تعلیم کا مقصد ایک بہتر معاشرے کی تشکیل
Educating
children for an inclusive and tolerant society
تحریر: ابراہیم عبد اللہ یوگوی
تعلیم دینے کے بہت سے مقاصد ہوتے ہیں ان میں سے ایک اہم اور بنیادی مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جو بہت ساری خوبیوں کا حامل ہو۔ ایک ایسا معاشرہ جو جامع اور روادار ہو۔ انسان چونکہ ایک معاشرتی حیوان ہے’ اس لئے وہ میل جول کر زندگی بسر کرتا ہے۔ اور معاشرہ اسی وقت وجود میں آتا ہے جب کچھ لوگ مل جل کر رہنے لگیں اگر انفرادی طور پر زندگی گزاری جائے تو یہ معاشرہ نہیں کہلاتا۔اور معاشرے کی تشکیل میں اس کی افراد کا بڑا رول ہوتا ہے۔ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ اس کے باشندے اور افراد معاشرہ کے اندر تحمل و بردباری ’ باہمی شراکت اور ہمدردی کاجذبہ موجود ہو۔
اسلام سے قبل عربوں کی معاشرتی حالت:
اسلام سے قبل
عربوں کے معاشرے پر اگر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ انتہائی
بدحالی کا شکار تھا۔ اس کے باشندوں میں تحمل اور بردباری نام کی کوئی چیز نہیں تھی
اسی لئے وہ ہر وقت لڑنے مرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک
دوسرے کی گردن اڑائی جاتی تھی اور معمولی باتوں پر کئی سال تک خاندانوں میں لڑائی
کا سلسلہ جاری رہتا تھا ۔مثلا بنو بکر اور بنو تغلب کے درمیان ایک اونٹنی پر جھگڑا
ہوا اور جنگ بسوس کے نام سے شدید جنگ ہوئی جو چالیس سال تک جاری رہی۔ایسی طرح بنو
عبس اور بنو ذبیان کے درمیان گھڑدوڑ کے مسئلے پر برسوں تک جنگ جاری رہی۔ ان کے اس
عدم رواداری اور عدم بردباری کے رویے کو مولاناحالی نے اپنے مسدس میں یوں نظم کیا
ہے۔
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
عہد جاہلیت
میں عرب میں کسی قانون کی عمل داری نہیں تھی صرف ان کے قبیلے کا سردار ہی سب کچھ
ہوتا تھا اسی کا حکم چلتا تھا’ وہ جو کچھ کہتا وہی قانون بن جاتا’ اخلاقیات میں یہ
لوگ بہت ہی گراوٹ کا شکار تھے۔تعلیم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا ’ یہی وجہ ہے کہ
ظہور اسلام کے وقت بلاذری کے مطابق مکہ شہر میں پڑھے لکھے افراد انگلیوں پر گنے جا
سکتے تھے۔ ان کے بعض قبائل میں بچیوں کی پیدائش پر غم منایا جاتا اور بعض لوگ تو
بچیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ کوئی ایسی برائی نہیں تھی جو اس معاشرے میں رائج نہ
ہو۔
اسلام کی آمد اور معاشرتی اقدار میں تبدیلی:
لیکن وہی
معاشرہ جہاں وحشت اور دہشت کا راج تھا اسلام نے آکر ان کے اندر اخلاقی اقدار
پیداکیا اور ان کو اپنی آفاقی تعلیمات سے روشناس کرایا تو ان کے اندر رواداری اور
ہمدردی کا ایسا جذبہ پیدا ہو گیا کہ باہم شیر و شکر ہو گئے اور وہ اس طرح ہوگئے کہ
سگے بھائی سے بھی بڑھ کر اپنے اسلامی بھائی کاخیال رکھنے والے بن گئے۔ مواخات
مدینہ اس کی بڑی مثال ہے’ باہمی ہمدردی اور مواسات کا اس سے بڑھ کر کوئی مظاہر ہو
ہی نہیں سکتا تھا۔
اسلامی
تعلیمات میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جسے
آئیڈیل معاشرہ کہا جا سکتا ہے۔لہذا بچوں کو اگر اسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس
کرایا جائے اور انہیں اسلامی اقدار کی پاسداری کے لئے شروع سے ہی تعلیم دی جائے تو
کوئی بعید نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں جو معاشرہ تشکیل پائے گا وہ بہت ہی ہمدرد
اور روادار معاشرہ ہوگا۔
ایک جامع اور روادار معاشرے کی خصوصیات:
دنیا میں
موجود معاشروں کی تاریخ اور خصوصیات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات نہایت عیاں
ہوجاتی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں ہی وہ خصوصیات ہیں جو ایک بہتر اور روادار معاشرے
کی تشکیل کے لئے بنیاد فراہم کرتی ہیں مگر افسوس آج کل مسلمانوں نے اپنے دین کی
تعلیمات کو بالکل ہی فراموش کر دیا ہے جس کی وجہ سے مسلمان معاشرہ ہی ہر طرح کی
تباہی و بربادی کا شکار ہے۔اہم یہاں مختصرا اسلامی معاشرے کی خصوصیات کا مطالعہ
کرتے ہیں تاکہ یہ بتایا جائے کہ ایک جامع اور روادار معاشرہ کی تشکیل میں اسلامی تعلیمات
کیا کر دار ادا کر سکتی ہیں۔
۱۔
توحید:
ایک جامع اور
روادار معاشرے کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ اس معاشرے میں رہنے والے سب صرف ایک
الہ کی عبادت کرنے والے ہوں۔ مختلف خداوؤں کے قائل لوگوں کا معاشرہ وحدت کا نہیں
انتشار کا شکار ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں نظریہ توحید کو کلیدی حیثیت حاصل
ہے۔نظریہ توحید کو ماننے سے بے مثال معاشرتی وحدت پیدا ہوتی ہے۔ ایک خدا’ ایک
کائنات’ ایک رسول’ ایک قبلہ’ ایک ہی طرز عبادت’ ایک ہی کتاب کے ماننے والے’ معاشرے
کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔
۲۔
نظریہ اور عمل کا حسین امتزاج:
عمل کے بغیر
صرف نظریہ سے کوئی معاشرہ تشکیل نہیں پاتا۔ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے لئے ضروری
ہے کہ ایک بہتر نظریہ کا حامل ہو اور اپنے نظریے کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔
اسلامی معاشرہ نظریہ اور عمل کا حسین امتزاج ہے۔ یہ محض نظریہ کا نام نہیں بلکہ اس
کا عملی پہلو بہت نمایاں ہے۔ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق اسلام ایمان اور عمل صالح
کا مجموعہ ہے۔
۳۔
مساوات:
معاشرے میں
رواداری اور جامعیت اور اجتماعیت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس معاشرے میں
مساوات ہو۔معاشرتی اور قانونی اعتبار سے سب لوگ برابر ہوں۔بحیثیت انسان کسی کو کسی
پر فوقیت نہ ہو۔ رنگ نسل اورزبان کی بنا پر کسی کو کوئی فوقیت نہ دی جائے۔ اسلام
نے یہی نظریہ پیش کیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو
عربی پر ’ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے
تقوی کے۔
اسی طرح قرآن
میں ہے: ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم(الحجرات:۱۳)
۴۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر:
معاشرے میں
رواداری قائم کرنے اور اجتماعیت برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس معاشرے میں
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام بخوبی انجام پاتے رہیں۔ اسلام کا اصول یہ
ہے ک ہ تعاون باہمی صرف نیکی کے کاموں پر ہوجبکہ برائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے
ساتھ تعاون نہ کیا جائے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کاموں کی وجہ سے ہی
اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو خیر امت کہا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ
و تعاونوا على البر و
التقوی و لا تعاونوا على الاثم و العدوان.
(المائدۃ: ۲)
اور تم نیکی
کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا کرو اور گناہ اور عدوان کے کاموں میں
ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو۔
۵۔
عدل و انصاف:
جب تک عدل و
انصاف قائم نہ کیا جائے اس وقت تک معاشرے میں امن و سکون حاصل نہیں ہوتا اور
معاشرے میں اتحاد و اتفاق اس وقت قائم ہوتا ہے جب معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہو۔
جس معاشرے میں ظلم و تعدی ہو وہاں اجتماعیت اور یکجہتی نہیں انتشار اور افتراق
پیدا ہوتا ہے۔
ان
اللہ یامر بالعدل و الاحسان. (النحل :۹۰)
الله تعالي عدل اور احسان كا حكم ديتا هے۔
يا ايها لذين
امنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط و لا یجرمنکم
شنان قوم علی ان لا تعدلوا اعدلوا هو اقرب للتقوی، و اتقوا الله ان الله خبير بما
تعملون. (المائدۃ:8)
اے ايمان والو! تم الله كي خاطر حق پر قائم هو جاؤ ، راستي اور
انصاف كے ساتھ گواهي دينے والے بن جاؤ، كسي قوم كي دشمني تمهيں خلاف عدل پر آماده
نه كرے ، عدل كيا كرو جو پرهيزگاري كے زياده قريب هے، اور الله سے ڈرتے رهو ،
يقينا الله تعالي تمهارے اعمال سے باخبرهے۔
۶۔
رواداری:
معاشرے میں
رہنے والے تمام افراد اور طبقات اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرنا چاہئے۔ اور معاشره هر طرح كے تعصب سے پاك هونا چاهئے۔ ايك اسلامي معاشره كےافراد كے اندر حلم اور
بردباري اور برداشت كا ماده پايا جاتاهے اور وه اپنے مخالفين كو محض ان كے عقيدے
اور نظريے كي بنياد پر نشانه نهيں بناتے جب تك وه ان كے خلاف كوئي اقدام نه كرے۔
اس كي بهترين مثال عهد رسالت اور عهد خلافت ميں اسلامي رياست ميں پرامن طريقے
سےرهنے والےغير مسلم رعايا هيں كه انهيں ان كے اپنے مذهب پر عمل پيرا هونے كي كھلي
آزادي تھي۔
۷۔
اخوت و ہمدردی:
اسلامي
تعليمات باهمي همدردي اوراخوت و بھائي چارے كا درس ديتي هے اور اپنے ماننےوالوں سے
مطالبه كرتا هے كه وه ايك دوسرے كے حقوق كا خيال ركھيں اور دوسرے مسلمان كو اپنا
بھائي سمجھيں۔ ارشاد باري تعالي هے:
انما المؤمنون اخوة
(الحجرات: ۱۰)
بےشك سارے
مسلمان بھائي بھائي هيں۔
اس آيت كريمه ميں يه بتايا گيا هے
كه تمام مسلمان ايك عالمگير برادري كاحصه هيں اور باهمي طور پر ان كےدرميان جو
اخوت كا رشته هے وه اس بات كا متقاضي هے كه وه ان كے ساتھ بهتر سلوك كريں اور ايك
دوسرے كے خير خواه رهيں۔ يهي وجه هے كه
رسول كريم صلي الله عليه وسلم بھي لوگوں سے بيعت ليتے توان كو اس بات پر آماده
كرتے كه وه اپنے دوسرے مسلمان بھائي كا خير خواه رهيں گے ۔مثلاحضرت جرير بن عبد
الله كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے مجھ سے تين باتوں پر بيعت لي تھي
ايك يه كه نماز قائم كروں گا دوسرے يه كه زكوة ديتارهوں گا تيسرے يه كه هر مسلمان كا
خير خواه رهوں گا۔(صحيح بخاري كتاب الايمان)
ايك اور حديث رسول ميں هے:مؤمنوں
كي مثال آپس كي محبت، وابستگي اور ايك دوسرے پررحم و شفقت كے معامله ميں ايسي هے جيسے ايك جسم كي
حالت هوتي هے كه اس كے كسي ايك عضو كو بھي تكليف هوتي هے تو ساراجسم اس پر بخار
اور بے خوابي ميں مبتلاهو جاتا هے ۔(صحيح بخاري و مسلم)
۸۔
معاشی انصاف/ تقسیم دولت میں انصاف:
اسلام معاشي
انصاف كا درس ديتا هے اور اس سلسلے ميں بعض اقدامات بھي كرتا هے تاكه دولت ايك جگه
يا بعض لوگوں كے هاتھوں ميں مرتكز هو كرنه ره جائے بلكه معاشرے ميں گردش كرتي رهے
تاكه امير امير تر اور غريب غريب تر نه هو جائے بلكه هركسي كو اسي كي محنت كے
مطابق حصه ملتا رهے۔ سوره الحشر ميں مال
فے كي تقسيم كے مصارف كا ذكر كرنے كے بعد اس كي وجه بيان كرتے هوئے بتايا كه " كي لا يكون دولة بين الاغنياء منكم"
(الحشر: ) تاكه دولت صرف اميروں كے درميان
گردش كرتي نه ره جائے۔
معاشرے ميں تقسيم
دولت ميں معاشي انصاف كے لئے اسلام نے بهت سے اقدامات اٹھائے هيں ان ميں نظام
زكوة، نظام عشر، مالي كفارات، واجب صدقات، تبرعات، وراثت كي تقسيم وغيره شامل هيں۔
اسي طرح قرآن و حديث ميں جا بجا والدين، اولاد، قرابت داروں، يتيموں، مساكين اور
ديگر نادار طبقات تك دولت كي فراهمي كي
هدايات موجود هيں جو اس بات كي دليل هے كه ايك اسلامي معاشره تقسيم دولت ميں انصاف
كي فراهمي كے لئے كتنے كوشاں رهتا هے۔
۹۔
امداد باہمی:
امداد باہمی
ایک بہت ہی بڑا ذریعہ ہے کہ معاشرے کے اندر بسنے والے افراد کے درمیان تعاون اور
الفت و محبت قائم کرنے کے لئے۔ نادار اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے اور اہل حاجت
کی حاجت براری کرنے کے سے افراد معاشرہ کے اندر باہمی طور پر الفتت و محبت کو فروغ
ملتا ہے اور ناچاقی اور ناراضگی ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے معاشرے میں امن و سکون آجاتا
ہے۔
۱۰۔
حقوق کی ادائیگی:
اسلامي
معاشرے كي خصوصيات ميں سے ايك يه بھي هے كه معاشرے ميں بسنے والے هر فرد كوخواه وه
مسلم يه غير مسلم اس كے بنيادي حقوق سے محروم نهيں رهناچاهئے جيسااسلام كے عهد
ميمون ميں اسلامي رياست مدينه ميں هر باشندے كو حاصل هوتاكرتا تھا۔اگر آج عهد ميں
كسي مسلم معاشرے ميں لوگوں كو ان كے حقوق سے محروم ركھا جاتا هے تو يه اسلامي تعليمات
كے خلاف هے ۔ كسي بھي انسان كے بنيادي حقوق درج ذيل هيں۔
(۱) مذہبی حقوق (۲) سیاسی حقوق (۳) معاشی حقوق (۴) معاشرتی حقوق (۵) قانونی حقوق
الف) مذهبي حقوق: معاشرے كے هر فرد كو اپنے مذهب پر عمل كرنے كي مكمل آزادي حاصل هوتي
هے۔ ليكن ياد رهے كه مذهبي آزادي كي آڑ ميں دوسرے مذهب كي توهين نه كرے۔
ب) سياسي حقوق: سياسي
حقوق كامطلب يه هے كه كوئي بھي شخص كسي بھي سياسي جماعت ميں شامل هو سكتا هے يا
اپني سياسي جماعت بنا سكتا هے۔اسي طرح وه سياسي سرگرميوں ميں حصه لے سكتا هے۔
ج) معاشي حقوق: معاشي طور پر وه كوئي بھي پيشه اختيار كر سكتا
هے اور كوئي بھي كاروبار كر سكتا هے البته اسلامي اصولوں كے مطابق جن كارو باري طريقوں
كي اسلام ميں ممانعت هے وه اختيار نهيں كر سكتا اور نه هي حرام اور ممنوعه اشياء
كي تجارت كرسكتا هے۔ علاوه ازيں حلال اشياء كي تجارت اور تمام حرفت و صنعت اختيار
كرنے ميں مكمل آزادي حاصل هوتي هے ۔
د) معاشرتي حقوق: معاشرتي حقوق ميں ميں تمام شهري برابر كے حصه
دار هوتے هيں اور هر ايك كو يه حق حاصل هوتا هےخواه اس كا نظريه يا عقيده كچھ بھي
هو۔ معاشرتي حقوق ميں جان و مال كا تحفظ، عزت و ناموس كي حفاظت، تعليم كي سهولت،صحت
كے مسائل كے لئے علاج و معالجه كي سهولت ، نكاح و طلاق كے امور وغيره جو بھي انساني حقوق هيں سب شامل هيں۔
ھ) قانوني حقوق: ايك اسلامي معاشرے ميں بسنے والے هر فرد كو
قانوني حقوق بھي حاصل هوتے هيں اوركوئي بھي فيصله كيا جائے عدل اور انصاف كے
تقاضوں كو پورا كرنا اس كا حق هے۔ عهد رسالت اور عهد خلافت ميں پيش آنے والے بهت
سے واقعات اس بات كي دليل هے كه اسلام ميں قانون سب كے لئے برابر هے، خواه وه مسلم
شهري هو يا غير مسلم شهري،انصاف كي فراهمي سب كے لئے يكساں هے ۔
۱۱۔
صلہ رحمی/ قرابت داروں کے حقوق:
ايك بهتر
معاشرے ميں صله رحمي كا خاص خيال ركھا جاتا هے اور قرابت داروں كے حقوق كي ادائيگي
پر زور ديا جاتا هے۔ قرآن و حديث ميں قرابت داروں كے ساتھ حسن سلوك كي بڑي تاكيد
آئي هے۔ قطع رحمي كواسلام نے حرام قرار ديتے هوئے قاطع رحم كو جنهمي قرار ديا هے
جو اس بات كي دليل هے كه ايك ايسامعاشره تشكيل ديا جائے جهاں رشته دار ايك دوسرے
كے حقوق كا خيال ركھيں اور باهمي قرابت داري كوفروغ ملے،اس سے باهمي تعاون اور ايثار
و قرباني كو بھي فروغ ملتا هے جس سے نادارا اور حاجتمندوں كي داد رسي جا تي هے اور
باهمي محبت و اخوف ميں اضافه هو تا هے۔
۱۲۔
ہمسایوں کے حقوق:
اسلام ميں جهاں
والدين، اولاد اور قرابت داروں كے حقوق بيان هوئے او ر ان كے ساتھ حسن سلوك كرنے
كاحكم ديا گيا هے وهاں همسايوں كے ساتھ بھي اچھے برتاؤں كرنے اور ان كے حقوق بھي
بجا لانے كا حكم ديا گيا هے۔ اكرام جار كو ايمان كي علامت قرار ديا هے جو اس بات كي
دليل هے كه جو شخص اپنے پڑوسي كا خيال نهيں ركھتا اس كے ايمان ميں كھوٹ هے۔حضرت
ابو شريح رضي الله عنه بيان كرتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا :
الله كي قسم وه شخص ايمان والا نهيں، الله كي قسم وه شخص ايمان والانهيں، قسم بخدا
وه شخص ايمان والا نهيں۔ عرض كيا گيا يا
رسول الله ! كون ايمان والا نهيں؟ فرمايا: جس كا همسايه اس كي ايذا رساني سے محفوظ
نه هو۔ (صحيح بخاري كتاب الادب باب من لا يؤمن جاره بوائقه)
همسايوں كے حقوق ميں سے نه صرف يه
كه ان كو ايذا و غيره نه دي جائے بلكه ان كي مالي معاونت بھي كي جائے اگر همسايه مالي طور پر كمزورهو ايك حديث واضح
طور پر كيا گيا هے كه وه شخص مؤمن نهيں هو سكتا جو خود تو پيٹ بھر كر كھائے اور اس
كا پڑوسي بھوكا رهے۔ (طبراني)
۱۳: مسلمانوں
کے باہمی حقوق:
جيسا كه پهلے
ذكر كياگيا هے كه ايك معاشرے ميں بسنے والے افراد كے درميان مختلف حوالے سے بهت سے
باهمي حقوق هيں ، ان كے علاوه رسول كريم صلي الله عليه وسلم نے خصوصيت كے ساتھ
پانچ حقوق ايسے بيان كئے هيں جو مسلمانوں كے باهمي محبت اور شفقت كو بڑھانے اور
باهمي تعاون ميں اضافه كرنے كے سبب هيں۔ نبي كريم صلي الله عليه وسلم نے فرمايا:
مسلمان كا مسلمان پر پانچ حقوق هيں سلام كاجواب دينا، مريض كي عيادت كرنا، جنازے
ميں ساتھ جانا، دعوت قبول كرنا اور چھينك كا جواب دينا۔( ديكھئے صحيح مسلم كتاب السلام
باب من حق المسلم علي المسلم حديث نمبر
2162، سنن ابي داود كتاب الادب حديث نمبر 5030، جامع ترمذي كتاب الادب حديث نمبر
2736)
ترمذي كي روايت ميں پانچ كے بجائے چھ حقوق كا ذكر هے اور چھٹا
حق يه بيان كيا گيا هے كه "ويحب له
ما يحب لنفسه" يعني اپنے مسلمان بھائي كے لئے بھي وهي كچھ پسند كرے جو وه خود
اپنے لئے پسند كرتا هے۔
۱۴۔
غیر مسلموں کے حقوق:
اسلامي
معاشرے ميں بسنے والے جتنے بھي غير مسلم هيں ان كے لئے بھي اسلام نے حقوق متعين
كئے هيں اور ان كو بھي وه سارے حقوق حاصل هوتے هي جو كسي مسلمان شهري كو حاصل هوتا
هے سوائے چند امور كے جن ميں ان كي انجام دهي كے لئے مسلمان هونا شرط هے ۔ مثلا
كها جاتا هے كه اسلامي آئين سے وفاداري كي شرط پوري نه كرنے كي وجه سے اهل ذمه
پاليسي ساز اداروں ، تفويض وزارتوں اور ان مناصب پر فائز نهيں هو سكتے هيں جو
اسلامي نظام حكومت ميں كليدي حيثيت ركھتے هيں بقيه تمام ملازمتوں اورعهدوں پر وه
فائز هو سكتے هيں۔
غير مسلم
شهريوں كو حاصل حقوق ميں مذهبي آزادي، عقيدے كي آزادي، عبادت كي آزادي، سياسي آزادي،انصاف
كي فراهمي، جان و مال كاتحفظ، عزت و آبرو كي حفاظت ، حصول علم كے مواقع كي فراهمي،
معاشي حقوق، معاشرتي حقوق غرض انسان كے تمام
بنيادي حقوق ان كو حاصل هوتے هيں۔