نزول قرآن/وحى

0

نزول قرآن

            قرآن کریم کو اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کے ذریعے نازل فرمایا۔

وحی كي تعريف:

لغوی معنی : وحی کے لغوی معنی ہیں ’ اشارہ کرنا چپکے سے دل میں بات ڈالنا۔صابر حسن محمد ابو سلیمان لکھتے ہیں:

            معنی الوحی فی اللغۃ : الاعلام الخفی السریع الخاص بمن یوجہ الیہ بحیث یخفی علی غیرہ.(مورد الظمآن فی علوم القرآن ص:۹)

            لغوی طور پر وحی کے معنی ہیں جس کی طرف پیغام بھیجنا مقصود ہو خاص اس کو جلدی سے مخفی اطلا ع اس طرح دینا کہ دوسروں پر پوشید ہ رہے۔

            وحی کا لفظ درج بالا مفہوم کے علاوہ فطری و طبعی الہام اور رمز و اشارہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔مثلا

٭   فطری الہام کی مثال جیسا کہ اللہ تعالی کا حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالناکہ وہ اس کو دودھ پلائے۔ اسے اللہ نے وحی سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔

            ﴿وَ اَوْحَیْنَا اِلَی اُمِّ مُوسٰی اَنْ اَرْضِعِیْہِ .....﴾ (سورۃ القصص:۶)

            اور ہم نے موسی کی والدہ کو الہام کیا کہ اس کو دودھ پلاؤ۔

٭ طبعی الہام کی مثال اللہ تعالی کا شہد کی مکھی کے جی میں چھجے وغیرہ بنانے کے لئے کرنے والا الہام ہے جسے اللہ تعالی نے وحی سے تعبیر کیا ہے۔

            ﴿وَ اَوْحَی رَبُّك اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِی مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُونَ﴾(سورۃ النحل:۶۸)

            اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں میں اور درختوں میں اور (اونچی اونچی) چھتریوں میں جو لوگ بناتے ہیں گھر بنا۔

٭ رمز و اشارہ کی مثال حضرت زکریا علیہ السلام کے واقعہ میں وحی کا لفظ اشارہ کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

            ﴿فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِہِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحَی اِلَیْهمْ اَنْ سَبِّحُوا بُکْرَۃً وَّ عَشِیًّا﴾(سورۃ مریم:۱۱)

            پس وہ (زکریا ؑ ) حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اشارے سے کہا کہ صبح و شام تسبیح بیان کرتے رہا کرو۔

٭ شیطان جو وسوسے انسانوں کے دلوں میں ڈالتا ہے اس کو بھی لغوی طور پر وحی کہا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔

            ﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیَاطِينَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِی بَعْضُهمْ اِلَی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا﴾(سورۃ الانعام:۱۱۲)

            اور اسی طرح ہم نے شیطان (سیرت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا ’ وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے دل میں ملمع کی باتیں (یعنی پرفریب باتیں) ڈالتے رہتے تھے۔

وحی کے اصطلاحی مفہوم:

            اصطلاح شریعت میں وحی سے مراد وہ غیبی ذریعہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی اپنے کسی نبی کو اپنا پیغام پہنچاتا ہے عقل اور استدلال کو اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔

وحی کی اقسام:

            قرآن کریم میں وحی و القا کی درج ذیل اقسام بیان کی گئی ہے۔

            ﴿وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلاَّ وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ اَوْ ُیرْسِلَ رَسُولًا فَیُوحِی بِاِذْنِہِ مَا یَشَآءُ اِنَّہُ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ﴾(سورۃ الشوری:۵۱)

            اور ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالی کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے ’ بے شک وہ برتر حکمت والا ہے۔

            صاحب احسن البیان اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            اس آیت میں وحی الٰہی کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں’ پہلی یہ کہ دل میں کسی بات کا ڈال دینا یا خواب میں بتلا دینا اس یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ دوسری پردے کے پیچھے سے کلام کرنا’ جیسے حضرت موسی علیہ السلام سے کوہ طور پر کیا گیا۔ تیسری’ فرشتے کے ذریعے اپنی وحی بھیجنا جیسے جبرائیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آتے اور پیغمبروں کو سناتے رہے۔(تفسیر آیت متعلقہ)

وحی کے طریقے:

            کتب احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم درج ذیل طریقوں سے وحی کانزول ہوتا تھا۔

۱۔ رؤیائے صادقہ یعنی سچے خواب:

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کا آغاز رویائے صادقہ (سچے خواب) سے ہوا۔ بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

            اول ما بدیء بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فی النوم ’ فکان لا یری رؤیا الا جاء ت مثل فلق الصبح.(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف بدأ الوحی )

            سب سے پہلے جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز ہوا وہ سچے خواب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند میں جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کے تڑکے کی طرح صحیح نکلتا تھا۔

            انبیاء کرام کے خواب وحی الٰہی کا ذریعہ رہے ہیں۔ جیساکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب کے ذریعے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا۔ اس موقع پر باپ اور بیٹے کے درمیان جو مکالمہ ہوا اس کو قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیاہے۔

            ﴿قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّی اَرَی فِی الْمَنَامِ اَنِّی اَذْبَحُك فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرْ سَتَجِدُنِی اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ﴾(سورۃ الصافات:۱۰۲)

            اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ اباجان ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

            یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب کو امر الٰہی (وحی) سے تعبیر کیااور کہا جو حکم ہوا ہے اسے پورا کجیئے۔

۲۔ نفث فی الروع: یعنی کسی بات کا دل میں ڈالنا یا پھونکنا۔

             فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائی دئیے بغیر آپ کے دل میں بات ڈال دیتا تھا ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتا ہے۔

             ان روح القدس نفث فی روعی انہ لن تموت نفس حتی تستکمل رزقها فاتقوا اللہ و اجملوا فی الطلب...

            بے شک روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونکی کہ کوئی نفس مر نہیں سکتا یہاں تک کہ اپنا رزق پورا پورا حاصل نہ کر لے’ پس اللہ سے ڈرو اور طلب میں اچھائی اختیار کرو....

۳۔ صلصلۃ الجرس یعنی گھنٹی کی آواز کی طرح:

            صلصلۃ اس آواز کو کہتے ہیں جو لوہے کے ایک ٹکڑے کو دوسرے ٹکڑے پر یا پتھر پر مارنے سے پیدا ہوتی ہے۔ جرس گھنٹی کو کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق ہر اس آواز پر ہوتا ہے جس میں جھنجناہٹ ہو۔ اس آواز کو گھنٹی کی آواز سے اس لئے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح گھنٹی کی آواز کی کوئی جہت نہیں ہوتی اور وہ تمام جہات سے سنائی دیتی ہے اسی طرح وحی کی آواز کے لئے کوئی خاص جہت نہیں ہوتی بلکہ تمام جوانب سے سنائی دیتی ہے۔ وحی کے اس طریقے کا بیان خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ صحیح بخاری میں ہے۔

            عن عائشۃ ام المؤمنین رضی اللہ عنها ان الحارث بن هشام سأل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: یا رسول اللہّ! کیف یأتیك الوحی؟فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احیانا یأتینی مثل صلصلۃ الجرس و هو اشد ہ علی’ فیفصم عنی و قد وعیت عنہ ما قال. و احیانا یتمثل لی الملک رجلا فیکلمنی فاعی ما یقول . قالت عائشۃ : و لقد رأیتہ ینزل علیہ الوحی فی الیوم الشدید البرد فیفصم عنہ و ان جبینہ لیتفصد عرقا.(کتاب بدئ الوحی باب کیف بدء الوحی الی رسول اللہ ....)

            حضرت عائشۃ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! آپ پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبھی تو وحی میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ میرے اوپر سخت ترین ہوتی ہے جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو فرشتے نے جو کچھ کہا ہوتا ہے وہ سب مجھے یاد ہو جاتا ہے۔ اور کبھی فرشتہ میرے پاس ایک مرد کی شکل میں آتا ہے وہ مجھ سے بات کرتا ہے اس طرح جو کچھ وہ کہتا ہے مجھے یاد ہو جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے شدید جاڑوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا ہے کہ جب سلسلہ وحی موقوف ہوتا ہے تو آپ کی پیشانی سے (سخت سردی کے باوجود) پسینہ پھوٹ نکلتا ہے۔

            مسند احمد میں ہے:

            عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنهما سألت النبی صلی اللہ علیہ وسلم هل تحس بالوحی؟ فقال: اسمع صلاصل ثم اسکت و عند ذلك فما من مرۃ یوحی الی الا ظننت ان نفسی تقبض.

            عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ وحی کو محسوس کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں گھنٹی کی آواز سنتا ہوں پھر میں خاموش ہو جاتا ہوں۔جب بھی اس طرح مجھ پر (صلصلۃ الجرس کی طرح) وحی ہوتی ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری جان نکلی جا رہی ہے۔

            اس صورت وحی میں اگر آپ اونٹنی پر سوار ہوتے تو وہ زمین پر بیٹھ جاتی تھی۔ ایک بار اس طرح وحی آئی اور آپ ؐ کی ران زید بن ثابت ؓ کی ران پر تھی تو ان پر اس قدر گراں بار ہوئی کہ معلوم ہوتا تھا کہ ران کچل جائے گی۔(الرحیق المختوم ص:۱۰۳)

            بعض کا کہنا ہے کہ یہ آواز فرشتہ وحی کے پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز ہوتی ہے۔ وحی سے پہلے ان آوازوں کے آنے کی حکمت یہ ہے کہ آپ وحی کو سننے کے لئے تیار ہوجائے اور آپ کی توجہ کسی اور چیز کی طرف نہ رہے۔بعض کا کہتے ہیں کہ یہ حالت وحی اس وقت ہوتی تھی جب وعید یا تہدید کی کوئی آیت نازل ہوتی۔(دیکھئے مورد الظمآن فی علوم القرآن ص:۱۱)

۴۔ فرشتہ کا انسانی شکل میں آنا:

            کبھی فرشتہ وحی ایک آدمی کی شکل اختیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا۔جب فرشتہ انسانی شکل میں آپ کے پاس وحی لاتا تو آپ پر کوئی گراں نہ ہوتا’ نہ آپ پر کوئی بوجھ ہوتا نہ آپ کی پیشانی عرق آلود ہوتی’ بلکہ ایسا لگتا کہ دو ملاقاتی آپس میں مل رہے ہیں اور پیغام دیا جا رہا ہے۔اور پھر فرشتہ جو کچھ کہتا اسے آپ یاد کر لیتے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں مذکور ہے:

            و احیانا یتمثل لی الملك رجلا فیکلمنی فاعی ما یقول ......( بخاری کتاب بدء الوحی)

            اور کبھی فرشتہ میرے پاس ایک مرد کی شکل میں آتا ہے اور وہ مجھ سے کلام کرتا ہے ’ پھر وہ جو کچھ کہتا ہے وہ مجھے یاد ہوجاتا ہے۔

            اس صورت میں کبھی کبھی صحابہ کرام بھی فرشتے کو دیکھتے تھے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جبریل میں ہے کہ انہوں نے اور ان صحابہ نے جو آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ایک صاف ستھرا سفید کپڑوں میں ملبوس شخص کو دیکھا جس کے بال بھی نہایت سیاہ تھے آپ کی مجلس میں آیا اور آپ ؐ سے کچھ سوالات کئے اور چلا گیا ۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا یہ شخص جو ابھی کچھ باتیں پوچھ کر چلا گیا ہے یہ جبرائیل تھا۔

            بعض مؤرخین کہتے ہیں جبرائیل علیہ السلام عام طور پر ایک صحابی رسول حضرت دحیہ کلبی ؓ کی شکل میں آتے تھے۔

۵۔ فرشتہ کا اپنی اصلی صورت میں آنا:

            کبھی فرشتہ وحی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی اصلی پیدائشی شکل میں وحی لے کر آتے تھے۔ مثلا غار حرا میں پہلی دفعہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرشتہ وحی لے کر نازل ہوا اس وقت وہ اپنی اصلی شکل میں تھا۔اسی طرح فترۃ الوحی کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو فضا میں اصلی شکل میں دیکھنے کا ذکر ہے۔حضرت جبرائیل کے اصل شکل میں نظر آنے کا ذکر قرآن میں سورۃ النجم آیت نمبر ۱۳۔۱۴ میں اور سورۃ التکویر آیت نمبر ۲۳ میں بھی آیا ہے۔

۶۔ براہ راست مکالمہ:

            فرشتے کے واسطے کے بغیر اللہ تعالی براہ راست گفتگو کے ذریعے وحی کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے گفتگو فرمائی تھی۔ قرآن کریم میں ہے۔

            ﴿وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوسٰی تَکْلِیْمًا﴾(سورۃ النساء:۱۶۴)

            اور اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کلام کیا۔

            اسی طرح حدیث معراج میں ہے کہ اس رات اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرضیت نماز وغیرہ کے سلسلے میں اس وقت براہ راست گفتگو فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں کے اوپر تھے۔

            احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نزول وحی کا آغاز رویائے صالحہ سے ہوا جس کا مقصد وحی کے دوسرے طریقوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنا تھا۔ پھر بھی جب آپ ؐ پر غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ اس سے ذہنی طور پر متاثر ہوئے۔جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ وحی کے بعض طریقے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سخت گراں گزرتے تھے آپ کی پیشانی عرق آلود ہوجاتی ’ جسم پر بوجھ بڑھ جاتا آپ کی اس کیفیت کو اہل مجلس یکساں طور پر محسوس کرتے تھے تاہم اس دروان آپ کی باطنی قوتیں ’ باطنی احساس اور ندرونی شعور بدرجہ اتم عالم لاہوت میں رسائی حاصل کر لیتے تھے اور آپ ایسی باتیں سن سکتے تھے جو دوسرے لوگ نہیں سن سکتے تھے۔

            وحی کی شدت کا یہ سلسلہ ہمیشہ یکساں نہیں رہا بلکہ وحی کی کثرت و مزاولت سے آہستہ آہستہ بڑی حد تک کم ہوگیا تھا چنانچہ مدنی سورتوں کے زمانہ نزول میں یہی کیفیت نظر آتی ہے۔(دیکھئے اردو دائرہ معارف اسلامیہ بذیل مادہ القرآن)


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)