سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی نفسیات
گزشتہ دو دہائیوں میں
سوشل میڈیا نے دنیا کو جس تیزی سے بدلا ہے، اس کی نظیر تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
آج کا نوجوان صبح سوشل میڈیا پر آنکھ کھولتا ہے اور رات اسی کی اسکرین پر بند ہوتی
ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) وغیرہ صرف تفریحی پلیٹ
فارم نہیں، بلکہ جدید معاشرت، شناخت، تعلقات، نظریات، حتیٰ کہ عقائد پر بھی اثر
انداز ہو رہے ہیں۔
یقیناً! سوشل میڈیا آج کے
دور کا ایک نہایت طاقتور ذریعہ بن چکا ہے جو انسانوں کی روزمرہ زندگی، روابط،
معلومات اور خیالات کے تبادلے کو بہت متاثر کر رہا ہے۔
اس مضمون میں ہم سوشل میڈیا کے نوجوانوں کی نفسیات،
رویے، اور ان كي شخصیت پر اس كے اثرات کا جائزه
ليں گےنيز اس سلسلے اسلام هميں كيا سكھاتا هے اس كو بھي اختصار كے ساتھ بيان كيا
جائے گا۔
سوشل ميڈيا كے
مثبت اور منفي پهلوؤں پر ايك نظر:
دورِ
جدید میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا
ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا
نے سماجی، تعلیمی، دینی، تجارتی اور فکری میدان میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔
فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹوئٹر، واٹس ایپ، ٹک ٹاک وغیرہ جیسے پلیٹ فارمز اب
ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
جہاں یہ ذرائع فوائد سے بھرپور
ہیں، وہیں ان کے نقصانات بھی کم نہیں۔ ذیل میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی پہلوؤں
پر اختصار كے ساتھ روشني ڈال جاتي ہے۔
سوشل میڈیا کے مثبت پہلو
1 . رابطے میں آسانی
اور قربت ميں اضافه:
زمانه قديم ميں خطوط نويسي كے
ذريعے رابطے كئے جاتے تھے، اور اس ميں كئي كئي مهينے لگتے تھے۔ يه خطوط ذاتي نوعيت
كے هوں يا تجارتي يا دفتري كافي وقت ليتے تھے اور معلومات كے تبادلے ميں بھي بهت
سے وقت دركار هوتے مگر اب سوشل میڈیا نے
فاصلے مٹا دیے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود افراد سے فوری رابطہ، ویڈیو
کال، میسج، اور گروپ چیٹ کے ذریعے رابطے کا وہ تصور ممکن ہوا ہے جو ماضی میں خواب
تھا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کسی
بھی کونے میں موجود افراد سے فوری رابطہ ممکن ہے۔ دوست، رشتہ دار اور احباب ایک
دوسرے کے حالات سے باخبر رہ سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا جهاں ايك دوسرے سے قربت بڑھا نے ميں ممد و معاون هو
سکتا ہے وهاں ایک دوسرے کی خبر گیری،
اصلاح، اور خیر خواہی کا ذریعہ بن سكتا هے۔
2 . علم و شعور کی ترویج و ترقي :
علمی و
تحقيقي لیکچرز، دینی بیانات، اسلامی
کورسز، زبانوں کی تعلیم، اور تعلیمی ویڈیوز نے ہر شخص کو علم تک آسان رسائی دی ہے۔
دنیا کے بڑے ادارے آن لائن کورسز کی سہولت سوشل میڈیا پر فراہم کر رہے ہیں۔ جس كي
وجه سے فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر وغیرہ جیسے پلیٹ فارمز پر علمی، دینی، تعلیمی اور
تربیتی مواد بہت آسانی سے دستیاب ہے۔ طلبہ، اساتذہ، اور عام افراد اس سے استفادہ
کر سکتے ہیں، اور كر رهے هيں۔ آن لائن تدريس بھي سوشل ميڈيا كي بدولت ممكن هوئي هے۔
3 .
دعوتِ
دین اور اصلاحِ معاشرہ کا ذریعہ
سوشل
میڈیا نے دعوتِ دین کو ایک عالمی جہت دی ہے۔ علما کرام، مفتیانِ عظام، اور تبلیغی
حلقے دین اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں عام کر رہے ہیں۔ اصلاحی پیغامات، احادیث،
تفسیرِ قرآن اور سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں تربیت ہو رہی ہے۔
علما، مبلغین اور دینی ادارے سوشل
میڈیا کے ذریعے دین اسلام کی دعوت، درسِ قرآن و حدیث، فتویٰ اور دینی رہنمائی کے
پیغامات عام لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔
4 .
تجارتی، مالی و پیشہ ورانہ ترقی كے مواقع
کاروبار کرنے والوں
کے لیے سوشل میڈیا ایک مؤثر مارکیٹنگ ٹول ہے۔ چھوٹے کاروبار بھی آن لائن مارکیٹنگ
کے ذریعے بہت ترقی کر رہے ہیں۔ اس لئے هم كهه سكتے هيں كه کاروبار، برانڈز، فری لانسنگ، اور ڈیجیٹل
مارکیٹنگ جیسے میدانوں میں سوشل میڈیا نے روزگار کے وسیع مواقع پیدا کیے ہیں،
خصوصاً نوجوان نسل کے لیے۔
5 . سماجی بیداری
اور رائے عامہ کی تشکیل
سوشل میڈیا نے عام
لوگوں کو بھی اپنی رائے ظاہر کرنے کا پلیٹ فارم دیا ہے، جو کسی زمانے میں صرف
میڈیا اداروں کو حاصل تھا۔گويا ان كي اجاره داري تھي وه ملك اور معاشرے ميں اپني
مرضي كے بيانيے كو ترويج ديتے تھے اور جن لوگوں كي پهنچ ميڈيا تك نهيں هوتي تھي ان
كي آواز دب جاتي تھي مگر اب سوشل میڈیا پر
لوگ معاشرتی مسائل، مظالم، انسانی حقوق، ماحولیاتی مسائل اور اصلاحی تحریکوں کے
لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ بعض مظلوم اقوام کی آواز بھی دنیا تک سوشل میڈیا کے ذریعے
پہنچی ہے۔
سوشل میڈیا کے منفی پہلو
جهاں سوشل ميڈيا كے مثبت پهلو هيں وهيں اس كے چند منفي پهلو بھي هيں جن كے
بارے ميں بھي آگاهي نهايت ضروري هے تاكه منفي امور سے بچا جا سكے
1 .
وقت کا ضیاع اور غیر productive مصروفیات
سوشل میڈیا کا بے جا
استعمال وقت کی بربادی کا باعث بنتا ہے، خاص طور پر نوجوان طبقہ اس میں گھنٹوں
ضائع کر دیتا ہے۔بے ہنگم اسکرولنگ، بلا مقصد ویڈیوز، اور بے فائدہ گفتگو
نوجوانوں کی زندگی، تعلیم اور مستقبل کو ضائع کر رہی ہے۔ اسلامي تعليمات كے
مطابق انسان كے لئے بهتر اور فائدے كي بات
يه هے كه وه اپنا وقت برباد نه كرے بلكه اس كو كسي مفيد كام كے لئے استعمال ميں
لايا جائے، انسانوں كي اسي غفلت اور صحت و فراغت كي بے قدري كے متعلق رسول الله صلى
الله عليه و آله وسلم نے فرمايا تھا:
" نِعْمَتَانِ
مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ، وَالْفَرَاغُ ." (صحيح
البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ حديث نمبر:6412)
”دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی
قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔“
نبی کریم ﷺ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بے شمار نعمتیں عطا
کی ہیں، ان میں سے دو بہت اہم نعمتیں ایسی ہیں کہ زیادہ تر لوگ ان کی صحیح قدر
نہیں کرتے اور ان سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی کرتے ہیں:
1.
صحت:
جب انسان تندرست ہوتا ہے، بیماری سے محفوظ ہوتا ہے، جسمانی قوت رکھتا ہے، تو
اس وقت وہ بہت سے اعمال صالحہ انجام دے سکتا ہے۔ مگر اکثر لوگ اس موقعے کو ضائع کر
دیتے ہیں، حتیٰ کہ جب بیماری آتی ہے تو انہیں اپنی سابقہ صحت کی قدر سمجھ آتی ہے۔
2.
فراغت:
جب انسان کے پاس فرصت کا وقت ہوتا ہے، ذمہ داریوں کا بوجھ کم ہوتا ہے، تو وہ
اللہ کی عبادت، علم حاصل کرنے، نیکی کے کام کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ لیکن
اکثر لوگ اس فرصت کو فضولیات میں ضائع کر دیتے ہیں اور جب مشغولیات بڑھ جاتی ہیں
یا موت کا سامنا ہوتا ہے تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ وقت کی ناقدری کر بیٹھے۔
"غبن" کا مطلب
عربی میں دھوکہ کھا کر سستی قیمت پر اپنی قیمتی چیز بیچ دینا ہے۔ یہاں نبی ﷺ نے
"مغبون" کا لفظ استعمال کر کے اشارہ فرمایا کہ لوگ اپنی صحت اور فراغت
جیسی عظیم نعمتوں کو گویا سستے داموں ضائع کر دیتے ہیں، یعنی ان کا درست استعمال
نہیں کرتے اور عظیم نقصان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ايك اور حديث ميں اپنے وقت
اور فراغت كو غنيمت جان كر ان كو كام لانے كي تاكيد كرتے هوئے فرمايا:
اغتنم خمسًا قبل
خمسٍ: شبابك قبل هرمك، وصحتك قبل سقمك، وغناك قبل فقرك، وفراغك قبل شغلك، وحياتك
قبل موتك.(مسند احمد، حدیث: 12391)
"پانچ چیزوں کو پانچ
سے پہلے غنیمت جانو: جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو
محتاجی سے پہلے، فرصت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے۔"
2 .
اخلاقی
انحطاط اور فحاشی کا فروغ:
سوشل ميڈيا پر هر طرح
كے مواد پائے جاتے هيں بعض اوقات غیر اخلاقی مواد، لغویات، فحش تصاویر اور ویڈیوز،
گالم گلوچ، اور جھوٹے پروپیگنڈے کی بھرمار سوشل میڈیا كے صارف کے لئے نقصان دہ بنا
دیتی ہے۔
بے
حیائی، فحش ویڈیوز، گندے لطیفے، اور غیر اخلاقی حرکات و تصاویر کی تشہیر سوشل
میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کے اخلاق کو برباد کر رہی ہے، يه ايك بهت هي خطرناك
پهلو هے ، اس سے اسلامي اقدار كو نقصان پهنچتا هے خصوصا ايك مسلم معاشرے ميں اس
قسم كے مواد سے اجتناب نهايت ضروري هے۔
قرآن کریم ميں الله تعالى نے بے حيائي اور فحش چيزيں پھيلانے
والے كے لئے عذاب اليم كي وعيد سنائي هے۔
"إِنَّ الَّذِينَ
يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ
أَلِيمٌ..."(النور:
19)
"جو لوگ چاہتے
ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیل جائے، ان کے لیے دردناک عذاب ہے..."
3 . جھوٹ،
افواہیں اور کردار کشی:
سوشل ميڈيا ايك منفي
پهلو يه هے كه سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور افواہوں کا پھیلاؤ بہت تیزی سے ہوتا ہے،
جو معاشرتی بگاڑ اور غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے۔ معاشرے ميں بلا تحقيق پھيلنے والے
ان فیک
نیوز، جھوٹی ویڈیوز، ادھوری معلومات، اور الزام تراشی نے معاشرتی فتنوں کو بڑھا
دیا ہے، جس كي وجه سے معاشرے ميں بهت سے بگاڑ پيدا هو رهے هيں اور بعض دفعه تو
فساد خون ريزي اور آبرو ريزي كي حد تك پهنچ جاتا هے۔ علاوه ازيں اکثر لوگ بغیر
تحقیق پوسٹ شیئر کرتے ہیں۔جبكه اسلامي شريعت كا حكم يه هے كه كوئي خبر بلا تحقيق
آگے شيئر نه كي جائے۔
يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا
قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ۔(سورۃ الحجرات:
6)
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر
لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا بیٹھو، پھر اپنے کیے
پر پچھتاتے رہو۔"
اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو حکم دے رہے ہیں کہ جب کوئی فاسق (گناہگار، سچائی
میں غیر معتبر) شخص کوئی خبر لے کر آئے تو فوراً اس پر عمل نہ کریں، بلکہ پہلے
تحقیق اور تصدیق کرلیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر بغیر تحقیق کے کسی قوم یا فرد پر کوئی
کاروائی کردی جائے اور وہ خبر جھوٹی نکلے، تو بعد میں ندامت اور پشیمانی اٹھانی
پڑے گی۔
رسول كريم صلى الله عليه و آله و سلم نے افواهيں اور سني
سنائي باتيں آگے پھيلانے سے منع كرتے هوئے ايسے شخص كو جھوٹا قرار ديا هے جو بلا
تحقيق سني سنائي باتيں آگے پھيلاتے اور شيئر كرتے هيں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ
بِكُلِّ مَا سَمِعَ. (صحيح مسلم المقدمه باب النهي عن الحديث بكل ما سمع حديث نمبر 5)
سیدنا ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ آدمی
کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات(بغیر تحقیق کے) بیان کر دے۔”
4 . نفسیاتی دباؤ اور احساسِ کمتری:
سوشل میڈیا پر كچھ
لوگ اپني مصنوعي زندگي كے خوشحال مناظر دكھاتے هيں، اپنے كھانے، پينے، رهنے اور
سهنے كے طور طريقے بھي دكھاتے هيں ، يه مناظر حقيقي نهيں هوتے مگر حقيقي بنا كر
دكھايا جاتا هے اور فخريه اظهار كياجاتا هے، ميڈيا پر دکھائی جانے والی ان غیر حقیقی زندگیوں کو دیکھ کر لوگ احساسِ کمتری،
ڈپریشن اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ميڈيا پر دوسروں کی دکھاوے والی
"پرفیکٹ لائف" کو دیکھ کر لوگ اپنی زندگی کو ناکام سمجھنے لگتے ہیں، جو
ذہنی دباؤ، اضطراب، اور حتیٰ کہ خودکشی جیسے رویوں کا سبب بن رہا ہے۔يه عمل معاشرے
كے لئے نا سور بن جاتے هيں اور لوگ ان كي مصنوعي زندگي كو حقيقي زندگي سمجھ كر يا
ان كے حصول كے لئے جرائم كا ارتكاب كرتے هيں يا اپني زندگي سے مايوس هو كر خود كشي
وغيره كا ارتكاب كر تے هيں ۔
جبكه ايسے حالات ميں اسلام كا حكم يه هے
كه انسان اپنے سے اوپر والے لوگوں كے معيار يا اسٹنڈرڈ كو ديكھنے كے بجائے اپنے سے
كم آمدني والے لوگوں كے معيارزندگي كو ديكھے تاكه وه احساس كمتري ميں مبتلا نه هو۔
"إِذَا نَظَرَ
أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ وَالْخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ
إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلُ مِنْهُ مِمَّنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ."(صحيح
البخاري، حديث نمبر: 6490، وصحيح مسلم، حديث نمبر: 2963)
اگر تم میں سے کوئی
شخص ایسے شخص کو دیکھے جسے مال و دولت یا جسمانی خوبصورتی میں اپنے سے بہتر حالت
میں پایے، تو اُسے چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو دیکھے جو ان چیزوں میں اُس سے کم تر
ہوں۔"
رسول اللہ ﷺ یہاں اس
حديث كے ذريعے ایک نفسیاتی اور روحانی تربیت فرما رہے ہیں کہ انسان کے دل میں حسد،
کینہ، اور ناشکری پیدا نہ ہو۔ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ دوسروں کو اپنے سے بہتر
حالت میں دیکھتا ہے — خواہ مال میں ہو یا جسمانی صحت و صورت میں — تو دل میں حرص،
جلن، اور کبھی کبھی مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ یہ حدیث اسی فطری کمزوری کا علاج سکھاتی
ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک
اور موقع پر فرمایا:
"انظروا إلى من هو أسفل منكم، ولا تنظروا إلى من هو فوقكم،
فإنه أجدر أن لا تزدروا نعمة الله عليكم."(صحيح
مسلم، كتاب الزهد و الرقاق باب الدنيا سجن المؤمن و جنة الكافر،حديث نمبر: 2963)
"ایسے لوگوں کو دیکھو
جو تم سے کمتر ہیں اور ان کو نہ دیکھو جو تم سے بڑھ کر ہیں، کیونکہ یہ تمہیں اللہ
کی نعمت کو کمتر سمجھنے سے روکے گا۔"
آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی
کہ جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جسے مال و دولت یا خوبصورتی و جسمانی صلاحیت میں
تم پر فوقیت حاصل ہو تو اپنے سے نیچے والوں پر نظر کرو۔ ایسے لوگوں کو دیکھو جو:
- مالی طور پر اس سے زیادہ محتاج ہیں،
- جسمانی لحاظ سے معذور یا کمزور ہیں،
- صورت یا صحت میں
اس سے كمتر ہیں۔
یہ نظر انسان کو:
- اللہ کی نعمتوں پر شکر گزار بناتی ہے،
- قناعت پیدا کرتی ہے،
- انسان كے اندر احساس كمتري پيدا هونے سے بچاتي هے،
- حسد اور مقابلے کے غلط جذبات سے بچاتی ہے،
- اور دل کی پاکیزگی میں اضافہ کرتی ہے۔
5 . دین سے
دوری یا گمراہی کا ذریعہ:
سوشل ميڈيا جهاں ديني
تبليغ كا ذريعه هے وهيں يه بعض دفعه گمراهي كا سبب بھي بن جاتا هے اس لئے كه بعض
اوقات سوشل میڈیا پر بعض یوٹیوبرز،
انسٹاگرام انفلوئنسرز یا جعلی "مفتیانِ سوشل میڈیا" غير مستند ديني مواد، گمراه كن نظريات، غلط دینی
تعبیرات، الحاد، گستاخی، اور مسلکی نفرت کو فروغ دے كر لوگوں كو دين سے دور كر كے غلط سمت لے جا رہے
ہیں، جو عوام الناس کو دین سے گمراہ کر سکتے ہیں۔
الغرض سوشل میڈیا ایک
تیز رفتار اور مؤثر ذریعہ ہے جو اگر مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو فرد اور
معاشرے دونوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے، اور اگر اس کا غلط استعمال ہو تو یہ
تباہ کن بھی بن سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کا استعمال توازن، شعور اور دینی و
اخلاقی اصولوں کے مطابق کریں۔
سوشل ميڈيا اور
نفسيات
اب يهاں بعض نفسياتي
مسائل كي نشاندهي كي جاتي هے سوشل ميڈيا
كي وجه سے همار ي نوجوان نسل كو ان كا سامنا هے۔
1 . شخصیت کا بحران اور خودی کا زوال
سوشل ميڈيا پر بعض
دفعه كچھ لوگوں كي پر تعيش اور چكا چوند
زندگي دكھائي جاتي هے ، اور ان كو بڑے كامياب زندگي بنا كر پيش كي جاتي هے تو نوجوان
جب سوشل میڈیا پر دوسروں کی "کامیاب زندگی" دیکھتا ہے—خوبصورت چہرے،
مہنگی گاڑیاں، لگژری لائف اسٹائل—تو اس کا لاشعور خود سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اسے
لگتا ہے کہ وہ ناکام، کم تر اور بے وقعت ہے۔
یہ ایک نفسیاتی کیفیت
ہے جسے "Self-Discrepancy Theory" کہتے ہیں۔ انسان جب
اپنے "حقیقی نفس" اور "آئیڈیل نفس" میں بہت فرق دیکھتا ہے تو
احساسِ کمتری اور ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اسلام انسان کو خود
شناسی اور اللہ پر یقین کا سبق دیتا ہےاور الله تعالى نے اس كے اندر جو
خوبيان اور صلاحيتيں وديعت كر ركھيں هيں ان كو بروئے كار لانے اور ان سے استفاده
كرنے كا حكم ديا هے:
"وَفِي
أَنفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ"(الذاریات: 21)
"اور تمہارے اپنے نفسوں میں بھی (ہماری نشانیاں ہیں)، کیا تم غور نہیں کرتے؟"
اسلامي تعليمات كے
مطابق "احساسِ کمتری" (Inferiority Complex)
ميں مبتلا هونے كے بجائے انسان كو اپنے
اندر موجود خوبيوں كو تلاش كر كے ان كے مطابق عمل اقدام كرنا چاهئے۔ اسلام ہر
انسان کو اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں اور خوبیوں کو پہچاننے، خود کو کمتر سمجھنے کے
بجائے اللہ پر توکل کرنے اور مثبت سوچ اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔
اللہ نے ہر انسان کو
منفرد اور قابلِ عزت بنایا ہے ، قرآن پاک میں ارشاد ہے:
"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ" (سورۃ الاسراء: 70)
"اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے۔"
يعني كه ہر انسان اللہ کی نظر میں قابلِ احترام ہے، چاہے
اس کی ظاہری حیثیت کچھ بھی ہو۔ دوسروں سے حسد یا احساسِ کمتری سے ميں مبتلا
هونے كے بجائے اپني صلاحيتوں پر بھروسه كرتے هوئے اپنے لئے نئي راهيں تلاش كرني
چاهئے، قرآن میں فرمایا گیا:
"وَلا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ
عَلَى بَعْضٍ" (سورۃ النساء:
32)
"اور تم اس چیز کی تمنا نہ کرو جس میں اللہ
نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔"
- ہر انسان کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہیں، دوسروں
سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا چاہیے۔
احساسِ کمتری سے نجات کے لیے اللہ پر بھروسه
ركھيں اور اسي سے مدد مانگنی چاہیے۔ قرآن میں ہے:
"وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ" (سورۃ الطلاق: 3)
"اور
جو اللہ پر بھروسہ رکھے گا، اللہ اس کے لیے کافی ہے۔"
احساسِ کمتری ایک منفی جذبہ ہے جو انسان کو
کمزور کرتا ہے۔ اسلام
ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں، اللہ پر بھروسہ کریں اور دوسروں
سے اپنا تقابل اور موازنه کرنے کے بجائے
اپنی بہتری پر توجہ دیں۔ اللہ نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا
ہے، لہٰذا اپنی خوبیوں کو اجاگر کریں اور منفی سوچ سے بچیں۔
2 . سوشل میڈیا اور دماغی
لت (Addiction)اور لغويات ميں گرفتاري
سوشل ميڈيا كے استعمال كو لوگوں كے لئے پركشش بنانے اور اس كے استعمال ميں تسلسل
كو برقرار ركھنے كے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ
انسان کے دماغ میں ڈوپامین کا اخراج کریں۔ ہر نیا "لائک" یا
"کمنٹ" خوشی کا احساس دلاتا ہے، جو جلد ہی نشے میں بدل جاتا ہے۔
نوجوان ایک "اسکرولنگ
لوپ" میں پھنس جاتے ہیں—ایک ویڈیو ختم، دوسری شروع۔ اس کا نتیجہ؟ وقت کا
ضیاع، دماغی تھکن، توجہ کی کمی، نیند کا بگاڑ۔مثلا ایک طالبعلم جو پہلے کلاس کے بعد مطالعہ کرتا
تھا، اب کلاس کے بعد 3 گھنٹے رِیلز دیکھتا ہے۔ امتحان قریب آئے تو ذہن بکھرا ہوا،
توجہ بٹی ہوئی۔ اس طرح كي لغويات ميں پھنس كر انسان اپنا وقت اور پيسه سب برباد
كرتا هے جبكه اسلامي تعليمات كے مطابق انسان كو فضول اور لا يعني يعني غير ضروري
امور سے دور رهنا چاهئے ، قرآن كريم ميں
مؤمنين كے اوصاف ميں سے ايك صفت يه
بيان كي گئي هے كه
"وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ"(المؤمنون: 3)
"اور وہ جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔"
"لغو" کا
مطلب ہے ہر وہ بات یا عمل جو فضول، بے مقصد، بے فائدہ یا لاحاصل ہو۔ ایسا کلام یا
کام جو نہ دینی فائدہ دے اور نہ دنیوی، بلکہ صرف وقت ضائع کرے یا انسان کو بیکار
مشغلے میں لگائے، اسے لغو کہتے ہیں۔
نبی ﷺ نےلغو اور فضول
باتوں كوچھوڑ دينے كو ايك آدمي كے اسلام كي خوبي قرار ديتے هوئے فرمایا:
من حسن إسلام
المرء تركه ما لا يعنيه .(ترمذي
ابواب الزهد باب حديث نمبر 2317)
"آدمی کے اسلام کی
خوبصورتی یہ ہے کہ وہ فضول ( لا يعني) باتوں کو چھوڑ دے۔
"ما لا يعنيه"
یعنی وہ چیزیں جو انسان کے لیے نہ دینی لحاظ سے فائدہ مند ہیں، نہ دنیوی لحاظ سے
کارآمد ہیں۔ ایسی باتوں میں پڑنا وقت کا ضیاع، دل کی سختی اور فتنہ کا ذریعہ بن
سکتا ہے۔
3 . تعلقات میں کھوکھلا
پن:
سوشل ميڈيا پر جو
تعلق اور رشته بنتا هے وه گهرا نهيں هوتا اور نه هي اس ميں خلوص هوتا هے، هم يه
كهه سكتے هيں كه يه ايك كھوكھلا رشته اور
تعلق هوتا هے جو خلوص اور محبت كي چاشني
سے عاري هوتا هے۔سوشل میڈیا پر لوگ "دوست" تو بناتے ہیں، مگر حقیقی
دوستی ناپید ہو جاتی ہے۔ جذباتی رشتے "لائک" اور "ریپلائی" تک
محدود ہو جاتے ہیں۔ نوجوان جذباتی سہارا نہیں پا پاتے، جس کی وجہ سے تنہائی،
اضطراب اور بےچینی بڑھتی ہے۔ سائیکالوجی میں اسے "Virtual Intimacy with
Emotional Isolation" کہتے ہیں—ظاہری رابطے
تو بڑھتے ہیں، لیکن اصل دل کا تعلق ختم ہو جاتا ہے۔
اسلام آپس كے تعلقات ميں
كھوكھلاپن كے بجائے گهرا ، مضبوط اور حقيقي تعلق كي بنياد فراهم كر تي هے اور اپنے
ماننے والوں كو رشتوں کو جوڑنے اور ایک دوسرے کا سہارا بننے کا درس دیتا ہے، پوري
دنيا كے مسلمانوں كو ايك هي لڑي ميں پرو كر ان كو نه صرف يه كه ايك دوسرے كا بھائي
بھائي بناتا هے بلكه ايك دوسرے كےدكھ درد ميں شرك كر تاكيد بھي كرتا هے:
"إِنَّمَا
الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ".(الحجرات:
10)
"مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔"
رسول الله صلى الله
عليه و آله وسلم نے مسلمانوں كے آپس كے تعلق كي مضبوطي اور تعاطف كو يوں بيان
فرمايا:
مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم، مثل
الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى
. (صحيح
مسلم كتاب البر و الصلة باب تراحم المؤمنين و تعاطفهم و تعاضدهم، حدث نمبر 2586)
"مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت،
ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات و تعاون کی مثال ایک جسم
کی طرح ہے، جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار
کے ذریعے سے (سب اعضاء کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر) اس کا ساتھ دیتا ہے۔"
مسلمان ايك دوسرے كے لئے سهارا اور ان
كے تعلقات كي گهرائي كے متعلق رسول الله صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمايا:
إِنَّ
الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا، وَشَبَّكَ
أَصَابِعَهُ.(صحيح
البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 481)
مومن، مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ
دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(مثال ديتے هوئے) ایک
ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا .
4 . خودنمائی، حسد اور
ریاکاری:
آج كے دور ميں لوگوں
كے اندر ايك نفسياتي مسئله يه پيدا هوا هے كه لوگ خود نمائي اور رياكاري كے شوقين
هو گئے هيں،يهي وجه هے كه هم سوشل ميڈيا پر ديكھتے هيں كه آج نوجوان ہر لمحہ پوسٹ
کرتا ہے—کیا کھایا، کہاں گیا، کیا پہنا—صرف دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے۔ یہاں نیت
دکھاوے کی ہوتی ہے، جسے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔
آج كے زمانے ميں لوگ نه صرف دنيا داري ميں دكھاوا كرتے هيں بلكه دين داري
ميں بھي دكھاوا كا عنصر زياده هوتا هے۔اسلام رياكاري اور نمود و نمائش كو بالكل
پسند نهيں كرتا بلكه اس سے منع كرتا هے اس لئے كه اس كي وجه سے بهت سے معاشرتي مسائل پيدا هوتے هيں اور جرائم
كو فروغ ملتا هے۔
آج كل هم ديكھتے هيں
كه مسلمان رياكاري كےاتنے عادي هو گئے هيں هر چيز ميں دكھاوا كرتے هيں حتیٰ کہ
عبادات میں بھی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں، جیسے عمرہ کرتے ہوئے سیلفی، طواف كعبه كے
وقت سيلفي، خيرات كرتے وقت فوٹو سيشن، تلاوت کرتے ہوئے لائیو اسٹریمنگ وغيره۔جبكه
شريعت ميں دكھاوا كرنے اور رياكاري كرنے والوں كے لئے بڑي وعيد سنائي گئي هے۔
"فَوَيْلٌ
لِّلْمُصَلِّينَ، الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ".(الماعون:
4-6)
"تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو ریاکاری کرتے ہیں۔"
5 . جنسی بے راہ روی اور
حیاء کا خاتمہ:
سوشل میڈیا پر بیہودہ
لباس، رقص، اور جنسی اشاروں سے بھرپور مواد کھلے عام موجود ہے۔ نوجوان لڑکے اور
لڑکیاں، جن کے جذبات ویسے ہی شدید ہوتے ہیں، ایسی چیزوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔جس
كا نتيجه يه هوتا هے كه وقت سے پہلے جسمانی تعلقات،
حیاء کا فقدان، ازدواجی زندگی میں بےاطمینانی سے معاشرتي مسائل جنم ليتے هيں۔
اسلام بے حيائي اور
جنسي بے راه روي كي بالكل بھي اجازت نهيں ديتا، ايك اسلامي معاشرے كي نماياں خوبي
يه هوني چاهئے كه وهاں حيا داري هو اس لئے كه رسول كريم صلى الله عليه و آله وسلم نے حيا داري كو ايمان كا حصه قرار
ديا هے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:
الْحَيَاءَ مِنَ
الْإِيمَانِ.(بخاری، كتاب الايمان باب الحياء من الايمان حديث نمبر24)
حیاء ایمان کا حصه ہے۔
اگر انسان كے دل ميں
حيا نه رهے تو وه بالكل بے شرم هو جاتا هے پھر نه وه دين ديكھتا هے نه ديني احكام
نه معاشرے كے اقدار كا خيال ركھتا هے اور نه هي اسلامي اقدار كو كچھ پروا هوتي هے
، ايسے شخص كے متعلق هي رسول كريم صلى الله عليه و آله وسلم نے فرمايا تھا كه
قَالَ النَّبِيُّ صلى
الله عليه وسلم: «إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ
النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى: إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ
مَا شِئْتَ.(صحيح بخاري كتاب الادب باب الحياء حديث نمبر6120)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیشک ان باتوں میں سے جو پہلی نبوتوں کی تعلیمات میں سے لوگوں نے حاصل
کیں، یہ بات بھی ہے کہ: جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو۔
اس حديث ميں نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ قول سابقہ
انبیاء کی تعلیمات کا بھی حصہ تھا۔ مطلب یہ کہ تمام
آسمانی شریعتوں میں حیا کی تعلیم بنیادی تھی اور حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا
گیا تھا۔ حیا
انسان کو برے افعال سے روکتی ہے، اور نیک کاموں کی طرف راغب کرتی ہے۔ جہاں حیا ختم
ہو جائے، وہاں انسان گناہوں، برائیوں اور بداعمالیوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔
"جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو"
کا مطلب:
- یہ جملہ ایک انکاری
اور تنبیہی
انداز میں فرمایا گیا ہے، یعنی اگر انسان میں حیا نہ رہی، تو پھر وہ جو چاہے کرتا پھرے
گا، کیونکہ حیا ہی اسے گناہوں سے روکتی ہے۔
- یہ اجازت دینے کے
انداز میں نہیں بلکہ مذمت کے انداز میں ہے۔ یعنی اگر تم حیا
کو چھوڑ دو گے تو پھر تم سے کسی برے فعل کے ارتکاب پر تعجب نہیں ہوگا۔
بلكه ايك حديث ميں
حياء داري اختيار كرنے كي تاكيد كرتے هوئے فرمايا جتنا هو سكے الله سے حيا كرو:
عن ابن مسعود قَالَ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صلى الله عليه وسلم استحيوا من الله حق الحياء قالوا يا رسول الله إنا
لنستحيي والحمد لله قال ليس ذلك ولكن من استحيى من الله حق الحياء فليحفظ الرأس
وما حوى والبطن وما وعى وليذكر الموت والبلى ومن أراد الآخرة ترك زينة الدنيا فمن
فعل ذلك فقد استحيى من الله حق الحياء.(حديث مجاعة بن الزبير ، ص:111-112، دار
البشائر الاسلاميه)
"حضرت عبد الله بن
مسعود سے روايت هے كه رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمايا:اللہ سے حیاء کرو
جیسا کہ اللہ سے حیاء کرنے کا حق ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! الحمدللہ!ہم تو اللہ سے حیاء
کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:یہ وہ حیاء نہیں (جو مقصود ہے)، بلکہ جو شخص اللہ سے حیاء
کرنا چاہے جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے، تو اسے چاہیے کہ:
- اپنے سر اور اس میں جو کچھ ہے (یعنی آنکھ، کان،
زبان، عقل وغیرہ) کی حفاظت کرے،
- اور اپنے پیٹ اور جو کچھ وہ اپنے اندر سمیٹے (یعنی
کھانے پینے اور شہوت کے امور) اس کی حفاظت کرے،
- موت اور (میت کے) گلنے سڑنے کو یاد رکھے،
- اور جو شخص آخرت کا ارادہ رکھے، وہ دنیا کی زینت کو
ترک کر دے۔
تو جس نے یہ سب کیا، وہی اللہ سے حیاء کرنے والا ہے جیسا کہ حیاء کا حق ہے۔"
ايك اور روايت ميں هے
كه جس معامله ميں فحش هو وه بے زيب اور بے هوده هوتا هے اور جس كام ميں حيا ء اور
شرم هو وه خوبصورت هوتا هے.
عَنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا شَانَهُ، وَلَا
كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلاَّ زَانَهُ»(المنصنف عبد الرزاق
باب الحياء و الفحش حديث نمبر 20145)
حضرت انس بن مالك سے
روايت هے كها كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: فحش گوئی (بیہودہ بات) جس چیز میں بھی ہو، اُسے بدصورت بنا دیتی ہے، اور
حیاء جس چیز میں بھی ہو، اُسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔
اسلامي تعليمات ميں هر اس كام سے منع گيا هے جو معاشرے ميں
بيهودگي پھيلانے كا سبب بنے مثلا مرد و زن كے اختلاط، بيهوده لباس پهننے ، رقص و
سرود كي محفليں سجانے اور بے حيائي اور
فحش كام كرنے جيسے امور تاكيدي طور پر ممنوع قرار ديا گيا هے بلكه ايسے
امور انجام دينے سے بھي منع كرتا هے جو بے حيائي اور فحش كاموں كي طرف لے جانے كا
سبب بنتےهيں يهي وجه هے كه الله تعالى نے مسلمان مردوں اور عورتوں دونوں كے لئے يه
حكم ديا هے كه وه اپني نظريں نيچي ركھيں۔
"قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ
يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِم ْو يحفظوا فروجهم"(النور:
30)
"مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپني شرمگاهوں كي حفاظت
كريں۔"
جهاں مردوں كے لئے
نظريں نيچي ركھنے كا حكم ديا هے وهاں عورتوں كے لئے بھي نظريں نيچي ركھنے كے ساتھ
پرده كرنے كا حكم ديا هے:
ﵟوَقُل
لِّلۡمُؤۡمِنَٰتِ يَغۡضُضۡنَ مِنۡ أَبۡصَٰرِهِنَّ وَيَحۡفَظۡنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا
يُبۡدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَاۖ وَلۡيَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِهِنَّ
عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّۖﵞ (النور:31)
اور ایمان والی عورتوں سے کہہ دو
کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت کو
ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو (خود بخود) ظاہر ہو جائے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں
پر ڈالے رکھیں۔
اصلاحی
لائحہ عمل اور عملی تجاویز:
اسلام ہمیں ٹیکنالوجی
كے استعمال سے منع نہیں کرتا بلکہ اس کا اعتدال کے ساتھ استعمال سکھاتا ہے۔
1. ڈیجیٹل ڈیٹاکس:
موبائل كا استعمال كم سے كم كيا جائے ، حتي الامكان اس سے دور رها جائے
اگر هو سكے تو ہفتے میں ایک دن موبائل سے
مکمل وقفہ كيا جائے۔
2. وقت کی منصوبہ بندی:
سوشل میڈیا كے استعمال کے لیے مخصوص اوقات مقرر كئے جائيں اور انهي اوقات
ميں اس كو استعمال كيا جائے ۔
3. مثبت کمیونٹیز:
سوشل ميڈيا پر موجود تمام
غير اخلاقي سائٹس كو اَن فالو كيا جائے، صرف تحقيقي،دینی، تعلیمی اور فکری پیجز کو
فالو کيا جائے ۔
4. شرم و حیاء داري: سوشل ميڈيا پر موجود بيهودگيوں كي نقل كرنے كے
بجائے اپنے ديني شعار كو اختيار كيا جائے اور لباس، الفاظ اور انداز میں اسلامی
وقار كو اپنايا جائے۔
5. ذکر و عبادت:
دل کو اصل سکون قرآن و دعا سے ہی ملتا ہے، لهذا خلوت اور جلوت ميں انسان
الله كي طرف رجوع كرے اور الله كو هميشه ياد ركھے۔
6.
دكھاوا كے بجائے
حقيقي تقوى اختيار كرے، اور اس كو يه يقين هو كه وه هميشه الله تعالى كي نظروں كے
سامنے هوتا هے، انسانوں سے تووه چھپ سكتا هے مگر الله سے اس كا كوئي عمل مخفي نهيں
رهتا، تو انسان ان تمام قسم كي بے هودگيوں
سے بچ سكتا هے
خلاصه كلام:
سوشل میڈیا ایک تیز
دھار چاقو کی مانند ہے—صحیح استعمال کریں تو فائدہ، غلط استعمال کریں تو تباہی۔
نوجوانی زندگی کا قیمتی دور ہے، اسے اسکرینوں کی قید میں نہ ضائع کریں۔ اسلام
وہ نظام دیتا ہے جو انسان کی روح، دل، دماغ اور معاشرہ سب کو متوازن رکھتا ہے۔
اگر ہم نوجوانوں کو اللہ سے جوڑ دیں، تو دنیا کا کوئی الگورتھم انہیں گمراہ نہیں
کر سکتا۔