یوگو ضلع گنگ چھے کا ایک گنجان آبادی والا خوبصورت گاؤں

0

 



یوگو

ضلع گنگ چھے کا ایک گنجان آبادی والا خوبصورت گاؤں

تحریر: ابراہیم عبد اللہ یوگوی 

           

            ضلع گنگ چھے بلتستان کے صدر مقام سکردو کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ ضلع دریائے سندھ و شیوک کے سنگم پر واقع موضع کریس سے شروع ہو کر وادی چھوربٹ میں موضع سیاری و فرانو اور وادی کندوس میں خورکونڈو اور ماوتھ’ وادی و سلتورو میں گونگما’ وادی ہوشے میں ہوشے اور وادی تھلے میں کھسومک تک پھیلا ہوا ہے۔ یوگو ضلع گنگ چھے کا ایک گنجان آبادی والا گاؤں ہے۔

وجہ تسمیہ :۔ 

            موجودہ ضلع گنگ چھے راجگی کے دور میں دو راجاؤں کی ریاست تھی۔ ایک راجہ خپلو دوسرا راجہ کریس۔ اس زمانے میں راجہ کی زیر ملکیت علاقہ ‘‘ریاست’’ کہلاتا تھا۔ چونکہ موضع یوگو ریاست خپلو کا پہلا گاؤں تھا اس لئے اسے ‘‘یول گو’’ یعنی پہلا گاؤں کہا جاتا تھا۔ یہ نام مرور زمانہ کے ساتھ بدل کر ‘‘یوگو’’ ہوگیا۔ بعض کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا اس لئے اس کو ‘‘یول بو’’ یعنی چھوٹا گاؤں کہاجاتا تھاجو کثرت استعمال سے یہ ‘‘یوگو’’ ہو گیا۔ Gatetteer of Kashmir and Ladak میں اس کا نام Yugutلکھا ہوا ہے۔ اب یہ گاؤں یوگو کے نام سے ہی معروف و مشہور ہے۔ البتہ آس پڑوس کے دیہات کے کچھ لوگ اس کو مزید مختصر کر کے ‘‘یو’’ اور ‘‘یوا’’ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔

محل وقوع:۔

            موضع یوگو ضلع گنگ چھے کے ہیڈ کوارٹر خپلو سے مغرب میں 25کلومیٹر جبکہ سکردو سے مشرق میں 75کلومیٹر کے فاصلے پر موضع غواڑی اور کھرفق کے درمیان دریائے شیوک کے کنارے واقع ہے۔

حدود اربعہ:۔

            یوگو کی سرحد مغرب میں غواڑی کی سرحد سے ملتی ہے جو کہ زمانہ قدیم میں راجہ کریس کی ریاست کا حصہ تھا۔ راجہ خپلو اور راجہ کریس کی ریاستوں کی سرحد کے مقام اتصال پر ایک کٹاؤ کی جگہ ہے جسے بلتی میں ‘‘سہ چھت’’ کہتے ہیں۔ وہیں پر روٹ یعنی روڑی کا ڈھیر ہے جس کی بنا پر اس سرحدی اتصال کے مقام کو ‘‘بری روٹ’’ یعنی مابین کی باونڈری پر واقع ڑوری کا ڈھیرکہا جاتا تھا جو کثرت استعمال سے بروت (Barut) ہوگیا ہے۔

            سرکاری ریکارڈ کے مطابق ریاست خپلو کے موضع یوگو سے دو نہریں ریاست کریس کے موضع غواڑی کے لئے نکالی گئیں جس کے عوض غواڑی کے عوام راجہ خپلو کو باقاعدہ طور پر مالیہ ادا کرتے تھے۔ ایک کوہل نالہ یوگو کے مقام فڑاپھوس سے غواڑی کے علف زار تک نکالا گیا جس کو بعد میں توسیع کر کے نیچے تک لایا گیا ۔ جس کے عوض غواڑی کے عوام سالانہ ایک من مکھن ‘‘سپنگ مر’’ راجہ خپلو کو ادا کرتے تھے۔ جبکہ دوسرا کوہل موضع یوگو کے ہولسرت سے غواڑی گینتھا تک نکالا گیا جس کے عوض غواڑی کے عوام ایک سیر روغن خوبانی فی گھرانہ کے حساب سے سالانہ بطور مالیہ راجہ خپلو کو ادا کرتے تھے۔ اور یہ کوہل ایک پڑاؤ تک یوگو کی سرحد میں واقع ہے۔

            یوگو کے مشرق میں موضع کھر فق ہے جو کسی زمانہ میں یوگو کا حصہ تھا اب الگ ہو گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ Gatetteer of Kashmir and Ladak مطبوعہ 1890ء میں خپلو کے گاؤں اور پرگنہ جات کی فہرست اور ان میں موجود گھرانوں کی تعداد کے ضمن میں یوگو کھرفق کو ایک دکھایا گیا ہے۔ (دیکھئے ص 488) یوگو اور کھرفق کی سرحد اور باونڈری چھوسکوری کتپا ہے۔

یوگو کے شمال میں دریائے شیوک بہتا ہے جس کے پار موضع بلغار کے علاقہ جات واقع ہیں اور اس کے جنوب مغرب میں موضع غواڑی کی چراگاہ اور جنوب میں علاقہ کھر منگ کے گاؤں پاری اور غندوس واقع ہیں۔

رقبہ:۔

            یوگو کا کل رقبہ 225اسکوائر کلو میٹرہے ۔ اس میں سے 2384کنال قابل کاشت ہیں رقبہ زیر کاشت ہے جبکہ باقی بے آباد اور بنجر ہے۔ اگر کوہل وغیرہ نکالا جائے تو ان کو بھی زیر کاشت لایا جا سکتا ہے اس لئے کہ یوگو میں پانی کی کمی نہیں ہے۔ اگر ان کو زیر کاشت لا کر ان پر درخت یا گھاس اگایا جائے تو عوام کے لئے بہت حد تک ایندھن اور جانوروں کے چارے کی سہولت میسر آجائے گی۔

آبادی:۔

            2008-2009کے مردم شماری کے مطابق یوگو کی کل آبادی 360گھرانے اور دو ہزار پانچ سو بیس نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کی شرح پیدائش 1.86% اور شرح اموات 0.66% سالانہ ہے ۔

            یہاں کی تاریخ کے مطابق ابتدائی آباد کاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سب سے پہلے تین آدمیوں نے آکر قیام کیا ۔ ایک کا نام آپو گچے (کھچے ) تھا جو کشمیر سے آئے تھے دوسرا بروق پا جو کہ گلگت کی طرف سے وارد ہوئے تھے’ تیسرا میناراوا نامی شخص تھا۔ جب انہوں نے اس مقام پر ایک چشمہ دیکھا تو یہیں قیام کرنے کا فیصلہ کیا یوں یہاں آبادی کی ابتدا ء ہوئی۔ وہ چشمہ صدیوں سے اب تک اللہ کے فضل سے جاری و ساری ہے اور اہل یوگو کو سیراب کر رہا ہے۔

تاریخی آثار:۔

            بلتستان کے دوسرے مقامات کی طرح یہاں اسلام سے پہلے بدھ مت اور بون مت کے ماننے والے رہتے تھے۔ ان کے آثار یہاں کے بعض چٹانوں پر کندہ ہیں۔ بعض پر مارخور وغیرہ جانوروں کی تصویریں کندہ ہیں جبکہ بعض پر اسٹوپا اور بعض پر دیگر تحریرات موجود ہیں۔ اسلام کی آمد و اشاعت کے بعد جب سارا بلتستان حلقہ بگوش اسلام ہوگئے بعد ازاں جب میر مختار شگر سے واپس آنے کے بعد خپلو کے علاقہ جات میں خانقاہ جات کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے یوگو میں بھی ایک خانقاہ تعمیر کرائی تھی جو بہت خوبصورت تھی ’ دروازے اور ستونوں پر خوبصورت چوب کاری اور کشیدہ کاری کی گئی تھی۔ اور اس کے دروازے پر فارسی میں کچھ تحریرات موجود تھیں لیکن جبکہ گاؤں کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے مسجد چھوٹی پڑ گئی تو اس کی توسیع کی گئی اس دوران وہ تحریرات ضائع ہو گئیں۔ ایک جگہ خانقاہ یوگو کی تعریف میں مولانا خلیل الرحمن بلغاری مرحوم کا کہا ہوا یہ شعر مرقوم تھا ۔

چہ خوش خانقاہ یوگو مثل جنت

بزیرش آب چشمہ نہر جنت

            یوگو زمانہ قدیم میں راجہ خپلو کی ریاست کا پہلا گاؤں تھااسی لئے اس کو یول گو یعنی پہلا گاؤں کہاجاتاتھا بعد میں کثرت استعمال سے یوگو ہو گیا۔ یہاں پہلے ایک خانقاہ تھی جو خانقاہ یوگو کے نام سے معروف تھی۔ اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اس کو میر مختار نے تعمیر کرائی ہے۔ گاؤں کی آبادی میں اضافہ کے ساتھ اس میں وقتا فوقتا توسیع ہوتی رہی بالآخر شیخ عبد الوہاب حنیف مرحوم کے توسط سے شیخ عقیل کے تعاون سے خانقاہ قدیم کو گرا کر نئی جامع مسجد بنائی گئی ہے جس میں بیک وقت 500آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔اس مسجد کی تعمیر نو1998ء میں شروع ہوئی اور 2000ء میں مکمل ہوئی۔ (ابراهيم عبد الله ، بلتستان میں اشاعت اسلام کا تحقیقی جائزہ ص:۲۵۷- زير طبع)

            یوگو کے مقام نینگ کھُٹ (Ning khut) کے مقام پر ایک قلعہ کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں جو ‘‘خلانوے کھر’’ کے نام سے اب بھی معروف ہے۔ بعض اس كو رگيالموے كھر كے نام سے پكارتے هيں۔

ذرائع آمدن:۔

زراعت:۔

            جس طرح پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ستر فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں اسی طرح اس گاؤں کی آبادی کی اکثریت بھی زراعت سے وابستہ ہے لیکن سوائے چند ایک کے زراعت سے کسی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔یہاں کے لوگ جفاکش اور محنتی ہیں اس لئے سال بھی کام میں جوتے رہتے ہیں۔ یہاں کا زیریں حصہ دو فصلی ہے جبکہ بالائی حصہ یک فصلی ہے۔ یہاں کے زیریں حصے میں عموما پہلے جَو کی کاشت ہوتی ہے پھر کنگنی یا باجرہ بویا جاتا ہے جبکہ بالائی حصے میں گندم اور آلو کاشت کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ جو اور آلو کو ایک ساتھ بوتے ہیں اس طرح پہلے جو کی فصل اٹھاتے ہیں پھر آلو کی’ یوں دہرا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔پہلے لوگ ترنبہ بھی کاشت کرتے تھے مگر اب اس کی کاشت کو یکسر موقوف کر دیا گیا ہے۔ البتہ کنگنی اور باجرہ کے ساتھ لوگ باقلا ضرور کاشت کرتے ہیں جس میں سے کچھ اپنی ضروریات کے لئے نکال کر باقی ماندہ فروخت کیا جاتا ہے۔

            ان کے علاوہ باقی زمینی پیداوار زیادہ نہیں ہوتی صرف گھریلو ضروریات کی حد تک پیدا ہوتی ہیں البتہ بعض لوگ تجارتی بنیادوں پر آلو کاشت کرتے ہیں جس سے ان کو کافی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ اوران لوگوں کے سالانہ اخراجات اسی سے پورے ہو جاتے ہیں۔

            گاؤں کے اکثر لوگوں نے گائے اور بھیڑ بکریاں پال رکھے ہیں جس سے مکھن’ دودھ کی ضروریات کچھ نہ کچھ پوری ہوجاتی ہیں البتہ گوشت کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔

نظام آب پاشی:۔

            یوگو میں گاؤں کے بالائی طرف ایک چشمہ ہے جو صدیوں سے اس سر زمین کو سیراب کر رہا ہے۔ اس چشمے کا پانی گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں قدرے گرم ہوتا ہے۔اس کے پانی سے گاؤں کے زیرین حصے سیراب ہوتے ہیں۔ بالائی رقبہ جات کو سیراب کرنے کے لئے گاؤں کے نالہ سے مختلف کوہل نکالے گئے ہیں جن کی تعداد تقریبا دس ہیں۔

            گاؤں کے بالائی مقام تھنگوا کوہل کی تعمیر سے یہاں کے لوگوں کی لکڑی کی ضروریات کافی حد تک پوری ہوگئی ہے اس لئے کہ اس کوہل کے ذریعہ سیراب ہونے والی زمین کے کثیر علاقے پر لوگوں نے بیر اور بید کے درخت اگائے ہیں جس سے ایندھن کی لکڑی کافی مقدار میں حاصل ہوتی ہے۔

            1932ء کے سیلاب عظیم کے بعد یوگو کے گاؤں کی اکثر آبادی اور زیر کاشت رقبہ جات زیر آب آکر تباہ و برباد ہوگئے اور لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے اور نان جوں کے لئے در بدر ہونا پڑا اس وقت گاؤں کے سرکردگان نے لوگوں کو درپیش مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے گاؤں کے بالائی حصہ ‘‘تھنگوا’’ جو غیر آباد تھا کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے لئے ‘‘ننگ سکور’’ نامی پہاڑی مقام سے کوہل نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس زمانے میں اوزار جبل’ مارتوڑ وغیرہ دستیاب نہیں تھے اس لئے خوبانی کی لکڑی وغیرہ سے جبل کا کام لیا جاتا تھا۔ چونکہ فاصلہ کافی زیادہ تھا اس لئے کچھ عرصہ کوہل نکالنے کا کام کرنے کے بعد اخراجات کی کمی’ ضروریات کے فقدان کی وجہ سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا اوراس پر کام جاری نہ رہ سکا۔ اس وقت مولانا عبد القادر مرحوم دہلی میں تھے آپ نے یوگو کے کچھ اورلوگوں کو ساتھ لیا اور اس وقت کے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے سیکریڑی جنرل حناب حمید اللہ سے ملاقات کر کے تھنگوا کوہل کے لئے فنڈ حاصل کیا اور یہ کوہل ان کے تعاون سے پایہ تکمیل کو پہنچا جس نے یہاں كے لوگوں کی بنيادي ضروریات زندگي کی تکمیل میں اہم کر دار ادا کیا۔ بعد ازاں وقتا فوقتا اس کی توسیع و مرمت ہو تی رہی۔2022 ميں ايفاد پروجيكٹ كے تحت اس كوهل كي پھر سے مرمت كي گئي تاكه نيچے غير آباد رقبه فوش فوش كو آباد كيا جا سكے، اس كے لئے حكومت نے ايفاد پروجيكٹ كے تحت خطير رقم مختص كيا اور اس پر آج بھي كام جاري هے۔

            اس کوہل سے بھی اوپر قابل کاشت بنجر رقبہ جات اب بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔ گاؤں کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ضروریات زندگی میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے اس لئے ان غیر آباد مقامات کو آباد کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے نئے کوہل تعمیر کرنا اور نہر نکالنا بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں ایک منصوبہ جاری ہے جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

تجارت:۔

            یہاں کی آبادی کا تقریبا2.70 فیصد لوگ تجارت سے وابستہ ہیں جنہوں نے گاؤں میں یا گاؤں سے باہراپنی تجارت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جس کے ذریعے وہ اپنے لئے ذریعہ معاش پیدا کر رہے ہیں۔

ملازمت :۔

            آمدن کا ایک اہم ذریعہ ملازمت ہے۔ آبادی کا تقریبا 5.5%فیصد لوگ ملازمت سے وابستہ ہیں ۔ اور مختلف شعبہائے زندگی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت شعبہ تدریس سے منسلک ہیں۔ اس میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سیکٹر شامل ہیں۔

            علاوہ ازیں کچھ لوگ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں روزگار کے حصول کے لئے گئے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ بیرون ملک جا کر ذریعہ معاش پیدا کر رہے ہیں۔جس سے نہ صرف یہاں کے لوگوں کی معیار زندگی بلند ہو رہی ہے بلکہ اس سے پاکستان کے زر مبادلہ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

تعلیم:۔

            تعلیمی اعتبار سے اس گاؤں کا حال بلتستان کے باقی مواضعات سے مختلف نہیں ہے۔ گاؤں یوگو میں مروجہ تعلیم کے لئے ایک بوائز ہائی اسکول ’ ایک گزل مڈل اسکول’ جس میں اب ہائی کلاسز کا اجراء کیا گیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس گاؤں کی طالبات کے لئے آسانی پیدا ہو گئی ہے بلکہ آس پاس کے گاؤں کی طالبات کے لئے بھی سہولت پیدا ہوگئی ہے ۔ دو کمیونٹی بیسڈ اسکول (سیپ) تھے ایک چھوغو گرونگ میں دوسرا باقر کالونی میں’ باقر کالونی والے سیپ اسکول میں پرائمری تک جبکہ چھوغو گرونگ والے سیپ اسکول میں میٹرک تک تعلیم دی جاتی تھی اب باقر کالونی والا سیپ اسکول بند ہو چکا ہے۔ اور دو پبلک اسکولز (انگلش میڈیم) ہیں ایک المہد پبلک اسکول کے نام سے جس میں ہائی اسٹیج تک تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسرا الاثر پبلک اسکول کے نام سے جس میں مڈل تک تعلیم دی جاتی ہے مؤخر الذکر پبلک اسکول دارالعلوم غواڑی کے زیر انتظام چل رہا ہے۔ ہائی اسکول کی بلڈنگ بن چکی ہے مگر ابھی تک تدریسی عملہ پورے نہیں ہیں۔ جس کی بنا پر یہاں کے طلبہ اور طالبات کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

جبکہ دینی تعلیم دینے کے لئے دو ادارے کام کر رہے ہیں ایک مدرسہ ابی بکر صدیق ـؓ کے نام سے جو جامعہ دار العلوم غواڑی کے زیر اہتمام چل رہا ہے جبکہ دوسرا المعہد الثانوی للدراسات الاسلامیہ کے نام سے مقامی لوگ اپنے طور پر چلا رہے ہیں ۔ مؤخر الذکرادارے کا نصاب دینی اور دنیاوی دونوں طرح کے علوم پر مشتمل ہے۔ گویا دینی اور عصری علوم کا امتزاج ہے۔علاوہ ازیں باقر کالونی میں بھی ایک دینی مدرسہ ہے جس میں صرف حفظ و ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا ہے ۔

یہاں تعلیم شماری کے مطابق کل شرح خواندگی 45% فیصد ہے ۔جبکہ مردانہ اور زنانہ شرح خواندگی کو الگ کیا جائے تو مرادانہ 68% فیصد اور زنانہ 32% فیصد ہے۔

صحت:۔

            صحت کے شعبے میں یہ گاؤں بہت پیچھے ہے۔ اتنی کثیر تعداد کی آبادی والا گاؤں میں صرف ایک ڈسپنسری ہے وہ بھی سی کٹیگری کی۔ اور محکمہ صحت اس کو بھی ان اپروڈ (Unapproved) قرار دے کر یہاں دوائیاں بھی بہت کم بھیجتے ہیں۔ جو دوائی پہنچتی ہے وہ کافی نہیں ہوتی۔ یہاں کی آبادی کی تعداد اور گنجانیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کم ازم کم دس بیڈ کا ہسپتال قائم کیا جائے۔

            یہاں ایک زچہ و بچہ سنٹر قائم کیا گیا ہے جو کہ محترمہ آمنہ انصاری صاحبہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں اس سنٹر کا قیام عمل میں لایا یہ ان کے خلوص کا مظہر ہے۔ اللہ ان کو اجر جزیل عطا کرے۔ انہی کی کوششوں سے اس سنٹر کے لئے سامان بھی لایا گیا اور چیف سیکریٹری کے ذریعہ اس کا افتتاح کیا گیا۔اس وقت اس سنٹر میں ایک دائی خدمات انجام دے رہی ہے۔

مواصلات:۔

            سیاچن خپلو روڈ یوگو سے گزرتا ہے اس لئے ٹرانسپورٹ کے حصول میں زیادہ مشکلات پیش نہیں آتیں۔ اسی طرح ٹیلی مواصلات کے یہاں ایس سی او (SCO)کی طرف سے ایک ٹاور نصب کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کافی حد تک یہاں کے لوگوں کادیس اور پردیس میں موجود اپنے پیاروں سے رابطہ ممکن ہو گیا ہے۔البتہ بجلی کے مسائل کی وجہ سے سگنل ہمہ وقت دستیاب نہیں ہوتا اس لئے بوقت ضرورت رابطہ کے لئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اس کی وجہ سے اس کا افادہ لوگوں کے لئے کم رہ گیا ہے۔

رسم و رواج:۔

            بلتستان کے دوسرے مقامات کی طرح یہاں بھی زمامہ قدیم میں مختلف قسم کی رسم و رواج پائے جاتے تھے مثلا ستروپ لا’ میندوق ہلتنمو’ مے فنگ ’ چھومی ہرکا’ وغیرہ’ مرور زمانہ کے ساتھ جب لوگوں میں تعلیم آئی ’ باشعور ہوئے نیز مشغولیت نے بھی سب کو آ گھیرا تو یہ تمام رسومات آہستہ آہستہ متروک ہوتی گئیں۔ اب پرانی رسومات یا تو بالکل متروک ہو چکی ہیں یا ان میں تبدیلی لائی گئی ہے۔ کچھ رسومات کو خلاف شرع اور بدھ مت و بون چھوس کی باقیات قرار دے کر تر ک کر دیا گیاہے اور کچھ کو Modifyکر کے اسلامی سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔مثلا مے فنگ اور ہلتنمو وغیرہ کو غیر اسلامی اور قدیم مذاہب کی باقیات کے زمرے میں لا کر ترک کر دیا گیا ہے اور دیگر خوشی اور غمی کے مواقع مثلا شادی بیاہ کی رسومات’ وفات اور ولادت کے مواقع کی رسومات میں جو غیر اسلامی عناصر تھے ان کو ختم کر کے اسلامی طریقے سے منائے جاتے ہیں۔

 

اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتابوں اور لوگوں سے مدد لی گئی:

٭         Gazzetteer of Kashmir and Ladak مطبوعہ 1890ء

٭          History of Northern Areas of Pakistan مطبوعہ1989ء

٭        Welfare Trust Yugo at a Glance

٭        سرکاری کاغذات منقول از خزانہ سکردو عکسی

٭        بلتستان میں اشاعت اسلام کا تحقیقی جائزہ

٭        سہ ماہی مجلہ التراث

انٹرویوز:

٭        اپو عبد الرحیم علی میر

٭        حاجی عبد الرحمن  باقر كالوني

٭        حاجی عبد الکریم ادو پہ

٭        محمد ابراہیم حیدر پہ

٭        عبداللہ کریم

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)