تقدیر كيا هے؟
ایک تحقيقي مطالعہ
تقدیر (القَدَر) کا
مسئلہ اسلام کے عقائد میں نہایت اہم اور نازک حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایمانِ بالغیب کا
ایک بنیادی جز ہے، جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ تقدیر کا مطلب ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے ازل سے ہر چیز کا علم رکھا، ہر عمل اور ہر واقعہ کو اپنے علم اور ارادے
کے مطابق لکھ دیا، اور سب کچھ اسی کے حکم و مشیت سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ
انسان کو اختیار (اختیارِ عمل) بھی دیا گیا ہے، تاکہ امتحان کا مقصد پورا ہو سکے۔
تقدیر کا قرآنی تصور:
قرآنِ کریم نے بارہا
تقدیر کے مسئلے کو مختلف پہلوؤں سے واضح کیا ہے۔ چند اہم آیات درج ذیل ہیں:
1.
سورۃ القمر (آیت 49):
إِنَّا
كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ.
ترجمہ: بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے
(تقدیر) کے مطابق پیدا کیا ہے۔
یعنی: ہر مخلوق اور
ہر واقعہ اللہ کے مقرر کردہ نظام، وقت، مقدار اور حکمت کے مطابق ہوتا ہے۔
یہ آیت عقیدۂ تقدیر (ایمان
بالقدر) کی بنیادی دلیلوں میں سے ہے۔
اللہ
تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ کائنات
کی کوئی چیز اتفاق یا حادثہ کے طور پر وجود میں نہیں آئی بلکہ ہر
شے اللہ کے علم، ارادے اور
اندازے کے مطابق ہے۔
ہر چیز — چاہے
وہ ایک ذرّہ ہو یا کہکشاں — اللہ کے علم میں پہلے سے موجود تھی۔
اس
کی پیدائش، عمر، مقام، مقدار،
صفات، حتیٰ کہ انجام تک سب کچھ اللہ نے پہلے سے طے کیا ہوا ہے۔
"وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا.(الطلاق: 12)
"اور
بے شک اللہ نے ہر چیز کو اپنے علم سے گھیر رکھا ہے۔"
قدر کا مطلب ہے: اللہ
تعالیٰ نے ہر چیز کے لیے ایک
مقرر انداز، پیمانہ، حد، وقت اور کیفیت مقرر کر رکھی ہے۔
یعنی:
·
کون پیدا ہوگا، کب پیدا
ہوگا
·
کتنی عمر پائے گا
·
کیا کرے گا
·
کس حال میں مرے گا
سب
اللہ کے علم و ارادے کے مطابق
ہے۔
یہ آیت اس بات
کی نفی نہیں کرتی کہ انسان كو كوئي اختيارحاصل نهيں هے اور يه كه وه هر كام كرنے ميں مجبور ہے۔ بلكه يه بتاتي هے كه انسان جو كچھ بھي كرتا
هے يا كائنات ميں جو بھي وقوع پذير هوتا هے وه سب الله تعالى كے اندازے اور علم كے
مطابق هوتا هے۔
بلکہ
قرآن نے واضح کیا کہ انسان کے لیے اختیار
اور ذمہ داری بھی ہے:
"فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ " (الکہف: 29)
"جس
کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کرے۔"
يعني ايمان
لانا اور نه لانا يه دونوں انسان كے اختيار ميں هے، الله تعالى نے انسان كو جو
اختيارات تفويض كئے هيں اسي اختيار كو استعمال ميں لا كر انسان يا تو الله تعالى
پر ايمان لاتا هے اور نيك عمل كر تا هے يا وه كفر كا راسته اختيار كرتا هےاور
گمراهي ميں دور تك چلا جاتا هے۔
سورۃ الانسان
(76:3) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا
كَفُورًا.
"بیشک ہم نے اسے
(انسان کو) راستہ دکھایا، اب چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔"
اس آيت كريمه
ميں بتايا گيا هے كه اللہ تعالیٰ نے انسان کو:
·
عقل عطا کی،
·
وحی اور رسولوں کے ذریعے حق و
باطل میں فرق سمجھایا،
·
اور سیدھا راستہ (صراطِ مستقیم)
واضح کر دیا۔
یعنی انسان کو
یہ صلاحیت دی کہ وہ خیر و شر
میں تمیز کر سکے۔ اور يه خير و شر كے درميان تميز كرنے كي صلاحيت
الله تعالى نے انسان كے اندر شروع سے هي وديعت كر ركھي هے۔
"وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا
وَتَقْوَاهَا" (الشمس: 7–8)
"اور
نفس کی قسم جسے (اللہ نے) ٹھیک بنایا، پھر اس میں اس کی بدی اور پرہیزگاری کا شعور
رکھا۔"
آیت کا دوسرا
حصہ
"إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا"
بتاتا
ہے کہ اللہ نے انسان کو اختیار
(Free Will) دیا ہے:
·
وہ چاہے تو اللہ کی ہدایت کا شکر ادا کرے،
یعنی ایمان لائے، نیکی کرے،سيدھے راستے پر چلے
·
یا چاہے تو انکار کرے اور کفر کی راہ
اختیار کرے۔
یعنی اللہ زبردستی ایمان نہیں دلواتا
بلکہ انسان کو آزمائش کے لیے
آزادی دیتا ہے۔
آيت كريمه ميں دو لفظ "شكر " اور
"كفر" استعمال هوئے هيں ان ميں فرق يا ان كا مفهوم يه هے كه
·
شاکر (شکر گزار): وہ جو ہدایت کو
قبول کرے، ایمان لائے، اور اللہ کے احکام پر چلے۔
·
کفور (ناشکرا): وہ جو ہدایت کا
انکار کرے، نعمتوں کو بھلا دے، اور اللہ کی نافرمانی کرے۔
یہ آیت اور "إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ" دونوں مل کر
ایک توازن قائم کرتی ہیں:
·
اللہ نے ہر چیز ایک اندازے سے پیدا کی
(تقدیر)،
·
لیکن انسان کو راستہ دکھا کر اختیار بھی
دیا۔ كه وه اپنے اختيار (Free Will) كو استعمال ميں لا كر اپني
مرضي كے راستے پر چلے، یعنی انسان مجبور
نہیں، بلکہ ہدایت
یا گمراہی کا انتخاب خود کرتا ہے، البتہ وہ جو راہ اختیار کرتا
ہے، اللہ کے علم اور مشیت میں
پہلے سے معلوم ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:
·
ہم نے انسان کو ہدایت،
عقل، اور سچ جھوٹ کا فرق سمجھایا؛
·
اب یہ انسان پر ہے کہ وہ
o
شکر گزار بن کر ایمان کی
راہ اپنائے، یا
o
ناشکرا بن کر کفر کی راہ
چلے۔
اللہ کسی پر
زبردستی نہیں کرتا، بلکہ انسان کا امتحان اسی آزادی میں ہے کہ وہ حق کا انتخاب کرتا ہے یا
نہیں۔ اگر وه حق كا انتخاب كر تا هے تو
انعام كا مستحق ٹھهرتا هے اور اگر وه حق كا انتخاب نهيں كرتا بلكه گمراهي كے راستے
پر چلتا هے تو چونكه اس راستے كا انتخاب اس نے اپني مرضي سے كيا هے اس لئے الله كي نافرماني كرنے كي وجه سے سزا كا مستحق
ٹھهرتا هے۔
یہ آیت ہمیں یاد
دلاتی ہے کہ:
·
کائنات کی ہر حرکت اور ہر
واقعہ اللہ کے مقررہ انداز
سے ہوتا ہے۔
·
کوئی چیز اتفاق یا حادثہ
نہیں۔
·
اللہ کی علم و حکمت ہر شے پر محیط
ہے۔
·
انسان کو چاہیے کہ اپنی
کوشش کے ساتھ اللہ پر بھروسہ
رکھے، کیونکہ انجام اسی کے اختیار میں ہے۔
ايك نکتہ:
یہ آیت انسان
کے دل میں اطمینان اور سکون
پیدا کرتی ہے — جب بندہ یقین کر لے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کے مقرر کردہ اندازے کے مطابق
ہے، تو وہ پریشانی، حسد، اور
ناامیدی سے بچ جاتا ہے، جيسا كه الله تعالى قرآن كريم ميں خود
فرماتا هے كه
"قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا" (التوبہ: 51) " كهه ديجئے ہمیں وہی کچھ پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا
ہے۔"
2.
سورۃ الحدید (آیت 22):
مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي
الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا
ۚ
إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ.
ترجمہ:
“زمین میں کوئی مصیبت نہیں آتی، اور نہ تمہارے نفسوں
(جانوں) پر کوئی آفت پہنچتی ہے، مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے، اس سے پہلے کہ
ہم اسے پیدا کریں۔ یقیناً یہ (بات) اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔”
یہ آیت تقدیر
(اللہ کی تقدیر و علمِ ازلی) کے بنیادی اصولوں میں سے ایک کو واضح کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا
ہے کہ دنیا میں آنے والی ہر مصیبت، نقصان، خوشی، دکھ، زلزلہ، قحط، بیماری، موت،
یا آزمائش—سب کچھ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے اور “کتابِ محفوظ” (لوحِ محفوظ) میں
درج ہے۔
یہ اس بات کا اعلان
ہے کہ دنیا میں کوئی حادثہ اتفاقیہ نہیں ہوتا، بلکہ ہر چیز ایک مقررہ انداز اور
ازلی منصوبے کے مطابق پیش آتی ہے۔
اس آيت كي تفسير
مختلف مفسرين كے حوالے سے مختصرا بيان كيا جاتا هے۔
ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ ہمیں یہ
تعلیم دیتا ہے کہ جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہوتا ہے، وہ سب کچھ اللہ کے علم اور
تقدیر میں پہلے سے درج ہے۔ اس سے انسان کو صبر و سکون نصیب ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا
ہے کہ ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہے۔"
(تفسیر ابن کثیر، سورۃ الحدید: 22)
امام طبریؒ کے مطابق: "آیت کا مقصد انسان کے
دل کو اطمینان دینا ہے کہ کوئی مصیبت اچانک نہیں آتی، بلکہ وہ پہلے سے اللہ کی طرف
سے مقدر شدہ ہوتی ہے، تاکہ مؤمن بے صبری نہ کرے بلکہ صبر و رضا اختیار کرے۔"
قرطبیؒ اس آيت كي
وضاحت كرتے هوئے لكھتے ہیں:
"یہ آیت ایمان بالقدر
(تقدیر پر ایمان) کی اصل ہے۔ انسان کو یہ جان لینا چاہیے کہ ہر مصیبت اللہ کے علم
و ارادہ سے ہے، تاکہ نہ خوشی میں تکبر کرے اور نہ غم میں مایوس۔"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"اِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ
اكْتُبْ، قَالَ: مَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ
الْقِيَامَةِ." (سنن ابی داؤد، حدیث: 4700؛ ترمذی: 2155)
“اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور فرمایا: لکھ! قلم نے پوچھا: کیا
لکھوں؟ اللہ نے فرمایا: جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، سب لکھ دے۔”
یہ حدیث اس آیت کی مکمل تشریح کرتی ہے کہ اللہ کا علم اور تقدیر ہر چیز
کو پہلے سے محیط ہے۔
اس آيت كے
عقلی و فکری پہلويه هيں كه:
- (الف) دنيا ميں پيش آنے
والے واقعات اتفاق محض نہیں:
دنیا میں بظاہر حادثات یا اچانک ہونے والے واقعات بھی
دراصل ایک الٰہی منصوبے کے تحت ہیں۔ هم لوگ ويسے هي ان كو اتفاقا يا
اتفاقيه طور پر كهه ديتے هيں حالانكه يه سب ايك منصوبے كے تحت پيش آتے هيں جسے
تقدير كها جاتا هے۔
- (ب) تسلیم و رضا:
اس ایمان سے كه جو كچھ پيش آيا وه پهلے سے لكھا هوا تھا اور ان كا وقوع پذير هونا طے تھا ،انسان کا دل پرسکون رہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ نقصان و مصیبت اللہ کے ارادے سے ہے، اس لیے وہ مایوس نہیں ہوتا بلکہ صبر کرتا ہے۔ - (ج) تکبر سے حفاظت:
جب انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ خوشی، کامیابی، مال، اولاد—سب اللہ کی تقدیر سے ہیں، تو وہ مغرور نہیں ہوتا بلکہ شکر گزار بنتا ہے، اس لئے كه وه جانتا هے كه اس ميں اس كي اپني محنت سے زياده تقدير كارفرما هوتي هے۔
آيت مذكوره سے اگلی آیت میں فلسفۂ صبر و شکربيان كرنے
كے ساتھ ا س كے فكري پهلو كو يوں بيان كيا هے:
لِكَيْلَا
تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ. (الحدید: 23)
“تاکہ تم اس پر افسوس نہ کرو جو تم سے چھن جائے، اور نہ اس پر اتراؤ جو تمہیں
دیا جائے۔”
یعنی جب انسان یقین
رکھے کہ سب کچھ پہلے سے لکھا ہوا ہے، تو نہ وہ مایوس ہوتا ہے نہ مغرور، بلکہ صابر
و شاکر بن جاتا ہے۔
اس آيت كا خلاصہ و نتیجہ يه هے :
1.
دنیا میں کوئی مصیبت
یا خوشی اتفاقاً نہیں آتی۔
2.
ہر چیز اللہ کے
علم و تقدیر کے مطابق ہے۔
3.
مؤمن کو چاہیے کہ
مصیبت میں صبر اور نعمت میں شکر کرے۔
4.
یہ یقین انسان کو حسد،
تکبر، مایوسی، اور بے صبری سے بچاتا ہے۔
5.
یہی ایمان بالقدر
(تقدیر پر ایمان) کا عملی مفہوم ہے۔
یہ آیت انسان کو
زندگی کے ہر مرحلے میں ایمان، صبر، شکر اور رضا بالقضا کا درس دیتی ہے۔
جو شخص یقین رکھتا ہے کہ “جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اللہ کے علم و ارادے سے ہے”،
وہ کبھی شکستہ دل نہیں ہوتا بلکہ پُر سکون اور مطمئن رہتا ہے۔
3.
سورۃ الفرقان (آیت 2):
وَخَلَقَ
كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا.
ترجمہ: اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا، پھر اس
کے لیے ایک اندازہ مقرر کر دیا۔
اس آیت میں
اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ اور علمِ ازلی کا بیان فرما رہا ہے۔
یعنی:
·
اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا — چاہے وہ جاندار
ہو یا بےجان، زمین ہو یا آسمان، كل كائنات اسي كي تخليق كرده هے۔
·
اور پھر ہر مخلوق کے لیے ایک خاص نظام، مقدار، وقت،
اور تقدیر مقرر کر دی — کوئی چیز بلا مقصد یا اتفاق سے وجود میں نہیں آئی۔ هر چيزكا اس
نے ٹھيك ٹھيك اندازه لگايا هے اور اس كے لئے ٹھيك نظام بنايا هے۔
یعنی اللہ نے
ہر مخلوق کی صورت، خاصیت،
عمر، رزق، عمل اور انجام سب طے کر دیے ہیں۔یہی تقدیر ( Divine
Measurement and Destiny )ہے۔
اللہ تعالیٰ نہ صرف خالق ہے بلکہ نظام و تقدیر کا مُقرر کرنے والا
بھی ہے۔ ہر چیز اُس کے علم، ارادے اور حکمت کے مطابق ہے — کچھ بھی بے حساب یا
حادثاتی نہیں۔
یہ آیات واضح کرتی
ہیں کہ کائنات میں کوئی چیز بے مقصد، بے وقت، یا بے ترتیب نہیں۔ ہر چیز اللہ کے
علم، ارادے اور تقدیر کے تابع ہے۔
تقدیر کے متعلق احادیث
1.
حدیثِ جبرائیل (صحیح
مسلم):
نبی ﷺ نے ایمان کے ارکان بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"اَنْ
تُؤْمِنَ بِاللّٰهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ وَتُؤْمِنَ
بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ.”
ترجمہ: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے
فرشتوں پر، کتابوں پر، رسولوں پر، آخرت کے دن پر، اور تقدیر پر ایمان لاؤ — اس کے
خیر و شر دونوں پہ۔
2.
حضرت عبداللہ بن
عباسؓ سے مروي ہے كه رسولِ اکرم ﷺ نے
ان كو نصیحت كرتے هوئے
فرمایا:
اعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ
يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ، لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ
لَكَ، وَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ، لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا
بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ. (ترمذی، حدیث: 2516)
“یاد رکھو! اگر ساری
امت (دنیا کے لوگ) جمع ہو جائیں تاکہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچائیں، تو وہ تمہیں
فائدہ نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ اور اگر وہ سب
مل جائیں تاکہ تمہیں نقصان پہنچائیں، تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی
جو اللہ نے تمہارے لیے مقدر کر دیا ہے۔”
اس حدیث میں
نبی ﷺ نے ہمیں تقدیر پر کامل
ایمان اور اللہ
پر بھروسہ کا سبق دیا ہے۔
مفہوم
یہ ہے کہ:
·
اگر ساری دنیا مل کر تمہیں
کوئی فائدہ
پہنچانا چاہے، تو وہ تبھی
فائدہ دے سکتی ہے جب اللہ نے وہ تمہارے لیے لکھ دیا ہو۔
·
اور اگر سب مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں، تو وہ
کچھ نہیں کر سکتے جب تک اللہ
نے وہ تمہارے لیے مقدر نہ کیا ہو۔
یہ حدیث ایمان
والے کے دل میں اللہ پر یقین،
توکل، صبر اور اطمینان پیدا کرتی ہے۔ اور يه بھي بتاتي هے كه انسان کو سمجھنا چاہیے کہ نفع و نقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے،
کسی مخلوق کے ہاتھ میں نہیں۔ اس بات كا
هم بخوبي مشاهده كرتے هيں كه بهت سے معاملات ميں ساري دنيا كے لوگ مل كر وه كام
انجام دينا چاهتے هيں مگر نهيں هوتا، مثلا كسي ايك مريض كو بچانے كے لئے بهت سے
ڈاكٹر مل كر كوشش كرتے هيں باهر ملك سے ماهرين بھي بلائے جاتے هيں ، اعلي معيار كي
دوائياں باهر سے منگوائي جاتي هيں مگر تقدير الهي جب غالب آتي هے تو يه ساري محنتيں اور كاؤشيں رائيگاں جاتي هيں۔
یہ احادیث واضح کرتی
ہیں کہ ایمانِ کامل اسی وقت ممکن ہے جب بندہ یہ یقین رکھے کہ ہر خیر و شر اللہ
کی تقدیر سے ہے۔
تقدیر کے چار مراتب:
علماء نے تقدیر کے چار
بنیادی درجے بیان کیے ہیں:
1.
العلم (علم):
اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے، چاہے وہ ماضی ہو، حال ہو یا مستقبل۔كائنات
ميں موجود هر شے كا اس كو علم هے خواه وه جاندار هو يا بے جان هو ، ثابت هو يا
سياره هو۔ "وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ
شَيْءٍ عِلْمًا" (الطلاق: 12)
"اور بے شک اللہ نے ہر
چیز کو علم کے ساتھ گھیر رکھا ہے۔"
یعنی اللہ تعالیٰ کا
علم ہر چیز پر محیط ہے — کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں، نہ زمین میں اور نہ
آسمان میں۔
2.
الکتابہ (نوشتہ):
اللہ نے ہر چیز کو "لوحِ محفوظ" میں لکھ دیا۔ "وَكُلُّ
شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ" (یس: 12)
ترجمہ:
“اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح امام (کتابِ روشن) میں شمار
کر رکھا ہے۔”
اس آیت میں اللہ
تعالیٰ اپنی علم و قدرت کی وسعت بیان فرما رہا ہے۔ یعنی:
- اللہ کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں،
- ہر چیز — انسان کے اعمال، دنیا کے واقعات، زمین و
آسمان کے نظام — سب کچھ گن کر، درج کر کے، محفوظ کر
دیا گیا ہے۔
یہاں
“إِمَامٍ مُّبِينٍ” سے مراد ہے لوحِ
محفوظ — یعنی وہ ازلی کتاب جس
میں اللہ نے پیدائشِ کائنات سے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کا تفصیلی
اندراج کر رکھا ہے۔
- اس آیت سے ایمان والوں کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ اللہ
ہر چیز کو جانتا ہے اور اس کا حساب رکھتا ہے۔
- کوئی عمل چھوٹا ہو یا بڑا، ظاہر ہو یا پوشیدہ — سب اللہ کے علم میں ہے اور لکھا جا
چکا ہے۔
یہ آیت اللہ کے
کامل علم، عدل اور تقدیر کی دلیل ہے۔
ہر چیز ایک منظم الٰہی نظام کے تحت ہے — کچھ بھی اتفاق یا بے حساب نہیں۔
3.
المشیئہ (ارادہ و
مشیت):
جو کچھ ہوتا ہے، وہ اللہ کی مشیت کے بغیر نہیں ہوتا۔ "وَمَا تَشَاؤُونَ
إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ" (الانسان: 30 ، سورۃ التکویر: 29)
ترجمہ: “اور تم (کسی چیز کا) ارادہ نہیں کر سکتے، مگر یہ کہ اللہ
ہی چاہے (تو تم چاہ سکو)۔”
یہ آیت تقدیر اور
انسان کی مشیّت (ارادے) کے درمیان تعلق کو واضح کرتی ہے۔ یعنی انسان کے پاس ارادہ
اور اختیار تو ہے، مگر وہ اللہ کی مشیّت (مرضی) کے تابع ہے۔ انسان اپنی
مرضی سے نیکی یا برائی کا راستہ چن سکتا ہے، مگر وہ اللہ کی اجازت اور توفیق
کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ یعنی اصل طاقت، اختیار اور ارادہ اللہ کے ہاتھ میں
ہے۔
اس آيت ميں بتايا گيا
هے كه:
1.
انسان کا اختیار
محدود ہے: بندہ چاہے تو بہت کچھ کر گزرے، لیکن اگر اللہ نہ چاہے تو
وہ کچھ نہیں کر سکتا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان خالق نہیں، بلکہ مخلوق ہے، جو اللہ کے
ارادے کے تابع ہے۔
2.
اللہ کی مشیّت غالب
ہے: بندے کی چاہت، دعا، کوشش — سب مؤثر تبھی ہوتی ہیں جب اللہ
چاہے۔
3.
توفیقِ الٰہی کا
عقیدہ: نیکی کرنے، ایمان
لانے، یا توبہ کی توفیق — سب اللہ کی چاہت سے ملتی ہے۔ لہٰذا مؤمن ہمیشہ اللہ
سے ہدایت اور توفیق مانگتا ہے۔
4.
اگر انسان کا ارادہ اللہ
کی مشیّت سے آزاد ہوتا، تو کائنات میں دو قدرتیں بن جاتیں، جو ممکن
نہیں۔
5.
اس لیے قرآن کا عقیدہ
یہ ہے کہ انسان کا ارادہ "تابع" ہے، آزاد نہیں۔
6.
وہ چاہتا ہے، مگر اللہ
کی چاہت کے دائرے میں۔
“وَمَا
تَشَاؤُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ” کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے ارادے اللہ
کے ارادے کے تابع ہیں۔ جو اللہ چاہے، وہی ہوتا ہے — یہی ایمان بالقدر کا
حقیقی مطلب ہے۔
4.
الخلق (پیدائش):
اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے، حتیٰ کہ اعمال کا بھی۔ "اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ
شَيْءٍ" (الزمر: 62)
ترجمہ: "اللہ ہی ہر چیز کا
خالق ہے۔"
یہ آیت عقیدۂ
تقدیر (ایمان بالقدر) کی بنیادی اور نہایت واضح دلیلوں میں سے ایک ہے۔
اللہ تعالیٰ اس آیت میں اعلان فرما رہے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز — چاہے وہ
مادی ہو یا معنوی، جاندار ہو یا بے جان، خیر ہو یا شر — سب اللہ تعالیٰ کی پیدا
کردہ ہے۔ یعنی اللہ کے علم، ارادے اور قدرت کے بغیر کوئی شے وجود میں نہیں آ سکتی۔
1.
ہر چیز اللہ کی تخلیق
ہے:
چونکہ اللہ "خالق کل شیء" ہے، اس لیے انسان کے اعمال، اس کے
افعال، اس کی حرکات و سکنات، خوشی و غم، نفع و نقصان — سب اللہ کے علم اور مشیت کے
تحت ہیں۔
یعنی جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے، وہ اللہ کی تقدیر سے ہوتا ہے۔
2.
انسان کا اختیار
تقدیر کے اندر ہے:
اگرچہ انسان کے اعمال بھی اللہ کی تخلیق ہیں، مگر انسان کو اختیار دیا
گیا ہے کہ وہ اچھا یا برا راستہ چنے۔ اللہ نے انسان کو ارادہ و اختیار دیا،
مگر وہ اختیار بھی اللہ کے علم اور قدرت کے دائرے سے باہر نہیں۔ جیسا کہ
قرآن میں فرمایا: وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ
اللَّهُ. (التکویر: 29) "اور تم کچھ نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو
اللہ چاہے۔"
3.
اللہ کے علم میں ہر
چیز پہلے سے لکھی ہوئی ہے:
"اللّٰه خالق كل شيء" سے یہ حقیقت نکلتی ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے،
وہ اللہ کے اذن اور ازلی علم کے مطابق ہوتا ہے۔
اس میں کوئی حادثہ یا اتفاق نہیں۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
عَنْ
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ
اللَّهِ ﷺ
يَقُولُ: "كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ
السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ" (صحیح مسلم، حدیث: 2653)
"اللہ نے تمام مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال
پہلے لکھ دی تھیں، اس وقت آپ كا عرش پاني پر تھا۔"
یہ حدیث ایمان
بالقدر (تقدیر پر ایمان) کی نہایت اہم اور واضح دلیل ہے۔
"كتب الله مقادير
الخلائق" یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام
مخلوقات کی تقدیریں، اُن کی زندگی، عمل، رزق، خوشی، غم، ہدایت یا گمراہی — سب کچھ
اپنے علمِ کامل کے مطابق لوحِ محفوظ میں لکھ دیا۔
اور یہ سب کچھ آسمان
و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے طے کر دیا گیا تھا۔
اس کا مطلب ہے کہ اللہ کا علم ازلی اور کامل ہے —
کوئی چیز اللہ کے علم اور فیصلے سے باہر نہیں۔
تقدیر سے حاصل ہونے والا عقیدہ:
1.
سب کچھ پہلے سے اللہ
کے علم و ارادے میں ہے۔
کائنات کا ہر واقعہ، ہر عمل، ہر سانس — سب اللہ کی تقدیر کے مطابق ہے۔
2.
اللہ کا علم کسی چیز
سے متاثر نہیں ہوتا۔
وہ پہلے سے جانتا ہے کہ کون کیا کرے گا، کہاں جائے گا، کس حال میں مرے گا۔
یہ علم کسی جبر کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی کامل قدرت اور علم کی
علامت ہے۔
3.
مومن کے لیے تسلی:
اس عقیدہ سے مومن کے دل میں اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ
جو کچھ ہوتا ہے، وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے، اس لیے وہ مصیبت میں صبر
اور نعمت میں شکر کرتا ہے۔
جیسا کہ قرآن میں فرمایا: إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ
بِقَدَرٍ (القمر: 49)
"بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے۔"
عقلی و ایمانی پہلو:
- اگر اللہ ہر چیز كا خالق ہے تو انسان کی طاقت، ارادہ،
اور اس کے اعمال کا وجود بھی اسی کی طرف سے ہے۔
- لیکن چونکہ اللہ نے انسان کو ارادہ و تمییز عطا
کی ہے، اس لیے انسان اپنے انتخاب پر جواب دہ ہے۔
- یہ توازن ہی اسلامی عقیدۂ تقدیر کی بنیاد ہے:
یعنی سب کچھ اللہ کے علم و ارادے سے ہے، مگر انسان اپنے اختیار کے مطابق جواب دہ ہے۔
انسان کا اختیار اور تقدیر:
اسلام میں انسان مجبورِ
محض نہیں، بلکہ مختارِ جزوی ہے۔ يعني الله تعالى نے انسان كو اگرچه كلي
اختيار نهيں ديا مگر بعض امور ميں اس كو اختيار بھي دے ركھا هے، اور الله اگر
انسان كو كسي جرم پر سزا ديتا هے توه وه اس كے اختياري عمل پر هي ديتا هے ا س لئے
كه اس نے وه عمل بد اپنے اختيار سے كيا هے كسي جبر كے تحت نهيں كيا۔ قرآن کہتا ہے:
"فَمَن
شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ" (الکہف: 29)
پس جو چاهے وه ايمان لے آئے اور جو چاهے كفر اختيار كرے۔
یعنی انسان کے پاس
اختیار ہے کہ وہ ایمان لائے یا انکار کرے، اس كو نه ايمان لانے پر مجبور كيا جاتا
هے اور نه هي كفر كرنے پر، جو كچھ بھي كرتا هے وه اپني مرضي اور اختيار سے كرتا هے۔
اسي اختيار كے استعمال كے مطابق اس كے ساتھ سلوك كيا جائے گا جس طرح قرآن كريم ميں
هے:
"لَهَا
مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ" (البقرہ: 286)
ترجمه:
جو نیکی وہ کرے گی، اس کا فائدہ اسی کو ہوگا، اور جو برائی کرے گی، اس کا وبال بھی
اسی پر ہوگا۔"
يعني ہر شخص کو اس کے
اعمال کا بدلہ اس كے اچھے اور برے هونے كے حساب ے دیا جائے گا۔ اس آیت کا مفہوم یہ
ہے کہ:
"انسان کو اس کے کیے ہوئے نیک عمل کا فائدہ ملے گا، اور اس کے برے عمل کا
وبال اسی پر ہوگا۔" یعنی ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ نیکی
کرے گا تو ثواب پائے گا، اور گناہ کرے گا تو اس کا نقصان خود بھگتے گا۔کوئی دوسرا
شخص کسی کے گناہ یا نیکی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
تقدیر کے حوالے سے آيت كريمه كا مطلب
و مفهوم:
یہ آیت اس بات کی
وضاحت کرتی ہے کہ اگرچہ ہر چیز اللہ کی تقدیر سے ہے، مگر
انسان اپنے اختیار اور ارادے سے عمل کرتا ہے، اور اسی اختیار پر اس سے حساب
لیا جائے گا۔ یعنی:
- تقدیر انسان کو مجبور نہیں کرتی،
- بلکہ اللہ نے اسے چننے کی آزادی دی ہے — نیکی
یا بدی کا راستہ۔
اس لیے جو راستہ انسان خود اختیار کرے، اس کا اجر یا عذاب اسی کے مطابق ہو گا۔
- نیکی کا بدلہ خود انسان کو ملے گا۔
- برائی کا نقصان بھی وہی اٹھائے گا۔
- تقدیر انسان کو مجبور نہیں بناتی بلکہ امتحان کا
حصہ ہے۔
- اس آیت سے انسان کے اختیار اور ذمہ داری دونوں
واضح ہو جاتے ہیں۔
یعنی اللہ نے انسان
کو ارادہ، نیت اور کوشش کی آزادی دی ہے، مگر نتیجہ اس کی مشیت کے تابع رکھا
ہے۔ یہی توازن تقدیر و اختیار کا حسن ہے۔
عقلی و فلسفیانہ دلائل
1.
اللہ کے علمِ کامل کا
تقاضا:
اگر اللہ کو کسی چیز کا علم نہ ہو تو وہ کامل نہیں۔ چونکہ اللہ کامل علم
رکھتا ہے، اس لیے ہر چیز اس کے علم میں ہے — یہی تقدیر ہے۔
2.
سبب و مسبب کا نظام:
تقدیر کا مطلب یہ نہیں کہ اسباب بے کار ہیں۔ اگر تقدیر میں لکھا ہے کہ کوئی
بھوکا مرے گا تو وہ کھانا نہیں کھائے گا۔ لیکن اگر کھانا کھانا بھی تقدیر میں ہے
تو اسباب کا استعمال بھی تقدیر کا حصہ ہے۔ يعني اسباب كا استعمال اور ان كا ترك
بھي تقدير ميں نوشته هوں گے۔
3.
انسانی تجربہ:
انسان خود محسوس کرتا ہے کہ وہ نیکی یا بدی کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ احساسِ
اختیار بذاتِ خود اس کے جزوی ارادے کی دلیل ہے۔ مثلا الله تعالى كسي كو بھي گناه
كرنے كا حكم نهيں ديتا بلكه گناه كرنے سے روكتا هے مگر انسان خود اپنے اختيار اور
ارادے سے گناه كا ارتكاب كرتا هے، اگر وه گناه كو چھوڑنا چاهے تو وه چھوڑ سكتا هے۔
4.
عدلِ الٰہی کا تقاضا:
اگر انسان بالکل مجبور ہو تو جزا و سزا بے معنی ہو جائے۔ چنانچہ عدلِ الٰہی
کا تقاضا ہے کہ انسان کو اتنا اختیار دیا جائے جس پر حساب لیا جا سکے۔
5.
غير اختياري امور ميں
سزا نهيں دي جاتي: غير
اختياري امورميں انسان مجبور هوتا هے وه ان ميں اپنا اختيار و اراده استعمال نهيں
كرتا اس لئے عقل كا تقاضا بھي يه هے كه اس كو سزا نه دي جائے چنانچه هم ديكھتے هيں
كه اسلامي تعليمات ميں يه بات عياں هے كه انسان اگر كسي كام ميں مجبور هو جائے تو
اس كو الله تعالى سزا نهيں ديتا بلكه معاف كر ديتا هے مثلا رمضان ميں بھول كر كچھ
كھا پي لے تو اس كا روزه خراب نهيں هوتا۔
تقدیر پر ایمان کے فوائد
1.
اطمینانِ قلب:
بندہ جانتا ہے کہ جو ہوا، وہ اللہ کے حکم سے ہوا، اس لیے وہ غم و غصے سے
بچتا ہے۔
2.
غرور سے حفاظت:
اگر کوئی کامیاب ہو تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ صرف میری محنت کا نتیجہ ہے،
بلکہ اللہ کے فضل سے ہے۔
3.
صبر و رضا کی کیفیت:
مصیبت میں انسان صبر کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ تقدیر کا حصہ ہے۔
4.
عمل کی تحریک:
تقدیر کا درست فہم انسان کو سستی نہیں بلکہ عمل پر آمادہ کرتا ہے، کیونکہ
نبی ﷺ نے فرمایا:
“اعملوا
فكلّ ميسّر لما خلق له” (بخاری)
ترجمہ: عمل کرو، ہر شخص کو اسی کام کے لیے
آسانی دی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا۔
خلاصہ كلام:
اسلام کا نظریۂ
تقدیر انسان کو دو انتہاؤں سے بچاتا ہے:
- ایک طرف جبریہ جو انسان کو مجبور سمجھتے ہیں۔
- دوسری طرف قدریہ جو اللہ کی مشیت کا انکار
کرتے ہیں۔
اسلام درمیانی راہ
اختیار کرتا ہے — انسان مختار بھی ہے اور مقدور بھی۔
اللہ کی تقدیر انسان کے اختیار کے دائرے کو محدود نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے
ایک نظامِ عدل و امتحان قائم کرتی ہے۔
نتیجہ
ایمان بالقدر دراصل ایمان
باللہ کی تکمیل ہے۔
یہ عقیدہ انسان کو عاجزی، صبر، شکر اور رضائے الٰہی کی راہ دکھاتا ہے۔
تقدیر پر ایمان رکھنے والا بندہ کبھی غرور نہیں کرتا اور نہ ہی ناامیدی میں
ڈوبتا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے، وہ اللہ کے علم، ارادے اور حکمت کے
مطابق ہوتا ہے —
اور یہی یقین اسے حقیقی ایمان، سکون اور توکل کی منزل پر پہنچاتا ہے۔