وادي شگر : تاریخ ، سياحت و ثفافت

0

وادي شگر :

 تاریخ ، سياحت و ثفافت

بلتستان کا علاقہ اپنے دلکش قدرتی مناظر، بلند و بالا پہاڑوں اور قدیم تہذیبوں کے آثار کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس خطے کی ایک نمایاں اور تاریخی وادی "وادی شگر" (Shigar Valley) ہے، جو نہ صرف قدرتی حسن سے مالا مال ہے بلکہ ایک گہری تاریخی اور ثقافتی اہمیت بھی رکھتی ہے۔

جغرافیائی محل وقوع

تھورگو سے شمال کی جانب شگر جانے والی سڑک ہے اور دریائے سندھ پر ایک نیم معلق پل کے ذریعے شگر کو تھورگو سے ملایا گیا ہے۔ شگر کو عہد قدیم میں "شغر" کہا جاتا تھا چنانچہ قدیم تواریخ میں شغر ہی لکھا ہوا ہے۔ غیر مقامی لوگوں کی آمد کے بعد اب یہ علاقہ شگر کہلاتا ہے۔یہ وادی موضع تھورگو سکردو کے نزدیک دریائے سندھ کے پارسے شروع ہوکر نالہ باشہ سے اوپر سرحد چین تک جاتی ہے۔اس کا رقبہ 2592مربع میل ہے۔گزیٹیر آف کشمیر اینڈ لداخ میں ہے۔

Shigar: formerly was a small chief ship in the wizarat of Skardu (Baltistan), confined to the valley of the Shigar river. Its length form south-east to north-west is 72 miles, and its breadth 36 miles. Its area is 2592 square miles.

            شگر قدیم زمانے سے ہی وزارت سکردو ( بلتستان) کا ایک چھوٹا سا مرکزی شہر رہاہے۔ وادی شکر کاحد فاصل دریائے شگر ہے۔ یہ وادی جنوب مشرق سے شمال مغرب تک اس کی لمبائی 72میل اور چوڑائی 36میل ہے۔ اس کا کل رقبہ 2592مربع میل ہے۔

            وادی شگر کے جنوب مغرب میں سکردو’ مغرب میں روندو’ شمال مغرب میں وادی ہنزہ ونگر’ مشرق میں شیوک اور شمال میں چین واقع ہے۔شگر سطح سمندر سے ۷۶۴۴ فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

شگر كي آباد كاري:

 شگر وادی کی ابتدائی آباد کاروں کے بارے میں مولوی حشمت اللہ لکھنوی تاریخ جموں میں لکھتے ہیں:’’وسط ایشیا کے لوگوں نے سلسلہ قراقرم کو عبور کرکے ایک طرف برالدو کے راستے اور دوسری طرف گلگت ’ ہنزہ اور نگر سے ہوتے ہوئے باشہ کے راستے آکر شگر میں آباد کاری کا آغاز کیا۔ اس وادی میں آبادی کی ابتداء نالہ باشہ میں ہوئی’ پھر پائینی شگر میں مختلف اطراف میں پھیلتی گئی اورنیچے لم سا (Lam-sa) میں اپی ژھو نامی شخص نے سکردو سے آکر آباد کیا۔‘‘

وادی شگر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں واقع ہے۔ یہ وادی:

  • اسکردو سے تقریباً 32 کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے۔
  • یہ وادی دریائے شگر (Shigar River) کے کنارے آباد ہے جو آگے چل کر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔
  • وادی شگر کا کل رقبہ تقریباً 8,500 مربع کلومیٹر ہے۔
  • یہاں کا موسم سرد اور خشک ہے، مگر گرمیوں میں معتدل اور خوشگوار ہوتا ہے۔

اہم جغرافیائی خصوصیات

  • وادی شگر کو دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک کے ٹو (K-2) تک رسائی کے لیے ایک گیٹ وے (Gateway) بھی کہا جاتا ہے۔
  • یہاں سے بلترو گلیشیئر، ہسپر گلیشیئر، اور پیو گلیشیئر جیسے عظیم گلیشیئر بھی قریب ہیں۔
  • وادی شگر میں کئی ذیلی وادیاں بھی شامل ہیں جیسے:
    • برالدو                           
    • باشه
    • تیسر
    • بلترو
    • ارندو
    • چھوترون
    • گلاب پور اور وزير پور وغيره

تاریخی پس منظر

وادی شگر کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے اور یہاں مختلف ادوار میں مختلف اقوام اور سلطنتوں نے حکومت کی۔

1. قدیم دور

  • آثار قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ ہزاروں سال قبل بھی انسانی آبادی کا گہوارہ رہا ہے۔
  • شگر میں کئی بدھ مت (Buddhism) دور کے آثار، چٹانوں پر کندہ تحریریں (Petroglyphs) اور مجسمے دریافت ہوئے ہیں۔

2. اسلامی اثرات

  • 14ویں صدی عیسوی میں اسلامی مبلغین بلتستان میں داخل ہوئے۔
  • وادی شگر میں صوفی بزرگ سید علی ہمدانیؒ اور ان کے خلفاء کے ذریعے اسلام کی روشنی پھیلی۔
  • یہاں نسبتاً پہلے نوربخشی مسلک کے اثرات غالب تھے، بعد میں شیعہ اور سنی مکاتب فکر بھی یہاں فروغ پاتے گئے۔
  • سيد على همداني سے منسوب ايك تاريخ مسجد "مسجد چھ بروبنجي" اورمحله اے گے پا ميں موجود مسجدبھي تاريخي اهميت كي حامل هيں۔

3. شگر ریاست

  • شگر ایک زمانے میں نیم خودمختار ریاست (Principality) تھی۔
  • یہاں کے مقامی حکمران راجگانِ شگر کہلاتے تھے، جن کا محل آج بھی موجود ہے (شگر فورٹ)۔
  • شگر فورٹ کو امیرانِ شگر نے تعمیر کرایا تھا، جو آج ایک خوبصورت ہوٹل اور عجائب گھر کی حیثیت رکھتا ہے۔
  • یہ ریاست بعد میں ڈوگرہ حکمرانوں کے زیر اثر آئی اور پھر 1947ء کے بعد پاکستان کا حصہ بنی۔

تہذیب و ثقافت

  • وادی شگر میں بلتی زبان بولی جاتی ہے جو تبتی زبانوں سے قریب تر ہے۔
  • یہاں کے لوگ مہمان نواز، جفاکش اور سادہ مزاج ہیں۔
  • نوروز، مے پھنگ، لوسر ، ستروپ لا جیسے تہوار یہاں منائے جاتے ہیں۔
  • لباس، طرزِ تعمیر، خوراک اور رسوم و رواج میں بلتی تہذیب کا گہرا اثر ہے۔

تعلیم و تمدن

  • وادی شگر میں تعلیمی ترقی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔
  • یہاں کئی پرائمری، مڈل اور ہائی سکولز، نیز کالج سطح کے ادارے قائم ہو چکے ہیں۔
  • طلباء اب گلگت، اسکردو اور اسلام آباد جیسے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔

سیاحت کی اہمیت

وادی شگر آج ایک مشہور سیاحتی مقام بن چکی ہےجهاں ملكي و غير ملكي اور مقامي حضرات سير و سياحت كے لئے آتے رهتے هيں، يهاں سياحت كے حوالے سے چند اهم مقامات كي نشاندھي كي جاتي هے:

  • شگر فورٹ: قدیم طرز کا محل جو آج سیاحتی مرکز ہے۔جسے پهلے راجگيري كے زمانے ميں "پھونگ كھر" كها جاتا تھا، اب يه سرينا هوٹل بن گيا هے، جو آغا خان كے هوٹلوں كي چين ميں شامل هے۔
  • کے ٹو بیس کیمپ تک کا راستہ یہیں سے گزرتا ہے۔ كے ٹو سر كرنے والے حضرات يهيں سے گزرتے هيں اس لئے كه دنيا كي دوسري بلندي ترين چوٹي كے ٹو جسے مقامي زبان ميں "چھوغو ري" كها جاتا هے، اسي علاقے ميں واقع هے۔
  • باشے ویلی، بلترو، برالدو جیسے مقامات مشہور ہیں۔ يه ايسي واداياں هيں جو نهايت خوبصورت هيں اور زمانه قديم ميں لوگ ديگر مقامات سے ان علاقوں كا رخ كرتے تھے اور اپني ضرورت كے سامان يعني غذائي اشياء يهاں سے لے كر جاتے تھے۔
  • حشوپي باغ، جوكه سركاري باغ هے اور محكمه زراعت كے زير انتظام هے۔بلتستان كے ديگر مقامات سے لوگ تفريح كي غرض سے يهاں آتے هيں ۔
  • بلائنڈ ليك، جسے بلتي زبان ميں جربه ژھو كها جاتا هے ايك تفريحي مقام هے۔
  • خوبصورت ندی نالے، چشمے، برف پوش پہاڑ اور جھیلیں یہاں کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔
  • بین الاقوامی کوہ پیما یہاں سے مہم جوئی کا آغاز کرتے ہیں۔

 

اہم تاریخی مقامات:

وادی شگر، گلگت بلتستان کا ایک تاریخی اور سیاحتی حوالے سے اہم علاقہ ہے، جس میں متعدد تاریخی مقامات اور نالے موجود ہیں۔ یہاں کے اہم مقامات درج ذیل ہیں:

 

 1 .  قلعہ شگر (پھونگ کھر)

   - یہ قلعہ 17ویں صدی میں شگر کے راجا اماچہ خاندان نے تعمیر کیا تھا۔ یہ کشمیری اور بلتی فن تعمیر کا شاہکار ہے، جس میں لکڑی اور پتھر کا استعمال کیا گیا ہے۔ قلعے کے اندر ایک خوبصورت مسجد، باغ، اور بارہ دری موجود ہے۔ اس کی بحالی 1999ء اور 2004ء میں کی گئی .   اس كي كچھ تفصيل يوں هے كه

فونگ کھر کے معنی ہیں ‘‘پتھر کا محل’’ ۔ یہ راجہ شگر کاقدیم محل تھا جوکہ کھری ڈونگ کے عین نیچے تعمیر کیا گیا ہے۔یہ محل اماچہ خاندان کے شگر آمد کے بعد 1634ء میں تعمیر ہوا’ کشمیر کے مغل حکمرانوں سے تعلق قائم ہونے کے بعد مغل آرمی کی مدد اورتعاون سے یہ محل تعمیر کیا گیا’ کیونکہ اس وقت مختلف علاقوں پر مختلف راجاؤں کی حکومت تھی اور وہ اپنی سلطنت کو توسیع دینے کے لئے قرب و جوار کے راجوں کی سلطنت پر یلغار کرتے رہتے تھے۔ راجہ شگر کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا کہ سکردو کے مقپون حکمرانوں سے گاہے بگاہے اس کی لڑائی ہوتی رہتی تھی اس لئے دفاعی لحاظ سے ایک مناسب مقام دیکھ کراس جگہ یہ محل تعمیر کیا گیا۔جبکہ کھری ڈونگ فونگ کھر کے اوپر ایک پہاڑی پر ہے جو اب غیر آباد ہے یہ محل (کھری ڈونگ) اماچہ خاندان کے شگر پہنچنے سے قبل تعمیر کیاگیا تھا۔فونگ کھر کی تعمیر کے بعد اس کو دفاعی مورچہ کی حیثیت سے استعمال میں لایا جاتا رہا۔راجہ کا دفاعی دستہ وہاں تعینات رہتا تھا۔

   - قلعے کے قریب دریائے شگر بہتا ہے، جو اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے .

 

2. خانقاہ معلیٰ

   - یہ 600 سال پرانی مسجد ہے، جو وادی شگر کے تاریخی اور روحانی مراکز میں سے ایک ہے۔ یہ مقامی ثقافت اور مذہبی اہمیت کا حامل ہے .

یہ خانقاہ شگر ہی نہیں بلکہ بلتستان کی قدیم خانقاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس خانقاہ کے بارے میں کئی روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اس کی بنیاد امیر کبیر سید علی ہمدانی نے رکھی تھی۔یہ خانقاہ سری نگر کی خانقاہ معلی کی طرز پر بنائی گئی ہے اور اس کی چھت کا مینارہ بھی خانقاہ معلی سری نگرکی طرز پر تعمیر ہوا ہے۔ اس کے اندر عبادت چلہ کشی کے لئے حجرے بنے ہوئے ہیں۔ بعدازاں اٹھارہویں صدی عیسوی کے دوران میر یحییٰ کے ہاتھوں اس کی تعمیر نو ہوئی۔ جبکہ بعض دوسرے مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس کی تعمیر سید ناصر طوسی کے زمانے میں 1080ھ میں ہوئی اور بعض کہاکہناہے کہ اس کی پہلی تعمیر ہی سید میر یحییٰ کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ جبکہ خانقاہ کے صدر دروازے پر جو تختی لگی ہوئی ہے اس پر ابتدائی تاریخ تعمیر بیت العتیق 1023ھ ’ ابتدائی تاریخ مرمت ثانی1392ھ مطابق 1972ء درج ہے۔

            اس خانقاہ کے ساتھ میر یحییٰ بن میر ابو سعید سعدا کا آستانہ ہے۔ اسی لئے یہ محلہ ‘‘آستانہ’’ کے نام سے معروف ہے۔

 

3.  مسجد امبوڑک

   - یہ مسجد وادی شگر کے قدیم ترین مذہبی مقامات میں سے ایک ہے، جو سیاحوں اور مقامی لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے .

یہ مسجدکچھ عرصہ قبل تک بوسیدہ ہو کر گرنے کے قریب تھی مگر اپنی اصلی حالت میں اب بھی موجودتھی۔اس کا ایک گنبد گر چکا تھااوراس کامجموعی توازن بگڑ چکا تھا اور پوری عمارت رو بہ انہدام تھی۔اس کو تاریخی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرنے کے لئے 2005ء میں آغا خان کلچرل سروس پاکستان نے UNESCOکے تعاون سے پرانے طرز پر نئے سرے سے دوبارہ تعمیر کرایا ہے۔ اس کی تعمیر میں قدیم طرز تعمیر اور فنی مہارت کے ساتھ چوب کار ی کا اعلی درجے کا کام ہوا ہے’ یہ مسجد آج بھی مسلم طرز تعمیرکی خوبصورتی اور اپنے فن میں مہارت پر شاہد ہے ۔ مسجد میں اس کی تعمیر کے بارے میں جومعلوماتی تختی لگی ہوئی ہے اس پر اس کا سن تعمیر 783ھ بمطابق 1373ء رقم ہے۔

 

4. مسجد چھ برونجي

- يه مسجد  غضوا پا محله اگے پا ميں واقع هے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کو بھی سید علی ہمدانی نے اپنے قیام شگر کے دوران ہی مسجد امبوڑ ک کے بعد تعمیر کرائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد امبوڑک کے بعد سید علی ہمدانی نے مسجد چھہ برونجی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کی تعمیر کے بعد اس کے اندر دیواروں پر سورہ مزمل کوبخط جلی سیاہی کے اندر سفیدی میں بدست خود تحریر کیا۔ دروازہ شرقی سے بسم اللہ شروع کر کے چاروں طرف چکر دے کر اسی جگہ پہنچ کر ختم کر دیا۔ یہ تحریر اس کی تعمیر نو تک موجود تھی۔مگر اب اس کو دوبارہ بنانے والوں نے اس کے اوپر سفیدی کرکے اس تحریر کو مٹا دیاہے۔اب مسجدکے اوپری حصہ کی تعمیر نو ہوئی ہے اور اندرونی دیواروں پر سفیدی وغیرہ کرائی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ تحریر مٹ گئی ہے۔ راقم نے جب اس مسجد کی زیارت کی تو اس تحریر کا کوئی نشان نہیں ملا’ البتہ راقم کا ایک کزن مولانا عبد الخالق  مرحوم جو کہ ٹیچر تھے   اور شگر خاص میں رہائش رکھتے تھے، نے کہا کہ جب شروع میں تبادلہ ہو کر وہ علاقہ شگر میں آئے تھے انہوں نے خود اس تحریر کا مشاہدہ کیاتھا’ بڑا ہی خوش خط لکھاہواتھا۔ اس مسجد کا نچلا حصہ بالکل اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جبکہ دروازے کے اوپر کاحصہ چھت سمیت بعد میں دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد کا قدیم حصہ امبوڑک مسجد کے طرز پر تعمیر ہوا ہے۔ مسجد کے دروازے کے بالائی چوکھٹ پر کلمہ طیبہ کندہ ہے۔

            یہ مسجد تاریخی کتابوں میں مسجد چھہ برونجی کے نام سے مشہور ہے جبکہ مسجد کے سائٹ پر اسی مسجد کی تعمیر کے لئے جو چندہ بکس رکھا گیا ہے اس پر اس کا نام ‘‘مسجد چھملونجی’’ لکھا ہوا ہے۔ یہ مسجد شگر خاص میں محلہ اگے پا ( Age-pa) میں واقع ہے۔ مسجد آباد ہے محلہ کے لوگ یہاں نماز پڑھتے ہیں۔

5. چناره والي  خانقاه:

شگر كے محله چھورکاہ ميں ايك مشہوراور قدیم خانقاہ هے  يه چنار والي خانقاه كے نام سے مشهور هے۔ یہ خانقاہ تاریخی حیثیت کی حامل ہے ’ اس کے بیچ میں چنار کا ایک بہت بڑا درخت ایستادہ ہے۔ اس کے بارے میں کئی کہانیاں زبان زد عام و خاص ہیں۔اس خانقاہ کے اندر بھی بلتستان کے بعض دوسری خانقاہوں کی طرح آزو بازو میں چھوٹے چھوٹے حجرے یعنی چلہ خانے بنے ہوئے ہیں جن میں زمانہ قدیم میں صوفی حضرات چلہ کشی کیا کرتے تھے مگر اب یہ حجرے ویران اور مختلف قسم کے حشرات کی آماجگاہ ہیں۔

6. حشوپی باغ

   - یہ باغ سیب، ناشپاتی، چیری، اور خوبانی کے درختوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ گلگت بلتستان میں پھلوں کی سپلائی کا اہم مرکز ہے . گرميوں ميں بهت هي خوبصورت اور دلكش منظر پيش كرتا هے، يهاں بلتستان كے ديگر علاقوں سے اسكول كالج كے بچے بھي سير و تفريح كے لئے آتے هيں۔ اس باغ ميں پھل دار درختوں كے ساتھ مختلف قسم كے پھول لگے هوئے هيں جن سے بھيني بھيني خوشبوئيں بھي پھوٹتي رهتي هيں جس سے پورا ماحول معطر رهتا هے۔

 

7.  بوتی شغرن

بوتی شغرن يعني بدھت مت كے لوگوں كا پولو كھيلنے كا ميدان۔ یہ محلہ عضو اپا کے اوپر پہاڑی کے دامن میں ایک میدان نما جگہ ہے۔ اس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ زمانہ قدیم میں جب بلتستان میں بدھ مت کے ماننے والے بستے تھے یہ پولو کھلنے کا میدان یعنی شغرن تھا اسی مناسبت سے اس کا نام اب بھی بوتی شغرن ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں تو دہ گرنے سے یہ میدان اٹ گیا اور اب اس کا صرف نشان باقی رہ گیا ہے۔ محلہ عضو اپا سے اوپر جنوب کی طرف ایک متوازی ڈھلوان پر چڑھ کر اوپر جانے کا راستہ ہے ۔ میدان تک پہنچنے پر پہلا تاثر یہی ہوتا ہے کہ واقعی یہ کسی زمانے میں ایک کھلا میدان رہا ہوگا جہاں پولو کھیلے جاتے ہوں گے مگر اب یہ ایک ویرانہ ہے اونچی نیچی نا ہموار زمین اور چٹانیں ہیں ۔ اس شغرن کے اندر   کئی جگہ کھدائی کے نشانات بھی هيں جہاں کھنڈر کے نشانات هيں  جن سے معلوم ہوتا هے  کہ یہاں کسی زمانے میں مکانات تھے پتھر کی دیوار کی چنائی اب بھی محفوظ ہے ۔

 بعض پتھروں پر قدیم لسانی اثرات بھي هيں،   ایک پتھر پر مختلف چیزوں مار وکیل و غیر و کی تصاویر کندہ هيں۔ میدان کے مشرقی جانب ایک بڑے پتھر پر قدیم بلتی رسم الخط " اے گئے میں کچھ تحریر کندہ  هے ۔    اس شغرن کے اوپر سے شگر کا منظر یہ دل فریب اور خوش کن نظر آتا هے۔

 

8.گرم چشمے

وادی شگر، گلگت بلتستان نہ صرف اپنے پُرکشش مناظر بلکہ  قدرتي گرم چشموں  کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ یہ گرم چشمے قدرتی طور پر معدنیات سے بھرپور ہیں اور صدیوں سے مقامی لوگوں اور سیاحوں کے لیے  شفا بخش سمجھے جاتے ہیں۔ 

ان گرم چشموں   کا پانی قدرتی طور پر  گندھک (سلفر) اور دیگر معدنیات  سے بھرپور ہوتا ہے، جو جِلد، جوڑوں کے درد اور تھکاوٹ کے لیے مفید مانا جاتا ہے۔ 

 چھوترون کا گرم چشمہ

یہ شگر کا سب سے مشہور گرم چشمہ ہے، جو  یونین کونسل تسر  میں واقع ہے۔ اس کا پانی تقریباً  50 ڈگری سینٹی گریڈ  تک گرم رہتا ہے۔ مقامی لوگ اسے " چھوترون کھرچو " کہتے ہیں اور یہاں غسل کرنے والے اکثر  جلد کے امراض اور ریومیٹزم  سے نجات پاتے ہیں۔ 

 

 بیسل کا گرم چشمہ

یہ چشمہ  یونین کونسل باشہ  کے قریب واقع ہے اور چھوترون کی نسبت قدرے کم گرم ہے۔ یہاں کا پانی پینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور  ہاضمے کے مسائل  میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ 

 سیاحتی  سهولت

- گرم چشموں کے اردگرد    غسل گاہیں  بنائی گئی ہیں، جہاں سیاح آرام کر سکتے ہیں۔ 

- موسم سرما میں ان گرم پانیوں میں نہانا ایک  منفرد تجربہ  ہوتا ہے، جب آس پاس کا درجہ حرارت منفی ہوتا ہے۔ 

- یہ علاقہ  ٹریکنگ اور کیمپنگ  کے شوقین افراد کے لیے بھی مثالی ہے۔ 

شگر کے گرم چشمے نہ صرف صحت بخش ہیں بلکہ ان کا  پر سکون ماحول  تھکے ہوئے مسافروں کو تازہ دم کر دیتا ہے۔ اگر آپ گلگت بلتستان کی سیر کر رہے ہیں، تو ان فطری اسپا کا لطف ضرور اٹھائیں! 

 

9.بلائنڈ لیک /" جربه ژھو"

وادی شگر، گلگت بلتستان کے دل میں واقع "بلائنڈ لیک" (Blind Lake) ایک پُراسرار اور دلکش جھیل ہے جو اپنے شفاف نیلگوں پانی اور پہاڑوں کے شاندار مناظر کی وجہ سے مشہور ہے۔  بلائنڈ ليك كا مطلب هے اندھا جھيل جس كو مقامي زبان ميں" جربه ژھو" كها جاتا هے ۔یہ جھیل اپنے نام کے برعکس، سیاحوں کو "اندھا" نہیں کرتی، بلکہ اس کی خوبصورتی دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتی ہے۔ 

 يه جھيل سطح سمندر سے تقریباً  3,000 میٹر  کی بلندي پر واقع ہے۔ یہ جھیل قدرتی طور پر پہاڑوں کے درمیان بنی ہوئی ہے اور اس کے گرد  برف پوش چوٹیاں  اور     سرسبز میدان  اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ جھیل کا پانی اتنا صاف ہے کہ اس میں آسمان اور پہاڑوں کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے۔ 

 بلائنڈ لیک کا نام کیوں؟

مقامی روایات کے مطابق، اس جھیل کو  "بلائنڈ"  (اندھی جھیل) کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ یہ دور سے دکھائی نہیں دیتی۔ جب تک کوئی اس کے قریب نہ پہنچے، اس کا وجود پتہ نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جھیل ایک **پوشیدہ جواہر** کی مانند ہے، جو صرف مہم جو اور فطرت سے محبت کرنے والوں ہی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ 

اہم نالے اور دریائی نظام:

1.  دریائے شگر   

   - یہ دریا بلتورو اور بیافو گلیشیئرز سے نکلتا ہے اور وادی شگر کو سیراب کرتا ہے۔ یہ دریائے سندھ میں شامل ہونے سے پہلے وادی کے خوبصورت مناظر کو جنم دیتا ہے .

2.  دریائے باشہ

   - یہ دریا شگر خاص کے مقام پر دریائے برالدو سے ملتا ہے۔ اس کے کنارے خوبانی اور دیسی گھی کی پیداوار کے لیے مشہور ہے .

3.  دریائے برالدو

   - یہ نالہ شگر خاص سے شروع ہو کر تستے گاؤں تک جاتا ہے۔ اس کے راستے میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K2 اور دیگر اہم پہاڑی سلسلے موجود ہیں .

4.  ارندو نالہ   

   - یہ نالہ شگر کے شمالی حصے میں واقع ہے، جو کوہ پیماؤں اور سیاحوں کے لیے اہم گزرگاہ ہے۔ یہاں سپانگ ٹیک چوٹی بھی واقع ہے .

دیگر قابل ذکر مقامات:

-  سرفہ رنگہ صحرا : دنیا کی بلند ترین اور سرد ریگستان، جو وادی شگر کے قریب واقع ہے . 

-  ژھوقگو آبشار : ایک دلکش آبشار جو وادی کے قدرتی حسن کو بڑھاتی ہے . 

 

وادی شگر کا یہ تاریخی اور جغرافیائی تنوع اسے پاکستان کے سب سے خوبصورت اور اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک بناتا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے آپ مقامی سیاحتی گائیڈز یا تاریخی کتب سے رجوع کر سکتے ہیں۔

اقتصادی پہلو

  • یہاں کی معیشت زیادہ تر زراعت، مویشی بانی اور سیاحت پر منحصر ہے۔
  • گندم، جو، مکئی، آلو، خوبانی، سیب، اخروٹ یہاں کی اہم پیداوار ہیں۔
  • زمانه قديم ميں بلتستان كے ديگر مقامات سے لوگ يهاں بغرض تجارت آتے اور مختلف اشياء كے بدلے يهاں سے گندم، خشك خوباني وغيره لے جاتے تھے، اس وقت شايد پوري دنيا ميں هي باٹر سسٹم رائج تھا۔
  • شگر ميں سنگ مرمر كا ايك پهاڑ هے جس كو كاٹ كر دوسرے اضلاع ميں بھيجے جاتے هيں۔
  • شگر ميں معدنيات بلتستان كے ديگر مقامات كي نسبت بهت زياده هے، ا س لئے يهاں مائننگ كا كام بھي بهت اچھے مقامي اور غير مقامي لوگوں كے لئے اقتصادي خوشحالي كا سبب هے۔
  • زهر مهره كي پيدا وار بلتستان ميں صرف شگر ميں هي هوتي هے، يه ايك قيمتي پتھر هے جو كه زهر كے لئے بطور ترياق استعمال كيا جاتا هے، اس كي مختلف چيزيں مثلا برتن، گلاس، لاكٹ وغيره بنا كر فروخت كئے جاتے هيں۔
  • حالیہ برسوں میں شگر ڈویلپمنٹ پروگرامز کے تحت مقامی معیشت میں بہتری آئی ہے۔

خلاصه كلام:

وادی شگر قدرتی حسن، تاریخی عظمت اور ثقافتی تنوع کا خوبصورت امتزاج ہے۔ یہ وادی نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ آج یہاں تعلیم، سیاحت، معیشت اور تمدن کے کئی دروازے کھل چکے ہیں، جو اس خطے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں شگر پاکستان کا ایک اہم ثقافتی اور سیاحتی مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

حوالہ جات:

1.       IUCN Pakistan: Environmental Profile of Shigar Valley

2.      "Gazetteer of Kashmir and Ladakh"

3.    Baltistan Cultural Foundation Reports

4.    Lonely Planet – Northern Pakistan Travel Guide

5.     “History of Baltistan” by A.H. Dani

6.     Tourism Development Corporation Gilgit-Baltistan

7.    Local Oral Histories – Interviews with Elders of Shigar

8.    مطالعه بلتستان از ايم نذير كريسي

9.      وادي شگر، از ابراهيم عبد الله يوگوي

10.    بلتستان ميں اشاعت اسلام كا تحقيقي جائزه، از ابراهيم عبد الله يوگوي


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)