تعمیر سیرت میں تعلیم و تربیت کا کردار

0

 

  تعمیر سیرت میں تعلیم و تربیت کا کردار

            ایک بہتر اور مفید معاشرے کی تشکیل میں تعلیم و تربیت کے کردار سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ایک بہتر معاشرہ اسی وقت تشکیل پا سکتا ہے جب اس افراد کی تعلیم و تربیت ایک بہتر نہج پر ہوئی ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب کا وہ معاشرہ جو اپنی جاہلیت کے اعتبار سے انتہاکو پہنچ چکا تھا جب اس کی تربیت اور تعلیم کا غیب سے انتظام ہوا اور رسول کریم ﷺ کو اس بگڑے ہوئے معاشرے کے مربی و معلم بنا کر بھیجا تو اس کی کایا ہی پلٹ گئی۔ تعلیم و تربیت ہی کا نتیجہ تھا تہذیب و تمدن سے کوسوں دور ’ جاہلیت میں غرق عرب کا معاشرہ بعد میں دنیا کا مقتدا ’ تہذیب کے معلم اور علم و ہنر کا استاد بن جاتا ہے ۔

افراد معاشرہ کی تعلیم و تربیت کس کی ذمہ داری ہے؟

            ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے لئے اسلامی اقدار کو فروغ دینا مدرسہ اور اساتذہ دونوں کا اولین فریضہ ہے۔اگر اسلامی اقدار کو فروغ دیں گے تب ہی باہمی ہمدردی اور رواداری پر مشتمل معاشرہ تشکیل پا سکے گا۔ لہٰذا شروع سے ہی بچوں کے ذہنوں میں اس بات کو جا گزیں کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ہمدری کرنے والا ’ باہمی تعاون کرنے والا اور بے تعصب دین ہے۔

            اسلام رواداری اور ہمدردی کا دین ہے وہ کسی کے خلاف تعصب و جائز قرار نہیں دیتا وہ تلقین کرتا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور ان کو ان کا حق دیا جائے اور ان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور یہ حکم دیتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی کی بنیاد پر ان سے نا انصافی نہ کرے۔ ارشادی باری تعالی ہے‘

            ﴿وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأَنُ قَوْمٍ عَلَی اَنْ لَّا تَعْدِلُوا ’ اعْدِلُوا هوَ اَقْرَبُ لَلتَّقْوٰی﴾(المائدہ:۸)

            اور کسی قوم سے دشمنی اس بات پر تم کو آمادہ نہ کرے کہ تم ان سے انصاف نہ کر سکو ’ انصاف کرو یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے۔

            اسی طرح اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ کسی قسم کاتعصب نہ کریں ’ تعصب سے اجتناب کریں خواہ مذہبی ہو ’ علاقائی ہو’ لسانی ہو’ یا نسلی ہو ۔ اسلام ان تمام عصبنتوں کو جڑ سے ختم کرتا ہے۔وہ تمام نسل انسانی کو برابری کی صف میں کھڑا کرتا ہے اور ان کی مختلف بنیادوں پرگروہی تقسیم کو صرف پہچان کے لئے تسلیم کرتا ہے اور بہتر و بلند تر کا معیار صرف اور صرف تقوی کو قرار دیتا ہے۔فرمایا:

            ﴿وَ جَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اكرَمَكمْ عِنْدَ اللّهِ اَتْقَاكم (الحجرات:۱۳)

            اورہم نے تمہیں گروہوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے سے پہچانے جاؤ ۔ بے شک تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی (اچھے کردار والا) ہو۔

            اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :

            ‘‘اے لوگو! تم میں سے ہر کوئی آدم سے ہے اور آدمی مٹی سے بنا ہے ’ پس کسی عربی کو کسی عجمی پر ’ کسی عجمی کو کسی عربی پر’ کسی گورے کو کسی کالے پر ’ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی کی بنیاد پر۔

            پس اسلام نے رنگ’ نسل اور جغرافیائی بنیادوں پر پھیلی ہوئی عصیبتوں کی نفی کی ہے اور تمام انسانوں کو آدم علیہ السلام کی اولاد قرار دے کر تمام انسانیت کو عدم تعصب کا درس دینے کے ساتھ دوسرے انسانوں کے ساتھ رواداری اور ہمدردی کامظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے۔

حجة الوداع كے موقع پر عام انسانيت كو درس مساوات ديتے هوئے فرمايا كه تم ميں سے كسي عربي كو عجمي پر اور كسي عجمي كسي عربي پر ، كسي گورے كو كالے پر اور كسي كالے كو كسي گورے پر كوئي فضيلت حاصل نهيں هے۔ تم سب آدم كي اولاد هو اور آدم كو مٹي سے پيدا كيا گيا هے۔ گوياآپ نے تمام لوگوں كو ان كي اصليت "مٹي" ياد دلا كر يه باور كراياكوئي بھي شخص اپنے آپ كو افضل اور برتر خيال نه كرے ، تم سب كي اصليت ايك هي هے يعني مٹي اور سب نے اسي مٹي ميں جانا هے لهذا نسل پر فخر كرنا كار بيكار هے۔ اصل فضيلت كا معيار "تقوي" هے اور اسي كي طرف  توجه دلاتے هوئے رسول كريم صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:" الا بالتقوي" يعني  اگر كسي كو فضيلت حاصل  هے تو وه تقوي كي بنياد پر  هے۔ لهذا جو شخص عند الله افضل بننا چاهتا هے اس كے لئے چاهئے كه وه اپنے اندر تقوي پيدا كرے اور معاشرے ميں تقوي كو فروغ دينے كي كوشش كرے تاكه ايك بهتر معاشره تشكيل پا سكے۔

            ہمدردی اور رواداری سے بھرپور معاشرہ اسی وقت تشکیل دیاجا سکتا ہے جب اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کریں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں’ اور یہ ہم اس وقت کر سکتے ہیں جب ہم اپنے بچوں کو شروع سے ہی اس کی تعلیم دیں اور خود بھی اس (رواداری اور ہمدردی) کا عملی مظاہرہ کریں۔

          همارا تجربه اور مشاهده هے كه      اسکول /مدرسہ، كالج يايونيورسٹيوں میں جو طلبا پڑھتے ہیں وہ عام طور پر مختلف قبیلوں اور قوموں اور علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو نسلی طور پر یا علاقائی یا لسانی طور برتر خیال کرتے ہیں ’ کسی کے اندر مذہبی تعصب ہوتا ہے’ کسی کی اندر علاقائی ’ کسی کے اندر لسانی اور کسی کے اندر نسلی تعصب ہوتا ہے اور مختلف مواقع پر ان تعصبات کا مظاہرہ ہوتا ہے اس صورت میں اساتذہ اور مدرسے، كالج اور جامعه  کا اولین فریضہ ہے کہ وہ طلبہ کو رواداری اور باہمی اشتراک اور ہمدردی کی تعلیم دے کر ان تعصبات کو ختم کریں تاکہ جب یہ بچے بڑھ کر عملی میدان آئیں تو اچھے شہری بن کر ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کریں جو ایک آئیڈیل معاشرہ ہو اور جہاں کے تمام باشندے اور باسی امن و سکون سے زندگی بسر کرتے ہوئے باہمی الفت و محبت سے رہیں۔الله هم سب كا حامي و ناصر هو

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)