انشورنس اسلامی معیشت میں
تحریر: ابراہیم عبد اللہ یوگوی
آج کل مادہ
پرستی کا دور دورہ ہے’ مادیت کے حصول کے لئے روحانیت کو خیر باد کہہ دیا گیا ہے۔
اور جو روحانیت کے دعویدار ہیں وہ روحانیت کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی
سعی کر رہے ہیں۔ مادیت پرستی اور پرستی کی وجہ سے دنیا امن و سکون سے صرف محروم
ہوگئی ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کی جگہ قتل و غارتگری اورلوٹ کھسوٹ نے لے لی ہے۔ حصول
مال و زر کی آرزو اور تقسیم دولت کی ناہمواری کی وجہ سے ہی دنیا میں کمیونزم (Communism) سوشلزم (Socialism) اور
سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) جیسے
غیر فطری نظام متعارف کرائے گئے’ مگر سکون پھر بھی میسر نہیں آیا’ لوگ خوشحال ہونے
کی بجائے بدحال ہوگئے اور معاشی ناہمواری روز بروز بڑھتی گئی امیر امیر تر ہوتے
گئے اور غریب غریب تر۔ ان ہی معاشی مسائل کو حل کرنے اور ضرورتمندوں کی ضرورت پوری
کرنے کے لئے مختلف ماہرین معاشیات نے بہت سے اصول ’ ضابطے’ قواعد اور پالیسیاں
بنائیں اور معاشی خوشحالی کے نام پر سود اور قمار بازی کو خوب فروغ دیا گیا’ اور
نادار لوگوں کو محفوظ مستقبل کے سبز باغ دکھا کر لوٹ کا بازار گرم کیا گیا۔ اس پر
مستزاد یہ کہ جو لوگ ان غیر شرعی اور غیر اسلامی لین دین اور طریقہ تجارت سے دور
رہنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو بھی اس میں شامل ہونے کی ترغیب دینے کے لئے فتاوے
حاصل کئے گئے۔ اب غیر شرعی کاروبار کو شرعی بنا کر پیش کیاجا رہا ہے۔ ان فتاوؤں کے
ذریعہ سادہ لوح مسلمانوں کو پھنسایاجاتاہے تاکہ ان کے سودی اور قماری تجارت کو
فروغ ملے۔ ان ہی غیر شرعی طریقہ ہائے تجارت میں سے ایک مروجہ بیمہ یا انشورنس (Insurance) ہے۔ جس کی آج کل بہت تشہیر کی جا رہی ہے۔ ریڈیو’ ٹی وی’ اخبارات
اور سائن بورڈز کے ذریعہ لوگوں کو سہانے خواب دکھا کر اس کارِ بد میں شریک ہونے کی
دعوت دی جا رہی ہے۔ اس کو مستقبل میں ہر طرح کی آسائش کے حصول کا ضامن بنا کر پیش
کیا جا رہا ہے۔
انشورنس کی تعریف:۔
انشورنس جسے
اردو میں بیمہ کہا جاتا ہے کی تعریف عموماً یوں کی جاتی ہے یہ ایک ایسا معاہدہ ہے
جس میں ایک فرد/کمپنی (انشورنس کنندہ) دوسرے فرد (انشورنس شدہ ) کو ایک معینہ رقم
(Premium) کی ادائیگی کے بدلے میں کسی خاص واقعے (Event) کے ہونے کی صورت میں کچھ رقم ادا کرتا ہے۔ خاص واقعہ میں کسی غیر
یقینی (Uncertainty) کیفیت
کا پایا جانا ضروری ہے۔ یہ غیر یقینی کیفیت یا تو انسانی زندگی کے بیمہ کی صورت میں
ہو سکتی ہے جہاں موت تو یقینی ہے لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کا وقت غیر یقینی ہے یا
کسی متوقع حادثاتی واقعہ کی صورت ہو سکتی ہے جو شاید کبھی وقوع پذیر نہ ہو۔
(اسلام اور جدید اقتصادی نظریات ص۴۰۳)
آکسفورڈ ڈکشنری میں انشورنس کی یوں ہے:
insure v. (-ring) (often foll.
by against; also absolve.) secure compensation in the event of loss or damage
to (property, life, a person, etc.) by advance regular payments. [var. of
*ensure] (Please, see word "insure" Oxford Dictionary)
انشورنس کی
ابتداء کب ہوئی اس کے بارے میں مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں:
مشہور یہ ہے کہ اس کا آغاز چودھویں صدی عیسوی میں
ہوا۔ دوسرے ممالک کی تجارت میں مال بحری جہاز سے روانہ کیا جاتا تھا۔ بحری جہاز
ڈوب جاتے تھے اورمال کا نقصان ہوتا تھا۔ بحری جہاز کے نقصان کی تلافی کے لئے
ابتداً بیمہ کا آغاز ہوا۔(اسلام اور جدید معیشت و تجارت ص۱۵۹)
انشورنس کی
صورتوں اور پالیسیوں میں بہت زیادہ تنوع پیدا ہو چکاہے اور آئے دن اس کی نئی نئی
شکلیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ ان تمام صورتوں اور پالیسیوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ
انشورنس کمپنی اور انشور کرانے والے کے درمیان ایک مخصوص مدت کا معاہدہ ہوتاہے کہ
اس مدت میں وہ اتنی رقم (Premium)
بالاقساط کمپنی کو ادا کرے گا جس میں ہر قسط کی وضاحت ہوتی ہے کہ کتنے کی ہو گی۔ یہ
انشورنس کبھی انسان کے پورے وجود کا ہوتا ہے ’ کبھی جسم کے کسی خاص حصہ کا ’ کبھی
املاک کا۔
ظاہراً
انشورنس انسان کی معاشی زندگی کی محافظت اور اس کے مستقبل کو درخشاں بنانے کی ایک
جدید پالیسی ہے جس کی وجہ سے انسان بلا خوف و خطر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا
ہے اور مستقبل سے بے فکر ہوکر کاروباری خطرات کا سامنا کر تا ہے اور انسانی مصالح
کی خاطر مختلف اشیاء کی پیدائش (Production) میں
حصہ لیتا ہے۔
بیمہ کی اقسام:۔
جن خطرات کے
خلاف بیمہ کیا جاتا ہے ان خطرات کے لحاظ سے بیمہ کی تین بڑی قسمیں ہیں۔
1۔ اشیاء و املاک کا بیمہ (Goods
Insurance) :۔
اس کا طریقہ
کار یہ ہوتاہے کہ جو شخص کسی سامان یا شے (Good) مثلاً
کار’ جہاز’ کارخانہ’ مکان وغیرہ کا بیمہ کرنا چاہتا ہے وہ معین شرح سے بیمہ کمپنی
کو فیس یعنی پریمیم (Premium) ادا
کرتا رہتا ہے۔ اور اس بیمہ شدہ شے کو حادثہ لاحق ہونے کی صورت میں کمپنی اس کی مالی
تلافی کر دیتی ہے۔ اور اگر اس شے /سامان کو جس کا بیمہ کرایا گیا تھا کوئی حادثہ پیش
نہ آئے تو بیمہ دار نے جو پریمیم ادا کیا ہے وہ واپس نہیں ہوتا ۔ صرف حادثہ کی صورت
میں اس کی رقم واپس مل جاتی ہے جس سے وہ اپنے نقصان کی تلافی کر سکتاہے۔
2۔ ذمہ داری کا بیمہ:۔
اس کی صورت یہ
ہوتی ہے کہ کسی پر مستقبل میں کوئی ذمہ داری آ سکتی ہے اس ذمہ داری سے نمٹنے کے
لئے بیمہ کرایا جاتا ہے۔ مثلاً گاڑی روڈ پر لانے سے حادثے کے نتیجے میں کسی دوسرے
کانقصان ہوجانے کاخطرہ ہے اس صورت میں گاڑی چلانے الے پر مالی تاوان لازم ہو جائے
گا۔ اس کا بیمہ کرا لیا جاتا ہے اور حادثے کی صورت میں تاوان کی ادائیگی بیمہ کمپنی
کرتی ہے۔ اس کو عموماً تھرڈ پارٹی انشورنس (Third
Party Insurance) کہا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں گاڑی سڑک پر
لانے کے لئے یہ انشورنس قانوناً لازمی ہے۔
3۔ بیمہ زندگی (Life
Insurance) :۔
لائف انشورنس
یا بیمہ زندگی میں کمپنی بیمہ دار سے یہ معاہدہ کرتی ہے کہ اگر ایک مخصوص مدت میں
بیمہ دار کا انتقال ہو جائے تو بیمہ کمپنی طے شدہ رقم سے مع سود بونس اس کے نامزد
ورثاء کو ادا کرے گی۔ اس کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔ بعض صورتوں میں مدت مقرر ہوتی
ہے اور بعض صورتوں میں مدت مقرر نہیں ہوتی۔ اسی طرح طبعی اور حادثاتی موت کی صورت
میں ادائیگی مختلف ہوتی ہے۔
لائف انشورنس اور گڈز انشورنس میں فرق:۔
لائف انشورنس
اور گڈز انشورنس میں عمومی طور پر یہ فرق پایا جاتا ہے کہ سامان یا شے کی انشورنس
کی صورت میں اگر وہ خطرہ پیش نہ آئے جس کے لئے انشورنس کیا گیا تھا تو قسطوں کی
صورت میں ادا شدہ رقم (Premiums) واپس
نہیں کی جاتی’ حصول رقم کے لئے ضروری ہے کہ مقررہ مدت میں اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش
آ جائے اور اس کا مذکورہ سامان /شے تلف ہو جائے یا نقصان پہنچ جائے۔ جبکہ لائف
انشورنس میں معینہ مدت میں وفات نہ ہونے کی صورت میں بھی ادا کی ہوئی رقم مع سود
واپس مل جاتی ہے۔ اس طرح گڈز انشورنس میں سود اور قمار (جوا) دونوں پائے جاتے ہیں
جبکہ لائف انشورنس میں سود ہوتاہے۔
ہیئت ترکیبی کے اعتبار سے بیمہ کی اقسام:۔
ہیئت ترکیبی اور طریق کار کے اعتبار سے بیمہ کی
تین قسمیں ہیں۔
الف۔ گروپ انشورنس (Group Insurance) :۔
حکومت کوئی ایسا
طریقہ کار اختیار کرتی ہے جس میں افراد کے کسی مجموعے کو اپنے نقصان کی تلافی یا
کسی فائدے کے حصول کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ اس کاطریقہ کار اس طرح ہوتاہے کہ مثلاً
حکومت اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں سے تھوڑی سی رقم ہر ماہ کاٹ کر اسے ایک فنڈ میں
جمع کر لیتی ہے پھر ملازم کی وفات یا کسی حادثے کی صورت میں بھاری رقم خود ملازم یا
اس کے ورثاء کو ادا کر تی ہے۔
ب۔ میوچل انشورنس (Mutual Insurance) :۔
میوچل
انشورنش کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے خطرات و مفادات ایک جیسے ہوتے ہیں وہ آپس میں
مل کر ایک فنڈ (Fund) بنا لیتے ہیں اور یہ طے کر لیتے ہیں کہ ہم
میں سے کسی کو کوئی حادثہ یا نقصان پیش آ جائے تو اس فنڈ سے اس کے نقصان کی تلافی
کی جائے گی۔ اس فنڈ میں صرف ممبران کی رقم ہوتی ہے اور نقصان کی تلافی بھی صرف
ممبران کی حد تک ہوتی ہے۔ سال بعد حساب کر لیا جاتاہے اگر ادا کئے گئے معاوضات فنڈ
کی رقم سے بڑھ جائیں تو اسی حساب سے ممبران سے مزید رقم وصول کرلی جاتی ہے۔ اگر
فنڈ میں رقم بچ جائے تو ممبران کو واپس کر دی جاتی ہے یا ان کی طرف سے آئندہ سال
کے لئے فنڈ میں بطور حصہ جمع کر لیا جاتاہے۔
ابتداً بیمے
کی پہلی شکل یہی تھی ۔ اور چونکہ یہ ایک تعاونی تنظیم (Cooprative
Organization) کی طرح ہے ’ اس میں قمار یا سود کا کوئی
شائبہ نہین اس لئے محققین کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جتنے بھی علماء نے
بیمے پر گفتگو کی ہے سب اس صورت کے جواز پر متفق ہیں۔
ج۔ تجارتی بیمہ (Commercial Insurance):۔
تجارتی بیمہ
کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ بیمہ کمپنی قائم کی جاتی ہے ۔ اس کمپنی کا مقصد بیمہ
کو بطور تجارت اختیار کرنا ہوتاہے۔ اور اس کا اصل مقصد لوگوں کو نفع پہنچانا نہیں
ہوتا جیسا کہ عموماً یہ تاثر دیا جاتا ہے بلکہ اس کا اصل مقصد بیمہ کے ذریعہ خود
نفع کمانا ہوتاہے جیسے دوسری کمپنیاں مختلف کاروبار کے ذریعہ نفع کماتی ہیں۔ یہ
کمپنی مختلف قسم کے بیمہ اسکیمیں جاری کرتی ہے ۔ جو شخص بیمہ کرنا چاہتا ہے کمپنی
اس کے ساتھ معاہدہ کرتی ہے کہ اتنی رقم کی اتنی قسطیں (Premiums) آپ ادا کریں گے اور اتنی مدت کے دوران اگر بیمہ شدہ شے ضائع
ہوجائے یا اس کوئی نقصان پہنچ جائے تو اس صورت میں کمپنی آپ کے نقصان کی تلافی کرے
گی وغیرہ۔
اس سلسلے میں
کمپنی قسطوں کا تعین کرنے کے لئے حساب کر لیتی ہے کہ جس خطرہ (Risk) کے خلاف بیمہ کیا جاتا ہے وہ کتنی بار متوقع الوقوع ہے تاکہ ان
کے معاوضے ادا کرنے کے بعد بھی کمپنی کو نفع بچ سکے۔ اس حساب کے لئے ایک مستقل فن
ہے جس کے ماہر ایکچوری( Actuary) کہلاتا
ہے۔ آج کل کی انشورنس کمپنیاں اسی قسم کی ہیں ۔
اسلامی نظام
معیشت میں جہاں کسی بھی قسم کی ناجائز اور معاشرے کے لئے نقصان دہ سرگرمیوں کی
اجازت نہیں ہے وہاں جائز اور معاشرے کے فائدہ مند سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہی نہیں
کرتا بلکہ اس کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ گداگری کو معیوب قرار دیتا ہے جبکہ محنت مزدوری
کو عبادت کا درجہ دیتاہے۔ اسلام نے اپنے مخصوص معاشی اصول بتائے ہیں جن میں اکل
حلال اور جائز طریقے سے کمانے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اسلامی اصول
تجارت کے مطابق کسب کا طریقہ جائز اور پاک ہونا چاہئے ورنہ طلب رزق کے لئے کوئی
خاص ذریعہ متعین نہیں ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو انسانی مصالح کے تحفظ کے ضمن میں
انشورنس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو اسلامی معیشت سے خارج تو نہیں کیاجا سکتا البتہ
اس سلسلے میں کئی قسم کے قمار (جوا) اور سود کے عناصر کی ملاوٹ سے بچنا لازمی ہے۔
اگر کوئی ایسی پالیسی متعارف کرائی جائے جس میں سود اور جوا کا شائبہ نہ ہو تو اس
کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ڈاکٹر عنایت
اللہ صدیقی انشورنس کو انسانی بنیای ضرورت قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘انشورنس ایک
بنیادی ضرورت ہے یہ بات ان تمام حادثات اور ان کے مالی عواقب کے بارے میں درست ہے
جن سے ایک آدمی دو چار ہوسکتاہے۔ اچانک موت ’ معذوری’ علالت’ بے روزگاری’ آتشزدگی’
سیلاب’ ژالہ باری’ غرقابی اور نقل و حمل سے متعلق حادثات اور ان کے نتیجے میں واقع
ہونے والے مالی نقصان کی مخصوص اختیاری عمل پیسے وغیرہ پر مبنی نہیں ہیں۔ ان کے نتیجے
میں اکثر اوقات مثاتر ہونے والا فرد اور اس کا خاندان حقیقی محتاجی میں مبتلا
ہوجاتاہے۔ ان کے نتیجے میں ہر صورت افراد کی وہ معاشی کارکردگی متاثر ہوتی ہے جس
کا انحصار مال و املاک پر ہوتاہے۔ یہ حقیقت ان کا تقاضا کرتی ہے کہ زندگی کے ایک
بڑے دائرے میں انشورنس کو بنیادی انسانی ضرورت کادرجہ دیاجائے۔’’ (انشورنس اسلامی
معیشت میں ص ۸۰۔۸۱)
بلاشبہ انسانی
زندگی میں اونچ نیچ ’ غم و خوشی اور دکھ سکھ آتے رہتے ہیں۔ یہ انسانی زندگی کا حصہ
ہیں اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو زندگی بے کیف ہو کر رہ جائے۔ ان وجوہات کی بنا پر
انشورنس کو انسان کی بنیادی ضرورت قرار دینا درست نہیں اس لئے کہ انشورنس کے بغیر
بھی لوگ زندہ رہتے ہیں۔ بنیادی ضرورت تو وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کے بغیر زندگی نہ
گزاری جا سکے۔ پھر یہ کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کی وجہ سے حرام خوری کے دروازے
کھل جاتے ہیں۔ آج کل انشورنس کا جو نظام رائج ہے وہ سراسر سود اور قمار کے اصولوں
پر قائم ہے’ جسے نعیم صدیقی نے بجا طور پر ظلم سے تعبیر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
‘‘انشورنس
کاموجودہ سسٹم جسے سرمایہ دارانہ نظام نے تشکیل دیا ہے ایک نظر فریب قسم کا نظام
ظلم ہے۔ اس نظام ظلم کے تحت غریبوں سے اکٹھے کئے ہوئے سرمائے کا بھاری منافع بڑے
بڑے کاروباری اداروں ’ بنکوں اور خود انشورنس کمپنیوں میں بٹ جاتاہے۔ نیز بیمہ
کمپنیوں کے ڈائریکٹر تو بڑی چیز ہوتے ہیں ان کے ایجنٹ تک اتنے بڑے بڑے کمیشن اور
سفر خرچ وصول کرتے ہیں ’ سرکاری عہدوں پر رہ کر اتنی رقم کمائی نہیں جا سکتی۔ چند
سال کی محنت سے جو ایجنٹ ایک مقررہ مدت میں وثقیہ دار (Policyholder) فراہم کر دیتاہے وہ پھر بقیہ ساری عمر بغیر کام کئے اچھے معیار کی
زندگی گزار سکتاہے۔’’
(بیمہ
زندگی اسلامی نقطہ نگاہ سے’ ص۲۸)
استاد ابو
زہرہ انشورنس کے بارے میں یوں تبصرہ کرتے ہیں:
‘‘اگرچہ اس کی
اصلیت تعاون محض تھی لیکن اس کا انجام بھی ہر اس ادارے کا سا ہوا جویہودیوں کے
ہاتھ میں پڑا کہ یہودیوں نے اس نظام کو جس کی بنیاد ‘‘تعاونوا علی البر و التقوی’’
پر تھی اسے ایک ایسے یہودی نظام میں تبدیل کر دیا جس میں قمار (جوا) اور ربوا
(سود) دونوں پائے جاتے ہیں۔’’ (بحوالہ اسلام اور جدید اقتصادی نظریات ص۴۰۴)
بیمہ کمپنیاں
عوام الناس کو خصوصاً غریب لوگوں کو بڑے سبز باغ دکھاتی ہیں اور میڈیاز کے ذریعہ
نفسیاتی سحرکاری اور حسابی جادوگری کے ساتھ عوام کو محفوظ مستقبل کے سہانے خواب
دکھاتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کی سحر کاری میں آجائے اور اپنا سرمایہ ان
کے حوالے کر کے اپنے آپ کو محفوظ کر لیں ۔ حالانکہ جو لوگ غیر شرعی سرگرمیوں میں
حصہ لیتے ہیں حقیقتاً ان کا مستقبل تباہ ہو جاتاہے’ اس لئے کہ:
اولاً تو دنیاوی طور پر بیمہ کمپنیاں جو کچھ عوام کے جمع پونجی
سے کماتی ہیں ان میں سے اصل فائدہ تو وہی طبقہ اٹھاتاہے جس کے پاس پہلے سے ضرورت
سے زیادہ دولت سمٹ رہی ہوتی ہے اور حقیر سا یعنی برائے نام مفاد عوام کا ہوتاہے ۔
ثانیاً یہ کہ ہم بحیثیت مسلمان آخرت اور جزاء و سزا پر یقین
رکھتے ہیں’ اور آخرت کو ہی ابدی زندگی مانتے ہیں چنانچہ جس کی آخرت برباد ہوگئی حقیقت
میں وہ تباہ و برباد ہوگیا۔اس طور پر بیمہ کا کاروبار سراسر سود اورجوا ہے اور یہ
دونوں شریعت اسلامی میں قطعی طور پر حرام ہے۔ لہٰذا اس کے مرتکب کا مستقبل (آخرت)
محفوظ نہیں بلکہ تباہ ہو جاتاہے۔ جناب نعیم صدیقی لکھتے ہیں:
‘‘بیمہ عام
لوگوں کی مجبوراً ضرورت سہی بیمہ کمپنیاں ان کی خدمت کرنے نہیں آتیں ان کی پونجی
کو سود پر چڑھا کر نفع اندوزی کرنے نکلتی ہیں۔ ایسے کاروباری اداروں کا دوسروں کو
اخلاقی روح کا واسطہ دلانا بہت ہی ناقابل فہم بات ہے۔ ’’ آگے لکھتے ہیں:’’اگر ہم
بحیثیت ایک سچے خدا پرست مسلمان کے مسئلہ کو لیں تو ہمارے لئے اتنی بات جان لینا
کافی ہے کہ سودی کاروبار کی ہر شکل کوخدا او ررسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ کتاب الٰہی
اس بارے میں بالکل ناطق اور حدیث نہایت صریح ہے۔ کیوں نہ ہم بغیر کسی تاویل کے یہ
تسلیم کر لیں کہ سود پر چلنے والا نظام بیمہ اسلامی نہیں ہوسکتا۔‘‘ (بیمہ زندگی اسلامی نقطہ نظر سے ’ ص۲۸۔۲۹)
انشورنس ناجائزکیوں؟
انشورنس کے
صرف ایک طریقہ میوچل انشورنس کے علاوہ باقی تمام طریقوں کے ناجائز اور غیر اسلامی
ہونے پر اسلامی ماہرین معاشیات متفق ہیں۔ یاد رہے اسلامی ماہرین سے مراد وہ لوگ ہیں
جو اسلامی معیشت کے اصولوں کو جانتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی اصول
وضع کرنے کے حامی ہیں ورنہ بہت سارے ایسے مسلم معیشت دان ہیں جو ربوا کو بھی نہ
صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ اس کے حامی ہیں۔ اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا
یہ انشورنس / بیمہ اسلامی تعلیمات اور اصول تجارت کے منافی اور ان سے متصادم ہے۔
ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ انشورنس کمپنیاں جو روپیہ پریمیم (Premium) کی شکل میں وصول کرتی ہیں ان کے بہت بڑے حصے کو سودی کاموں میں
لگا کر فائدہ (Interest) حاصل
کرتی ہے۔ اس طرح ناجائزکاروبار میں وہ لوگ خود بخود حصہ دار بن جاتے ہیں جو کسی نہ
کسی شکل میں اپنی زندگی یاکسی دوسری چیز (Good) کو ان
کے پاس انشور کراتے ہیں۔
2۔ موت یا حوادث یا کسی نقصان کی صورت میں جو
رقم دینے کی ذمہ داریاں یہ کمپنیاں اپنے ذمہ لیتی ہیں ان کے اندر قمار (جوا ) کا
اصول پایا جاتا ہے۔
3۔ موت کی صورت میں جو رقم ادا کی جاتی ہے شریعت
اسلام کی رو سے اس کی حیثیت متوفی کے ترکے کی سی ہے جسے شرعی اصولوں کے مطابق متوفی
کے وارثوں میں تقسیم ہونا چاہئے مگر انشورنس میں عملاً ایسا نہیں ہوتا بلکہ یہ رقم
صرف انہی افراد کو ملتی ہے جن کے لئے پالیسی ہولڈر نے وصیت کی ہو’ دوسرے وارثین اس
سے محروم رہ جاتے ہیں حالانکہ وارث کے حق میں وصیت کرنا شرعاً درست نہیں اور نہ ہی
یہ وصیت نافذ العمل ہو سکتی ہے۔ حدیث رسول ہے ((لا وصیۃ لوارث)) (سنن ابی داود
کتاب الوصایا باب ماجاء فی الوصیۃ للوارث’ سنن الترمذی کتاب الوصایا باب ماجاء لا
وصیۃ لوارث’ سنن النسائی کتاب الوصایا باب ابطال الوصیۃ للوارث’ امام بخاری نے اس
حدیث کا عنوان قائم کیا ہے ’ حدیث ان کی شرط کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے نہیں لائی)
4۔ پالیسی میں وقت کاتعین ہوتاہے اوراگر اس
مقررہ وقت کے اندر اس کو موت نہ آئے اور اس نے پوری رقم ادا کردی تو اصل رقم منافع
(سود) کے ساتھ واپس مل جاتی ہے جس کو ‘‘بونس’’ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
5۔ گڈز انشورنس (Goods
Insurance) کی صورت میں مقررہ مدت میں اگر مذکورہ
حادثہ پیش نہ آئے تو بیمہ دار کوجمع شدہ رقم واپس نہیں دی جاتی جب کہ حادثات پیش
آنے کی صورت میں چاہے اس نے چند ہی قسطیں کیوں نہ دی ہوں وہ اس پوری مقرر شدہ رقم
کا حقدار قرار دیا جاتاہے جو معاہدہ کے وقت طے ہوتی ہے۔ اس میں بھی سراسر جوا اور
سود شامل ہوتاہے۔
6۔ لائف انشورنس (Life
Insurance) کی صورت میں پالیسی ہولڈر پریمیم کی شکل میں
جتنی قسطیں ادا کرتاہے ’ وہ اس سے کئی گنازیادہ بلا کسی عوض کے وصول کرتاہے۔ مثلاً
اگر کوئی شخص ایک لاکھ کی پالیسی خریدتاہے اور انشورنس کمپنی کو سالانہ7164 روپے
کے حساب سے بیس اقساط ادا کرتاہے تو گویا (7164x20)
143280 (ایک لاکھ تینتالیس ہزار دو سو اسی) روپے ایک
لاکھ کی پالیسی کے لئے بیس سال میں ادا کرتاہے۔ اور بیس سال کے بعد (انتقال کی
صورت میں اس سے بھی پہلے) تین لاکھ یا پانچ لاکھ روپے (جس طرح کی پالیسی ہو) وصول
کرتاہے۔ ادا شدہ رقم اوروصول شدہ رقم کے درمیان جو فرق ہوگا وہ خالص سود ہوگا۔
7۔ بیمہ شدہ شے کی ہلاکت یا نقصان پر کمپنی
جو رقم ادا کرتی ہے وہ بھی سود اور جوا کے حکم میں ہے۔ مثلاً ایک آدمی نے اپنی گاڑی
/زندگی کا بیمہ کرایا اور ایک لاکھ کی پالیسی خریدی ’ پندرہ سو روپے جمع کرایا تھا
اس کو نقصان پہنچا یا اس کا انتقال ہوگیا۔ اب معاہدے کی رو سے کمپنی اس کو تین
لاکھ روپے ادا کرنے کی پابند ہے۔ اس طرح وہ انشورنس کی رقم مبلغ تین لاکھ روپے
مبلغ پندرہ سوروپے کے بدلے وصول کرتاہے ۔ یہ سود اور جوا نہیں تو اور کیا ہے؟
بیمہ کو کیسے اسلامائز کیاجا ئے؟
مذکورہ بالا
وجوہات کی بنا پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ مروجہ بیمہ / انشورس کا طریقہ کار اسلامی نہیں
ہے۔ اس کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے طریقوں میں ترمیم کئے
جائیں اور اسلام کے اصول تجارت و معیشت کو مد نظر رکھ کر اس کے اصول اور قواعد
مرتب کئے جائیں۔ انشورس کی پالیسیاں مرتب کرتے وقت درج ذیل امور پر عمل درآمد کیا
جائے تو یہ بھی اسلامی اخلاقی نظریہ کے مطابق ایک جائز کاروبار بن جائے گا۔ ان شاء
اللہ۔
1۔ حکومت / ریاست نجی کمپنیوں کے زر ضمانت (Reserves) کو ایسے سرکاری اور نیم سرکاری صنعتی اور تجارتی کاروبار میں
شراکت کے اصول پر لگائے اور کمپنی کو معین منافع کی بجائے متناسب منافع جو معاہدہ
شراکت کے وقت طے ہوا ہو ادا کرے۔
2۔ انشورنس کمپنی اپنے دوسرے سرمائے کو بھی
سودی لین دین اور سودی قرضوں کی بجائے کسی منافع بخش کاروبار میں لگائے ۔ کسی بھی
سودی کاروبار میں رقم بالکل نہ لگائی جائے۔
3۔ زندگی یا دوسرے اشیاء کا بیمہ صرف ان
لوگوں کا قبول کیا جائے جو دو باتوں کو تسلیم کریں۔
(i) یہ کہ ان کی موت کے بعد صرف ان کی جمع شدہ رقم ہی ان کے وارثوں
کو دی جائے۔
(ii) یہ کہ شرعی قوانین کے مطابق یہ رقم وارثان بارگشت میں تقسیم کی
جائے۔
4۔ املاک یا اشیاء کی صورت میں بھی اس بات کو
مد نظر رکھ کر ادا شدہ رقم سے زیادہ رقم بیمہ کرانے والے کو نہ دی جائے۔
5۔ بیمہ کرنے والوں میں سے جو لوگ اپنی رقم پر
منافع چاہتے ہوں ان کا روپیہ ان کی اجازت سے صنعتی ’ تجارتی’ زرعی یا دیگر منافع
بخش کاروبار میں شرکت و مضاربت کے اصول پر لگادیا جائے۔
6۔ جمع شدہ رقم تجارت میں لگانے کی صورت میں
منافع معین (Fixed) نہ ہو بلکہ متناسب ہو۔ پہلے سے یہ طے کر لے
کہ منافع کمپنی اور بیمہ کرانے والے کے درمیان کس نسبت/تناسب سے تقسیم ہوگا۔
7۔ زندگی کا بیمہ حکومت /ریاست کے زیر اہتمام
عمل میں لایا جائے اور اس کو کفالت عامہ کے نظام کے تحت منسلک کر دیا جائے اور
خطرہ پیش آنے کی صورت میں حاجت مندوں کو اتنی مالی امداد ملنے کی ضمانت دی جائے کہ
اس کے متعلقین کی ضروریات زندگی پوری ہو سکیں’ اس مقصد کے لئے افراد سے کوئی پریمیم
(Premium) بھی نہ لیا جائے۔
8۔ انشورنس کمپنیوں کو اس بات کا پابند کیا
جائے کہ وہ اپنے کام میں ایسے طریقوں سے احتراز کریں جن کا لازمی نتیجہ سود ’ جوا’
دھوکہ (غرر) یا ضرر رسانی کے صورت میں نکلے۔ اگر حکومت دانشمندانہ پالیسی اپنائے
اور سرپرستی کرے تو بیمہ کو باآسانی اسلامی رنگ میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ اس طرح زیادہ
سے زیادہ بہت سے لوگوں کی اعانت و معاونت کی ضمانت حاصل ہو سکتی ہے اور اسلام بھی
اس مقصد عظیم کا خواہاں ہے جس میں بلا سود و قمار بازی وظلم کے لوگوں کو زیادہ سے
زیادہ فائدہ پہنچے۔
ایک اقتباس:۔
مولانا مناظر
احسن گیلانی ‘‘بیمہ’’ پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
‘‘واقعہ یہ
ہے کہ اسلام نے ابتداء میں جو نقشہ قائم کیا تھا کاش کچھ دن بھی مسلمان اس نقشے کو
باقی رکھتے تو آج گھبرا کر نہ امیر انشورنس کے دامن میں پناہ ڈھونڈتے نہ غریب
مخلوق اور کاشتکاروں کی مشکلات کاحل باہمی اتحاد و تعاون والی سود خور انجمن میں
سوچا جاتا۔ پنج گرک (ساہوکار) سے نکال کر اس کے حلق پر ان انجمنوں کی چھری چلائی
جاتی ہے۔ مسلمان علماء کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ سود اور بیمہ وغیرہ کی شکلوں کے
جواز کی صورت پیدا کی جائے۔ سمجھا جاتاہے کہ اسلام کے نظام میں ان مشکلات کے حل کی
کوئی تدبیر نہ تھی اور گویا یورپ کا ذہن پہلی دفعہ ان مسائل کی طرف منتقل ہوا۔ لیکن
کیا کیجئے کہ کسی تصویر کے ایک حصے کو دیکھنے سے پوری تصویر کا حال معلوم نہیں ہو
سکتا۔ اس زمانہ کی سرمایہ دار حکومتیں بے روزگار باشندوں کی معاشرتی کفالت کرتی بھی
ہیں تو محدود پیمانے پر ہے۔ مجبوراً بیمہ کرانا پڑتا ہے۔ چند چوٹی کے سرمایہ داروں
نے بیمہ کو ایک باقاعدہ تجارتی کاروبار بنا کر غریب پالیسی ہولڈر کی آمدنی میں خود
کو بھی حصہ دار بنا لیا ہے۔ نیز ایسی کمپنی جو متوفی قبل از وقت کی اولاد کی جو بھی
امداد کرتی ہے اس امداد کا بار ملک کے تمام باشندوں پر نہیں بلکہ انہیں چند ہزار
(افراد) لوگوں کی جیب پر پڑتا ہے جو بیمہ کمپنی مین شریک ہوتے ہیں۔ کیونکہ بیمہ
کمپنی کے منتظمین یا منیجرز ادائیگی اپنی جیب سے نہیں کرتے بلکہ پالیسی ہولڈر یا بیمہ
شدہ افراد کی رقم سے جو منافع حاصل ہوتاہے اس کا ایک حصہ کسی ایک بیمہ شدہ قبل از
وقت مرنے والے افراد کی اولاد کو یکمشت ادا کرتے ہیں۔ پھر سودی کاروبار کی جملہ
خرابیاں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں۔
اگر اسلامی
معاشی نظام کی ترویج ہو تو نہ تو کوئی باپ مرنے سے اس لئے خوف زدہ ہو سکتا ہے کہ
اس کے بچے یتیم ہو جائیں گے( اور محتاجی کا شکار ہو جائیں گے) ’ بیوی بیوہ ہو کر
لاوارث ہو جائے گی۔ نہ کسی کو اس کا خطرہ رہ سکتاہے کہ اگر اتفاقی طور پر کسی مصیبت
کا شکار ہوا اور میرا ہاتھ خالی ہوگیا تو علاج کون کرے گا؟ میرے بچے کیا کھائیں
گے؟ اگر کسی تاجر کو تجارت میں خسارہ آ جائے’ کسان کو زراعت سے نقصان پہنچے ’ کوئی
لنگڑا ہوجائے’ اندھا ہو جائے’ بوڑھا ہو جائے سب کو اطمینان ہے کہ میری اولاد کے
لئے ‘‘بیت المال’’ یعنی سر کاری خزانے میں مستقل کافی رقم پڑی ہے جو ملک کے مقروض
کا قرض اتارنے کے لئے استعمال میں لائی جائے۔ نہ سودی قرض کی حاجت نہ جائیداد بیچنے
کی چنداں ضرورت کہ ان کے قرض کی ادائیگی کا سامان حکومت کے خزانے میں موجود ہے۔ بیوپار
کرنے والے مسافر جو ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہتے ہیں نہ انہیں اس کی فکر کہ
کس جگہ جا کر میرا ہاتھ خالی ہوگا ’ ہر ضلع ’ ہر تعلقہ کے مقامی خزانہ میں اس کی
امداد کا فنڈ موجود ہے’’۔اسلامی معاشیات از مناظر احسن گیلانی)
خلاصہ کلام:۔
حاصل کلام یہ
ہے کہ موجود مروجہ نظامہائے انشورنس قمار (جوا بازی) اور سود کے اصولوں پر قائم ہیں
اس لئے حرام اور ناجائز ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو حتی الامکان ان غیر شرعی کاموں سے
اجتناب کرنا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ دنیا کے معمولی فائدے کے لئے ہمیشہ کی زندگی برباد
کر دیں۔ اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو اسلامی اصولوں کے مطابق
ڈھالے اور باشندگان ریاست کو اکل حلال کے مواقع فراہم کرتے ہوئے اکل حرام سے بچانے
کی تدبیر کرے’ تاکہ دنیا و آخرت دونوں میں فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوسکیں۔ اللہ
ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین