امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، حالات و نظريات

0

 

  امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ

حالات و نظريات

نام و نسب:

   ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی بن ماہ بن ہرمز التیمی الکوفی۔

            آپ کے پوتے اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ کے مطابق آپ فارسی النسل ہیں۔ان کے دادا غالبا کابل کے رہنے والے تھے۔ وهاں سے هجرت كر كے كوفه آگئے اوروهيں آباد هو گئے۔

تاریخ و جائے پیدائش:

  امام ابو حنیفہ رحمه الله سنه ۸۰ھ بمطابق ۶۹۹ عیسوی میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔

کنیت ابو حنيفه ركھنے كي وجه:

            امام صاحب کی کنیت أبو حنیفہ ہے اور آپ نام سے زیادہ اپنی کنیت سے مشہور ہے۔ آپ کی کنیت کے بارے میں اختلاف ہے ’ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ آپ کی ایک ذہین و فطین بیٹی تھی جس کا نام حنیفہ تھا جس کی نسبت سے آپ کی کنیت ‘‘ابو حنیفہ’’ پڑ گئی ہے جب کہ بعض دوسرے مؤرخین کا خیال ہے کہ آپ کی یہ کنیت حقیقی کنیت نہیں بلکہ وصفی اعتبار سے ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے : ﴿فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرَاهِیْمَ حَنِیْفًا﴾ یعنی ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو جو اللہ کے راستے پر یکسو ہو کرچلتے تھے۔ امام صاحب نے اسی نسبت سے اپنے لئے" ابو حنیفہ"  کنیت اختیار کی، اور اسي كنيت سے آپ دنياميں معروف  و مشهور هوئے۔

ابتدائی حالات اور تعلیم:۔

            ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے گھر پر حاصل کی ۔ بیس برس کی عمر میں تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوئے۔ کوفہ امام صاحب کا مولود و مسکن تھا جو اسلام کی وسعت و تمدن کا دیباچہ تھا۔ وہاں بڑے بڑے ماہرین علم اساتذہ اور فقہاء رہتے تھے آپ نے وہاں کے مشہور علماء و اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ سب سے پہلے ادب و انتساب اس کے بعد خصوصاً علم الکلام و منطق حاصل کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد فقیہ وقت امام حماد بن ابی سلیمان (  متوفی   ۱۲۰ھ) کے حلقہ درس میں شریک ہونے لگے۔

            امام صاحب نے فقہ کے ساتھ حدیث پڑھنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا وہ جانتے تھے کہ مسائل فقہیہ کی مجتہدانہ تحقیق حدیث کی تکمیل کے بغیر ناممکن ہے۔ کوفہ میں جن محدثین سے امام ابو حنیفہ رحمه الله نے علم حاصل کیا ان میں امام شعبی’ سلمہ بن کہیل’ محارب بن دثار’ ابو اسحاق سبیعی’ عون بن عبد اللہ’ سماک بن حرب وغیرہ مشہور ہیں۔ الغرض کوفہ میں کوئی ایسا عالم حدیث نہیں تھا جس کے سامنے امام ابو حنیفہ نے زانوئے تلمذ تہ نہ کیا ہو۔

            کوفہ کے بعدامام ابو حنیفہ رحمه الله بصرہ تشریف لے گئے اور وہاں مشہور محدث حضرت قتادہ اور شعبہ کے حلقہائے درس میں شریک ہوئے۔ امام ابو حنیفہ رحمه الله نے حرمین کے شیوخ سے بھی استفادہ کیا خصوصاً عطاء بن ابی رباح سے مکہ میں اور سالم بن عبد اللہ سے مدینہ منورہ میں۔ اسی طرح امام باقر کی خدمت میں ایک مدت تک استفادہ علم کی غرض سے حاضر رہے۔ شوق علم کا یہ عالم تھا کہ اخیر عمر تک حصول علم کے خیال کو دل سے نہیں نکالا۔

تدریس و فقہ کی ترویج:۔

            امام ابو حنیفہ رحمه الله نے کوفہ میں اپنی علٰیحدہ کوئی درس گاہ قائم نہیں کی بلکہ اپنے استاد کی درس گاہ میں انہی کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ۱۲۰ھ  میں جب ان کے استاد حماد بن ابی سلیمان کا انتقال ہوا تو اہل کوفہ نے استاد کی جانیشنی کے لئے تمام شاگردوں میں امام ابو حنیفہ کا انتخاب کیا اور درخواست کی کہ مسندِ درس کو مشرف فرمائیں۔ آپ نے ان کی درخواست کو قبول کیا اور اپنے استاد کی مسند درس پر بیٹھ کر درس دینے لگے۔ تھوڑے ہی دنوں میں امام ابو حنیفہ کی قابلیت نے تمام اسلامی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔

            کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمه الله نے اپنے شاگردوں میں سے چالیس نامور اشخاص پر مشتمل ایک مجلس بنائی تھی اس میں امام ابو یوسف اورامام زفر جیسے نمایاں شخصیات شامل تھیں انہوں نے آپ ؒ کی سرکردگی میں تیس برس تک کام کیا۔ان کے مدون کردہ مسائل کی تعداد بارہ لاکھ نوے ہزار سے کچھ زیادہ بتائی جاتی ہے۔(دیکھئے دائرہ معارف اسلامیہ اردو تحت مادہ ‘‘ابو حنیفہ’ؒ’)

            امام صاحب کے شاگردوں میں امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے زیادہ شہر ت حاصل کی اور یہ دونوں ’’صاحبین‘‘کے نام سے مشہور ہوئے۔ حنفی مسلک میں ان کے فتوے پر بھی عمل کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتاہے کہ اگر امام ابو یوسف نہ ہوتے تو امام صاحب کا مذہب رائج نہ ہوتا۔اسی طرح مذہب حنفیہ کا ایک بڑا امام امام زفر بھی ہیں جن کے اقوال اکثر فقہی کتابوں میں ملتے ہیں، اور فقه حنفي ميں ان كے فتوؤں پر بھي عمل كيا جاتا هے۔

فقه حنفي كي ترويج و اشاعت كي وجه:

            امام ابو حنيفه  ؒ  اپني ذهانت و فطانت اور تبحر علمي كي بنا پر اس وقت بهت زياده مشهور هوئے اور لوگوں نے آپ كو "امام اعظم" كالقب ديا۔  آپ كے جو شاگرد بهت مقبول هوئے وه آپ كے فقه كي ترويج كا سبب بنا۔ خلافت عباسیہ میں ہارون رشید کے عہد میں فتاوی ابی حنیفہ ساری قلمرو میں قانون سلطنت کی حیثیت سے نافذ تھے۔مغلوں کے سیلاب کے بعد جو خاندان برسر اقتدار آئے ان میں سے اکثر حنفی تھے۔حنیفیت نے برصغیر میں مقبولیت حاصل کر لی چنانچہ وسطی ایشائی ریاستوں کے ساتھ افغانستان اور پاکستان و ہندوستان میں اکثریت حنفی المسلک ہیں ۔

امام ابو حنيفه  ؒ   كا پیشہ:

            امام ابو حنیفہ  ؒ تدریس پر معاوضہ لینے کو درست خیال نہیں کرتے تھے چنانچہ ان کی رائے میں تدریس اور امامت نماز اور آذان پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے لئے تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور آپ ریشمی کپڑوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔ علم الکلام اور پیشہ تجارت نے آپ میں عقل و رائے سے استصواب کرنے ’ احکام شرعیہ کو عملی زندگی میں جاری کرنے اور مسائل جدیدہ میں قیاس و استحسان سے کام لینے کی صلاحیت تامہ پیدا کر دی تھی۔

فقه حنفي كے اولين ماخذ:

            فقہ حنفی کے اولین ماخذ تین بتائے جاتے ہیں:

 (۱) امام صاحب کی اپنی کتب و فتاوی (۲) اس مجلس فقہ کی فیصلے جو امام صاحب نے غیر سرکاری طور سے شریعت کی تدوین کے لئے قائم کی تھی اور (۳) ان کی نامور ترین شاگردوں مثلا قاضی ابو یوسف’ امام محمد بن حسن شیبانی اور امام زفر کی تصانیف و آراء۔(دیکھئے دائرہ معارف اسلامیہ اردو تحت عنوان الحنفیہ) گويا فقه حنفي كےمأخذ  صرف امام صاحب كي تصنيفات يا تاليفات اور فتاوے نهيں بلكه ان كے شاگردوں كے فتاوے بھي حنفي فقه كا جزء هے يهي وجه سے كه بهت سے مسائل ميں امام ابو حنيفه  ؒ اور ان كے شاگردوں كے نظريات ميں كافي فرق پايا جاتا هے۔ اور ضرورت كو مد نظر ركھتے هوئے آج كل كے علماء حنفيه امام ابو حنيفه  ؒ كے فتوے كے خلاف ان كے شاگردوں كے فتوے كے مطابق فتوي ديتے اور عمل كراتے هيں۔

فقہی افکار و نظریات:

            آپ چونکہ مسائل جدیدہ میں زیادہ تر قیاس و استحسان سے کام لیتے تھے لہٰذا آپ کے مذہب کا نام ’’مذہب اہل الرائے‘‘مشہور ہو گیا۔ آپ كے فقهي افكار  و نظريات مختصراحسب ذيل هيں:

q               امام صاحب قرآن و حدیث میں جو کچھ مذکور ہے اس پر بغیر فلسفیانہ مباحث کے ایمان لانا کافی سمجھتے تھے۔

q               تقدیر پر غور کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔

q               حدیث کے ضمن میں وہ خبر متواتر کو مدار ایمان قرار دیتے تھے۔

q               ان کے نزدیک خبر واحد پر عمل واجب ہے لیکن اسے ایمانیات میں حجت تسلیم نہیں کرتے۔ آپ خبر واحد کو وہ درجہ نہیں دیتے جو اسے شافعی یا حنبلی مسلک میں حاصل ہے۔ آپ اس روایت کو تسلیم نہیں کرتے جو قرآن و حدیث سے متصادم ہو۔

q               آپ خبر واحد اور خبر مرسل کو قیاس پر ترجیح دیتے ہیں۔

q               امام ابو حنیفہ کے نزدیک کتاب و سنت کے بعد اجماع صحابہ کو اہمیت حاصل ہے۔

q               آپ نے نہ صرف پیش آمدہ مسائل کے حل ڈھونڈے ہیں بلکہ فروعی مسائل میں بھی غور و خوض کیا۔

q               آپ نے قیاس کو ایک فن کی صورت دی۔

q               آپ نے استحسان کو اپنایا ۔ استحسان قیاس کو چھوڑ کر اصول ثانیہ کی رو سے فتویٰ دینے کا نام ہے۔بالفاظ دیگر کسی خاص تقاضے کی بنا پر قیاس جلی کو چھوڑ کر قیاس خفی کو ترجیح دینا استحسان کہلاتا ہے۔

تصانیف:۔

(1)            مسند ابی حنیفہ: آپ کے نام سے خوارزمی نے ایک مسند جمع کی ہے جو مختلف اسناد کی چودہ مسندوں کا مجموعہ ہے۔ ان مسندوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی روایات بعد میں مدون کر دی گئی ہیں۔

(2)            الفقہ الاکبر: یہ ایک رسالہ ہے جو فقہ کے بارے میں ہے اور آپ سے منسوب ہے۔

(3)            العالم و المتعلم: یہ رسالہ بھی آپ کے نام سے منسوب ہے۔

            مناقب الشافعی میں لکھا ہے کہ ابو حنیفہ کی کوئی تصنیف باقی نہیں رہی۔ جبکہ الفہرست میں ابن الندیم نے آپ کی چار کتابوں کا نام لکھاہے : الفقہ الاکبر’ عثمان البستی کے نام خط’ العالم و المتعلم’ الرد علی القدریہ’ مسند جو خوارزمی (م۶۶۵ھ) نے مرتب کی۔حقیقت میں خود امام ابو حنیفہ کی واحد مستند تحریر جو ہم تک پہنچی ہی ان کا وہ خط ہے جو انہوں نے عثمان البستی کولکھا تھا اور جس میں انہوں نے شائستہ طریقے سے اپنے نظریات کی مدافت کی ہے ۔(دیکھئے دائرہ معارف اسلامیہ تحت مادہ ‘‘ابوحنیفہ ؒ )

ابتلاء و وفات:

            بنو امیہ کے آخری دور میں حاکم عراق ہبیرہ نے امام ابو حنیفہ  ؒ کو قضا کا عہدہ پیش کیا’آپ نے اسے قبول نہ کیا جس پر آپ   ؒ کو کوڑوں سے پیٹا گیا۔ پھر عہد عباسیہ میں ابو جعفر منصور نے آپ  ؒ کو بغداد بلایا اور قاضی بنانا چاہا ، آپ نے اس کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اس پر منصور سیخ پا ہوا اور آپ کو کوڑے لگوا کر قید خانہ میں ڈال دیا اور چار برس قید رہنے کے بعد رجب ۱۵۰ھ میں قید خانہ ہی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بغداد میں خیزران کے مقبرے کے مشرقی جانب ان کا مزار ہے۔جس محلے میں یہ مقبرہ واقع ہے وہ اب بھی امام اعظم کے نام پر ‘‘اعظمیہ’’ کہلاتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)