آسمانی کتابوں کے مقاصد

0

 

آسمانی کتابوں کے مقاصد

مقدمہ

اللہ ربّ العالمین نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کو زمین پر خلیفہ قرار دیا۔ چونکہ انسان اپنی عقل سے صحیح اور غلط کو مکمل طور پر نہیں پہچان سکتا اور نہ ہی اللہ کی مرضی تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے اور ان پر اپنی ہدایت کی روشنی نازل کی، جسے وحی یا آسمانی کتابوں کی شکل میں محفوظ کیا گیا۔ قرآن، تورات، انجیل، زبور اور دیگر صحائف سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان کتابوں کے نزول کے مختلف مقاصد ہیں جو درج ذیل ہیں:

 1  .  ہدایتِ الٰہی فراہم کرنا

آسمانی کتابوں کا سب سے پہلا مقصد انسان کو سیدھی راہ پر چلنے کی رہنمائی دینا ہے۔

  • قرآن میں ارشاد ہے: ﴿ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (البقرة: 2)
    "
    یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔"

هدايت كا مطلب هوتا هے كه رهنمائي فراهم كرنا ، زندگي گزارے كے طور طريقے بيان كرنا، زندگي كے لئے دستور العمل، گويا جتني بھي صحف سماويه يا آسماني كتابيں هيں ان سب كا ايك مقصد مشتركه يه تھا كه ان كے ماننے والوں كے لئے رهنمائي فراهم كرنا۔

  • ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ (البقرة: 185)

رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اور ایسی واضح دلیلیں رکھتا ہے جو ہدایت اور حق و باطل میں فرق کرنے والی ہیں۔"

1.       هُدًى لِّلنَّاسِ

قرآن سب انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ یعنی یہ ہر شخص کے لیے روشنی اور راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ البتہ حقیقی فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو ایمان اور تقویٰ رکھتے ہیں: ﴿ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (البقرة: 2)

2.     وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ
قرآن صرف ہدایت ہی نہیں بلکہ ایسی واضح نشانیاں اور دلائل بھی بیان کرتا ہے جو حق کو روشن اور واضح کر دیتے ہیں۔ یہ دلائل عقل و فطرت دونوں کو مطمئن کرتے ہیں۔

3.    وَالْفُرْقَانِ
"
فرقان" کے معنی ہیں حق و باطل میں فرق کرنے والا۔ یعنی قرآن وہ کسوٹی ہے جس سے سچ اور جھوٹ، ایمان اور کفر، خیر اور شر میں فرق کیا جا سکتا ہے۔
اسی لیے اسے "فرقان" بھی کہا گیا: ﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (الفرقان: 1)

"بڑی برکت والا ہے وہ (اللہ) جس نے اپنے بندے پر فرقان (قرآن) نازل کیا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔"

·         تَبَارَكَ: اللہ کی ذات بہت بابرکت ہے، اس کی عظمت اور خیر و برکت کی کوئی حد نہیں۔

·         نَزَّلَ الْفُرْقَانَ: فرقان یعنی قرآن، جو حق و باطل، خیر و شر اور ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔

·         عَلَىٰ عَبْدِهِ: یعنی اپنے خاص بندے محمد ﷺ پر، تاکہ بندگی کی صفت ظاہر ہو اور واضح ہو کہ نبی ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، خدا نہیں۔

·         لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا: قرآن کا مقصد یہ ہے کہ نبی ﷺ کے ذریعے پوری دنیا کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا جائے اور سب کو حق کی طرف بلایا جائے۔

2 . عقیدۂ توحید کی تعلیم

تمام آسمانی کتابوں کا بنیادی مقصد یہ رہا ہے کہ انسان کو شرک سے پاک کر کے صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا جائے۔

  • ارشادِ باری تعالیٰ: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (الأنبياء: 25)

اور ہم نے آپ (اے محمد ﷺ) سے پہلے جو بھی رسول بھیجا، اس پر یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، لہٰذا تم سب میری ہی عبادت کرو۔

یہ آیت عقیدۂ توحید کو تمام انبیاء کی دعوت کا مرکزی نقطہ قرار دیتی ہے کہ ہر نبی کا بنیادی پیغام یہی تھا: صرف اللہ کی عبادت اور ہر قسم کے شرک سے اجتناب كيا جائے۔ اور يهي مركزي نقطه تمام آسماني كتابوں كے نزول كا ايك اهم مقصد بھي هے، يعني كه تمام انسانوں كو الله تعالى كي توحيد كي طرف دعوت دينا۔

  • اسي طرح دوسري جگه الله تعالى نے فرمایا: ﵟوَمَا خَلَقۡتُ ٱلۡجِنَّ وَٱلۡإِنسَ إِلَّا لِيَعۡبُدُونِﵞ (الذاريات:56)
    "
    اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔"

·         اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنّ کی پیدائش کا اصل مقصد واضح فرمایا کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی عبادت ہے۔

·         عبادت کا مطلب محض نماز، روزہ، حج یا زکوٰۃ نہیں بلکہ ہر وہ عمل ہے جو اللہ کی رضا کے مطابق ہو اور اس کی اطاعت میں کیا جائے۔

·         اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا میں آزاد نہیں بلکہ اللہ کے بندے ہیں، اور ان کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کریں اور اس کے احکام کے مطابق زندگی گزاریں۔

·         چونكه الله تعالى نے تخليق انسان كا مقصد هي اپني عبادت قرار ديا هے تو لا محاله انبياء كرام كي بعثت اور ان پر نازل كرده كتابوں كا ايك اهم مقصد بھي يهي ٹھهرتا هے كه لوگوں كو "توحيد باري تعالى" كي تعليم دي جائے۔

3 . عدل و انصاف کا قیام

آسمانی کتابیں عدل کے ساتھ فیصلے کرنے کے لیے نازل کی گئیں تاکہ کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہ کرے۔

  • قرآن کہتا ہے: ﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحديد: 25)

"یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (انصاف کا پیمانہ) نازل کیا تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں۔"

مختصر وضاحت

1.    "لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ"

o        اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے رسولوں کو "بینات" یعنی روشن دلائل، معجزات اور واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا۔

o        ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگ حق کو پہچانیں اور باطل سے بچیں۔

2.    "وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ"

o        رسول صرف زبانی ہدایت دینے نہیں آئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر "کتاب" بھی نازل کی۔

o        یہ کتاب شریعت، احکام اور رہنمائی پر مشتمل تھی تاکہ امتوں کی دینی و دنیاوی زندگی منظم ہو۔

3.    "وَالْمِيزَانَ"

o        "میزان" کا مطلب ہے ترازو یا انصاف کا معیار۔

o        اس سے مراد وہ شریعت اور اصولِ عدل ہیں جن کے ذریعے حق و باطل اور درست و غلط کا فرق معلوم ہوتا ہے۔

o        بعض مفسرین کے نزدیک "میزان" سے مراد وہ عقل و فطرت بھی ہے جسے اللہ نے انسان کو عدل کا شعور دینے کے لیے عطا کیا۔

4.    "لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ"

o        اس پوری ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ انسان صرف ذاتی فائدے یا خواہش پر نہ چلے، بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ زندگی گزارے۔

o        یعنی فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست ہر سطح پر عدل قائم ہو۔

o        عدل کا مطلب ہے ہر ایک کو اس کا حق دینا، ظلم سے بچنا، اور اللہ کے احکام کے مطابق فیصلے کرنا۔

اہم نکات

·         اس آیت میں دینِ اسلام کا بنیادی مقصد بیان ہوا ہے: ہدایت اور عدل کا قیام۔

·         رسولوں کی بعثت صرف عبادات سکھانے کے لیے نہیں تھی، بلکہ ان کا اصل مقصد دنیا میں عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنا بھی تھا۔

·         یہ پیغام آج کے دور کے لیے بھی انتہائی اہم ہے کہ دین کو محض ذاتی عبادت تک محدود نہ کیا جائے بلکہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام میں عدل قائم کرنے کے لیے اپنایا جائے۔

·         اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ انبیاء کو بھیجنے اور کتاب نازل کرنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ دنیا میں عدل و انصاف قائم ہو، تاکہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے اور ہر انسان کو اس کا جائز حق ملے۔

  • نبی ﷺ نے بھی عدل کی اہمیت بیان فرمائی:
    "
    قیامت کے دن سب سے زیادہ محبوب اور اللہ کے قریب ترین شخص انصاف کرنے والا حکمران ہوگا۔  "

عن عبد الله بن عَمرو بن العاص، عن النبيِّ صلى الله عليه وسلم قال: "إِنَّ المُقسطينَ عندَ الله تعالى على منابِرَ من نور، عن يمينِ الرَّحمن، الَّذين يَعْدِلُونَ في حُكمِهم وأهليهم وما وَلُوا" قال محمد في حديثه: "وكِلْتا يديه يمين" (سنن نسائی، كتاب ادب القضاء باب فضيلة الحاكم العادل في حكمه، حديث نمبر 5379)

حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"بیشک انصاف کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے، رحمن کے دائیں جانب۔ وہ لوگ جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل و عیال کے درمیان اور جن کاموں کے ذمہ دار ہوں، ان میں عدل کرتے ہیں۔"
محمد [یعنی راوی] نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ   "اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔"

یہ حدیث صحیح مسلم ( كتاب الامارة باب فضيلة الامام العادل حدیث: 1827) میں وارد ہوئی ہے۔

4 . حلال و حرام اور شریعت کی وضاحت

انسان کی رہنمائی کے لیے آسمانی کتابوں میں حلال و حرام کے اصول بیان کیے گئے تاکہ زندگی منظم ہو سکے۔

  • ارشادِ ربانی: ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ (الأعراف: 157)
  • نبی ﷺ نے فرمایا:

·         الحلال ما احل الله في كتابه , والحرام ما حرم الله في كتابه  . (ترمذی كتاب اللباس، حديث نمبر 1726)

"حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا، اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے اپني كتاب ميں حرام قرار دیا هے۔"  

5 . اخلاق و کردار کی اصلاح

آسمانی کتابیں انسان کو بااخلاق بناتی ہیں اور برے اعمال سے روکتی ہیں۔

  • قرآن میں ہے: ﴿إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ (الإسراء: 9)
    "بے شک یہ قرآن اس راستے کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔"

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ قرآن نہ صرف عقیدہ اور عبادت میں ہدایت دیتا ہے بلکہ اخلاقی زندگی کے ہر پہلو میں بھی بہترین رہنمائی فراہم کرتا ہے۔مثلاً:

1.       اعلیٰ اخلاق کی طرف رہنمائی

قرآن سچائی، عدل، رحم، عفو و درگزر، والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، صلہ رحمی اور صدقہ و خیرات جیسے اخلاقی اوصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ سب انسان کو "أقوم" یعنی سیدھے اور مضبوط راستے پر قائم کرتے ہیں۔

2.     برائیوں سے روکنا

قرآن جھوٹ، ظلم، تکبر، قطع رحمی، دھوکہ، رشوت، فحاشی اور بے حیائی جیسی اخلاقی برائیوں سے روکتا ہے۔ یہ برائیاں انسان اور معاشرے کو بگاڑ دیتی ہیں۔ انساني اقدار كے منافي جتنے بھي كام هيں اسلام قرآن ان سب سے روكتا هے، اسي طرح سابقه كتابوں يعني تورات ، زبور اور انجيل وغيره ميں بھي يهي تعليمات تھيں جيسا كه قرآن خود اقرار كرتا هے كه اس كي تعليمات سابقه كتب كي تعليمات كي تصديق كرنے والي هے۔

3.    انفرادی و اجتماعی زندگی کی اصلاح
قرآن کی اخلاقی تعلیمات نہ صرف فرد کی روحانی تربیت کرتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کو عدل، امن اور خیرخواہی پر قائم کرتی ہیں۔

اس آیت کا اخلاقی تعلیمات سے تعلق یہ ہے کہ قرآن ہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کو اخلاقی پستی سے نکال کر اعلیٰ کردار کی راہ پر لے جاتا ہے، اور یہی راہ "أقوم" یعنی سب سے سیدھی اور کامل ترین ہے۔

6  . آخرت کی یاد دہانی اور جواب دہی

انسان کو بتایا گیا کہ دنیا عارضی ہے اور اصل زندگی آخرت کی ہے، جہاں  دنياوي زندگي كے هر پل ، هر لمحه اور ہر عمل کا حساب ہوگا۔

  • ارشادِ باری تعالیٰ: ﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ۝ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (الزلزال: 7-8)
  • نبی ﷺ نے فرمایا:
    "
    عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے تیاری کرے۔ " (ترمذی، رقم 2459)

7 . اختلافات کا حل اور فیصلے کا معیار

کتاب اللہ کو نازل کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کے اختلافات کو ختم کیا جائے اور حق و باطل میں فرق واضح ہو۔

  • قرآن کہتا ہے: ﴿وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ (البقرة: 213)

"اور اس (پیغمبر) کے ساتھ ہم نے حق کے ساتھ کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ کرے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔"

8 . بشارت و انذار

آسمانی کتابیں اہلِ ایمان کو جنت کی بشارت دیتی ہیں اور کافروں کو عذاب سے ڈراتی ہیں۔

  • ارشاد باری تعالیٰ: ﴿رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (النساء: 165)

"رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت (عذر) باقی نہ رہے۔"

نبی ﷺ نے فرمایا: " عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا، فَنَادَى ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَقَالَ: " أَيُّهَا  النَّاسُ، تَدْرُونَ مَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ؟ " قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: " إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ مَثَلُ قَوْمٍ خَافُوا عَدُوًّا يَأْتِيهِمْ، فَبَعَثُوا رَجُلًا ‌يَتَرَاءَى لَهُمْ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، أَبْصَرَ الْعَدُوَّ، فَأَقْبَلَ لِيُنْذِرَهُمْ، وَخَشِيَ أَنْ يُدْرِكَهُ الْعَدُوُّ قَبْلَ أَنْ يُنْذِرَ قَوْمَهُ، فَأَهْوَى بِثَوْبِهِ: أَيُّهَا النَّاسُ أُتِيتُمْ، أَيُّهَا النَّاسُ أُتِيتُمْ " ثَلَاثَ مِرَارٍ.(مسند احمد حديث نمبر22948)

عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے پاس تشریف لائے اور تین مرتبہ پکارا:   "اے لوگو! کیا تم جانتے ہو میری اور تمہاری مثال کیا ہے؟" صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "میری اور تمہاری مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک دشمن کے آنے سے خوف کھایا، تو انہوں نے ایک آدمی کو (دشمن کا حال دیکھنے کے لیے) بھیجا۔ وہ شخص دیکھتے دیکھتے دشمن کو دیکھ لیتا ہے، پھر وہ فوراً اپنی قوم کو ڈرانے کے لیے لوٹتا ہے اور اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں دشمن اس سے پہلے نہ پہنچ جائے۔ پس وہ اپنا کپڑا (ہلایا) اور آواز دی: 'اے لوگو! تم پر دشمن آ گیا، اے لوگو! تم پر دشمن آ گیا' — یہ بات اس نے تین مرتبہ کہی۔"

9 . انبیاء کی صداقت کی دلیل

آسمانی کتابوں کے نزول سے انبیاء کی سچائی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے پیغامبر ہیں اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔

  • قرآن کہتا ہے: ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ۝ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (النجم: 3-4)

"اور وہ (نبی ﷺ) اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔یہ تو صرف وحی ہے جو ان پر کی جاتی ہے۔"

خلاصه كلام:

تمام آسمانی کتابوں کا بنیادی مقصد انسان کو اللہ کی صحیح معرفت دینا، توحید کی تعلیم، عدل و انصاف کا قیام، اخلاقی اصلاح، حلال و حرام کی وضاحت، اختلافات کا خاتمہ، آخرت کی تیاری اور انبیاء کی صداقت کی دلیل فراہم کرنا ہے۔ قرآن ان تمام مقاصد کا جامع ترین اظہار ہے اور باقی کتابوں پر حاکم ہے۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)