طاقت ہے۔

(ب) روح کی پاکیزگی کے ذریعے:

جس طرح جسم کو بار بار دھونے سے میل کچیل دور ہو جاتی ہے، ویسے ہی نماز روح کو پاک کرتی ہے۔ حديث نبوي ميں هے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: «أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ، يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ ‌دَرَنِهِ. قَالُوا: لَا يُبْقِي مِنْ ‌دَرَنِهِ شَيْئًا، قَالَ: فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا».(صحیح بخاری: 528، صحیح مسلم: 667)

 حضرت ابو هريره رضي  الله عنه سے روايت هے  كه انهوں نے سنا كه رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ روزانہ پانچ مرتبہ اس میں غسل کرے تو کیا اس پر میل باقی رہے گی؟"
صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "یہی مثال پانچ وقت کی نمازوں کی ہے، جن کے ذریعے اللہ گناہ مٹا دیتا ہے۔"

(ج) عملی نظم و ضبط کے ذریعے:

نماز بندے کی زندگی میں وقت کی پابندی، طہارت، نظم، اور اجتماعی شعور پیدا کرتی ہے، جو برائیوں سے بچنے میں مددگار ہے۔

3  .   امام ابن کثیرؒ کی تفسیر کے مطابق:

"جس نے نماز ادا کی اور وہ اسے برائی سے نہ روک سکی، تو وہ نماز محض ظاہری صورت میں تھی، دل سے نہیں۔"
(تفسیر ابن کثیر، العنکبوت: 45)

نماز صرف جسمانی حرکات کا نام نہیں بلکہ دل کی بیداری اور اخلاقی اصلاح کا ذریعہ ہے۔
جو شخص دل سے نماز پڑھتا ہے، اس کے دل میں اللہ کا خوف بیدار ہوتا ہے، اور یہی خوف اُسے فحشاء و منکر سے روکتا ہے۔

پس حقیقی نماز وہ ہے جو انسان کے باطن کو پاک اور کردار کو بلند کر دے۔

خلاصہ:
یہ آیت دراصل قرآن اور نماز — دونوں کی جامع دعوت ہے۔
قرآن بندے کے فکر و ایمان کی اصلاح کرتا ہے،
اور نماز اس کے عمل و کردار کو سنوارتی ہے۔
دونوں مل کر ایک مؤمن کی زندگی کو مکمل بندگی کی راہ پر لے جاتے ہیں۔

قرآن نماز کو انسان کو فحشاء و منکر سے روکتا ہوا بیان کرتا ہے، اور یہ روکنے کی کیفیت تبھی ممکن ہے جب نماز دل و دماغ کو موقوف کرے (یعنی خشوع اور اطمینان ہو)۔

نبوی تعلیم اور علماء کا موقف (خلاصہ)

رسولِ کریم ﷺ نے نماز کے اہتمام اور کیفیت پر زور دیا — نماز صرف ظاہری اداکاری نہیں بلکہ دل کا ملاحظہ بھی چاہیے۔ روایات میں نماز کی روحانیت، قلبی توجہ اور خشوع کے فضائل ملتے ہیں (یہاں احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف کتبِ حدیث اور محدثین کی تفسیرات کا مطالعہ مفید ہے)۔

کبار علماء اور صوفیہ — جیسے امام غزالی (درّاساتِ عبادت و اخلاق میں) اور ابن قیم وغیرہ — نے نماز میں قلبی حاضری اور دل کی اصلاح کو اہم ترین قرار دیا ہے؛ ان کے نزدیک اعمال کی قبولیت اسی قلبی کیفیت پر منحصر ہے۔

اطمینان کے روحانی، اخلاقی اور عملی فوائد

1.       قربِ الٰہی: اطمینان دل کو اللہ کے قریب لاتا ہے؛ دل میں سکون، خوفِ الٰہی اور محبتِ الٰہی بڑھتی ہے۔

2.     عمل کی قبولیت: شرعی اور نقلی متون میں دل کی خشوع کو اعمال کی قبولیت کے لیے اثّہ مانا گیا ہے — خارجی حرکات کے ساتھ قلبی کیفیت ملے تو عمل مکمل ہوتا ہے۔

3.    نفسیاتی فوائد: نماز میں واقعی حاضر رہنا ڈپریشن، اضطراب اور ذہنی خلفشار کو کم کرتا ہے — ذہن کو مرکزیت ملتی ہے۔

4.    اخلاقی تربیت: جب دل نماز میں حاضر ہو تو انسان معاملات میں بھی تحمل، بردباری اور عدل پیدا کرتا ہے۔

5.     سماجی اثرات: پرسکون دل رکھنے والا انسان گھریلو اور معاشرتی تعلقات میں استحکام لاتا ہے؛ جلدی غصہ یا بے صبری کم ہوتی ہے۔

اطمینان حاصل کرنے کے عملی طریقے (عملی رہنما)

1.       قبل از نماز تنفسی و ذہنی تیاری: کچھ دیر پہلے دنیاوی فکرات سے دور ہو کر گہری سانسیں لیں، آنکھیں بند کر کے دل کو نماز کے مقصد کی طرف موڑیں۔

2.     تدبرِ قرآن: جو آیات آپ پڑھنے جا رہے ہیں، ان کا مختصر مفہوم ذہن میں لیں۔ الفاظ کے معانی جاننا قلب کو متوجہ کرتا ہے۔

3.    آہستگی اور وقار: رکوع و سجود اور قیام و قعدہ میں جلدبازی نہ کریں؛ آہستگی سے حرکات ادا کریں تاکہ دل حرکتوں کے مطابق متحرک ہو۔

4.    اذکار و تسبیح قلبی طور پر پڑھیں: زبان کے ساتھ دل بھی ذکر کرے — ہر لفظ پر غور کریں۔

5.     نماز کے بعد مختصر مراقبہ: نماز ختم ہونے کے بعد چند لمحے خاموش رہ کر وہ کیفیت برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔اور نماز كے بعد والے اذكار كا  حضور قلب كے ساتھ ورد كريں۔

6.     قلبی معاصی کا خیال: گناہوں کی توبہ دل میں کریں؛ توبہ دل کی نرمی اور ہچکچاہٹ ختم کرتی ہے۔

7.    مسلسل عمل و تصحیح: ابتدا میں مشکل آئے گی؛ مگر مستقل مشق سے دل نرم ہوگا۔

رکاوٹیں اور ان کے علاج

  • فکری خلفشار (خیالاتِ دنیاوی): علاج — قبل نماز چند منٹ ذہن کو مرتب کریں، فون/دیگر عوامل دور کریں۔
  • عجالت و جلدبازی: علاج — آہستگی اور ہر رکوع و سجدہ میں نیت تازہ کریں۔
  • روحانی سستی (کسل): علاج — تلاوت قرآن، ذکر اور شہادتوں پر غور، نیکیوں کا حاصل بڑھائیں۔
  • علمی ناآشنائی: آیات و اذکار کے معانی جاننے سے قلبی توجہ بڑھے گی — تراجم و تفسیر کا مطالعہ کریں۔

علمی حوالہ نگاری (مطالعہ کے لیے تجاویز)

  • قرآنِ مجید کی آیاتِ متعلقہ (سورہ المؤمنون 23:1–2؛ سورہ عنکبوت 29:45) کا مطالعہ کریں۔
  • آثارِ صوفیہ اور علماء: امام غزالی کی  احياء علوم الدين(خصوصاً عبادات اور اخلاق کے ابواب)،  ابن تيميه كي تاليفات ، ابن قیم کی تالیفات (مقالاتِ قلب اور سلوک) سے اطمینان و خشوع پر روشنی ملتی ہے۔
  • مقامی مفسرین اور معاصر مبلغین کی تقاریر بھی مفید رہنمائی دیتی ہیں (مفاہیمِ قرآن پر مبنی لیکچرز وغیرہ)۔

نتیجہ

نماز کا اصل جمال اس کی کیفیت میں ہے — جب نماز دل کی گہرائیوں تک پہنچے تو وہ عبادت زندگی بدل دیتی ہے۔ اطمینان و خشوع نہ صرف فرد کی روحانی ترقی کا ذریعہ ہیں بلکہ اس کے اخلاقی، نفسیاتی اور سماجی جوانب پر بھی مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم عزم و عمل سے نماز کی تیاری کریں، الفاظ کے معانی جانیں، اور مستقل مشق کے ذریعے دل کو حاضر رکھنا سیکھیں۔

دعا هے كه  اللہ رب العالمين اور مقلب القلوب  ہمارے دلوں میں نماز میں خشوع و اطمینان عطا فرما، ہمیں فرض کا حق ادا کرنے والا اور توبہ کرنے والا بنادے، آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)