اسماء القرآن
اسماء القرآن
سے مراد قرآن مجيد كے وه نام هيں جن كے ذريعه الله تعالي نے قرآن مجيد ميں قرآن كا
ذكر كيا، يا رسول الله صلي الله عليه وسلم نے قرآن كے لئے استعمال كيا- قرآن مجید کا ذاتی نام ‘‘القرآن’’ ہے جبکہ اس کو
قرآن میں ہی متعدد صفاتی ناموں سے بھی پکارا گیا ہے۔ قرآن کریم کے صفاتی ناموں کی
تعداد کے بارے میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک قرآن کے صفاتی نام پچاس یا پچپن ہے اور
بعض کے نزدیک ننانوے۔
یہ بات واضح
ہے کہ کسی ذات ’ شخصیت یا چیز کے زیادہ نام اور اچھے القابات اس کی زیادہ خصوصیات
اور فضائل پر دلالت کرتے ہیں’جیسے اللہ تعالی کے بہت سے اچھے نام ہیں جو اللہ
تعالی کی عظمت و رفعت شان کی دلیل ہیں اس لحاظ سے دیکھاجائے تو قرآن مجید کے بھی
بہت سے اسماء و القاب ہیں جو اس کی عالی مرتبت ’ عظیم الشان اور بلندمقام پر دلالت
کرتے ہیں۔ ان میں سے چند مشہور نام درج ذیل ہیں:
۱۔
الکتاب: چونکہ قرآن کو لکھ کر جمع کیا گیا ہے اس لئے اسے ‘‘الکتاب’’ کہا جاتا ہے۔
الکتاب ’ المکتوب (مفعول) کے معنی میں ہے اس لئے کہ یہ باقاعدہ طور پر ضبط تحریر
میں لایا گیا ہے۔ قرآن کے بعد یہ اس کا دوسرا مشہور نام ہے۔ قرآن کریم کے ابتدا
میں ہی اللہ نے اس کو ‘‘الکتاب’’ سے موسوم کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ذٰلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیْہِ ہُدًی
لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾(البقرۃ:۲)
اس کتاب (کے
اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں پرہیز گاروں کو راہ دکھانے والی ہے۔
شیخ احمد
دیدات قرآن مجیدکو ‘‘الکتاب’’ نام دینے کی وجوہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
۱۔ الکتاب مصدر ہے اور اس کے اصل
معنی ‘‘جمع کرنا’’ ہیں اور یہ مکتوب (لکھی ہوئی کتاب) کے معنی میں ہے۔ کتاب کے لفظ
سے ذہن میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ یہ ایک منظم و مرتب چیز ہے’ بکھرے ہوئے اوراق کو
کتاب نہیں کہا جاتا۔ اس لحاظ سے قرآن مجید کو کتاب اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں
مختلف علوم و معارف ’ واقعات و قصص و خبریں منظم و مربوط صورت میں جمع کی گئی ہیں۔
۲۔ الکتاب کے معنی اگر ‘‘لکھا
ہوا’’ کئے جائیں تو اس لحاظ سے ہے کہ قرآن لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ یہ بھی ممکن
ہے نتیجے کے لحاظ سے اسے کتاب کہا گیا ہو کیونکہ نبی کریم احمد مجتبی محمد مصطفی
صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن مجید لکھوانے کااہتمام فرمایا۔ قرآن مجید کا کوئی حصہ
نازل ہوتاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاتب وحی صحابی رضی اللہ عنہ کو بلا کر اسے
لکھنے کا حکم صادر فرماتے۔
۳۔ الکتاب’ مجموعہ قوانین کو بھی
کہا تاہے بلکہ اس کتاب کو الکتاب کہنا زیادہ زیب دیتا ہے جس میں احکام کے ساتھ
قوانین بھی موجود ہوں۔ قرآن مجید میں اس کے قانونی کتاب ہونے کی وضاحت سورۃ النساء
آیت نمبر ۱۰۵ میں اس
طرح موجود ہے:
انا
انزلنااليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما اراك الله (النساء:105)
‘‘ہم نے حق
کے ساتھ آپ ؐ کی طرف یہ کتاب نازل فرمائی تاکہ آپ اللہ تعالی کی ہدایات کے مطابق
لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔’’
۴۔ الکتاب کا لفظ ‘‘خط’’ کے معنی
میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ سورۃ النمل میں ارشاد ربانی ہے :
﴿قالت
یا ایها الملاء انی القی الی کتاب کریم﴾(سورۃ النمل:۲۹)
‘‘ اس (ملکہ سبا) نے کہا اے سردارو! میری طرف سے
ایک باوقعت خط ڈالا گیا ہے۔’’
اس اعتبار سے
قرآن مجید اللہ رب العالمین کی طرف سے تمام دنیا کے لوگوں کے لئے ایک کھلا خط ہے۔
۲۔
الفرقان: فرقان کے معنی ہیں حق و باطل ’ توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان فرق
کرنے والا ۔ قرآن کو ‘‘الفرقان’’ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جو درج
بالا امور کے درمیان فرق کو خوب نکھار کر واضح کر دیتی ہے۔ قرآن میں ہے۔
﴿تَبَارَکَ
الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلَّعَالَمِیْنَ
نَذِیْرًا﴾(سورۃ الفرقان:۱)
بہت با برکت
ہے وہ (اللہ) جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے ڈرانے
والا بن جائے۔
قرآن کریم کو
‘‘ الفرقان’’ کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ تبدیل شدہ پہلی کتب سماویہ کی تعلیمات کو
قرآن مجید نے الگ تھلگ کر دیا ’ حق و باطل اور توحید و شرک کے درمیان ٹھوس دلائل و
شواہد کے ذریعے واضح خط کھینچ دیا۔
۳۔
الذکر: ذکر کے معنی نصیحت اور یاد دہانی کے ہیں ۔ قرآن کریم کو الذکر اس لئے کہا
جاتا ہے کہ اس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے پند و نصائح سے نوازا ہے ۔ نیز
یہ قرآن انسان کے مقصد زندگی کی یاد دہانی کا ذریعہ ہے۔‘‘ذکر’’ اس شے کو کہتے ہیں
جو ذہن میں ایسے محفوظ ہو کہ بھلائی نہ جا سکے اور نہ ہی اسے فراموش کیا جا سکے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت اس طرح کی کہ لوگوں کے سینوں میں اسے محفوظ کر
دیا۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿اِنَّا
نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾(سورۃ
الحجر:۹)
ہم نے ہی اس
ذکر(قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
﴿وَ
اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا ُنزِّلَ اِلَیْهمْ وَ
لَعَلَّهمْ یَتَفَکَّرُونَ﴾(سورۃ النحل:۴۴)
اور ہم نے آپ
کی طرف ذکر(قرآن) اتارا ہے کہ لوگوں کی طرف جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول
کر بیان کریں شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔
﴿وَ
هذَا ذِکْرٌ مُّبَارَكٌ اَنْزَلْنَاہُ اَفَاَنْتُمْ مُنْکِرُونَ﴾(سورۃ
الانبیاء:۵۰)
اور یہ مبارک
نصیحت (قرآن) ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے کیا تم اس سے انکار کرتے ہو؟
۴۔
الہدی: قرآن کریم کا ایک نام ‘‘الہدی’’ ہے۔ جس کے معنی ہدایت اور رہنمائی کے ہیں۔
ہدی مصدر ہے اور اسم فاعل کے معنی میں ہے یعنی اس کا معنی ہے ‘‘رہنمائی کرنے والا
رہنما) قرآن مجید نے ہمیں زندگی کی تاریک راہوں مین رہنمائی اور روشنی فراہم
فرمائی ۔ چونکہ یہ قرآن بنی نوع انسان کے لئے قیامت تک ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ
ہے اس لئے قرآن میں ہی مختلف مقامات پر اس کو اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ مثلا:
﴿شَہْرُ
رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ هدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنَاتً
مِّنَ الْهدَی وَ الْفُرْقَانِ﴾(سورۃ البقرۃ:۱۸۵)
رمضان وہ
مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ’ لوگوں کے لئے ہدایت بنا کر اور (جس میں) ہدایت
کی کھلی نشانیا ں ہیں اور (حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے۔
قرآن مجید کی
رہنمائی تمام انسانوں کے لئے ہے لیکن اس رہنمائی سے ایمان والے اور متقی ہی فائدہ
اٹھاتے ہیں۔
ؔؔ۵۔
الموعظۃ: قرآن چونکہ وعظ و نصیحت کی کتاب ہے اس لئے اس کو موعظۃ بھی کہا جاتاہے’
یعنی یہ نصیحت آموز کتاب ہے۔ بعض کہتے ہیں موعظہ کے معنی ہیں اعمال کے اچھے اور
برے نتائج سے اس طرح با خبر کرنا کہ دلوں کی کیفیت بدل جائے۔ لغوی لحاظ سے وعظ کے
معنی حکم دینا اور (برے کاموں سے) روکنا بھی ہیں۔ گویا قرآن نیک اعمال کا حکم دیتا
ہے اور برے اعمال ’ غلط روش کے نتائج سے بھی آگاہ کرتا اور حکما ان سے روکتا ہے۔
ارشادباری تعالی ہے:
﴿هذَا
بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ُهدًی وَ مَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾(سورۃ
آل عمران:۱۳۸)
یہ (قرآن
)لوگوں کے لئے بیان صریح اور اہل تقوی کے لئے ہدایت و نصیحت ہے۔
۶۔
البیان: قرآن کا ایک نام البیان ہے جس کے معنی ہیں ہر چیز کو واضح کر کے بیان
کرنا۔ چونکہ قرآن کریم میں ہر چیز کی وضاحت ہے اس لئے اس کو ‘‘البیان ’’ سے تعبیر
کیا گیا ہے جیساکہ درج بالا آیت میں ﴿هذَا بَیَانٌ
لِّلنَّاسِ ﴾سے قرآن مراد ہے۔
۷۔
النور: قرآن کا ایک نام نور یعنی روشنی ہے’ اس لئے کہ یہ کتاب انسانوں کو ضلالت کے
اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی سے منور کرتی ہے۔ قرآن میں ہے:
﴿وَ
اَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا﴾(سورۃ
النساء: ۱۷۴)
اور ہم نے
تمہاری طرف واضح نور نازل کیا ہے۔
﴿قَدْ
جَآءَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ﴾(سورۃ
المائدۃ:۱۵)
بلا شبہ
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے۔
گویا قرآن
مجید انسان کے لئے جہالت و تعصب اور ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں واضح روشنی کا
کام دیتا ہے۔
۸۔
الشفاء: شفا کے معنی ‘‘تندرستی’’ کے ہیں ’ چونکہ قر آن کریم انسان کی نہ صرف
روحانی بلکہ جسمانی بیماریوں کے لئے شفا ہے اس لئے اس کا ایک نام ‘‘الشفاء’’ بھی
ہے۔ لاکھوں کروڑوں بیمار اس کی چند آیات یا چند سورتیں پڑھ کر شفایاب ہوتے رہتے
ہیں جیسا کہ ہمارے ارد گرد سے شواہد ملتے ہیں ۔ قرآن کریم کی ي یا یا دعائیں پڑھ
کر دم کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ قرآن میں ہے:
﴿یَا
اَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ
شِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ﴾(سورۃ یونس:۵۷)
اے لوگو!
تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا آ پہنچی
ہے۔
۹۔
البرہان: قرآن مجید چونکہ حق کی دلیل ہے اس لئے اسے ‘‘البرہان’’ بھی کہا جاتا ہے۔
﴿یَا
اَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمْ بُرْهانٌ مِن رَّبِّکُمْ وَ اَنْزَلْنَا
اِلَیْکُمْ نُورًا مُّبِیْنًا﴾(سورۃ النساء:۱۷۴)
اے لوگو!
تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس دلیل (برہان) آچکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف
چمکتا ہوا نور بھیج دیا ہے۔
۱۰۔
التنزیل: قرآن مجید کا ایک نام التنزیل ہے۔ جس کے معنی ہیں تھوڑا تھوڑ ا کر کے
نازل کیا جانے والا کلام۔ چونکہ قرآن مجید موقع بموقع تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا
گیااس لئے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
﴿تَنْزِیْلٌ
مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾(سورۃ الحاقۃ: ۴۳)
یہ پروردگار
عالم کا اتارا ہوا ہے ۔
۱۱۔
احسن الحدیث: قرآن کریم میں قرآن کے لئے لفظ ‘‘حدیث’’ اور ‘‘احسن الحدیث’’ بھی
استعمال ہوا ہے۔ دنیا کے تمام کلاموں میں سے یہ کلام سب سے اچھا اور عمدہ اور صحیح
ہے اس لئے اسے اللہ تعالی نے خود ‘‘احسن الحدیث ’’ کہا ہے۔
﴿اَللّٰہُ
نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا﴾(سورۃ الزمر:۲۳)
اللہ تعالی
نے بہت اچھی اچھی باتیں یعنی کتاب نازل فرمائی۔
۱۲۔
الرحمۃ: رحمۃ کے معنی ہیں ‘‘برکت’ مہر و محبت’ ’ انسانیت جہالت و ضلالت اور کفر و
شرک کی اندھیروں میں بھٹک رہی تھی ’ ان حالات میں قرآن کریم کتاب رحمت بن کر نازل
ہوا اور اپنے دامن رحمت میں ان کو چھپالیا۔ اور اس رحمت نے قیامت تک انسانوں کے
لئے معاشی ’ معاشرتی اور اخلاقی ناہمواریوں کو دور کر کے ایک عظیم انقلاب برپا کر
دیا۔ بنی نوع انسان کے لئے سرا پا رحمت ہونے کی وجہ سے اس کو الرحمۃ نام دیا گیا
ہے۔
﴿یَا
اَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمْ مِنَ اللّٰہِ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ
شِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُور’ و هدی و رحمۃ للمؤمنین﴾(سورۃ
یونس:۵۷)
اے لوگو!
تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی شفا آ پہنچی
ہے۔اور رہنمائی کرنے والی ہے اور مؤمنوں کے لئے رحمت ہے۔
ویسے تو یہ
قرآن سارے جہاں والوں کے لئے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے لیکن چونکہ اس سے فیض یاب
صرف اہل ایمان ہی ہوتے ہیں اس لئے انہیں کے لئے ہدایت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ
دیگر صفاتی ناموں میں المبارك’ الحکیم’ العظیم’ المبین’
الکریم’ العربی’ العجب’ المجید ’ العزیز’ الصراط المستقیم’ البصائر’ الروح’ الوحی’
البینۃ’ التبصرۃ’ کلام اللہ’ المفصل’ الذکری’ الحق’ التذکرۃ’ المہیمن’ المصدق
وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جن سے قرآن کریم کی صداقت کے بہت سے پہلو واضح ہو تے ہیں۔
حدیث میں بھی
قرآن کے بعض صفاتی نام ملتے ہیں مثلا النجاۃ’ حبل
اللہ المتین’ المرشد’ المعدل’ الدافع ’ کلام الرحمن وغیرہ۔
ابراهيم عبد الله يوگوي