تين گروه (متقين، كفار اور منافقين) صفات و علامات

1

 

تين گروه (متقين، كفار اور منافقين) صفات و علامات

سورۃ البقرہ کے آغاز  ميں مذكوره تین گروہوں کا  مختصر تذکرہ

سورۃ البقرہ قرآنِ مجید کی سب سے بڑی سورت ہے، جو ایمان، عمل، شریعت اور معاشرت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ قرآن مجید کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تین بنیادی اقسام یا گروہوں کا ذکر فرمایا، جو درحقیقت پوری انسانیت کی فکری و عملی تقسیم کو واضح کرتے ہیں۔ یہ تین گروہ  حسب ذيل ہیں:

1.       مؤمنین (اہلِ ایمان)

2.     کافرین (منکرینِ حق)

3.    منافقین (دو رخ رکھنے والے)

اللہ تعالیٰ نے ان تینوں گروہوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے کہ وہ کس زمرے میں آتا ہے، اور ہدایت کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ انسان كو اپني عملي زندگي ميں ان تينوں گروهوں ميں كس گروه ميں شامل هو كر ان كے اوصاف كو اپنے اندر پيدا كرنا چاهئے،

1 . پهلا گروه:  مؤمنین (اہلِ ایمان) — صفات و خصوصیات

آیات:

ﵟذَٰلِكَ ٱلۡكِتَٰبُ لَا رَيۡبَۛ فِيهِۛ هُدٗى لِّلۡمُتَّقِينَ 2 ٱلَّذِينَ يُؤۡمِنُونَ بِٱلۡغَيۡبِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقۡنَٰهُمۡ يُنفِقُونَ 3 وَٱلَّذِينَ يُؤۡمِنُونَ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبۡلِكَ وَبِٱلۡأٓخِرَةِ هُمۡ يُوقِنُونَ 4 أُوْلَٰٓئِكَ عَلَىٰ هُدٗى مِّن رَّبِّهِمۡۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ 5ﵞ (البقرہ: 2-5)

یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پر جو تم پر نازل کیا گیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا، اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں، اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔

تفسیر و وضاحت:

یہ پانچ آیات اہلِ ایمان کی خصوصیات بیان کرتی ہیں۔
قرآن ان کو ’’المتقین‘‘ کہتا ہے، یعنی وہ لوگ جو دل میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں اور گناہوں سے بچتے ہیں۔
ان کی بنیادی صفات درج ذیل ہیں:

1.       ایمان بالغیب:
وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں —ايسي چيزوں پر جو ان كي آنكھوں سےاوجھل هيں، ان كو ديكھ نهيں سكتے ، یعنی اللہ، فرشتے، قیامت، جنت، جہنم اور وحی وغیرہ پر۔
ابنِ کثیرؒ کے مطابق "الغیب" سے مراد وہ تمام حقائق ہیں جو انسانی عقل سے پوشیدہ ہیں مگر وحی سے معلوم ہوتے ہیں۔

2.     اقامتِ صلوٰۃ:

صرف نماز پڑھنا نہیں بلکہ باقاعدہ نظامِ صلوٰۃ قائم کرنا — یعنی نماز کو اہمیت دینا، پابندی سے ادا کرنا، اور اس کے ذریعے اللہ سے تعلق قائم رکھنا۔يعني نماز كو اس كے اركان و شرائط كو پورا كرتے هوئے خشوع و خضوع كے ساتھ وقت پر پابندي سے ادا كرنا۔

3.    انفاق فی سبیل اللہ:

وہ اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ صفت معاشرتی بھلائی اور روحانی اخلاص کی علامت ہے۔ بعض مفسرين كهتے هيں كه "رزقناهم" ميں هر وه شے شامل هے جو الله نے عطا كيا هے اس ميں علم، صحت، جواني ، مال و دولت اور اولاد وغيره سب شامل هيں۔ مطلب يه كه ان ميں سے جو بھي وه في سبيل الله استعمال ميں لاتے هيں وه انفاق في سبيل الله هے۔

4.    ایمان بالکتب:
وہ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں — قرآن اور پچھلی وحیوں پر۔ اس سے ان کی وسعتِ نظر اور تسلسلِ نبوت پر ایمان ظاہر ہوتا ہے۔

 "بما انزل اليك " ميں قرآن اور شريعت محمدي اور "ما انزل من قبلك" ميں ديگر تمام آسماني صحيفے اور كتب شامل هيں۔ يعني ايك مؤمن كے لئے ضروري هے جس طرح وه قرآن پر ايمان ركھتا هے اور اس كو برحق سمجھتا هے اسي طرح باقي منزل من الله كتابوں كو بھي برحق جانے، البته عمل صرف قرآن پر كيا جائے گا اس لئے كه اس سے ما قبل نازل هونے والي تمام كتابيں منسوخ هو گئي هيں۔

5.     یقین بالآخرة:
وہ آخرت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ يعني وه وقوع قيامت كے بارے ميں شك نهيں كرتے اور نه هي قيامت كے وه منكر هيں جس طرح بهت سے عرب قبائل قيام قيامت كے منكر تھے۔ یہی یقین ان کے اعمال کو سنوارتا اور کردار کو مضبوط کرتا ہے۔

یومِ آخرت (یعنی قیامت کا دن) وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ ان کے اعمال کا حساب لیا جائے، اور دنيا ميں انهوں نے جو كچھ كيا هے اس كے مطابق ان كو جزا يا سزا دي جائے۔

اس دن ہر شخص کے نیک و بد اعمال پیش کیے جائیں گے، اور ان كے اعمال كا جائزه ليا جائے گا بلكه ان كو تولا بھي جائے گا ، اور جس نے ایمان اور نیکی کے ساتھ زندگی گزاری ہوگی، اس كے نيك اعمال كا پلڑا بھاري هو گا، انعام كے طور پر  اسے جنت میں داخل کیا جائے گا، جبکہ کافروں اور گناہگاروں كے نيكي كا پلڑا هلكا اور گناه كا پلڑا بھاري هو گا  ان  کو جہنم میں سزا دی جائے گی۔

قرآنِ مجید میں قيامت كے دن كو "يوم الدين"  كها  گیا هےيعني بدلے كا دن ، اور الله تعالى كو اس دن كا مالك كها گيا هے جيسا كه ارشاد هے: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ" (سورۃ الفاتحہ: 4)  يعني بدلے کے دن کا مالک۔ مطلب يه هے كه اس دن الله تعالي سب كو ان كے اعمال كے مطابق پورا پورا بدله دے گا۔ يعني وہ دن جب ہر ایک کو اس کے عمل کا پورا بدلہ ملے گا۔
یومِ آخرت ایمان کا بنیادی رکن ہے، جو انسان کو جوابدہی، انصاف، اور نیکی پر قائم رہنے کی یاد دلاتا ہے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان کی کامیابی کی ضمانت دی هے جن كے اندر يه اوصاف موجود هوں اور انهي لوگوں كو هدايت يافته قرار ديا هے: "أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ"
یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی ہدایت پر ہیں اور  قيامت كے دن انهي  لوگوں كے لئے حقيقي کامیابی هے يهي لوگ فوز و فلاح سے همكنار هوں گے ۔

2   . دوسرا گروه:   کافرین (منکرینِ حق) — انکار و ضد

آیات:

ﵟإِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَأَنذَرۡتَهُمۡ أَمۡ لَمۡ تُنذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُونَ 6 خَتَمَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمۡ وَعَلَىٰ سَمۡعِهِمۡۖ وَعَلَىٰٓ أَبۡصَٰرِهِمۡ غِشَٰوَةٞۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيمٞ 7ﵞ(البقرہ: 6-7)

بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے لیے برابر ہے کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مُہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

تفسیر و وضاحت:

یہ دو آیات کافروں کی کیفیت بیان کرتی ہیں — وہ لوگ جنہوں نے جان بوجھ کر حق کو رد کیا۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا. یعنی: "بے شک جن لوگوں نے کفر کیا" —
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق واضح ہونے کے باوجود، ضد اور تکبر کی وجہ سے ایمان قبول نہیں کیا۔ ان کے دلوں میں ہدایت کی روشنی داخل نہیں ہوتی۔

  "سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ"

یعنی: "ان کے لیے برابر ہے کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں" —
اس سے مراد یہ ہے کہ رسول ﷺ کی دعوت، نصیحت اور انذار (عذاب سے ڈرانا) ان پر اثر نہیں کرتی، کیونکہ ان کے دلوں نے قبولِ حق کے دروازے بند کر دیے ہیں۔

یہ بات نبی ﷺ کی کوشش کی نفی نہیں بلکہ ان کافروں کے دل کی سختی کو ظاہر کرتی ہے۔

"لَا يُؤْمِنُونَ" یعنی: "وہ ایمان نہیں لائیں گے" —
یہ اللہ کا فیصلہ ہے ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے اپنی مرضی سے حق کو جھٹلایا اور ضد اختیار کی۔

"خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ" یعنی: "اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے" —
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ نہ نصیحت سنتے ہیں اور نہ ہی دل سے سمجھتے ہیں۔ ہدایت کے دروازے ان پر بند ہو چکے ہیں، گویا ان کے دل اور کان مُہر زدہ ہو گئے۔اور يه مهر اس لئے لگي هے كه انہوں نے ضد اور تکبر کی بنیاد پر ہدایت کو ٹھکرا دیا۔

"وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ" یعنی: "اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے" —
ان کی آنکھیں دیکھتی ہیں، مگر حقیقت کو نہیں پہچانتیں۔ یہ ظاہری آنکھ نہیں بلکہ بصیرت کی آنکھ ہے جو حق کو دیکھنے سے محروم ہو گئی ہے۔

"وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ" یعنی: "اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے" —
یہ عذاب دنیا میں بھی ہو سکتا ہے (دل کی بے قراری، حق سے نفرت، ظلمتِ باطن)، اور آخرت میں جہنم کی شکل میں ہمیشہ کے لیے ہوگا۔

خلاصۂ تفسیر:

یہ آیات اُن لوگوں کے بارے میں ہیں جو اپنی ہٹ دھرمی، تکبر، اور ضد کے باعث ایمان سے محروم ہو گئے۔ چونکہ انہوں نے خود اپنی مرضی سے ہدایت کے دروازے بند کیے، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ نتیجتاً اب وہ نہ سن سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں، اور آخرکار ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

3 .  تيسرا گروه:  منافقین (دو رُخی رکھنے والے) — باطن و ظاہر کا تضاد

آیات:

ﵟوَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَبِٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ وَمَا هُم بِمُؤۡمِنِينَ 8 يُخَٰدِعُونَ ٱللَّهَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَمَا يَخۡدَعُونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمۡ وَمَا يَشۡعُرُونَ 9 فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٞ فَزَادَهُمُ ٱللَّهُ مَرَضٗاۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمُۢ بِمَا كَانُواْ يَكۡذِبُونَ 10ﵞ(البقرہ: 8-10)

اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں: "ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے"، حالانکہ وہ (دل سے) ایمان نہیں رکھتے۔ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر دراصل وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے، تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا دی، اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر و وضاحت:

یہ آیات منافقین کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں۔
منافق وہ ہیں جو ظاہراً ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دل میں کفر اور دشمنی چھپائے رکھتے ہیں۔

منافقین کی نشانیاں:

1.       ظاہری ایمان، باطنی انکار:

"وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ"

یعنی: "اور لوگوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے" —
یہ وہ لوگ ہیں جو زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے تاکہ مسلمانوں میں شامل ہو جائیں، لیکن ان کے دل ایمان سے خالی تھے۔  يَقُولُ آمَنَّا" — زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، مگر حقیقت میں نہیں لائے۔

مدینہ منورہ میں نفاق عام ہوا، کیونکہ وہاں اسلامی حکومت قائم تھی، اور کچھ لوگ صرف اپنی جان و مال کے تحفظ یا فائدے کے لیے ایمان ظاہر کرتے تھے۔

"وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ" یعنی: "حالانکہ وہ ایمان والے نہیں" —
یہ جملہ ان کے جھوٹے دعوے کی تردید ہے۔ ان کے دل ایمان سے محروم ہیں، ان کا ظاہر کچھ اور ہے اور باطن کچھ اور۔

2.     خداع و دھوکہ:

يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا" یعنی: "وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں" —
منافق سمجھتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ایمان کا اظہار کر کے اور کفار سے تعلقات رکھ کر دونوں طرف سے فائدہ اٹھا لیں گے، لیکن درحقیقت وہ کسی کو نہیں بلکہ خود کو دھوکہ دے رہے تھے۔ الله تعالى ان كے در پرده كرنے والے تمام سرگرميوں سے آگاه هے اور الله تعالى نے منافقين كے كرتوتوں كے متعلق نبي كريم صلى الله عليه و آله وسلم كو بھي آگاه كيا هوا تھا اور آگاه كرتا رهتا تھا چنانچه ان كا يه خيال كرنا كه هم الله اور مؤمنوں كو دھوكه دے رهے هيں ايك خود فريبي كےسوا كچھ نهيں هے۔

"وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ" یعنی: "وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں" —
وہ دنیا میں اپنے نفاق سے فائدہ سمجھتے تھے، مگر آخرت میں یہ دھوکہ ان ہی کے خلاف ثابت ہوگا۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ نفاق دراصل روحانی خود فریبی ہے — انسان سمجھتا ہے کہ وہ ہوشیار ہے، مگر درحقیقت وہ اپنے ایمان، آخرت اور نجات کو خود برباد کر رہا ہوتا ہے۔
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا" — وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، مگر حقیقت میں خود اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔يعني يه لوگ خود فريبي ميں مبتلا هيں۔

3.    روحانی بیماری:
"
فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ" — یعنی: "ان کے دلوں میں بیماری ہے" —
یہ بیماری شک، کفر، حسد اور نفاق کی ہے۔ جیسے جسمانی بیماری انسان کے بدن کو کمزور کرتی ہے، ویسے ہی یہ روحانی بیماری انسان کے ایمان کو کھا جاتی ہے۔

  "فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا" یعنی: "تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا دی" —
چونکہ انہوں نے حق کو قبول نہیں کیا، اللہ نے ان کے دلوں کو مزید گمراہی، شک اور نفاق میں مبتلا کر دیا۔
یہ اللہ کی جزا ہے — جو حق سے منہ موڑتا ہے، اس کے دل سے ہدایت سلب کر لی جاتی ہے۔

مفسرین کے مطابق یہ "مرض" روحانی ہے، جس کی سزا یہ ہے کہ اللہ ان کے مرض کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ الله تعالى نے ان كي بيماري كو ا س طرح بڑھا ديا كه مسلمانوں كو الله تعالى نے كاميابياں اور كامرانياں عطا كيں اور اسلام كو روز بروز فروغ ملا تو چونكه اسلام اور مسلمانوں سے يه لوگ حسد اور نفاق كي بيمارياں تھي وه مسلمانوں كي ترقي ديكھ ان كے دل ميں مزيد گھٹن اور كينه پروري بڑھ جاتي يوں ان كي بيماري ميں اضافه هوتا جا۔

4.    دھوکہ دہی اور جھوٹ كا انجام:

"وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ" یعنی: "اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے" —
ان کا سب سے بڑا جھوٹ یہی تھا کہ وہ ایمان کا دعویٰ کرتے تھے مگر ایمان لائے نہیں تھے۔ آخرت میں ان کا انجام جہنم ہے، اور دنیا میں بھی ان کے دل ہمیشہ بے سکون رہتے ہیں۔

خلاصۂ تفسیر:

یہ آیات اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ نفاق (دوغلا پن) سب سے خطرناک بیماری ہے، کیونکہ منافق ظاہراً مسلمان ہوتا ہے مگر اندر سے دشمنِ دین۔ ایمان محض زبان کا اقرار نہیں بلکہ دل کی تصدیق اور عمل کی گواہی کا نام ہے۔ جو شخص ایمان کا جھوٹا دعویٰ کرے، وہ اپنے ہی ایمان کو زہر دیتا ہے۔

ان کا ایمان جھوٹ پر مبنی ہے، اس لیے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔

قرآن میں منافقین کے ذکر کے لیے تقریباً تیرہ آیات (آیت 8 تا 20) مخصوص ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ نفاق کا خطرہ کفر سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ کافر کھلا دشمن ہوتا ہے مگر منافق چھپا ہوا دشمن۔

مزيد نشانياں درج ذيل آيات ميں بيان كئے گئے هيں:

5.     فساد في الارض

ﵟوَإِذَا قِيلَ لَهُمۡ لَا تُفۡسِدُواْ فِي ٱلۡأَرۡضِ قَالُوٓاْ إِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُونَ 11 أَلَآ إِنَّهُمۡ هُمُ ٱلۡمُفۡسِدُونَ وَلَٰكِن لَّا يَشۡعُرُونَ 12ﵞ (سورۃ البقرہ: 11-12)

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ "زمین میں فساد مت پھیلاؤ"، تو وہ کہتے ہیں: "ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں ۔ خبردار! بے شک وہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں، لیکن وہ شعور نہیں رکھتے۔"

آیت کی وضاحت:

یہ آیت بھی منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ بظاہر مسلمانوں میں شامل تھے، مگر درحقیقت ان کے اعمال اور باتیں معاشرے میں فساد پیدا کرنے والی تھیں۔

"وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ" یعنی: "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ" —
فساد سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو ایمان، عدل، امن، اور معاشرتی سکون کو بگاڑ دیں۔

منافقین مدینہ میں یہ فساد مختلف طریقوں سے پھیلاتے تھے:

·         مسلمانوں میں شک و شبہ پیدا کرنا،

·         جھوٹ، غیبت اور منافقت سے دلوں میں نفرت ڈالنا،

·         کفار سے دوستی کر کے مسلمانوں کے راز ظاہر کرنا،

·         اور اسلامی اتحاد کو کمزور کرنا۔

ایمان دار صحابہ جب انہیں سمجھاتے کہ یہ کام فساد ہے، تو وہ ضد اور دھوکے سے جواب دیتے:

"قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ" یعنی: "وہ کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں" —
یہ جملہ منافقین کی خود فریبی کو ظاہر کرتا ہے۔  غلطي پر هونے كے باوجود خود فريبي ميں مبتلا تھے اور اپنے آپ كو مصلح قرار ديتے تھے اور وہ اپنے آپ کو نیک، سمجھدار، اور مصلح ظاہر کرتے تھے، حالانکہ ان کے باطن میں فساد، فریب، اور دوغلاپن تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف امن اور صلح چاہتے ہیں، مگر حقیقت میں ان کی باتوں اور چالوں سے ایمان و اخوت کی بنیاد ہل رہی تھی۔

تفسیر کے نکات:

1.       فساد اور اصلاح میں فرق:

o        فساد وہ عمل ہے جو حق سے ہٹاتا اور باطل کی تائید کرتا ہے۔

o        اصلاح وہ عمل ہے جو حق کو غالب کرتا اور عدل قائم کرتا ہے۔
منافقین اپنے باطل نظریے کو “اصلاح” کا نام دیتے تھے — یہی ان کی گمراہی تھی۔

2.     نفاق کی علامت:
یہ آیت اس بات کی علامت ہے کہ منافق ہمیشہ اپنے برے اعمال کے لیے “اچھے الفاظ” استعمال کرتا ہے۔
وہ اپنے فساد کو “حکمت” اور اپنے جھوٹ کو “سیاست” کہتا ہے۔

3.    قرآن کا پیغام:
اللہ تعالیٰ ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ نفاق اور دوغلاپن سب سے بڑا معاشرتی زہر ہے۔
سچے مومن کے قول و عمل میں تضاد نہیں ہوتا۔

خلاصہ:

یہ آیت بتاتی ہے کہ منافقین اپنے فریب اور بگاڑ کو “اصلاح” کا نام دیتے ہیں۔
اصل میں وہ خود زمین کے سب سے بڑے مفسد ہیں، کیونکہ ان کا مقصد ایمان کو کمزور کرنا اور اسلامی معاشرے کو اندر سے توڑنا ہے۔

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ.   (سورۃ البقرہ، آیت 12)

خبردار! بے شک وہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں، لیکن وہ شعور نہیں رکھتے۔

یہ آیت پچھلی آیت (11) کی تکمیل اور تردید ہے۔
جب منافقین اپنے فساد کو "اصلاح" کہہ کر جھٹلاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کے دعوے کی کھلی تردید فرما دی۔

"أَلَا" یہ کلمہ تنبیہ کے لیے آتا ہے، یعنی: "خبردار! دھیان دو!"
اس سے قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ جو بات اب کہی جا رہی ہے، وہ نہایت اہم اور یقینی ہے۔ اس كو توجه سے سنو۔

"إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ" یعنی: "بے شک وہی لوگ فساد کرنے والے ہیں" —
یہ جملہ منافقین کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔
اللہ کے نزدیک اصل مفسد وہی ہیں جو ایمان کا دعویٰ کریں مگر دل میں کفر چھپائیں، کیونکہ:

·         وہ ایمان والوں میں شک و فتنہ پھیلاتے ہیں،

·         باطل کی تائید کرتے ہیں،

·         اور حق کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

ان کا یہ عمل ظاہری طور پر اصلاح لگتا ہے، مگر دراصل یہ سب سے بڑا روحانی و اخلاقی بگاڑ ہے۔

"وَلَـٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ" یعنی: "لیکن وہ شعور نہیں رکھتے" —

ان کا دل اتنا مردہ اور ان کی عقل اتنی اندھی ہو چکی ہے کہ انہیں اپنے جرم اور گمراہی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
یہ وہ حالت ہے جب انسان گناہ کو نیکی اور فساد کو اصلاح سمجھنے لگتا ہے — یہی نفاق کی سب سے خطرناک علامت ہے۔

تفسیر کے اہم نکات:

1.       اللہ تعالیٰ کی گواہی:
اللہ خود گواہ ہے کہ منافقین ہی حقیقی مفسد ہیں، چاہے وہ اپنی زبان سے کچھ بھی کہیں۔
ان کا “اصلاح” کا دعویٰ دراصل خود فریبی ہے۔

2.     فساد کی اقسام:

o        عقیدے کا فساد: ایمان کے دعوے کے باوجود دل میں کفر رکھنا۔

o        اخلاقی فساد: جھوٹ، فریب، ریاکاری۔

o        سماجی فساد: مسلمانوں کے درمیان بدگمانی اور تفرقہ ڈالنا۔

3.    اصلاح کا جھوٹا تصور:
منافق ہمیشہ یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ خیرخواہ ہے، حالانکہ وہ دلوں میں زہر گھول رہا ہوتا ہے۔
قرآن نے ان کے اس جھوٹے “اصلاحی چہرے” کو بے نقاب کر دیا۔

خلاصۂ تفسیر:

یہ آیت اعلان کرتی ہے کہ منافقین ہی اصل مفسد ہیں، چاہے وہ اپنے آپ کو مصلح کہیں۔
ان کی ساری ظاہری نرمی، چالاکی اور گفت و شنید کا مقصد فساد ہے — مگر وہ خود اس فریب میں مبتلا ہیں کہ وہ بھلائی کر رہے ہیں۔

  اگلی آیات (13–15) کی  وضاحت

آیاتِ کریمہ:

ﵟ وَإِذَا قِيلَ لَهُمۡ ءَامِنُواْ كَمَآ ءَامَنَ ٱلنَّاسُ قَالُوٓاْ أَنُؤۡمِنُ كَمَآ ءَامَنَ ٱلسُّفَهَآءُۗ أَلَآ إِنَّهُمۡ هُمُ ٱلسُّفَهَآءُ وَلَٰكِن لَّا يَعۡلَمُونَ 13 وَإِذَا لَقُواْ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قَالُوٓاْ ءَامَنَّا وَإِذَا خَلَوۡاْ إِلَىٰ شَيَٰطِينِهِمۡ قَالُوٓاْ إِنَّا مَعَكُمۡ إِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُونَ 14 ٱللَّهُ يَسۡتَهۡزِئُ بِهِمۡ وَيَمُدُّهُمۡ فِي طُغۡيَٰنِهِمۡ يَعۡمَهُونَ 15ﵞ (سورۃ البقرہ: 13–15)

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے دوسرے لوگ ایمان لائے، تو وہ کہتے ہیں: "کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟" خبردار! بے شک وہی بیوقوف ہیں، لیکن وہ جانتے نہیں۔   اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: "ہم ایمان لے آئے"، اور جب اپنے شیطانوں (یعنی اپنے سرداروں اور بدکار ساتھیوں) کے پاس تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: "ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مذاق کر رہے تھے۔  اللہ ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی میں چھوڑ دیتا ہے کہ وہ بھٹکتے پھریں۔

آیات کی وضاحت:

یہ آیات منافقین کی ایک اور نمایاں صفت بیان کرتی ہیںدو رخی، تمسخر، اور خود فریبی۔
یہ لوگ ظاہراً ایمان کا اظہار کرتے تھے مگر دل سے اسلام کا مذاق اڑاتے اور ایمان والوں کو نادان سمجھتے تھے۔

6.        مؤمنوں كو بيوقوف سمجھنا اور خود فريبي ميں مبتلا هونا

"وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ" یعنی: جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے  لوگ يعني صحابہ کرامؓ ایمان لائے۔ یہ لوگ (منافقین) ظاہری ایمان پر اکتفا کرتے اور دل سے ایمان کی گہرائی اختیار نہیں کرتے تھے۔

"النَّاس" سے مراد یہاں سچے ایمان والے صحابہؓ ہیں جنہوں نے اخلاص اور یقین سے ایمان قبول کیا۔ اس آيت كريمه ميں صحابه كرام كے ايمان كوالله كے هاں قبوليت ايمان كا "معيار" قرار ديا گيا هے ۔

"قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ" یعنی: "کیا ہم ان بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟" يعني وه مؤمنوں كو سفهاء اور احمق خيال كرتے تھے۔یہ منافقین کی تکبر اور تحقیر کی علامت ہے۔
وہ ایمان والوں کو سادہ لوح اور کم فہم سمجھتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک دنیاوی مفاد عقل مندی تھی اور دین داری “بیوقوفی”۔

"أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـٰكِن لَا يَعْلَمُونَ" یعنی: "خبردار! بے شک وہی بیوقوف ہیں، لیکن وہ جانتے نہیں۔"
اللہ تعالیٰ نے ان کے باطل گمان کا الٹ فیصلہ سنایا اصل بیوقوف وہ نہیں جو اللہ پر ایمان لائیں، بلکہ وہ ہیں جو حق کو چھوڑ کر دنیا کے دھوکے میں مبتلا ہیں۔

حقیقت میں عقل مند وہ ہے جو آخرت کے نفع کو دنیا کے نقصان پر ترجیح دے۔جو شخص ابدي شے پر عارضي چيز كو ترجيح دے وه عقلمند اور هوشمند نهيں هو سكتا۔  منافقين اسي دنياوي منفعت كے لئے تگ و دو كرتے تھے اور آخرت كو چھوڑ ديتے تھے اور اسي عارضي مال و متاع پر نازاں و فرحاں تھے اور اسي كے حصول كے لئے كي جانے والي مساعي كو اپني عقلمندي قرار ديتے تھے۔

7.    دو رخي / دوغلا پن

"وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا" یعنی: "جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے۔"
یہ ان کی دوغلی سیاست کو ظاہر کرتا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے نرمی اور ایمان کا اظہار کرتے تاکہ ان کا اعتماد حاصل کریں۔

"وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُونَ" یعنی: "اور جب وہ اپنے شیطانوں کے پاس تنہا ہوتے ہیں" —

یعنی اپنے کافر سرداروں، یہودی حلیفوں، یا باطل کے رہنماؤں کے پاس، تو وہ کہتے: “ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے تھے۔ یہ جملہ منافقین کی دلی دشمنی اور تمسخر کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ آیت منافقین (دو رُخے لوگوں) کے کردار کو واضح کر رہی ہے جو ظاہر میں ایمان کا اظہار کرتے تھے مگر باطن میں کفر اور دشمنی رکھتے تھے۔  اس آيت ميں كفار اور يهوديوں كے سرداروں كو شيطان سے تعبير كيا هے۔

(1)  اهل ايمان سے ملاقات کے وقت:

جب منافق مسلمان جماعت میں آتے، تو ایمان والوں سے کہتے: "آمَنَّا" — ہم ایمان لائے!   تاکہ مسلمانوں کا اعتماد حاصل کریں، ان کے درمیان عزت اور مقام پائیں، اور اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔  یہ محض ایک ظاہری اور زبانی ایمان تھا، دل اس سے خالی تھا۔

(2) اپنے شیطانوں کے پاس واپس جانے پر:

جب وہ اپنے سرداروں، مشرکین یا ان جیسے فاسق دوستوں کے پاس جاتے تو کہتے: "إِنَّا مَعَكُمْ" — ہم تمہارے ہی ساتھ ہیں۔
یعنی ہم نے درحقیقت اسلام قبول نہیں کیا، بلکہ محض مسلمانوں کا مذاق اُڑانے اور انہیں دھوکہ دینے کے لیے ان کے ساتھ بنے ہوئے ہیں۔

  "إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُونَ": هم تو بس مذاق كرنے والے هيں۔

یعنی ہم ان (مسلمانوں) کے ساتھ ایمان کا جو اظہار کرتے ہیں، وہ دل سے نہیں ہوتا بلکہ ان کا تمسخر اور استہزاء کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
یہ ان کی دوغلی فطرت اور نفاق کا اعلیٰ نمونہ ہے — وہ نہ کفر کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ایمان کو سچائی سے اپنا سکتے ہیں۔

نکاتِ تفسیر:

1.    "شَيَاطِينِهِمْ" سے مراد صرف جنات نہیں بلکہ ان کے برے سردار اور گمراہ دوست بھی ہیں جو ان کو برائی پر اکساتے ہیں۔

 شياطين شيطان كي جمع هے۔ لفظ "شیطان" قرآن و سنت میں نہایت اہم اصطلاح ہے، جو صرف ایک مخلوق کے نام تک محدود نہیں بلکہ ایک وصف (صفت) کے طور پر بھی آتی ہے۔ آئیے اسے لغوی (زبان کے لحاظ سے) اور اصطلاحی (شرعی مفہوم کے لحاظ سے)   سے سمجھتے ہیں:

لفظ "شیطان" کی لغوی (زبان کے اعتبار سے) وضاحت:

اصل مادّہ: لفظ "شیطان" عربی مادّہ    شَطَنَ / يَشْطُنُ    سے نکلا ہے۔

یہ مادہ دو بنیادی معانی رکھتا ہے:

1.       بُعد (دُوری) یعنی بہت دور ہونا۔
جس چیز میں خیر اور نیکی سے دُوری ہو، اسے "شیطان" کہا جاتا ہے۔ (ابن فارس، مقاييس اللغة)

2.     شرارت اور سرکشی یعنی سرکش اور متمرّد ہونا۔ (راغب اصفهانی، المفردات في غريب القرآن)

لہٰذا لغت میں شیطان اس مخلوق یا شخص کو کہتے ہیں جو: "اللہ کی اطاعت سے دُور، حق سے منحرف، اور نافرمانی و فساد میں سرکش ہو۔"

اصطلاحی (شرعی) مفہوم:

قرآنی اور شرعی اصطلاح میں "شیطان": شیطان ہر اُس مخلوق کو کہا جاتا ہے جو: "انسان کو گمراہ کرنے، برائی پر اُکسانے، اور نیکی سے روکنے کا کام کرے۔"

یہ مفہوم صرف جنّوں تک محدود نہیں بلکہ انسانوں پر بھی منطبق ہوتا ہے۔

قرآنِ کریم میں "شیطان" کے دو بنیادی اطلاقات:

1. شیطان (جنّات میں سے): یہ وہ مخلوق ہے جو حضرت آدمؑ کے سامنے سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے مردود قرار دی گئی۔
2. شیطان (انسانوں میں سے):قرآن میں بعض انسانوں کو بھی شیطان کہا گیا ہے، کیونکہ وہ دوسروں کو گمراہ کرنے میں شیطان جیسے کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ" (سورۃ الأنعام، آیت 112)
"
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنّوں کے شیطان دشمن بنائے، جو ایک دوسرے کو فریب دینے کے لیے وسوسے ڈالتے ہیں۔"

یعنی شیطان صرف ایک مافوق الفطرت مخلوق نہیں، بلکہ ہر وہ انسان یا جنّ شیطان کہلاتا ہے جو حق سے روکے اور باطل کی طرف بلائے۔

2.     منافقین کا یہ رویہ اسلامی معاشرے میں اندرونی فساد کا سبب بنتا ہے، اس لیے قرآن انہیں سخت الفاظ میں بے نقاب کرتا ہے۔

3.       یہ آیت مسلمانوں کو متنبہ کرتی ہے کہ ایمان صرف زبان سے نہیں بلکہ دل کے یقین اور عمل سے ثابت ہوتا ہے۔

نتیجہ:

یہ آیت ہمیں منافقت کی خطرناکی سے خبردار کرتی ہے۔
ایمان خلوص، سچائی، اور اللہ کے سامنے تسلیم و رضا کا نام ہے، نہ کہ دکھاوے اور دوغلے پن کا۔
جو شخص ایمان کا دعویٰ کرے مگر دل میں اس کا انکار چھپائے، وہ اللہ کے نزدیک منافق ہے، اور اس کا انجام قرآن کے مطابق نہایت سخت ہوگا۔

"اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ" یعنی: "اللہ ان سے مذاق کرتا ہے" —

یعنی اللہ ان کے اس تمسخر کے بدلے میں انہیں دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا۔ دنیا میں وہ عزت سمجھ کر ذلت پائیں گے، اور آخرت میں ان کا دھوکہ انہی کے خلاف پلٹ جائے گا۔

"وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ" یعنی: "اور اللہ انہیں ان کی سرکشی میں چھوڑ دیتا ہے کہ وہ بھٹکتے پھریں" —
یعنی اللہ ان کے دلوں کی گمراہی بڑھاتا ہے تاکہ وہ مزید اندھیرے میں گم رہیں۔
یہ ان کے جھوٹے اطمینان کی سزا ہے
باہر سے وہ مطمئن دکھتے ہیں، مگر اندر سے ان کا دل مردہ اور بے نور ہوتا ہے۔

تفسیر کے اہم نکات:

1.       منافق کی فطرت:
وہ ہمیشہ دو چہروں والا ہوتا ہے
ایمان والوں کے ساتھ ایمان کی بات کرتا ہے، اور کافروں کے ساتھ کفر کی حمایت۔

2.     عقل کا معیار:
قرآن کے نزدیک “عقل” یہ نہیں کہ دنیاوی فائدہ حاصل کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ آخرت کے انجام کو سمجھا جائے۔

3.    اللہ کا استہزاء:
اس سے مراد جزا کے طور پر رسوائی ہے۔
اللہ ان کے فریب کا بدلہ فریب کی صورت میں دیتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ کامیاب ہیں، حالانکہ وہ ہلاکت کے گڑھے میں گر رہے ہیں۔

خلاصۂ تفسیر:

یہ آیات منافقین کی ذہنیت، کردار اور انجام کو واضح کرتی ہیں:

·         وہ ایمان والوں کو بیوقوف کہتے ہیں۔

·         وہ دوغلا پن اختیار کرتے ہیں۔

·         وہ دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔

·         اور بالآخر اللہ کے عذاب اور استہزاء کے مستحق بنتے ہیں۔

ان کا اصل جرم نفاق، فریب، اور ایمان کی توہین ہے۔

  تینوں گروہوں کا تقابلی مطالعہ

منافقین

کافرین

مؤمنین

پہلو

ظاہر ایمان، باطن کفر

مکمل انکار

خالص ایمان اور یقین

ایمان کی حالت

ریا، جھوٹ، دھوکہ

ضد، انکار، گناہ

نیک اعمال، انفاق، عبادت

عمل

بیمار

مہر شدہ

ہدایت یافتہ

دل کی کیفیت

عذاب الیم

عذاب عظیم

فلاح و کامیابی

آخری انجام

خلاصہ و نصیحت

سورۃ البقرہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کو تین دائروں میں تقسیم کر کے انسان کو اپنی حقیقت پہچاننے کی دعوت دی ہے۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ ایمان والوں میں شامل ہے یا نفاق و کفر کے دائرے میں بھٹک رہا ہے۔ ایمان صرف دعویٰ نہیں بلکہ عمل، یقین، اور اخلاص کا تقاضا کرتا ہے۔

قرآن کہتا ہے:
"
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ" (البقرہ: 257)
اللہ ایمان والوں کا دوست ہے، جو انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔

مآخذ و مراجع

1.       تفسیر ابن کثیر، سورۃ البقرہ، آیات 1–20

2.     تفسیر طبری، جامع البیان، جلد 1

3.    تفسیر قرطبی، الجامع لأحکام القرآن

4.    تفسیر مظہری، مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی

5.     فی ظلال القرآن، سید قطب شہیدؒ

6.     تفهيم القرآن ، مولانا سيد ابو الاعلي مودوديؒ

7.    تفسير احسن البيان ، مولانا صلاح الدين يوسف ؒ

8.    المفردات في غريب القرآن ، راغب اصفهاني

9.      مقاييس اللغة، ابن فارس

 

ایک تبصرہ شائع کریں

1تبصرے
  1. غامدی صاحب کے خیالات کا بھی اس میں شمولیت کرے کیونکہ بعض ایھتیسٹس کے جوابات اس نے بہترین طریقے سے دئیے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
ایک تبصرہ شائع کریں