سورۃ/سورت
سورہ کو عربی
میں گول تا کے ساتھ‘‘ سورۃ’’ لکھا جاتا ہے جبکہ اردو میں تائے مبسوط کے ساتھ‘‘
سورت ’’لکھتے ہیں۔ سورۃ کے لغوی معنی احاطہ باغ ’ فصیل اور شہر پناہ کے ہیں۔ علاوہ
ازیں اس کی معنی مرتبہ ’ فضیلت ’ شرف اور لمبی اور خوبصورت عمارت بھی ہیں۔عربی میں
کہا جاتا ہے: "لہ عندك سورۃ" یعنی تیرے نزدیک اس کا مرتبہ ہے ۔(المعجم الوسیط
ص:۴۶۲’ مصباح
اللغات ص:۴۰۶’ بذیل
مادہ سور)
اس لحاظ سے
سورۃ کو سورۃ اس لئے کہاجاتاہے کہ جس طرح فصیل کی وجہ سے ایک شہر باقی جگہوں سے
الگ اور ممتاز ہوجاتا ہے اسی طرح سورہ بھی قرآن کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ
اور ممتاز کرتی ہے۔
علامہ خضری
بک کے نزدیک سورہ بلندی مرتبہ کے معنی میں ہے۔ نیز وہ کہتے ہیں :
‘‘اور بعض
دوسرے حضرات اسے ‘‘سورۃ’’ کی بجائے ہمزہ کے ساتھ ‘‘سؤرۃ القرآن’’ پڑھتے ہیں’ اس
صورت میں اس کے معنی ہو جائیں گے ‘‘قرآن کریم کا وہ ٹکڑا جو اس کے بقیہ ٹکڑوں سے
جدا کر لیا گیا’’ اس لئے کہ سؤرۃ عربی میں بچی کھچی چیز کو کہاجاتا ہے۔ اس لئے کسی
کے جھوٹے پانی کو بھی اسی لئے ‘‘سؤرۃ ’’ کہتے ہیں کہ وہ پانی کا باقی ماندہ حصہ
ہوتا ہے۔’’(دیکھئے تاریخ فقہ اسلامی اردو ص:۲۳)
آج کل کتابوں
کے لئے رائج اصطلاحات کے مطابق ان سورتوں کو فصول یا ابواب یا Chepter سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
سورۃ کی
اصطلاح خود قرآن مجید نے مقرر کی ہے کسی انسان نے یہ نام قرآن مجید کی کسی سورۃ کے
لئے تجویز نہیں کیا۔ سورۃ البقرۃ میں ہے:
﴿وَ
اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِّمَّـا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَۃٍ
مِّنْ مِّثْلِہِ وَ ادْعُوا شُهدَآئَکُمْ مِنْ دُونِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ
صَادِقِیْنَ﴾(البقرۃ:۲۳)
اور اگر تم
کو اس (کتاب) میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک
سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مدد گار ہوں ان کو بھی بلا لو ’
اگر تم سچے ہو۔
اسی طرح قرآن
کریم کی سورۃ النور کی پہلی آیت اور سورۃ محمد کی آیت نمبر 20میں بھی قرآن کے ان
ابواب کے لئے سورۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
آیۃ/ آیت
آیت بھی عربی
میں تائے مربوطہ کے ساتھ آیۃ لکھا جاتا ہے جبکہ اردو میں تائے مبسوطہ کے ساتھ آیت
لکھا جاتا ہے ۔ آیت کے لغوی معنی نشانی’ علامت’ معجزۃ اور عبرت کے ہیں۔ اس کی جمع
آیات ہے۔ راستے کے نشانات جو مسافر کی رہنمائی اور سہولت کے لئے قائم کئے جاتے ہیں
انہیں بھی آیات کہتے ہیں۔ جبکہ اصطلاح میں آیت سے مراد قرآن کریم کے جملے اورفقرے
ہیں۔المعجم الوسیط میں ہے:
الأیۃ
... من القرآن: جملۃ او جمل اثر الوقف فی نهایتها غالبا.(المعجم
الوسیط ص:۳۵)
قرآن کی آیت
سے’ قران کا ایک جملہ یا کئی جملے مرادہوتیہیں جن کے آخر میں عموما وقف کرنا منقول
ہے۔
قرآن مجید کے
فقروں کے لئے آیت یا آیات کا لفظ بھی قرآن نے ہی استعمال کیا ہے جیسا کہ سورۃ
العنکبوت میں ہے :
﴿بَلْ
هوَ اٰیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُورِ الَّذِیْنَ اُوتُوا الْعِلْمَ وَ مَا یَجْحَدُ
بِاٰیَاتِنَا اِلَّا الظَّالِمُونَ﴾(العنکبوت:۴۹)
بلکہ یہ قرآن
کی روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ ہماری آیتوں کا منکر بجز
ظالموں کے اور کوئی نہیں۔
آیات اور سورتوں کی ترتیت:
قرآن مجید کی
آیتوں اور سورتوں کی موجودہ ترتیب تلاوت نزولی نہیں بلکہ توقیفی ہے۔یعنی یہ وہ
ترتیب نہیں جس ترتیب سے مختلف آیات اور سورتوں کا نزول ہوا تھا بلکہ یہ اللہ تعالی
کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بتائی ہوئی
ترتیب ہے۔ توقیف کے معنی واقف کرانا یا آگاہ کرنا ہیں۔ چونکہ اس ترتیب سے اللہ
تعالی نے بذریعہ وحی اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آگاہ کیا تھا اور آپ
نے کاتبین وحی کو اسی کے مطابق ترتیب دینے کے لئے کہا تھا اس لئے اس ترتیب کو
‘‘ترتیب توقیفی’’ کہتے ہیں۔
روایات سے
پتہ چلتا ہے کہ جب کوئی آیت یا آیات نازل ہوتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم وضاحت کے ساتھ یہ حکم فرماتے کہ اس آیت کو فلاں آیت کے ساتھ ملا کر پڑھویا
اسے فلاں جگہ رکھو۔ امام سیوطی لکھتے ہیں: ‘‘ جب آیت ﴿واتقوا
یوما ترجعون فیہ الی اللہ ... ﴾ نازل ہوئی تو جبرائیل نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ حکم دیا کہ اسے آیت ربوا اور آیت دین دونوں
کے بیچ میں رکھے۔ طبیی کا قول ہے: ‘‘قرآن سب سے پہلے لوح محفوظ سے ایک ہی مرتبہ
مکمل آسمان دنیا پر نازل کر دیا گیا اور پھر وہ ضرورتوں کے مطابق اترتا رہا’
اورآخر میں وہم وہ مصاحف کے اندر اسی ترتیب و نظام کے ساتھ ثبت کیاگیاجیساکہ لوح
محفوظ میں ثبت ہے۔’’(الاتقان فی علوم القرآن ص:۱۵۶/۱)