ماہِ صفر: کیا یہ نحوست والا مہینہ ہے؟

0

 

ماہِ صفر: کیا یہ نحوست والا مہینہ ہے؟

اسلام ایک کامل، عقلی اور فطری دین ہے جو جہالت، خرافات، توہمات اور بدشگونی جیسے باطل نظریات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ جاہلیت کے دور میں عرب لوگ بعض مہینوں اور دنوں کو نحوست والا سمجھتے تھے، ان میں سے ایک "ماہِ صفر" بھی تھا۔ افسوس کہ یہی غلط تصور بعد میں بعض مسلمانوں کے درمیان بھی رائج ہو گیا۔

اس مضمون میں قرآن، صحیح احادیث اور سلفِ صالحین کی روشنی میں واضح کیا جائے گا کہ ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا غلط، بے بنیاد اور اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔

ماہِ صفر کا تعارف

قمری تقویم (اسلامی کیلنڈر) کا دوسرا مہینہ "صفر" کہلاتا ہے۔
"
صَفَر" کا لغوی مطلب ہے: خالی ہونا۔
عرب لوگ اس مہینے میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر جنگی مہمات کے لیے نکلتے تھے، اس لیے ان کے گھر خالی ہو جاتے اور اسی مناسبت سے اسے "صفر" کہا گیا۔

ماہِ صفر کی نحوست کا باطل عقیدہ اور اس کی تردید

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ:

  • یہ مہینہ منحوس ہے۔
  • اس میں نکاح، خرید و فروخت یا سفر کرنا بُرا ہوتا ہے۔
  • صفر کے آخری بدھ کو بلائیں نازل ہوتی ہیں۔

  اسلامی مؤقف:

اسلام نے اس نظریے کو سختی سے مسترد کیا ہے۔

  حدیثِ رسول ﷺ سے صریح تردید

رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر اس كي ترديد كرتے هوئے فرمایا كه اسلام ميں زمانه جاهليت كي طرح نحوست كا عقيده ركھنا درست نهيں هے، اسلام كي صحيح تعليمات اس كي واضح طور پر نفي كرتي هے:

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : "لا عَدْوَى، وَ لا طِيَرَةَ، وَ لا هَامَةَ، وَ لا صَفَرَ." (صحیح بخاری: 5707، صحیح مسلم: 2220)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "نہ کوئی بیماری (از خود ایک سے دوسرے کو) لگتی ہے، نہ بدشگونی (شگون لینا)، نہ اُلّو کی نحوست، اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔"

یہ حدیث ان تمام توہمات کا انکار کرتی ہے جو جاہلیت میں پائے جاتے تھے، جن میں ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا بھی شامل ہے۔

حدیث کی جامع تشریح

1 .  "لَا عَدْوَى" – بیماری خود بخود متعدی نہیں ہوتی۔

جاہلیت میں یہ عقیدہ تھا کہ بیماری بذاتِ خود ایک مریض سے دوسرے کو لگتی ہے۔اگر بيماري بذات خود بلا كسي ظاهري سبب كے ايك دوسرے كو لگتي هوتي تو يه تقدير كے خلاف هے۔ اسلام نے اس کی تقدیر کے خلاف ہونے کی بنیاد پر نفی کی، اور واضح کیا کہ بیماری کا لگنا یا نہ لگنا اللہ کے حکم سے ہوتا ہے، بیماری بذاتِ خود کوئی "خودمختار طاقت" نہیں كه مشيت الهي كے بغير بھي دوسرے كو لگ سكے۔

اگر بیماری خود سے لگنے والی طاقت رکھتی، تو ہر ڈاکٹر، نرس یا تیماردار ضرور بیمار ہوتا۔ جبکہ لاکھوں لوگ مریضوں کی تیمارداری کرتے ہیں، مگر بیمار نہیں ہوتے۔ اس لیے اصل سبب اللہ کی مشیت ہے، نہ کہ محض بیماری۔ ميں نے اپني زندگي ميں بذات خود اس كا تجربه كياهے، ايك زمانے ميں مجھے ايك ايسي بيماري لگ گئي تھي كه ڈاكٹر حضرات كهتے تھے كه يه مرض متعدي هے، دوسروں كو لگ سكتا هے اس لئے احتياط كريں وغيره مگر الحمد لله  نه ميرے گھر والوں ميں سے كسي كو لگا نه هي كسي دوست اور ساتھي كو، تب مجھے يقين هوا كه واقعي بيماري بذات خود بنا مشيت الهي كے كسي ايك سے دوسرے كو نهيں لگ سكتي۔

ايك حديث ميں در بالا روايت ميں مزيد وضاحت كے ساتھ بيان كيا گيا هے كه جس ذات نے پهلے پهل اس بيماري كو كسي ميں پيدا كيا هے وهي بعد ميں كسي اور بھي پيدا كرتا هے:

أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: «لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ، وَلَا هَامَةَ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ، فَمَا بَالُ إِبِلِي تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ، فَيَأْتِي الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا، فَقَالَ: فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ»(صحيح بخاري حديث نمبر 5717)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کوئی بیماری از خود متعدی (یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والی) نہیں ہے، اور نہ (ماہ) صفر میں کوئی نحوست ہے، اور نہ ہامہ (الو کا منحوس ہونا) کوئی حقیقت رکھتا ہے۔"
(یہ سن کر) ایک دیہاتی نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! پھر میری اونٹنیاں کیا ہوتی ہیں؟ وہ ریت میں ہرنوں کی طرح تندرست و صحت مند ہوتی ہیں، پھر ایک جذام زدہ (یعنی خارش والی) اونٹنی آتی ہے اور ان کے درمیان داخل ہو جاتی ہے، تو وہ سب کو خارش ہو جاتی ہے!" تو آپ ﷺ نے فرمایا: "پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی؟"

اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ:

  • بیماری خودبخود متعدی نہیں ہوتی، بلکہ اللہ کے اذن اور تقدیر سے ہوتی ہے۔
  • اگر بیماری ایک سے دوسرے کو منتقل ہو بھی جائے، تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے، کوئی چیز از خود مؤثر نہیں۔
  • "پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی؟" — اس جملے کے ذریعے نبی ﷺ نے دیہاتی کو یہ سمجھایا کہ جس طرح پہلے اونٹ کو خارش اللہ کے حکم سے لگی، ویسے ہی دوسرے کو بھی اللہ کے حکم سے لگتی ہے، اس میں محض ظاہری اسباب کو قطعی مؤثر سمجھنا درست نہیں۔

فوائد:

1.       اسلام میں توہم پرستی (نحوست، بیماریوں کی خودکار منتقلی، بدشگونی) کی نفی کی گئی ہے۔

2.     انسان کو اسباب اختیار تو کرنے چاہئیں لیکن اعتقاد صرف اللہ کی تقدیر پر ہونا چاہیے۔

3.    "عدویٰ" (متعدی بیماری) کی نفی سے مراد یہ نہیں کہ بیماری منتقل نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ کہ وہ خودبخود مؤثر نہیں ہوتی جب تک اللہ کا اذن نہ ہو۔

ايك غلط نظريه جو آج كل همارے معاشرے ميں پھيلا هوا هے اور بعض لوگ اس كا پرچار بھي كرتے هيں كه بعض بيمارياں متعدي هوتي هيں اور دوست احباب يا گھر والوں ميں سے كسي كو لگي هوئي هو تو دوسروں كو بھي لگ جاتي هے۔   اس سوچ كے تحت آج بھی لوگ بعض بیماریوں سے نفسیاتی خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور مریض کو دیکھتے ہی گمان کر لیتے ہیں کہ "یہ بیماری ہمیں بھی لگ جائے گی"۔ ایسے عقائد کو تقدیر پر ایمان سے بدلا جانا چاہیے۔

2 .  " وَلَا طِيَرَةَ" – بدشگونی کوئی حقیقت نہیں رکھتی

جاہلیت میں لوگ کسی پرندے کا اُڑنا، بلی کا راستہ کاٹنا، كسي مخصوص دن یا تاریخ کو برا  اور نحوست والا مان  کر اپنے کام روک دیا کرتے تھے۔ اس طرح کا عقیدہ شرک کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ انسان اللہ کی بجائے "اشیاء" سے نفع و نقصان کی امید رکھنے لگتا ہے۔

اگر بلی کے راستہ کاٹنے سے کام بگڑتا، تو دنیا میں ہر وہ شخص جس کے سامنے بلی آئی ہو، ناکام ہوتا، اور جس کے سامنے نہ آئی ہو وہ کامیاب ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے۔

بعض لوگ بدشگوني ليتے هوئے جمعہ کے دن ناخن نہیں کاٹتے، یا سفر سے گریز کرتے ہیں، جبکہ قرآن و سنت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں۔ بلکہ جمعہ بابرکت دن ہے۔رسول كريم صلى الله عليه و آله وسلم نے بهت سے مهمات كے لئے جمعه كے دن سفر كرنے كا انتخاب كيا، آپ ص جمعه كے دن بھي اپنے اصحاب كو جهاد كے لئے روانه فرماتے تھے اگر يه نحس والا هوتا تو آپ كبھي نه كرتے، مثلا جامع ترمذي ميں هے:

عن ابن عباس، قال: " بعث النبي صلى الله عليه وسلم عبد الله بن رواحة في سرية، فوافق ذلك يوم الجمعة فغدا اصحابه، فقال: اتخلف فاصلي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم الحقهم فلما صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رآه، فقال: " ما منعك ان تغدو مع اصحابك "، فقال: اردت ان اصلي معك ثم الحقهم، قال: " لو انفقت ما في الارض جميعا ما ادركت فضل غدوتهم ". (جامع ترمذي كتاب الجمعة باب ما جاء في السفر يوم الجمعة حديث نمبر 527)

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہ کو ایک سریہ میں بھیجا، اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا، ان کے ساتھی صبح سویرے روانہ ہو گئے، انہوں نے (اپنے جی میں) کہا: میں پیچھے رہ جاتا ہوں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ لیتا ہوں۔ پھر میں ان لوگوں سے جا ملوں گا، چنانچہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: ”تمہیں کس چیز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانے سے روک دیا؟، عرض کیا: میں نے چاہا کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھ لوں پھر میں ان سے جا ملوں گا۔ آپ نے فرمایا: ”اگر تم جو کچھ زمین میں ہے سب خرچ کر ڈالو تو بھی ان کے صبح روانہ ہونے کا ثواب نہیں پاس کو گے۔

3  .  " وَلَا هَامَةَ" – اُلّو منحوس نہیں

عربوں کا عقیدہ تھا کہ مرنے والے کی روح اُلّو کی شکل میں آتی ہے، یا اُلّو کا نظر آنا موت یا نحوست کی علامت ہے۔ اسلام نے اس کی سخت تردید کی۔

هداية القاري شرح صحيح البخاري ميں هے:

عربوں کے ہاں عقیدہ تھا کہ مقتول کی ہڈیاں جب بوسیدہ اور پرانی ہو جاتی ہیں تو اس کی کھوپڑی سے ایک الو برآمد ہوتا ہے جو اس کی قبر کے اردگرد چکر لگاتا رہتا ہے اور پیاس، پیاس کہتا ہے۔ اگر مرنے والے کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے۔ اس وہم کی بنیاد پر وہ لوگ، جیسے بھی بن پڑتا بدلہ لینے پر اصرار کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لغو خیال کی تردید فرمائی ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ابن جریج نے حضرت عطاء سے پوچھا: "هَامَه" کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا: لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ پرندہ انسانی روح ہوتا ہے جو چیختا چلاتا رہتا ہے، حالانکہ یہ انسانی روح نہیں بلکہ کوئی زمینی پرندہ ہے۔
(سنن أبي داود، كتاب الطب، باب في الطيرة، حدیث نمبر 3918) ]هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5757[

اگر اُلّو منحوس ہوتا تو وہ خود بھی اپنے لیے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکتا۔ اُلّو محض ایک جانور ہے، جسے اللہ نے دوسرے جانوروں کی طرح پیدا کیا ہے، نہ اس کے آنے سے کوئی مرتا ہے اور نہ بچتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں بھی اُلّو کو "منحوس" جانا جاتا ہے، حالانکہ نہ قرآن میں، نہ صحیح حدیث میں اُلّو کے منحوس ہونے کی کوئی دلیل موجود ہے۔

4 .  "وَلَا صَفَرَ" – صفر کا مہینہ منحوس نہیں

عربوں کا عقیدہ تھا کہ صفر کا مہینہ بلاؤں اور آفات کا مہینہ ہے، اس میں نکاح، سفر، کاروبار یا خوشی کا کام نہ کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ یہ مہینہ بھی دیگر مہینوں کی طرح اللہ کی تقدیر سے ہے، اس میں کوئی ذاتی نحوست نہیں۔

·         قرآن کريم ميں ہے:

  إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ... (سورۃ التوبہ: 36)
بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ (12) ہے، اللہ کی کتاب میں، جس دن اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، ان میں سے چار مہینے حرمت والے (عزت و احترام والے) ہیں، یہی درست دین ہے، پس ان (حرمت والے مہینوں) میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو...۔

اللہ تعالیٰ نے ہر مہینہ خود مقرر فرمایا، اور ان میں کوئی بھی مہینہ بذاتِ خود منحوس نہیں۔  اگر كوئي مهينه منحوس هوتا تو الله تعالى قرآن كريم ميں اس كے بارے ميں ضرور بتاتے  اور لوگوں كو اس كي نحوست سے دور ركھنے كے لئے هدايات فرماتے۔

اس آیت سے واضح ہے کہ تمام مہینے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں، ان میں سے کسی کو بھی ذاتی حیثیت سے منحوس سمجھنا باطل عقیدہ ہے۔

نکاح اور صفر: نبی کریم ﷺ کا عملی نمونہ

بعض لوگ صفر میں نکاح کو نامبارک سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف ہے۔ بعض روايتوں كے مطابق حضرت محمد صلى الله عليه و آله وسلم نے اپني بيٹي كا نكاح ماه صفر ميں كيا تھا۔

·         رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کا نکاح صفر کے مہینے میں کیا:  (فتح الباری، ج 6، ص 199) اگر اس ماه ميں نحس هوتا تو آپ صلى الله عليه و آله وسلم اپني چهيتي بيٹي كا نكاح اس مهينے ميں نه كرتے۔

عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ:  تَزَوَّجَ عَلِيُّ فَاطِمَةَ فِي صَفَرٍ فِي السَّنَةِ الثَّانِيَةِ وَبَنَى بِهَا فِي ذِي الْحِجَّةِ عَلَى رَأْسِ اثْنَتَيْنِ وَعِشْرِينَ شَهْرًا يَعْنِي مِنَ التَّارِيخِ "  .( الذرية الطاهرة للدولابي ، ص: 63، الدار السلفية الكويت)

جعفر بن محمد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: 'علیؓ نے فاطمہؓ سے صفر کے مہینے میں نکاح کیا، جو ہجرت کے دوسرے سال کا واقعہ ہے، اور ان کے ساتھ رخصتی ذوالحجہ کے مہینے میں ہوئی، جب کہ تاریخِ ہجرت کو گزرے ہوئے بائیس (22) مہینے مکمل ہو چکے تھے۔

·         اگر مہینے منحوس ہوتے تو دنیا بھر میں ایک ہی وقت میں ہر شخص کو نقصان یا مصیبت آتی، جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔ کسی کی خوشی کا وقت دوسرے کی غم کا وقت بن سکتا ہے، یہ مہینے کی نہیں، حالات کی بات ہے۔

بدعات و خرافات کی تردید : ماه صفر ميں رائج چند مشہور بدعات و خرافات:

1.       ماہِ صفر کو نحوست والا مہینہ سمجھنا:
بعض لوگ اس مہینے کو بدشگونی کا مہینہ سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں شادیاں، کاروبار یا نئے کام شروع کرنا منحوس ہے۔ یہ عقیدہ سراسر باطل ہے۔

2.     صفر کی تیرہ تاریخ کو خاص بلا نازل ہونے کا عقیدہ:
بعض علاقوں میں یہ رائج ہے کہ صفر کی 13 تاریخ کو آسمان سے آفات نازل ہوتی ہیں اور لوگ اس دن کو “سیاہ تیرہ” کہتے ہیں۔ یہ بھی محض خرافات پر مبنی ہے۔

3.    صفر کے آخری بدھ کو "آخری چہارشنبہ" کی رسم:
بعض جگہوں پر صفر کے آخری بدھ کو خوشی منائی جاتی ہے، کھانے پکائے جاتے ہیں اور اسے "آخری چہارشنبہ" کہا جاتا ہے، یہ بدعت رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عمل کے بالکل خلاف ہے۔

4.    اس مہینے میں تعویذ گنڈے، دفعِ نحوست کے اعمال کرنا:
کچھ لوگ اس مہینے میں خاص دم، تعویذ، حرز یا مخصوص عملیات کرتے ہیں تاکہ مصیبت سے بچ سکیں۔ یہ تمام چیزیں توکل علی اللہ کے خلاف ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ماہِ صفر سے متعلق درج ذیل بدعات پائی جاتی ہیں:

عقلی تردید

شرعی حیثیت

بدعت یا خرافات

نبی ﷺ اس دن بیمار ہوئے، تندرست نہیں

غیر ثابت، بدعت

صفر کے آخری بدھ کو خوشی منانا

صحابہؓ نے اس مہینے میں نکاح کیا

خلافِ سنت

صفر میں شادی یا کاروبار سے گریز

کام یابی یا ناکامی عمل پر منحصر ہے، مہینے پر نہیں

غیر شرعی

گھر کی صفائی یا سفر کا ترک

نہ قرآن میں نہ حدیث میں اس کا ذکر ہے

جھوٹی روایت

"چالیس بلائیں نازل ہوتی ہیں"

 قرآن و حديث ميں كوئي ثبوت نهيں هے

بدعت

مختلف اشياء خورد و نوش تقسيم كرنا

عقلی بنیاد پر اسلام کی برتری

اسلام نے انسان کو "فکری آزادی" دی ہے، اسے اسباب کے ساتھ "اللہ پر توکل" کا حکم دیا ہے۔ توہم پرستی اور بدشگونی انسان کو ذہنی غلام بنا دیتی ہے، جبکہ اسلام کہتا ہے:

"وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ" (سورۃ آل عمران: 122)

"اور مؤمنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔"

نتیجہ

حدیثِ رسول ﷺ: "لاَ عَدْوَى، وَ لا طِيَرَةَ، وَلا هَامَةَ، وَلا صَفَرَ" اسلام کا ایک جامع پیغام ہے جو توہمات، بدشگونی، بے بنیاد خوف اور جاہلانہ عقائد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ:

·         نفع و نقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

·         وقت، دن، مہینہ خود بخود اثر نہیں ڈالتے۔

·         عقلمندی، توکل، اور صحیح عقیدہ ہی نجات کا راستہ ہے۔

بدشگونی اور توہم پرستی: قرآن و سنت کی روشنی میں ممنوع

  قرآن کہتا ہےانسانوں كو جو مصائب و مشكلات پهنچتي هيں اور جن  مشاكل كا سامنا كرنا پڑتا هےاس كے اسباب بيروني نهيں بلكه انسان كے اپنے عمل اور كسب كا نتيجه هوتا هےاور جو همارے مقدر ميں هوتے هيں، اگر كوئي چيزمقدر ميں نه هو تو وه اس كو هرگز نهيں پهنچ سكتي:

"قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا ۚ هُوَ مَوْلَانَا".(سورۃ التوبہ: 51)

ترجمہ: "کہہ دو! ہمیں ہرگز کوئی نقصان یا تکلیف نہیں پہنچتی مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہو، وہی ہمارا کارساز ہے۔"

اس آیت سے واضح ہے کہ کسی مہینے، دن یا ساعت کو خود بخود باعثِ نحوست سمجھنا غلط ہے، ہر چیز اللہ کی تقدیر سے ہوتی ہے۔

ماہِ صفر کے آخری بدھ کا خرافاتی تصور

برصغیر میں ایک غلط عقیدہ یہ بھی ہے کہ:

"صفر کے آخری بدھ کو حضور ﷺ نے غسلِ صحت فرمایا تھا، اس لیے یہ دن خوشی منانے کا دن ہے۔"بعض لوگ كنڈے بناتے هيں اور تقسيم كرتے هيں، بعض علاقوں ميں محله كي سطح پر ڈوڈو ٹائپ كي چيزبنا كر لوگوں كو پلاتے هيں اور خيال كرتے هيں كه اس سے اس مهينه ميں آنے والي مصيبيتں ٹلتي هيں وغيره۔

1.       یہ واقعہ بے بنیاد هےاور کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔

2.     حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی بیماری صفر کے آخر میں شروع ہوئی اور ربیع الاول میں وفات ہوئی۔

امام ابن رجب حنبلیؒ (م 795ھ) اسلام ميں رائج عيد اور تهواروں كا ذكر كرنے كے بعد كهتے هيں كه عيدين اور جمعه جس كو بعض لوگ عيد كهتے هيں كے علاوه كوئي عيد يا تهوار اسلام ميں نهيں هے، وه فرماتے ہیں:

وأصلُ هذا أنَّهُ لا يُشْرَعُ أنْ يَتَّخِذَ المسلمونَ عيدًا إلَّا ما جاءَتِ الشَّريعةُ باتِّخاذِهِ عيدًا، وهوَ يومُ الفطرِ ويومُ الأضحى وأيَّامُ التَّشريقِ - وهيَ أعيادُ العامِ - ويومُ الجمعةِ - وهوَ عيدُ الأسبوعِ -، وما عَدا ذلكَ؛ فاتِّخاذُهُ عيدًا أو ‌موسمًا بدعةٌ لا أصلَ لهـ[ـا] في الشَّريعةِ.(لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف لابن رجب حنبلي تحقيق عامر على ياسين، ص:285،  طبع دار  ابن خزيمه للنشر و التوزيع – الرياض)

اس بات کی اصل (بنیاد) یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے کسی دن کو عید کے طور پر منانا صرف اُسی وقت مشروع (جائز و مقرر) ہوتا ہے جب شریعت نے اُسے عید قرار دیا ہو۔ اور وہ دن ہیں: عید الفطر، عید الاضحی اور ایامِ تشریق (یعنی سال کی عیدیں)، اور جمعہ کا دن (یعنی ہفتے کی عید)۔ ان کے علاوہ کسی بھی دن کو عید یا خاص موسم کے طور پر منانا بدعت ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل (بنیاد) نہیں۔"

بدشگونی کے نقصانات

بدشگونی اور توہم پرستی:

  • اللہ پر توکل کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
  • انسان کو حرام و بدعتی اعمال میں مبتلا کر دیتی ہے۔
  • دل کو خوف، وہم اور بے سکونی میں مبتلا کرتی ہے۔
  • اعمالِ صالحہ سے دور کر دیتی ہے۔
  • انسان ڈيپريشن كا شكار هو جاتا هے

خلاصہ و نتیجہ

ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا نہ صرف قرآن و سنت کے خلاف ہے بلکہ یہ جاہلیت کا نظریہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے صاف الفاظ میں ان خرافات کی تردید فرمائی اور ہمیں کامل یقین، توکل، عقل اور دین کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم دی۔

اسلام یہ سکھاتا ہے کہ:

"ہر وقت، ہر دن اور ہر مہینہ اللہ کی قدرت میں ہے، نہ کوئی دن بذات خودنحس ہوتا ہے، نہ کوئی مہینہ۔ نحس وہ ہوتا ہے جو برے اعمال کرے۔" اگر كوئي برا عمل كرتا اور حدود الله كي خلاف ورزي كرتا هے تو وه دن يا وه وقت اس شخص كے لئے نحس هے اگرچه معاشرے ميں اس دن يا ساعت كو شبھ ساعت يا شبھ دن خيال كئے جاتے هوں۔

مراجع و مصادر

1.       القرآن الكريم

2.     امام  محمد بن اسماعيل البخاري، الصحیح البخاری،   طبع السلطانية بالمطبعة  الكبرى  الاميريه مصر

3.    امام مسلم بن الحجاج ، صحیح مسلم، مع تحقيق فواد عبد الباقي، مطبعة عيسى البابي الحلبي ، القاهرة،مصر

4.    سنن ابي داود ت شعيب الارنوط، دار الرسالة العالمية

5.     جامع الترمذي ت احمد شاكر ، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر

6.     فتح الباری لابن حجر  العسقلاني، المكتبة السلفية مصر

7.    هداية القاري شرح صحيح البخاري للشيخ حافظ عبد الستار الحماد، دار السلام

8.    لطائف المعارف لابن رجب حنبلی، تحقيق عامر على ياسين، ص:285،  طبع دار  ابن خزيمه للنشر و التوزيع – الرياض

9.      زاد المعاد لابن القیم، مؤسسة الرسالة بيروت

10.    الذرية الطاهرة للدولابي ، ص: 63، الدار السلفية الكويت

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)