حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ: حیات طيبه و شهادت

0

 

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ: حیات طيبه و شهادت

تاریخِ انسانیت میں کچھ شخصیات ایسی نمایاں ہوتی ہیں جن کا وجود خود ایک مکتب بن جاتا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ان ہی درخشندہ چہروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے نہ صرف علم، تقویٰ اور زہد کا پیکر بن کر امت کی رہنمائی کی، بلکہ ظلم کے خلاف قیام کر کے دینِ محمدی ﷺ کی آبیاری اپنے لہو سے کی۔ آپ کی ذاتِ گرامی، علم و حکمت، بصیرت و فہم، عبادت و شجاعت، اور ایثار و قربانی کی جامع تصویر تھی۔

شجره نسب:

آپ کا شجرہ نسب یوں ہے: الحسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم۔
والدہ محترمہ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا، جگرگوشۂ رسول ﷺ تھیں۔

ولادتِ باسعادت:

 آپ کی ولادت مدینہ طیبہ میں ۵ شعبان ۴ ہجری (مطابق 626ء) کو ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے ازراہِ شفقت آپ کے کان میں اذان و اقامت کہی، اور ساتویں دن عقیقہ کر کے نام "الحسین" رکھا۔

(ديكھئے ابن حجر، الاصابہ، ص: 2/ 68، سنن ابی داود، حدیث: 2840 ، طبری، تاریخ الامم، ص: 4/ 236)

آپ كے لئے رسول ﷺ كي محبت:

امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی ابتدائی زندگی نبی کریم ﷺ کے زیرِ سایہ گزاری۔ رسول اللہ ﷺ ان سے اور ان كے بڑے بھائي حضرت حسن رضى الله عنه سے بے پناہ محبت فرماتے، چنانچه ايك حديث ميں هے :

عَنْ البَرَاءِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَبْصَرَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»(جامع الترمذي ابواب المناقب حديث نمبر3782)

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) کو دیکھا تو فرمایا:

"اے اللہ! بے شک میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما!"

ايك اور روايت ميں حسن و حسين رضي الله عنهما سےمحبت آپ صلى الله عليه و آله و سلم خود سےمحبت اور ان دونوں سےبغض آپ  ﷺ سےبغض ركھنے كے مترادف قرار ديتے هوئے فرمايا:

من أحب الحسن والحسين فقد أحبني ومن أبغضهما فقد أبغضني.( المعجم الكبير للطبراني، حديث نمبر: 2828، ابن سعد،الطبقات الكبري ص:6/362، طبع الخانجي)

جس نے حسن اور حسین سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان دونوں سے دشمنی رکھی، اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔

ايك روايت ميں يوں مروي هے:

عن أبي هريرة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه حسن وحسين هذا على عاتقه وهذا على عاتقه وهو يلثم هذا مرة وهذا مرة، حتى انتهى إلينا فقال له رجل: يا رسول الله إنك لتحبهما فقال: من أحبهما فقد أحبني ومن أبغضهما فقد أبغضني.(ابن سعد الطبقات الكبري ص: 6/363)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ کے ساتھ حسن اور حسین تھے۔ ایک کو آپ ﷺ نے اپنے ایک کندھے پر اٹھایا ہوا تھا اور دوسرے کو دوسرے کندھے پر۔ آپ ﷺ کبھی ایک کو چومتے اور کبھی دوسرے کو۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ ہمارے قریب آ گئے۔ تو ایک شخص نے عرض کیا:یا رسول اللہ! آپ یقیناً ان دونوں سے بہت محبت کرتے ہیں؟  آپ ﷺ نے فرمایا: "جس نے ان دونوں سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔"

ايك حديث آپ رضى الله عنه سے رسول كريم صلى الله عليه و آله وسلم كي محبت  و شفقت كے اظهار كو يوں بيان كيا گيا هے:

عن يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى طَعَامٍ دُعُوا لَهُ فَاسْتَنْتَلَ   رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَامَ الْقَوْمِ، وحُسَيْنٌ مَعَ غِلْمَانٍ يَلْعَبُ، فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَأْخُذَهُ قال: فَطَفِقَ الصَّبِيُّ يَفِرُّ هَا هُنَا مَرَّةً وهَا هُنَا مَرَّةً فَجَعَلَ رَسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُضَاحِكَهُ حَتَّى أَخَذَهُ فَوَضَعَ إحدى يديه تَحْتَ قَفَاهُ والأُخْرَى تَحْتَ ذَقْنِهِ، فَوَضَعَ فَاهُ عَلَى فِيهِ فَقَبَّلَهُ وَقَال: حُسَيْنٌ مِنِّي وأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الأَسْبَاطِ".(مسند أحمد: 4 / 272، والتِّرْمِذِيّ ابواب المناقب، حديث نمبر  3775  ، والمستدرك  3 / 177  ، وتاريخ ابن عساكر  رقم112  و  113  و  114)

 یَعْلَى بْنِ مُرَّةَ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک کھانے کی دعوت پر نکلے۔ رسول اللہ ﷺ لوگوں سے آگے ہو گئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کچھ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں پکڑنا چاہا، تو بچہ اِدھر اُدھر دوڑنے لگا، کبھی اِس طرف جاتا کبھی اُس طرف۔ رسول اللہ ﷺ اُنہیں ہنسانے لگے (مسکرا کر ان کے ساتھ کھیلنے لگے)، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے انہیں پکڑ لیا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ ان کے پشت کے نیچے رکھا اور دوسرا ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا، پھر اپنا منہ اُن کے منہ پر رکھا اور انہیں بوسہ دیا، اور فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ اُس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے۔ حسین تو ایک سبط (یعنی نبی کی نسل سے خاص گروہ) ہے ان اسباط میں سے۔

ايك اور حديث ميں حسنين كريمين  رضى الله عنهما كےلئے آپ كي محبت و شفقت كويوں بيان كيا گيا هے:

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ المِنْبَرِ فَحَمَلَهُمَا وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " صَدَقَ اللَّهُ  إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ. [التغابن: 15] نَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِيثِي وَرَفَعْتُهُمَا.(جامع الترمذي  ابواب المناقب باب ابي محمد الحسن بن على و الحسين بن على رضي الله عنهما ، حديث نمبر 3774)

عبداللہ بن بریدہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) سرخ قمیصیں پہنے ہوئے آئے، وہ چل رہے تھے اور ٹھوکر کھا رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ منبر سے اُتر آئے، ان دونوں کو اُٹھا لیا اور اپنے سامنے بٹھا لیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا: {بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں} (سورۃ التغابن: 15) ۔پھر فرمایا: 'میں ان دو بچوں کو چلتے اور گرتے دیکھ رہا تھا، میرا دل نہ مانا کہ میں بات مکمل کروں، چنانچہ میں (خطبہ) درمیان میں چھوڑ کر نیچے آ گیا اور ان دونوں کو اُٹھا لیا۔

جنت كے سردار:

رسول كريم صلى الله عليه و آله وسلم نے حضرت حسن  و حسين كو جنت نو جوانوں كا سردار قرار ديا هے ، يه ان كي بهت بڑي فضيلت هے جيسا كه حديث كي متعدد كتابوں ميں مذكور هے، جامع ترمذي ميں هے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ ‌سَيِّدَا ‌شَبَابِ ‌أَهْلِ ‌الجَنَّةِ»(ترمذي ابواب المناقب باب مناقب ابي محمد الحسن بن على و الحسين بن على رضى الله عنهما حديث نمبر 3768)

حضرت ابو سعيد الخدري كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه و سلم نے فرمايا:حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔

سید عربی میں سردار، پیشوا، رہنما کو کہتے ہیں۔جمع "سادة" آتی ہے، یعنی وہ جو اپنے حسنِ اخلاق، تقویٰ، علم، عبادت اور قربِ الٰہی کی وجہ سے دوسروں پر فائق ہوں۔یہاں "سیدا" تثنیہ ہے، یعنی دو سردار۔يعني حضرت حسن اور حضرت حسين رضى الله عنهما دونوں جنت كے نو جوانوں كے سردار هوں هوں گے۔

یہاں نبی ﷺ حسن و حسینؓ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار کہہ کر اُن کی عزت، وجاہت اور قیادت کی تصدیق فرما رہے ہیں۔

شباب عربی میں نوجوانوں کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد جنت میں وہ افراد ہوں گے جو دنیا میں ایمان و عمل صالح کے ساتھ جوانی کی عمر میں فوت ہوئے یا جو جنت میں جوانی کی صورت میں داخل ہوں گے (کیونکہ جنت میں سب داخل ہونے والے جوان ہوں گے)۔ لہٰذا، ان سب میں حضرت حسن و حسینؓ کا درجہ سرداری کا ہوگا۔

یہ فضیلت صرف نسب (یعنی نواسۂ رسول ہونا) کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی ذاتی صفات، تقویٰ، علم، حلم، شجاعت، سیرت، اور قربانی کی وجہ سے بھی ہے۔حضرت حسنؓ نے امت میں فتنہ نہ پھیلنے کے لیے اپنی خلافت سے دستبرداری اختیار کر کے امت کو خونریزی سے بچایا۔حضرت حسینؓ نے حق کے لیے اپنی جان، اہل و عیال کی قربانی دے کر شہادت کے اعلیٰ مقام کو حاصل کیا۔

علمی مقام و مرتبہ:

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نہ صرف حسب و نسب میں بلند تھے بلکہ علم و معرفت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ، حضرت علی، حضرت عمر، اپني والده حضرت فاطمہ، حضرت حسن، اور اکابر صحابہ کرام سے براہِ راست علم حاصل کیا۔

آپ رضى الله عنه  نے اپني كم عمري كے باوجود نبی کریم ﷺ سے ۲۰ سے زائد احادیث روایت کیں، جنہیں صحابہ، تابعین، اور محدثین نے جمع کیا۔ آپ سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں:

  • حضرت جابر بن عبداللہ
  • حضرت ابن عباس
  • بھائي حضرت حسن بن على
  • امام زین العابدین
  • سعید بن مسیب
  • آپ كي بيٹياں سكينه اور فاطمه وغيره

(ابن ماجہ، حدیث: 2185، مسند احمد، ج 1، ص 200،تهذيب الكمال في اسماء الرجال للمزي ص: 6/397،سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص 285)

  فقہی بصیرت:

آپ کئی فقہی مسائل میں بلند فہم رکھتے تھے اور خلفائے راشدین کے مشوروں میں شریک ہوتے۔ خاص طور پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ سے رائے لیتے۔ (الطبقات، ابن سعد، ج 5، ص 318، امام مالک، موطأ، باب القضاء)

عبادت، زہد اور روحانیت:

امام حسین کی عبادت گزاری مشہور تھی۔ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی راتیں قیام، رکوع اور سجدہ میں گزرتی تھیں۔ آپ کثرت سے روزے رکھتے، قرآن کی تلاوت کرتے، اور محتاجوں کی خفیہ مدد فرماتے۔ (ديكھئےامام نووی، تہذیب الاسماء، ج 1، ص 182، امام ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص 287)

اخلاق و سیرت کا بلند معیار:

آپ بردباری، حلم، سخاوت، اور عفو و درگزر میں معروف تھے۔  تاريخ كي كتابوں ميں آپ كے اخلاق اور سيرت سےمتعلق بهت سے واقعات مذكور هيں۔نمونے از خرارے چند ايك كا تذكره كيا جاتا هے:

عبد الله بن محمد قال سمعت عبد الرزاق يقول جعلت جارية لعلي بن الحسين تسكب عليه الماء يتهيأ للصلاة فسقط الإبريق من يد الجارية على وجهه فشجه فرفع علي بن الحسين رأسه إليها فقالت الجارية إن الله عز وجل يقول " والكاظمين ‌الغيظ " فقال لها قد كظمت غيظي قالت "والعافين عن الناس "  قال قد عفا الله عنك قالت "والله يحب المحسنين "  قال فاذهبي فأنت حرة. (ابن عساكر، تاريخ دمشق ص:41/387، دار الفكر  )

عبد اللہ بن محمد بیان کرتے ہیں: میں نے عبد الرزاق کو یہ کہتے ہوئے سنا:حضرت علی بن الحسین (زین العابدین) رضی اللہ عنہ کو ایک باندی (لونڈی) وضو کے لیے پانی ڈال رہی تھی۔اسی دوران لوٹے (ابریق) اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گِرا اور امام کے چہرے پر لگا، جس سے چہرہ زخمی ہو گیا۔

حضرت علی بن الحسینؓ نے سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا، تو باندی نے فوراً کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  " والكاظمين ‌الغيظ "(سورہ آلِ عمران: 134)'اور جو غصے کو پی جاتے ہیں'"

آپؓ نے فرمایا: "میں نے اپنا غصہ ضبط کر لیا (کظم کیا)"

پھر اُس نے کہا: "والعافين عن الناس "(اسی آیت کا اگلا حصہ)اور جو لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں"

آپؓ نے فرمایا: "اللہ نے تجھے معاف کر دیا"

پھر اس نے کہا:   ""والله يحب المحسنين "(اسی آیت کا اگلا حصہ)اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے"

آپؓ نے فرمایا: "جاؤ، تم اللہ کے لیے آزاد ہو"

ابن عساكر نے اسي سے متصل ايك اور واقعه بيان كيا هے:

 قال   موسى بن داود حدثني مولى بني هاشم أن علي بن الحسين دعا مملوكه مرتين فلم يجبه ثم أجابه في الثالثة فقال يا بني أما سمعت صوتي قال بلى قال فلم لم تجبني قال أمنتك (3) قال الحمد لله الذي جعل مملوكي يأمنني.(ابن عساكر، تاريخ دمشق ص:41/387، دار الفكر  )

موسیٰ بن داؤد نے روایت کی،کہ بنی ہاشم کے ایک آزاد کردہ غلام نے بیان کیا: حضرت علی بن الحسینؓ نے اپنے غلام کو دو بار بلایا، لیکن وہ خاموش رہا اور جواب نہ دیا۔ پھر تیسری بار جواب دیا۔

تو امام نے فرمایا: "اے بیٹے! کیا تم نے میری آواز سنی تھی؟"اس نے کہا: "جی ہاں، میں نے سنا تھا"

آپؓ نے فرمایا: "تو پھر تم نے فوراً جواب کیوں نہ دیا؟"

اس نے کہا: "میں نے آپ سے امن محسوس کیا، اس لیے توقف کیا"

آپؓ نے فرمایا: "سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے میرے غلام کو بھی مجھ سے امن میں رکھا (یعنی میرے اخلاق ایسے بنائے کہ غلام بھی مجھ سے نہ ڈرے)"

اس واقعه سے درج ذيل باتيں اور نكات نماياں هوتي هيں جو كه قابل غور هيں:

1.       حلم و ضبطِ نفس: امام نے نہ صرف غصے کو پی لیا بلکہ معاف بھی کیا۔

2.     قرآن پر عمل: قرآن کی آیات کی روشنی میں فوری طور پر جذبات کو قابو میں لایا گیا۔

3.    احسان و آزادی: باندی کو آزاد کر دینا امام کے اعلیٰ اخلاق کا مظہر ہے۔

4.    انسانیت کی عزت: غلام کے احساسِ تحفظ پر خوشی کا اظہار، قیادت کا اعلیٰ ترین معیار ہے۔

سیاسی شعور اور قیامِ حق:

حضرت امام حسین کا سیاسی نظریہ قرآن و سنت پر مبنی تھا۔اور وه چاهتے تھے كه اسلامي سلطنت كي باگ دوڑ كسي ايسے شخص كے هاتھ ميں نه رهے جس كا كردار مشكوك هو،حضرت امام حسینؓ یزید کے کردار سے سخت نالاں تھے۔ ماہِ رجب 60 ہجری میں حضرت  امیر معاویہؓ کے انتقال کے بعد یزید نے تخت سنبھال لیا۔ اسے معلوم تھا کہ اس معاملہ میں سب سے زیادہ مخالفت کی آواز سیدنا حسینؓ کی جانب سے اٹھے گی۔ اس نے چاہا کہ سیدنا حسینؓ اس کی بیعت کر لیں مگر وہ اپنی کوشش میں ناکام رہا، جب يزيد نے آپ رض سے بيعت ليني چاهي تو آپ   مدینہ سے نکل کر   مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔  (البدایہ)

 جب آپؓ کے مکہ پہنچنے پر لوگ دیوانہ وار آپؓ کے پاس آنے لگے۔ ادھر کوفہ سے بھی آپؓ پر خطوط کا تانتا بندھ گیا کہ آپ جلد کوفہ آئیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے لئے ہماری گردنیں حاضر ہیں، آپ آئیں اور ہمیں سنبھالیں چنانچہ آپؓ نے عراق جانے کا ارادہ کر لیا اور مکہ مکرمہ سے روانہ ہو گئے۔

شيخ عبد الحق محدث دهلوي لكھتے هيں:

" جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو معلوم ہوا کہ سیدنا حسینؓ عراق کا قصد(ارادہ) کر کے نکل پڑے ہیں تو آپؓ ان کے پیچھے گئے، تین دن کی مسافت طے کرنے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے انہیں روکا۔ سیدنا حسینؓ نے کہا کہ میں عراق اس لئے جا رہا ہوں کہ وہاں کے لوگوں نے عہد وپیمان کیا ہے اور مجھے خطوط بھیجیے ہیں۔ حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے کہا کہ آپؓ کبھی ان کے عہد و پیمان پر بھروسہ نہ کریں اور ان کے خطوط پر التفات نہ کریں، سیدنا حسینؓ نے آپؓ کی بات نہ مانی اور رخصت ہونے لگے تو حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے آپؓ کو گلے لگا لیا اور بہت روئے۔ (ديكھئے آداب الصالحین: صفحہ 177،  سیر اعلام النبلاء للذهبي: صفحہ 1489))

ان كے علاوه حضرت امام حسینؓ كے بھائي محمد بن حنفيه اور عبد الله بن عباس، عبد الله بن زبير  جيسے ديگر صحابه كرام نے آپ كو كوفه جانے سے روكا مگر چونكه آپ نے اهل كوفه كي طرف سے آئے هوئے خطوط كي وجه سے حضرت مسلم بن عقیلؓكو حالات كا جائز پيش كرنے كے بھيجا تھا اور جب وه وهاں پهنچے تو اهل كوفه كے جوش و خروش كو ديكھ كر پهلے انهوں نے آپ كو بھي وهاں آنے كي دعوت دي مگر جب يزيد كے فوج كو پته چلا اور وه كوفه ميں آ كر اهل كوفه كو خبر دار كيا تو سارے  حضرت مسلم بن عقيل رض كے ساتھ كئے هوئے اپنے عهد و پيماں سے مكر گئے اور حضرت مسلم بن عقیلؓكو بھي انهوں نے تنها چھوڑ ديا  آخر کار وہ شہید کر دیئے گئے۔

آپ كے چاهنے والے عزيز و اقارب سب نے اهل كوفه كي بد عهديوں كے پيش نظر آپ كو كوفه جانے سے منع كيا مگر   آپؓ اپنا ارادہ بدلنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور عراق کی جانب چل دیئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہاں پھر وہی کچھ ہوا جس کا اندیشہ ان بزرگوں (بالخصوص آپؓ کے برادرِ اکبر سیدناحسنؓ) نے کیا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے آپؓ کو خطوط لکھے اور آپؓ کی مدد و نصرت کے وعدے کئے انہوں نے ہی آپؓ کی حمایت سے ہاتھ اٹھا دیئے اور  آپؓ کو اپنے رفقاء کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا۔

حادثه فاجعه:

محرم ۶۱ ہجری کو آپ نے کوفہ کے دعوت نامے پر سفر اختیار کیا، مگر اهل كوفه نے غدر كيا اور آپ كي بجائے مخالف فوج كي مدد كي اور ابن زياد كے ساتھ كھڑے هوگئے۔

مؤرخين لكھتے هيں:

اور آپؓ ذی الحجہ 60 ھجری کو مکہ مکرمہ سے عراق روانہ ہوئے، راستہ میں حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی اطلاع بھی ملی تو آپؓ نے اپنے رفقاء کو جمع کر کے فرمایا:"قد خذلنا شيعتنا" (شیعہ کتاب خلاصۃ المصائب صفحہ 49)

ملا مجلسي لكھتے هيں:" شيعان مادست از يارى ما برداشت اند"( جلاء العیون از ملاّ باقر مجلسی وناسخ التواریخ صفحہ 163)

بیشک میرے شیعوں نے مجھے چھوڑ دیا اور میری مدد کرنے سے اپنا ہاتھ اٹھالیا۔

آپؓ نے انا للّٰہ پڑھا اور لوگوں نے کہا کہ اب اللّٰہ ہی آپؓ کا محافظ ہے آپؓ نے فرمایا کہ ان کے بعد اب زندگی کا مزہ بھی نہیں رہا۔

حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ  (852ھ) لکھتے ہیں کہ :

حر بن یزید نے آپؓ سے کہا کہ خدارا واپس چلیے، میں نے وہاں آپؓ کے لئے کوئی بھلائی نہیں چھوڑی، پھر آپؓ کو سارا واقعہ بتلایا۔ آپؓ نے پلٹنے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن مسلمؓ کے بھائی نے کہا کہ جب تک ہم بدلہ نہیں لے لیتے یا قتل نہیں ہو جاتے واپس نہیں جائیں گے چنانچہ یہ لوگ چل پڑے اور آپؓ کربلا آئے، آپؓ کے ساتھ 45 لوگ سواری پر تھے جبکہ 100 کے قریب افراد پیدل چل رہے تھے۔ (ديكھئے الاصابہ:  ص:جلد 1/ 333)

سیدنا حسینؓ نے جب اپنے ہی شیعوں کی بے وفائی کھلی آنکھوں دیکھ لی اور سمجھ لیا کہ یہ لوگ مجھے دھوکہ دے کر یہاں لائے ہیں اور اب مجھے اکیلا چھوڑ گئے ہیں تو آپؓ نے حالات کے پیش نظر فریقِ مقابل کے سربراہ عمرو بن سعد سے کہا کہ میں تین باتیں پیش کر رہا ہوں ان میں سے ایک چیز آپ اختیار کر لیں۔

1...میں اسلامی سرحدوں میں سے کسی ایک سرحد پر نکل جاؤں اور وہاں جاکر اسلامی فوج کی حفاظت کروں اور ان کے ساتھ مل کر اعدائے اسلام کا مقابلہ کروں ۔

2...میں واپس مدینہ منورہ چلا جاؤں ۔

3...یا میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دے دوں۔

چنانچہ عمرو بن سعد نے ان کی بات قبول کر لی اور یہ معاملہ عبید اللّٰہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ عبید اللّٰہ بن زیاد نے جواب دیا کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو میرے حوالے کریں پھر بات آگے چلے گی۔( ایک روایت میں ہے کہ یہ بات شمر نے کہی کہ سب سے پہلے ابن زیاد کی بات مانی جائے گی اور اس کی بیعت کی جائے گی پھر بات آگے بڑھے گی ) سیدنا حسینؓ نے یہ بات قبول نہ فرمائی۔ ظاہر ہے کہ اب جنگ کے سوا کون سا راستہ نکل سکتا تھا۔

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ ( 728ھ) لکھتے ہیں:

أَرَادَ الرُّجُوعَ فَأَدْرَكَتْهُ السَّرِيَّةُ الظَّالِمَةُ، فَطَلَبَ أَنْ يَذْهَبَ إِلَى يَزِيدَ، أَوْ يَذْهَبَ إِلَى الثَّغْرِ، أَوْ يَرْجِعَ إِلَى بَلَدِهِ، فَلَمْ يُمَكِّنُوهُ مِنْ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ حَتَّى يَسْتَأْسِرَ لَهُمْ، فَامْتَنَعَ، فَقَاتَلُوهُ حَتَّى قُتِلَ شَهِيدًا مَظْلُومًا - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -. ( المنتقی: ص: 268،و  منہاج السنۃ: ص:جلد 4 / 472 ،و  6 / 340)

سیدنا حسینؓ نے نے کربلا سے واپس لوٹ جانے کا ارادہ کیا تو ظالم لشکر نے آپؓ کو روک لیا، آپؓ نے یزید کے پاس جانے کی مہلت طلب کی یا سرحد کی طرف چلے جانے یا پھر اپنے شہر مدینہ منورہ لوٹ جانے کی پیش کش کی مگر انہوں نے آپؓ کی ایک بات قبول نہ کی اور کہا کہ پہلے آپؓ ان کے قیدی بن جائیں مگر آپؓ نے خود کو ان کے حوالہ کرنے اور عبید اللّٰہ بن زیاد کے پاس جانے سے صاف انکار کر دیا اور جنگ کی یہاں تک کہ آپؓ کو قتل کر دیا گیا اور آپ مظلوم شہید ہو گئے۔ رضی اللّٰہ عنه

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ ( 852ھ) لکھتے ہیں :

قال له الحسين: اختر مني إحدى ثلاث: إما أن ألحق بثغر من الثّغور، وإما أن أرجع إلى المدينة، وإما أن أضع يدي في يد يزيد بن معاوية.فقبل ذلك عمر منه، وكتب به إلى عبيد اللَّه، فكتب إليه لا أقبل منه حتى يضع يده في يدي، فامتنع الحسين، فقاتلوه فقتل معه أصحابه وفيهم سبعة عشر شابّا من أهل بيته، ۔۔۔۔۔الخ (الاصابہ: ص: 2 / 71)

مؤرخ ابن جریر طبری نے تاریخ طبری میں (دیکھئے جلد 4 صفحہ 207) حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ نے اپنی تاریخ دمشق میں، امام شمس الدین ذہبی (748ھ) نے سیر اعلام النبلاء( دیکھئے جلد 3، صفحہ 210) میں بھی مذکورہ بیان نقل کیا ہے۔

اسي طرح اس واقعه كو شیعہ علماء و مؤرخین اور محدثین ميں سے درج ذيل نے بھي ايسے هي    اپني حسب ذيل كتابوں ميں نقل كيا هے ۔

ابو الفرج الاصفہانی ( 356ھ) نے مقاتل الطالبیین (دیکھئے جلد 2) میں، شیخ مفید( 413ھ) نے اپنی معروف کتاب الارشاد (دیکھئیے صفحہ 213) میں، ملا باقر مجلسی نے بحار الانوار ( دیکھئے جلد 10 صفحہ 211) میں اور شیخ عباس قمی( 1359ھ) نے منتہی الاَمال(دیکھئے صفحہ 335)  ۔

شهادت مظلوم:

سیدنا حسینؓ نے اپنی بات ان تک پہنچا دی تھی۔ آپؓ چاہتے تھے کہ یہ معاملہ امن کے ساتھ کسی نتیجہ پر پہنچ جائے لیکن ابنِ زیاد اور شمر نے آپؓ کے پیغامِ امن کو جنگ میں بدلنے کی پوری منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ وہ نہ چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ پر امن طور پر حل ہو جائے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر سیدنا حسینؓ اور یزید کے درمیان ملاقات ہو جاتی ہے پھر ان کے ناپاک ارادے اور مکروہ منصوبے ناکام ہو جائیں گے اسی لیے وہ اسی بات پر مصر رہے کہ سیدنا حسینؓ اپنے آپ کو پہلے ہمارے حوالہ کریں اور ہماری بیعت کریں پھر بات آگے چلے گی۔ مگر سیدنا حسینؓ نے ابن زیاد کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا۔

 پھر وہاں تاریخ کا وہ المناک غمناک اور افسوسناک حادثہ رونما ہوا جس کے تکلیف دہ اثرات سے امت مسلمہ اب تک تڑپ رہی ہے۔ آپؓ کے سامنے آپؓ کے اہل و عیال اور دوست احباب یکے بعد دیگرے شہید ہوتے گئے۔ چھوٹا بچہ آپؓ کے ہاتھ پر تھے ظالموں نے اسے بھی اپنے ظلم کا نشانہ بنا لیا۔ سیدنا حسینؓ اکیلے رہ گئے، ظالموں نے آپ پر پے در پے حملے کر کے زخمی کر دیا، زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپؓ کی طاقت جواب دے گئی اور شقی القلب کوفیوں نے آپؓ کو نہایت ہی بے رحمی سے شہید کردیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ بدن کے مختلف حصوں پر زخموں کے علاؤہ 33 زخم تیروں کے اور 34 زخم تلواروں کے تھے۔ آپؓ نے 10/ محرم الحرام 61ھ جمعہ کے دن عصر کے وقت عراق کے شہر کربلا میں جام شہادت نوش کیا، اس وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔ رضی الله تعالى عنه.

سیدنا حسینؓ کے ساتھ اور 72 حضرات بھی شہید ہوئے۔ محمد بن حنفیہؒ کا بیان ہے کہ آپ کے ساتھ شہید ہونے والوں میں سترہ افراد سیدہ فاطمہؓ کی اولاد میں سے تھے۔ (ديكھئے  البدایہ: ص: 9  / 189،   212،سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص 240)

علمی وراثت کا تسلسل:

آپ کے علمی ورثے کو آپ کے صاحبزادے امام زین العابدین، پھر امام محمد باقر، اور امام جعفر صادق نے آگے بڑھایا۔ ان حضرات نے اسلامی فکر، فقہ، روحانیت، اور اخلاقیات کی کئی جہتیں امت کو عطا کیں۔(الامام جعفر الصادق، عبد الحلیم الجندی، ص 56، تاریخ الخلفاء، جلال الدین سیوطی، ص 192)

نتیجہ: حسین رضی اللہ عنہ ایک درسگاہ:

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک درسگاہ، ایک تحریک، اور ایک صدائے حق ہیں۔ ان کی علمی بصیرت، اخلاقی عظمت، اور قربانی ہر اس شخص کے لیے مشعل راہ ہے جو دینِ محمدی ﷺ کو سر بلند دیکھنا چاہتا ہے۔

مراجع  و مصادر:

مضمون هذا كي تياري ميں درج كتب و مصادر سے استفاده كيا گيا۔

1.       امام بخاري- صحيح بخاري

2.     ابو داود- سنن ابي داود

3.    امام ترمذي- جامع الترمذي

4.    ابن ماجه- سنن ابن ماجه

5.     امام ابن حنبل- المسند

6.     امام حاكم- مستدرك حاكم

7.    ابن حجر عسقلانیالاصابہ فی تمییز الصحابہ

8.    ابن تيميه _  منهاج السنة

9.      ابن تيميه_المنتقي

10.    امام ذہبیسیر اعلام النبلاء

11.     طبریتاریخ الامم والملوک

12.   بلاذریانساب الاشراف

13.  ابن کثیرالبدایہ والنہایہ

14.  ابن سعدالطبقات الکبریٰ

15.   سبط ابن جوزیتذکرۃ الخواص

16.   نوویتہذیب الاسماء

17.  امام مالکالموطأ

18.  جلال الدين سيوطي- تاريخ الخلفاء

19.    ابن عساكر-  تاريخ دمشق

20. طبري- تاريخ الامم و الملوك

21.    ابو الفرج الاصفہانی  -   مقاتل الطالبیین

22. عبد الحق محدث دهلوي- آداب الصالحين

23.                       شیخ مفید- کتاب الارشاد

24.                          ملا باقر مجلسی -  بحار الانوار

25. ملا باقر مجلسي - جلاء العيون

26. ملا باقر مجلسي- خلاصة المصائب

27.                        شیخ عباس قمی- منتہی الاَمال

28.   عبد الحليم الجندي- الامام جعفر الصادق

29.  مرزا محمد تقي سپهر- ناسخ التواريخ

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)