قرآن كريم كى تعريف اور وجه تسميه

0

 


قرآن كي تعريف اور وجه تسميه

قرآن کی تعریف:

            قرآن کی لغوی تعریف:  لفظ قرآن قَرَأَ ،يَقْرَأُ سے مصدر ہے ۔ جس کے معنی "پڑھنے" کے ہیں۔ یہ پڑھی جانے والی چیز کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ لسان العرب میں ہے: قرأ کے معنی پڑھنے اور ایک چیز کو دوسری کے ساتھ ملا کر جمع کرنے کے ہیں اس کو "قرأۃ" کہتے ہیں۔

قرأۃ کے معنی ‘‘پڑھنا’’ ہونے کے بارے میں صاحب المنجد لکھتے ہیں:

             قرأ و قرأۃ و قرانا و اقترأ الکتاب ’ نطق بالمکتوب فیہ او القی النظر فیہ و طالعہ’’. (لویس معلوف ’المنجد ص:۶۱۶’ بذیل مادۃ قرأ)

            یعنی قرأت کے معنی لکھے ہوئے کو پڑھنا یا اس کو دیکھنا اور اس کا مطالعہ کرنا۔

قرأة کا ایک معنی جمع کرنا اور ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملانا بھی ہے جیسا کہ صاحب المنجد لکھتے ہیں:

         ’’   قرأ و قرأنا الشی: جمعہ و ضم بعضہ الی بعض‘‘. (المنجد ص:۶۱۷ مادہ مذکورہ)

            یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملانا اور اکھٹا کرنا۔

قرآن ’ مقرؤ (مفعول) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب وہ صحیفہ ہے جو پڑھا جاتا ہے۔

اصطلاحی تعریف:

            اللہ تعالی کا وہ آخری کلام جسے اللہ كي طرف سے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر حضرت جبرائیل امین ؑ کے ذریعے نازل کیا گیا’ جسے صحیفوں میں لکھا جاتا ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے متواتر منقول ہے۔

            المعجم الوسیط میں قرآن کی تعریف یوں کی گئی ہے:

            ’’ القرآن: کلام اللہ المنزل علی رسولہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم المکتوب فی المصاحف‘‘.(ص:۷۲۲)

            قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے جو اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کیا گیا اور صحیفوں میں لکھا ہوا ہے۔

السید شریف الجرجانی نے قرآن کی یوں تعریف کی ہے:

            ‘‘القرآن : هو المنز ل علی الرسول المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلا متواترا بلا شبهۃ’’.(التعریفات ص:۱۲۳)

            قرآن وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ’ صحیفوں میں لکھا ہوا ہے ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا شبہ متواترطور پر منقول ہے ۔

            اللہ تعالی نے خود اپنے کلام کو ‘‘قرآن ’’ کے نام نامی سے موسوم کیا ہے۔قرآن مجید میں لفظ ‘‘قرآن’’ چھیاسٹھ (۶۶) مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

قرآن کی وجہ تسمیہ:

            دائرہ معارف اسلامیہ میں قرآن کی وجہ تسمیہ کی کئی وجوہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

۱) یہ آیات اور سورتوں کا مجموعہ ہے۔

۲) انبیاء سابقین پر نازل شدہ کتب اور صحیفوں کا عطر و خلاصہ ہے۔

۳) اس میں قصص و واقعات ’ اوامر و نواہی اور وعدہ و وعید کو مناسب انداز میں جمع کیا گیا ہے۔

۴) علوم و معارف کا بہترین مجموعہ ہے۔

            امام شافعی ؒ کے نزدیک قرآن اسی طرح کتاب اللہ کا نام ہے جیسے تورات اور انجیل دونوں نام ہیں۔ ان کے نزدیک یہ لفظ ‘‘قرأ’’ سے ماخوذ نہیں ہے جس کے معنی پڑھنے کے ہیں۔

            امام اشعری وغیرہ کا کہنا ہے کہ قرآن کا لفظ ‘‘قرن الشیء بالشیء’’ سے نکلا ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایک چیز کو دوسری چیز سے ملا دینا۔ اور یہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی آیتیں اورسورتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔

            زجاج کا کہنا ہے کہ القرآن القرأ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں جمع کرنا۔ یہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سابقہ کتب سماوی کے ثمرات و نتائج کوجمع کیا گیا ہے۔

            اللحیانی (ماہر لغت) کا قول ہے کہ القرآن’ فُعْلان یا غُفْران کے وزن پر قرأ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ‘‘پڑھنا’’ ۔ یہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ اسے (بہت زیادہ) پڑھا جاتاہے۔اس رائے کو ترجیح اور قبولیت عام حاصل ہے اور یہ قول دلائل کی روشنی میں زیادہ درست اور صحیح ہے۔قرآن کریم کی درج ذیل آیت کریمہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

            ﴿اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَ قُرْاٰنَہُ . فَاِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ﴾(سورۃ القیامۃ:۱۷۔۱۸)

            بلا شبہ اس کاجمع کرنا ہمارے ذمہ ہے اور اس کا پڑھنا بھی’ جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو اس کے بعد آپ پڑھیں۔

 گویا کہ قرآن مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ‘‘بکثرت پڑھی جانے والی کتاب’۔’ دیکھاجائے تو آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ یہی کتاب پڑھی جاتی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینکا میں ہے مرقوم ہے:

            ‘‘حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں صرف قرآن مجید ہی ایک ایسی کتاب ہے جو سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے۔’’(دیکھئے فولڈیکے کا مقالہ قرآن)

شیخ احمد دیدات لکھتے ہیں:

            ‘‘اس کتاب کو قرآن کریم نام دینے میں در اصل ایک زبردست پیش گوئی مضمر ہے۔ وہ یہ کہ یہ کتاب اس کثرت سے دنیا میں پڑھی جائے گی کہ کوئی دوسری کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ چودہ سو سال سے زائد کا طویل عرصہ اس امر کا شاہد ہے کہ یہ پیشگوئی نہایت تسلسل اور تواتر سے پوری ہو کر قرآن مجید کی صداقت پر ایک زبردست شہادت ثاتب ہوئی ہے اور قیامت تک ثابت ہوتی رہے گی۔’’(یہودیت’ عیسائیت اور اسلام ص:۲۶۷)

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)