دینی اور دنیاوی علوم کا امتزاج کیوں ضروری ہے؟

0

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دینی اور دنیاوی علوم کا امتزاج کیوں ضروری ہے؟

تحرير: ابراهيم عبد الله يوگوي

            ایک مسلمان کے لئے دین اور دنیا دونوں ایک ہی چیز ہے’ اس لئے کہ وہ جس طرز زندگی کو اختیار کرتا ہے وہ سیرۃ نبوی کا آئینہ دار ہونا چاہئے اور سیرۃ نبوی کے مطابق زندگی گزارنا عین اسلامی ہے چاہے اس کا تعلق سیاسیات سے ہو یا معاشیات سے’ معاشرت سے ہو یا عدالت سے’ تعلیم سے ہو یا تیکنیک سے۔لہٰذا اسلامی نقطہ نظر سے دینی اوردنیاوی علوم دو جدا اور الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ہر وہ علم جو انسانی صلاح اور اخروی فلاح کی نیت سے حاصل کیا جائے وہ دینی ہے’ جس کے حصول کا حکم دیا گیا ہے۔

علامہ شدید لکھتے ہیں:

            ‘‘و العلم الذی یشید بہ القرآن و یدعو إلیہ هو العلم بمفهومہ الشامل الذی ینتظم کل ما یتصل بالحیاۃ و لا یقتصر علی علم الشریعۃ أو العلم الدینی کما یتبادر إلی بعض الأذهان أو ما ذاع فی عهود التخلف عن القرآن.’’ (منہج القرآن فی التربیۃ ص:۱۳۷۔۱۳۸)

            قرآن جس علم کی طرف بلاتا اور دعوت دیتا ہے اس سے مراد وہ علم ہے جس کے مفہوم میں ہر وہ علم شامل ہے جس کا تعلق زندگی سے ہے’ علم شریعت یا دینی علم تک محدود نہیں ہے جس طرح متبادر الی ذہن ہے یا قرآن سے دوری کے زمانے میں مشہور رہا ہے۔

            علم کوئی بھی ہو اس کے حصول کا بنیادی مقصد فلاح و نجاتِ انسانیت’ انسان اور انسانی معاشرے کو خوشحالیوں سے ہم کنار کرنا’ ان کے شعور کو بیدار کرنا’ انسان کے اندر جو صلاحیتیں پوشیدہ ہیں ان کو اجاگر کرنا اور کارزار حیات میں تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعے حیرت انگیز ایجادات کرنا انسانوں میں اخوت اور بھائی چارگی ’ عدل و انصاف اور محبت و الفت پیدا کرنے کے لئے اخلاقی قدریں پیدا کرنا ساتھ ہی معرفت کائنات اور معرفت خالق کائنات اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے عمل کے لئے انسان کو امادہ اور تیار کرنا ہے۔یہ ساری چیزیں بیک وقت دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ اس لئے اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ استعماری قوتوں کے ظہور سے پہلے تک دینی اور دنیاوی علوم میں کوئی فرق اور امتیاز نہیں تھا۔ مغربی دنیا جب تاریک دور (Dark Ages) سے گزر رہی تھی اس وقت اسلامی دنیا میں ہر طرف علم کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور علم کی روشنی سے نہ صرف خود منور تھی بلکہ ساری دنیا کو منور کر رہی تھی۔کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں مسلمان علماء اور سائنسدانوں نے کوئی کارنامہ انجام نہ دیا ہو۔ حملہ تاتار سے پہلے دنیائے اسلام میں علوم و فنون کے دریا بہہ رہے تھے۔ فارابی’ ابن رشد’ الکندی’ ابن سینا’ البیرونی’ ابن الہیثم جیسے ہزاروں علماء و حکماء تحقیق و تخلیق میں مصروف عمل تھے۔ جابر بن حیان علم کیمیا پر تقریبا ۱۰۰ کتابیں لکھ چکا تھا۔ عمر خیام فن ریاضی کے امام سمجھے جاتے تھے۔ طبعیات ’ طب ’ فلسفہ’ تاریخ’ جغرافیہ’ ریاضی’ ہیئت ’ ادب و تصوف غرض کوئی ایسا شعبہ نہیں تھا جس میں مسلمانوں نے کارہائے نماں انجام نہ دئیے ہوں۔

            مگر استعماری قوتوں نے مسلمانوں کو علمی طور پر انحطاط پذیر کرنے کے لئے ان کے تعلیمی نظام کو ٹارگٹ بنایا اور اس کو تہہ و بالا کر دیا’ اس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک کا نام دینی رکھ دیا اور دوسرے کا نام دنیاوی یا عصری رکھ دیا۔ان دونوں متوازی نظام تعلیم نے معاشرے پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب کئے’ معاشرے میں طبقاتی کشمکش اور بُعد کو جنم دیا۔ مسلمان اغیار کی سارشوں کا شکار ہو گئے’ تحقیق اور جستجو کو چھوڑ کر تقلیدی جمود کو اختیار کیااور اسی پر جم کر رہ گئے جبکہ مغرب نے اپنے تاریک دور سے نکل کر تحقیق و جستجو کی راہ کو اختیار کیا اور آج وہ اپنے علم و ٹکنالوجی کی بدولت پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے اور ہم فقط پدر ما سلطان بود کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ہمارے انحطاط اور زوال کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے آبا سے جو علم کا میراث پایا تھا اس کو چھوڑ دیا ’ جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ ایک عارضی شے تھی

نہیں   دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا

مگر وہ علم کے موتی’ کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتاہے سیپارا

            ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں جو نصاب تعلیم رائج ہے اس کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں اس نصاب تعلیم سے طالب علم خدا ترس’ متفی’ صابر و شاکر اور عابد و زاہد بن جاتا تھا مگر آج اس مادی دور میں یہ اوصاف بھی پیدا نہیں ہو رہے ۔ جبکہ اس کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ قرآن کریم بار بار تسخیر کائنات کا حکم دیتا ہے ’ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ہمارے علم کا ہاتھ زمین کے دفائن ’ سمندر کے خزائن اور فضاؤں کے اس پار مہ و انجم تک پہنچ سکے۔لیکن درس نظامی کے نصاب میں علوم طبیعی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ پھر یہ کہ یہ نصاب روح و آخرت کی اہمیت کا تو قائل ہے لیکن عالم اسباب کی کچھ زیادہ پرواہ نہیں کرتا۔ چنانچہ خالص دینی ادارے کے پڑھے ہوئے طلبہ جدید علوم سے مکمل طورپر بے بہرہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس جدید معاشرے میں وہ کوئی فعال کردار ادا نہیں کر سکتے۔حالانکہ اسلام میں انفس و آفاق ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جس طرح دنیائے ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے اسی طرح باطن کا بھی ایک ظاہر ہوتا ہے۔اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ممد و معاون ہوتے ہیں۔ اسلام دنیا اور آخرت ہر دو کی بہتری چاہتا ہے۔ جسم اور روح دونوں کو سنوارتا ہے اور جہان مادی کو ایک قسم کی لطیف معنویت عطا کرتا ہے۔

            دوسری طرف اسکولوں ’ کالجوں اور یونیورسیٹیوں کا ماحول اسلام اور اسلامی روایات و اقدار کا باغی بنایا گیا ہے۔ جدید عصری نظام تعلیم میں اسلامیات کی صرف پیوند کاری ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ جدت پسندی کے شوق میں اسلام’ قرآن’ اسلامی روایات اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے مکمل طور پر لا تعلق اور بے بہرہ نظر آتے ہیں۔نام کے تو مسلمان ہیں مگر وضع قطع’ تہذیب و تمدن’ اور رہن سہن کے اطوار اور آداب میں وہ مغرب کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کو ایک طرح سے فخر محسوس کرتے ہیں۔ بقول شاعر مشرق ؂

وضع میں تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائے یہود

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی اور دنیاوی علوم کو ملا کر ہم آہنگ کیا جائے۔ ایسا نصاب تعلیم مرتب کیا جائے کہ اس نظام کے تحت پڑھ کر فارغ ہونے والے طلبہ بیک وقت دینی اور دنیاوی علوم میں مہارت رکھتے ہوں ’ ایک اچھا عالم دین بھی ہو اور بہترین ڈاکٹر یا انجنیئر بھی’ ایک قابل ترین مذہبی اسکالر بھی اور اچھا سیاستدان بھی’ ایک باصلاحیت مفتی بھی ہو اور قابل معیشت دان بھی۔ ایسے لوگ اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتے جب تک ہمارا نظام تعلیم جدید انداز میں معاشرتی ’ سماجی اور عالمی ضروریات کو مد نظر رکھ کر از سر نو مرتب نہ کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی بعید نہیں کہ مسلمان ایک بار پھر دنیا کا رہبر اور رہنما ہوگا ’ دوسروں کے دست نگر بننے کے بجائے دست گیر بنیں گے۔

ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ

تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی ہے

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)