وحی الٰہی کا آغاز
ابتداء وحی ماہ رمضان میں :
محمد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر جب چالیس برس کے قریب ہو چلی تو آپ ؐ کو
تنہائی اور خلوت نشینی محبوب ہوگئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ستو اور پانی لے
کر مکہ سے کوئی دو میل (خانہ کعبہ سے تین میل) دور وادی محصب میں واقع اس پہاڑی کے
ایک غار میں یاد الٰہی میں مشغول رہتے جسے اس زمانے میں جبل الحراء کہتے تھے اور
آج کل جبل النور کہتے ہیں۔آج کل وادی محصب میں بڑے بڑے محلات تعمیر ہو چکے ہیں اور
اس کو محصب کی بجائے المعابدۃ کہاجاتا ہے۔
آپ ؐ رمضان
بھر اس غار میں قیام فرماتے ’ اللہ تعالی کی عبادات میں وقت گزارتے ’ کائنات کے
مشاہد اور اس کے پیچھے کار فرما قدرت نادرہ پر غور و خوض فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ
و سلم کو اپنی قوم کے لچر پوچ شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بالکل اطمینان نہ
تھا لیکن آپ کے سامنے کوئی واضح راستہ ’ معین طریقہ اور افراط و تفریط سے ہٹی ہوئی
کوئی ایسی راہ نہ تھی جس پر آپ ؐ اطمینان و انشراح قلب کے ساتھ رواں دواں ہو
سکتے۔(دیکھئے رحمۃ للعالمین ص:۴۷/۱’ سیرت
ابن ہشام ص:۲۳۵/۱۔۲۳۶’ فی ظلال القرآن ص:۱۶۶/۲۹’ الرحیق المختوم ص:۹۵)
سید قطب شہید
لکھتے ہیں:
....
و دبر لہ هذہ العزلۃ قبل تکلیفہ بالرسالۃ بثلاث سنوات ’ ینطلق فی هذہ العزلۃ شهرا
من الزمان مع روح الوجو د الطلیقۃ و یتدبر ما وراء الوجود من غیب مکنون حتی یحین
موعد التعامل مع هذا الغیب عند مایاذن اللہ . (فی
ظلال القرآن ص:۱۶۶/۲۹۔۱۶۷)
رسالت کی ذمہ
داری عائد کرنے سے تین سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خلوت نشینی مقدر کر
دی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خلوت میں ایک ماہ تک کائنات کی آزاد روح کے
ساتھ ہمسفر رہتے اور اس وجود کے پیچھے چھپے ہوئے غیب کی اندر تدبر فرماتے تاکہ جب
اللہ تعالی کا اذن ہوتو اس غیب کے ساتھ تعامل کے لئے مستعد رہیں۔
جب آپ صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر چالیس برس مکمل ہوئی تو ایک روز ماہ رمضان میں حسب
معمول غار حراء میں مصروف عبادت تھے جبرائیل امین وحی لے کر ماہ رمضان 610 عیسوی
میں بعد از مغرب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ علامہ مبارکپوری لکھتے ہیں:
"جب آپ
ؐ کی عمر چالیس برس ہوگئی اور یہی سن کمال ہے اور کہا جاتاہے کہ یہی پیغمبروں کی
بعثت کی عمر ہے۔ تو زندگی کے افق کے پار سے آثار نبوت چمکنا اور جگمگانا شروع
ہوئے۔ یہ آثار خواب تھے۔ آپ ؐ جو بھی خواب دیکھتے وہ سپیدۂ صبح کی طرح نمودار
ہوتا۔ اس حالت پر چھ ماہ کاعرصہ گزر گیا۔ اور مدت نبوت تئیس برس ہے اور یہ خواب
نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ اس کے بعد جب حراء میں خلوت نشینی کاتیسرا سال آیا تو
اللہ تعالی نے اہل زمین پر اپنی رحمت کا فیض نازل کرنا چاہا چنانچہ اس نے آپ ؐ کو
نبوت سے مشرف فرمایا اور حضرت جبرائیل قرآن مجید کی چند آیات لے کر آپ ؐ کے پاس
تشریف لائے۔"(الرحیق المختوم (عربی) ص:۶۶ مطبع دارالسلام الریاض)
آغاز وحی کے
دن ’ مہینہ اور تاریخ کے متعلق مؤرخین میں اختلاف پایا جاتاہے۔ کچھ مؤرخین کا خیال
ہے کہ یہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ
تھا اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رجب کا مہینہ تھا۔(دیکھئے مختصر سیرۃ الرسول از
شیخ عبد اللہ ص:۷۵)
علامہ ابن
حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ رؤیا صادقہ کا سلسلہ ماہ ربیع الاول سے شروع ہوا اور
بیداری کی حالت میں وحی کی ابتدا رمضان میں ہوئی ۔ وہ لکھتے ہیں:
و
حکی البیهقی ان مدۃ الرؤیا کانت ستۃ اشهر و علی هذا فابتداء النبوۃ بالرؤیا و قع
فی شهر مولدہ و هو الربیع الاول بعد اکمالہ اربعین سنۃ و ابتداء وحی فی الیقظۃ فی
رمضان.(فتح الباری ص:۲۷/۱)
امام بیہقی
نے یہ حکایت کی ہے کہ خواب کی مدت چھ ماہ تھی لہٰذا خواب کے ذریعے نبوت کا آغاز
چالیس سال کی عمر مکمل ہونے پر ماہ ربیع الاول میں ہوا جو آپ کی ولادت کا مہینہ ہے
لیکن حالت بیداری میں آپ کے پاس وحی ماہ رمضان میں آئی۔
جو لوگ رمضان
میں نزول وحی کے آغاز کے قائل ہیں ان میں پھر اختلاف ہے اس دن رمضان کی کونسی
تاریخ تھی؟ بعض سات کہتے ہیں اور بعض سترہ اور بعض اٹھارہ۔(مختصر سیرۃ الرسول ص:۷۵’ رحمۃ اللعالمین ص:۴۹/۱)
علامہ محمد
خضری بک کا کہنا ہے کہ نزول وحی کی پہلی تاریخ رمضان کی سترہ تاریخ تھی۔ وہ لکھتے
ہیں:
.... لیکن اس
مسئلہ میں بڑا اختلاف ہے کہ جس رات نزول وحی کا آغاز ہوا وہ رمضان کی کونسی رات
تھی؟ محمد بن اسحاق کاخیال ہے کہ یہ رمضان کی سترھویں رات تھی ۔ اللہ تعالی کے ایک
ارشاد سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
﴿.....
اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَ مَا اَنْزَلْنَا عَلَی عَبْدِنَا یَوْمَ
الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ ﴾(سورۃ
الانفال:۴۱)
اگر تم اللہ
پر اور اس پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن نازل کیا جس دن حق و باطل
جدا ہونے والے (یوم الفرقان) تھے اور جس دن دو جماعتیں (لڑنے کے لئے) آپس میں ملی
تھیں۔
اس آیت میں
جس دن کی طرف ‘‘یوم الفرقان’’ کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد متفقہ طور پر
غزوہ بدر کا دن ہے جس کے بارے میں تصریح ہے کہ وہ سترہ رمضان کو ہوا ۔اور یوم
الفرقان سے مراد وہ دن ہے جس میں نزول قرآن کا آغاز ہوا’ اس لئے اس آیت سے رہنمائی
ملتی ہے یہ دونوں دن اس اعتبار سے متحد ہیں کہ دونوں سے مرادجمعہ سترہ رمضان ہے
اگرچہ یہ دونوں واقعات ایک ہی سال میں نہیں ہوئے بلکہ نزول قرآن کی ابتدا غزوہ بدر
سے کئی سال پہلے ہو چکی تھی۔تفسیر طبری میں سند کے ساتھ ایک روایت نقل کی گئی ہے
جس کیا گیا ہے کہ : ‘‘لیلۃ الفرقان
یوم التقی الجمعان سترہ رمضان ہے’’ اس کو نقل کرنے کے بعد علامہ خضری لکھتے ہیں :
‘‘خود ہمارا رجحان بھی اسی رائے کی طرف ہے اس لئے کہ ہمیں تو اس بات کا یقین ہے کہ
یہ رات کوئی ایسی معمولی رات نہ تھی جس کا ذکر قرآن کریم میں کہیں اشارۃ بھی نہ
کرتا بلکہ اس عظیم رات کی قدر و منزلت کا تقاضا یہ تھا کہ اس کا ذکر کسی بہتر موقع
پر آئے چنانچہ یہی واقعہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس رات کا ذکر نہایت مناسب موقع
پر فرمایا ہے اس جگہ جہاں غزوہ بدر کے واقعات کاذکر فرمارہے ہیں جس میں اللہ نے
مسلمانوں کو عزت و شوکت عطا فرمائی تھی اور اپنی مدد کے ایسے ایسے کرشمے دکھلائے
تھے جو ہر مسلمان کے لئے ہر طرح عزت و سربلندی کے ضامن تھے اور اتفاق سے یہی وہ دن
بھی تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو منصب نبوت سے سرفراز فر
مایا’’۔(تاریخ خضری ص:۶۹/۱’ تاریخ
التشریع الاسلامی ص:۷۵))
علامہ صفی
الرحمن مبارک پوری کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اکیس (۲۱) رمضان کو پیش آیا ہے۔ چنانچہ وہ
لکھتے ہیں:
‘‘ہماری
تحقیق کے مطابق یہ واقعہ رمضان المبارک کی ۲۱
تاریخ کو دوشنبہ (پیر) کی رات میں پیش آیا’ اس روز اگست کی ۱۰ تاریخ تھی اور ۶۱۰ء تھا۔ قمری حساب سے نبی کریم
صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر چالیس سال چھ مہینے بارہ دن اور شمسی حساب سے انتالیس
سال تین مہینے بائیس دن تھی’’۔(الرحیق المختوم اردو ص:۹۶۔۹۷)
اسی کتاب کے
حاشیہ میں ۲۱ رمضان
قرار دینے وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘میں نے ۲۱تاریخ کو اس بنا پر ترجیح دی ہے۔
’حالانکہ مجھے اس کا کوئی قائل نظر نہیں آیا۔ کہ بیشتر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ
آپ کی بعثت دو شنبہ کے روز ہوئی تھی اور اس کی تائید ابو قتادۃ ؓ کی اس روایت سے
بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوشنبہ کے دن روزے کی بابت دریافت
کیاگیا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا’ اور جس میں مجھے
پیغمبر بنایا گیا یا جس میں مجھ پر وحی نازل کی گئی ۔(صحیح مسلم ۳۶۸/۱’ مسند احمد ۲۹۷/۵۔۲۹۹’ بیہقی ۲۸۰/۴’۳۰۰’ حاکم ۲/۲’۶) اور اس سال رمضان میں دوشنبہ کا
دن ۷’ ۱۴’ ۲۱ اور ۲۸ تاریخوں کو پڑا تھا۔ادھر صحیح
روایات سے یہ ثابت اور معین ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں
پڑتی ہے اور ان ہی طاق راتوں میں منتقل بھی ہوتی رہتی ہے۔اب ہم ایک طرف اللہ کا یہ
ارشاد دیکھتے ہیں کہ ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ۔ دوسری طرف ابو قتادۃ
کی یہ روایت دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوشنبہ کے روز مبعوث
فرمایاگیا ’ تیسری طرف تقویم کا حساب دیکھتے ہیں کہ اس سال رمضان میں دوشنبہ کا دن
کن کن تاریخوں میں پڑا تھا تو معین ہو جاتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت
اکسویں رمضان کی رات میں ہوئی ۔ اس لئے یہی نزول وحی کی پہلی تاریخ ہے’’۔(الرحیق
ص:۹۷ حاشیہ
نمبر۴)
بعض مفسرین
کہتے ہیں کہ قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر بیت العزت میں لیلۃ القدر
میں ایک ساتھ یکبار نازل کیاگیا جس کے لئے اللہ تعالی نے لفظ ‘‘ انزلناہ’’ باب
افعال سے ذکر کیا ہے جس کے معنی ایک ساتھ اتارنے کے ہیں جبکہ بیت العزت سے زمین پر
تھوڑا تھوڑا کر کے مختلف حالات و واقعات کے مطابق نازل کرتا رہا اور یہ تئیس سال
کے عرصے پر محیط ہے ۔تفسیر ابن کثیر میں ہے:
قال
ابن عباس و غیرہ انزل اللہ القرآن جملۃ واحدۃ من اللوح المحفوظ الی بیت العزۃ من
السماء الدنیا ثم نزَّل مفصلا بحسب الوقائع فی ثلاث و عشرین سنۃ علی رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم. (دیکھئے تفسیر ابن کثیر متعلقہ سورۃ القدر)
پہلی وحی کے
نزول کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
اول
ما بدیء بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فی النوم ’ فکان
لا یری رؤیا الا جاء ت مثل فلق الصبح’ ثم حبب الیہ الخلاء و کان یخلو بغار حراء
فیتحنث فیہ ـ - هو التعبد - ـاللیالی ذوات العدد قبل ان ینزع الی اهلہ’ و یتزود
لذلك ثم یرجع الی خدیجۃ فیتزود لمثلها حتی جاءه الحق و هو فی غار حراء فجاء ہ الملك فقال: اقرأ
قال: ما انا بقارئ. قال فاخذنی فغطنی حتی بلغ منی الجهد ثم ارسلنی فقال: اقرأ’
قلت: ما انا بقارئ. قال فاخذنی فغطنی الثانیۃ حتی بلغ منی الجهد ثم ارسلنی فقال:
اقرأ’ قلت: ما انا بقارئ. قال فاخذنی فغطنی الثالثۃ حتی بلغ منی الجهد ثم ارسلنی
فقال: اقرأ باسم ربك الذی خلق خلق الانسان من علق .... حتی بلغ ما لم یعلم ....الخ
رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء نیند میں اچھے خواب سے ہوئی۔ آپ جو بھی خواب
دیکھتے تھے وہ سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہوتا تھا۔ پھر آپ کو خلوت (تنہائی) محبوب
ہوگئی چنانچہ آپ ؐ غار حراء میں خلوت فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر
مصروف عبادت رہتے۔ اس کے لئے آپ توشہ لے کر جاتے پھر توشہ ختم ہونے پر حضرت خدیجہ
ؓ کے پاس واپس آتے اور تقریبا اتنے ہی دنوں کے لئے پھر توشہ لے جاتے یہاں تک کہ آپ
کے پاس حق آیا اور آپ غار حرا میں تھے یعنی آپ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا :
پڑھو’ آپ نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔آپ ؐ فرماتے ہیں کہ اس پر اس نے مجھے
پکڑ کر اس زور سے بھینچا (دبایا) یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔پـھر
مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو’ میں نے کہا : میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ اس نے دوبارہ
مجھے دبوچا پھر چھوڑ کر کہا: پڑھو ’ میں نے پھر کہا : میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس
نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا پھر چھوڑ زکر کہا : اقرأ باسم ربك الذی خلق خلق الانسان من علق .... ما لم یعلم تک ’( یعنی پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا’ اس نے
انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا ۔ پڑھو اور تمہارارب نہایت کریم ہے۔ جس نے قلم کے
ذریعہ سکھایا ۔ انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا۔)
ان آیات کے
ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے۔ آپ کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ حضرت
خدیجہ بنت خویلد ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: مجھے چادر اوڑھا دو’ مجھے چادر
اوڑھا دو’ انہوں نے آپ ؐ کو چادر اوڑھا دی’ یہاں تک کہ خوف جاتا رہا۔
اس کے بعد آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو واقعہ کی اطلاع دیتے ہوئے
فرمایا: یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے۔حضرت خدیجہ ؓ نے
کہا : قطعا نہیں بخدا اللہ آپ کو رسوا نہ کرے گا’ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں’ درماندوں
کا بوجھ اٹھاتے ہیں’ تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں’ مہمان کی میزبانی کرتے ہیں
اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔
اس کے بعد
حضرت خدیجہ ؓ آپ ؐ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی کے پاس
لے گئیں۔ ورقہ دور جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے’ اور عبرانی زبان میں حسب توفیق
الٰہی انجیل لکھتے تھے۔اُس وقت وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ ان سے حضرت
خدیجہ ؓ نے کہا : بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے کہا: بھتیجے تم
کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کر دیا۔ اس
پر ورقہ نے آپ ؐ سے کہا: یہ تو وہی ناموس (فرشتہ) ہے جسے اللہ نے موسی ؑ پر نازل
کیا تھا۔کاش میں اس وقت توانا ہوتا ’ کاش میں اس وقت زندہ ہوتاجب آپ کی قوم آپ
کونکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو کیا یہ لوگ مجھے
نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں! جب بھی کوئی آدمی اس طرح پیغام لایا جیسا تم لائے
ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی۔ اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پالیا تو میں تمہاری
زبردست مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہو گئے اور وحی رک گئی۔(بخاری کتاب
کیف کان بدء الوحی .... الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یہ روایت صحیح بخاری
کتاب التفسیر اور تعبیر الرؤیا میں بھی مروی ہے)
فترۃ الوحی (وحی کی بندش):
پہلی وحی کے
بعد کچھ عرصہ تک وحی کا سلسلہ منقطع رہا اس عرصہ کو ‘‘فترۃ الوحی’’ کا زمانہ کہا
جاتا ہے۔وحی کی بندش کا یہ زمانہ کتنے عرصے پر مشتمل تھا اس بارے میں مؤرخین کے
مابین اختلاف ہے۔
کچھ لوگ کہتے
ہیں یہ عرصہ تین سال پر محیط تھا’ اور کچھ لوگوں کے نزدیک وحی کی یہ بندش ڈھائی
سال تک رہی اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ عرصہ چھ ماہ کا تھا جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں
فترۃ الوحی کا یہ عرصہ دس دن پر محیط ہے’ علامہ ابن حجر عسقلانی چند دن کے قائل
ہیں۔(دیکھئے اردو دائرہ معارف اسلامیہ بذیل مادہ قرآن’ فتح الباری ص:۲۷/۱’ ۳۶۰/۱۲)
صفی الرحمن
مبارک پوری کے نزدیک تین سال یہ ڈھانی ماہ کا عرصہ کہنا کسی حال میں درست نہیں ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
‘‘اما
مـدۃ فـترۃ الوحی فروی ابن سعد عن ابن عباس ما یفید انها کانت ایاما۔ و هذا الذی
یترجح بل یتعین بعد ادارۃ النظر فی جمیع الجوانب و اما ما اشتهر من انها دامت طیلۃ
ثلاث سنوات او سنتین و نصف فلا یصح بحال۔’’(الرحیق
المختوم عربی ص:۶۹)
رہی یہ بات
کہ وحی کتنے دنوں تک بند رہی تو اس سلسلے میں ابن سعد نے ابن عباس ؓ سے ایک روایت
نقل کی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ یہ بندش چند دنوں کے لئے تھی ’ اور سارے پہلوؤں پر
نظر ڈالنے کے بعد یہی بات راجح بلکہ یقینی معلوم ہوتی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ
وحی کی بندش تین سال یا ڈھائی سال تک رہی تو یہ قطعا صحیح نہیں ہے۔
مبارک پوری
کہتے ہیں کہ فترۃ الوحی کا یہ عرصہ تقریبا دس دنوں پر مشتمل تھا۔(دیکھئے الرحیق
اردو ص:۱۰۲ حاشیہ
نمبر۱۱)
حافظ ابن حجر
ؒ فترۃ الوحی یعنی وحی کی بند ش کی وجہ اور حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘ وحی کی یہ
بندش اس لئے تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو خوف طاری ہوگیا تھا دور ہو جائے
اور وحی کی آمد کا شوق اور انتظار پیدا ہوجائے۔(فتح الباری ص:۲۷/۱)
دوسری وحی:
فترۃ الوحی
کے زمانے میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے چینی سے وحی کی آمد کے منتظر رہتے
تھے۔ ایک مرتبہ جب آپ غار حراء سے واپس آ رہے تھے کہ آپ ؐ کو جبرائیل ؑ زمین و
آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھے ہوئے نظر آئے جس سے آپ کی طبیعت پر گھبراہٹ طاری ہو
گئی ۔ اس حالت میں آپ ؐ گھر تشریف لائے اور اپنی اہلیہ سے کہا مجھے کمبل اوڑھا دو۔
اس موقع پر سورہ المدثر کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل ہوئیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم پر نازل ہونے والی دوسری وحی تھی۔صحیح بخاری کتاب التفسیر میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی اپنی زبانی وحی کی بندش اور پھر جاری ہونے کا واقعہ یوں نقل کیا
گیا ہے۔
فبینا
انا امشی اذ سمعت صوتا من السماء فرفعت بصری قبل السماء فاذا الملك الذی جاء نی
بحراء قاعد علی کرسی بین السماء و الارض ’ فجئثت منہ حتی هویت الی الارض۔ فجئت اهلی
فقلت زملونی زملونی ’ فزملونی فانزل اللہ تعالی : یا ایهاالمدثر قم فانذر -الی
قولہ- فاهجر۔ ثم حمی الوحی و تتابع۔(بخاری کتاب التفسیر باب والرجز
فاهجر)
میں چلا جا
رہا تھا کہ مجھے اچانک آسمان سے ایک آواز سنائی دی ’ میں نے آسمان کی طرف نگاہ
اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا آسمان و
زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں اس سے اتنا ڈر گیا کہ مارے خوف کے زمین
پر گرگیا ’ پھر میں نے اپنے گھر والوں کے پاس آ کر کہا : مجھے چادر اوڑھا دو’ مجھے
چادر اوڑھا دو’ انہوں نے مجھے چادر اوڑھادی ۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے یا ایہا
المدثر .... و الرجز فاہجر تک نازل فرمائی۔ اس کے بعد پھر نزول وحی میں گرمی آگئی
اور وہ لگاتار نازل ہونے لگی۔
دوسری وحی
میں اترنے والی سورہ المدثر کی پہلی پانچ آتیں یہ تھیں:
یَا
اَیُّها الْمُدَّثِّرْ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَ رَبَّك فَکَبِّرْ۔ وَ ثِیَابَك فَطَهرْ
۔ وَ الرُّجْزَ فَاهجُرْ۔(سورۃ المدثر:۱ـ۵)
اے چادر
اوڑھنے والے! اٹھو اور (لوگوں کو عذاب الٰہی سے) ڈراؤ۔ اور اپنے رب کی بڑائی بیان
کر۔ اور اپنے لباس کو پاک رکھ ۔ اور گندگی سے دور رہ۔
آخری وحی:
آخری وحی کے
سلسلے میں روایات میں اختلاف ہے۔
بعض سور البقرۃ کی آیت نمبر 281 ﴿وَاتَّقُوا
یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَا
کَسَبَتْ وَ همْ لاَ یُظْلَمُونَ﴾کو آخری وحی قرار دیتے ہیں۔ اور
بعض سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 3کے درمیانی حصے ﴿اَلْیَوْمَ
اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ
لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا﴾ کو ’
بعض لوگ آیت ربوا کو آخری وحی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے
بعض لوگ سورۃ النصر کو آخری وحی قرار دیتے ہیں(دیکھئے اردو
دائرہ معارف اسلامیہ بذیل مادۃ القرآن)
علامہ خضری
بک اپنی کتاب تاریخ التشریع الاسلامی میں لکھتے ہیں:
‘‘و حی و
الہام کا یہ مبارک سلسلہ 9ذی الحجۃ سنه 10 هجري مطابق 63 میلاد محمدی تک جاری رہا اور سنه 10
ھ میں عرفہ کے روز آخری آیت نازل ہوئی ﴿اَلْیَوْمَ
اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ
لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا﴾(یعنی آج میں نے تمہارے لئے
تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام
کو بطور دین پسند کیا)
اس اعتبار سے
نزول وحی کی کل مدت بائیس سال دو ماہ اور بائیس دن ہے۔’’(تاریخ فقہ اسلامی اردو ص:۱۸)