انسان کی بے بسی
تحریر: ابراہیم عبد اللہ یوگوی
اللہ تعالی
نے اس کائنات کو بنایا پھر اس میں اپنی نیابت کے لئے انسان کو بنا کر بسایا اور
پھر اس کو بے پناہ قوت’ علم اور اختیار دیا کہ وہ کائنات کی دوسری چیزوں کو اپنی
قوت اور علم و حکمت کے ذریعہ مسخر کرے’ چنانچہ انسان نے اس کائنات کے سر سو اپنی
ترقی و عروج کے جھنڈے گاڑے’ چاند پر قدم رکھا اور دوسرے سیاروں کی تسخیر کے لئے
روانہ ہوئے ’ خلا میں معلق ادارے قائم کئے بہت سے سٹلائٹ (Satellite) اور سیارچے خلا میں بھیجے تاکہ وہ ان کے ذریعہ اپنی تحقیق کو مزید
آگے بڑھائے۔ نیز سمندر کا سینہ چیر کر اس کے تہہ تک پہنچ گیا ۔
اپنی ترقی و
تقدم کو دیکھ کر انسان یہ سوچنے لگا کہ اس دنیا میں ’میں ہی ہوں میرے سوا یہاں کوئی
نہیں ہے چنانچہ وہ زمین پر فساد پھیلانے لگا اور بندگان خدا کو ستایا جانے لگا مگر
وہ یہ حقیقت بھول گیا کہ اس سے زیادہ طاقت ’ قوت’ علم و حکمت اس ذات کے پاس ہے جس
نے اس کی تخلیق کر کے اس دنیا کو آباد کیا اور پھر اس کو وہ کچھ سکھایا جو وہ
جانتا نہ تھا۔
اگرچہ اللہ
تعالی نے انسان کو بہت سارا اختیارات دیے ہیں مگر کلی اختیارات نہیں دئیے چنانچہ
ہم دیکھتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی اور خود کار مشینوں کے باوجود ایسے حادثات پیش
آتے ہیں جس سے انسان کی بے بسی اور لاچاری عیاں ہو جاتی ہے اور قدرت کے سامنے وہ
بے بس اور مجبور نظر آتا ہے۔چند سال قبل کی بات ہے کہ روس کا ایک طیارہ اسکول کے
کچھ طالب علموں کو لیکر جارہا تھا کہ اس کے مخالف سمت سے آنے والے جرمنی کے ایک
کارگو جہاز سے ٹکرا گیا۔ کہتے ہیں کہ جرمنی کے کارگو جہاز میں خود کار آلات نصب
تھے جو خطرے کے وقت سگنل دیتے تھے ’ اگر کوئی جہاز سامنے سے اسی روٹ پر آرہا ہو تو
وہ خود بخود نیچے ہو جاتا تھا تاکہ ٹکراؤ نہ ہو مگر یہاں اس کا یہ خود کار نظام
کوئی کام نہیں آیا اور دونوں جہاز ایک دوسرے سے ٹکرا گیا۔
اس طرح کے
واقعات کبھی کبھار پیش آتے رہتے ہیں تاکہ انسان کو اپنی بے قدرتی کا احساس دلایا
جائے۔ دنیا میں پیش آنے والے ایسے واقعات اللہ تعالی کی نشانیاں ہوتی ہیں’ ایسے
حالات اور واقعات کے ذریعہ اللہ تعالی بنی نوع انسان کو جھنجھوڑتا اور متنبہ کرتا
ہے کہ وہ راہ راست پر رہے اور اپنے جامہ سے باہر نہ جائے۔ گزشتہ سال کے آخری ایام یعنی
26 دسمبر 2004ء کو بحر ہند میں زلزلہ آیا جس کی وجہ سے سونامی(Tsunami) طوفان اٹھا’ گیارہ سے زائد ایشائی ممالک اس کے زد آگئے اور دو
لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے اور ہزاروں لوگ
معذور اور اپاہج ہو گئے۔ علاوہ ازین ہزاروں افرادلاپتہ ہو گئے ۔ اس سے اندازہ لگایا
جا سکتا ہے کہ اس سمندری طوفان نے کیا تباہی مچائی ہوگی کہ آن واحد میں لاکھوں
ہنستا بساتا گھرانے ملیامیٹ ہوکر صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے۔دنیا کے الآم و مصائب انسان
کو اس کی بے بسی اور لاچاری یاد دلاتے ہیں کہ تو مختار کل نہیں ہو کہ اپنی من مانی
کرتے پھرو تمہارے اوپر ایک سپر پاور ہے جس کے قبضہ قدرت میں کل کائنات ہے اسی کے
حکم سے کار جہاں چل رہا ہے اور ساری کائنات اسی کے رحم و کرم پر ہے’ اگر وہ چاہے
تو ایک سیکنڈ کے ہزاویں حصے میں یہ سارا عالم تباہ و برباد ہو سکتا ہے۔
یہ تباہی اور
بربادی اللہ کی طرف سے ایک طرح کی وارننگ (warning) اور جھٹکا ہے کہ بنی آدم اس سے سبق حاصل کر کے اپنے آپ کو خدا
سمجھنا چھوڑ دے اور اللہ کی زمین پر اس کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی
گزارنے کی کوشش کرے’اوریہ کہ آخرت کے لئے تیاری شروع کرے کیونکہ زلزلوں کی کثرت قیامت
کی نشانیوں میں سے ہے۔
یہ حادثات
اور واقعات کیوں پیش آتے ہیں۔ فطرت کے حادثات کو دو زاویہ نگاہ سے دیکھا جا سکتا
ہے۔ ہماری زمین پر قحط’ زلزلے’ طوفان’ ایسی طرح دوسری قسم کی آفتیں پیش آتی رہتی ہیں
۔ بعض فلسفیوں نے ان کو مطلق طور پر دیکھا توان کو ان واقعات (events) میں کوئی معنویت نظر نہیں آئی چنانچہ انہوں نے ان کوخرابی کا
مسئلہ (problem of evil) قرار
دیا اور ان سے سبق حاصل کرنے کی مطلق کوشش نہیں کی بلکہ ظاہری توجیہات پیش کرنے میں
لگ گئے اور حقیقت کے ادراک کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔
مگر نبی کریم ﷺ ان حالات اور واقعات کو جس زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ عبرت اور نصیحت کا زاویہ ہے۔ کہ جب ایسے غیر معمولی واقعات اور حالات پیدا ہو جائیں تو انسانوں کو چاہئے کہ اللہ کی طرف رجوع کرے ’ بکثرت تضرع ’ توبہ اور استغفار کرے ’ ۔ اس لئے کہ سب ہمارے شامت اعمال کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب کبھی سورج یا چاند گہنا جاتا تو رسول کریم ﷺ لوگوں کو مسجد میں جمع کرکے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے اور نمازوں کا اہتمام کرتے۔چنانچہ ایسے بڑے واقعات مثلا سورج اور چاند گرہن کے مواقع پر نماز پڑھنے’ دعا کرنے اور صدقہ دینے کا حکم ہے حدیث شریف میں ہے کہ :
اِنَّ الشَّمْسَ وَ
الْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ لاَیَخْسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَ لاَ
لِحَیَاتِہِ ، فَاِذَا رَاَیْتُمْ ذٰلِك فَصَلُّوْا.(صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب
الصلاۃ فی کسوف الشمس. صدقہ کے بارے میں بخاری باب من احب العتاقۃ فی کسوف الشمس)
سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں’ کسی کی
موت یا زندگی کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے’ جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو۔
رسول کریم ﷺ
کے فرمان کے مطابق یہ امور اور حادثات انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ ایک بڑے سخت
دن کی طرف بڑھ رہا ہے جب اللہ تعالی اپنی عظیم طاقتوں کے ساتھ ظاہر ہو گا اور تمام
انسان مجبوراً بے بسی کی حالت میں اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ یہ حادثات قیامت
سے پہلے قیامت کی یاد دہانی ہیں ۔ قدرت کے ان آفات کو ئی بھی رد نہیں کر سکتا نہ ہی
ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے لہٰذا عقلمند انسان وہ ہے جو اس قسم کے حالات اور
واقعات کو قدرت کی طرف سے ایک وارننگ سمجھتے ہوئے عبرت اور نصیحت حاصل کرے اور
اپنے اعمال اور کردار کا جائزہ لے کر اصلاح احوال کی کوشش کرے نہ کہ اس کو خرابی
کا مسئلہ قرار دے کر اپنے بد اعمالیوں میں مست رہے۔
زبردست ما شاء الله تبارك الله
جواب دیںحذف کریں