امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ احوال و نظريات

0

امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ

احوال و نظريات

نام و نسب:۔

            مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر بن عمرو بن حارث اصبحی۔

             آپ کے دادا اور والد صحابی ہیں’ سوائے بدر کے تمام غزوات میں شریک ہوئے ہیں۔ آپ کو اصبحی اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ یمن کے شاہی خاندان کی ایک شاخ ‘‘اصبح’’ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے دادا کے زمانے میں یمن سے مدینہ آئے تھے۔

            امام مالک  ؒ  کا گھرانہ نسلا قریشی تھا اور  قبیلہ حمیر کے خالص اور ٹھیٹ عرب تھے۔ آپ کو امام دار الہجرت کہاجاتا ہے۔

تاریخ و جائے پیدائش:۔

            امام مالک سنه  ۹۳ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی حالات و تحصيل علم:۔

            امام مالک   ؒ نے آنکھ کھولی تو مدینہ باغ و بہار تھا ان کا گھر خود علوم کا مرجع تھا۔ انہوں نے قرآن مجید کی قرأت و سند مدینہ کے امام القراء نافع بن عبد الرحمن( متوفی ۱۶۹ھ) سے حاصل کی۔ پھر حدیث کی طرف متوجہ ہوئے آپ تحصیل حدیث کے وقت کم عمر تھے چنانچہ خود فرماتے ہیں کہ میں نافع کے پاس آتا تو اس وقت ایک کمسن لڑکا تھا۔ نافع سے انہوں نے بہت زیادہ کسب فیض کیا۔ اسی طرح ربیعہ بن ابی عبد الرحمن فرخ المدینی جو ربیعہ الرائے کے نام سے مشہور ہے اور ابن ہرمز وغیرہ سے بھی فقہ و حدیث کی تحصیل کی۔

            امام مالک   ؒ نے طلب علم کے لئے مدینہ سے باہر قدم نہیں نکالا اس لئے کہ اس وقت مدینہ دار العلوم تھا’ تمام ممالک اسلامیہ کے شیوخ و اساتذہ خود آستانہ نبوی پر حاضر ہوتے تھے۔ آپ نے امام زہری  ؒ  ’ ربیعۃ الرائے  ؒ’ امام جعفر صادق  ؒ  اور ابو حازم  ؒ  جیسے بزرگوں سے استفادہ کیا۔

درس و تدریس كا آغاز:۔

            مدینہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر  رضي الله عنه کے بعد ان کی علمی درسگاہ کے جانشین نافع   ؒ  بن عبد الرحمن ہوئے ۔ کم از کم بارہ برس امام مالک  ؒ  ان کے درس میں شریک رہے۔ ان کی وفات کے بعد امام مالک  ؒ  ان کے جانشین ہوئے۔کہاجاتا ہے جب آپ نے درس و تدریس کی مسند بچھائی اس وقت آپ کی عمر سترہ سال تھی۔ تدریس حدیث کے لئے بیٹھنا ہوتا تو پہلے نہاتے’ خوشبو لگاتے’ عمدہ لباس زیب تن کرتے اور خشوع و خضوع کے ساتھ مسند درس پر رونق افروز ہوتے۔ سید سلیمان ندوی نے آپ کی مجلس درس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

            ‘‘جاہ و جلال اور شان و شکوہ سے کاشانہ امامت پر بارگاہ شاہی کا دھوکہ ہوتا تھا’ طلبہ کا ہجوم’ مستفتیوں کا اژدحام’ امراء کا ورود’ علماء کی تشریف آوری’ سیاحوں کا گزر’ حاضرین کی مؤدب نشست’ درِ خانہ پر سواریوں کا انبوہ دیکھنے والوں پر رعب و وقار طاری کر دیتا تھا’’۔(حیات مالک ص۳۱)

            آپ کا شہرہ دور دور تک پھیلا چنانچہ دنیا کے مختلف علاقوں ایشیا’ افریقیہ اور یورپ ہر سہ بر اعظم سے طالبان علم کی کارواں بلا انقطاع مدینہ منورہ کا رخ کرنے لگے اور آپ سے اکتساب فیض کرنے لگے’ اس طرح رسول اللہ ا کی ایک پیشنگوئی پوری ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ عنقریب وہ زمانہ آئے گا جب لوگ طلبِ علم کے لئے اونٹ ہنکائیں گے لیکن مدینہ کے عالم سے زیادہ وہ کسی کو نہ پائیں گے۔ ابن عیینہ اور عبد الرزاق نے اس پیشن گوئی کا مصداق امام مالک   ؒ کو قرار دیا ہے۔بنو عباسیہ کے پر جلال بادشاہوں ہادی اور ہارون رشید نے آپ کے قدموں میں بیٹھ کر درس سنا ۔

            امام مالک کے تلامذہ اور شاگردوں کی تعداد بے شمار تھی۔ قاضی عیاض نے ترتیب المدارک و تقریب میں ان کی تعداد تین سو بتائی ہے۔

            امام مالک   ؒ کے اصحاب کو باعتبار عہد تین طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ الطبقہ الاولی: وہ لوگ جنہوں نے امام سے استفادہ کیا ’ ان کی زندگی میں ہی صاحب علم و فضل مشہور ہوئے’ اور جن کی وفات امام صاحب کے قریبی زمانے میں ہوئی۔الطبقہ الثانیہ: وہ لوگ جو امام مالک   ؒ کی وفات کے بعد مشہور ہوئے اگرچہ انہیں اپنے جلیل القدر استاد کی قربت کا دیر تک شرف حاصل رہا۔ الطبقہ الثالثہ: وہ لوگ جو چھوٹی عمر میں امام مالک   ؒ کے صحبت سے مشرف ہوئے ۔ پھر ایک وہ طبقہ علماء و فقہا ء بھی جہوں نے نہ امام مالک خود دیکھا نہ ان کی روایت خود سنی لیکن متقدمین سے انہیں فقہ مالک پہنچی ۔ انہیں متاخرین مالکیہ کہا جاتا ہے۔(دیکھئے دائرہ معارف اسلامیہ اردو تحت عنوان مالکیہ)

ابتلاء و آزمائش:۔

            عہدِ عباسیہ میں آپ کو نہایت مصیبت اٹھانی پڑی ۔ آپ نے ابو جعفر منصور کے مقابلے میں محمد نفس ذکیہ کا ساتھ دیااور کہا کہ منصور خلافت کا اہل نہیں اس نے بزور شمشیر بیعت لی ہے اور جس طرح جبر کی طلاق نافذ نہیں ہوتی اسی طرح جبر کی بیعت بھی کالعدم ہے۔ منصور نے میدان جیت لیا اور محمد نفس ذکیہ شہادت پا گئے۔ اس کے بعد منصور کا چچا زاد بھائی جعفر بن سلیمان مدینہ کا والی بنا تو اس نے حکم بھیجا کہ آپ جبری طلاق کے خلاف فتویٰ نہ دین کیونکہ اس سے منصور کی بیعت کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ آپ نے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی رائے پر ڈٹے رہے جس کی پاداش میں جعفر نے آپ کو ننگے بدن کوڑے لگوائے تمام پیٹھ لہو لہان ہوگئی ’ دونوں بازوؤں کو کھینچ کر شانوں سے اتروا دیئے اور اونٹ پر بٹھا کر گلیوں میں پھرایا ۔ اس حالت میں بھی آپ کہتے رہے کہ جبر کی طلاق باطل ہے۔ بعد میں جب جعفر کا سلوک آپ کے ساتھ بہتر ہوا تو اس نے آپ کو منصب قضا پیش کیا مگر آپ نے اسے مسترد کر دیا۔

تدوین و ترویج فقہ:۔

            امام مالک  ؒ  نے احادیث کا ایک مجموعہ ‘‘موطا’’ مرتب کیا تھا جو اجادیث اور فتوؤں پر مشتمل تھا۔ آپ اسي سے حدیث اور فقہ کا درس دیا کرتے تھے۔ آپ نے فقہی مسائل کي الگ سے کوئی کتاب مدون نہیں کی۔ آپ کے بیان کردہ اکثر مسائل ‘‘المدونۃ الکبریٰ’’ میں محفوظ ہیں جو كه آپ كے بعد كي تصنيف هے۔ یہ کتاب ائمہ مالکیہ میں اسے ایک بڑے عالم امام سخنون نے مرتب کی ہے۔ شروع میں مغرب (مراکش) کے عالم اسد بن فرات نے امام مالک کے بیان کردہ مسائل کو ‘‘اسدیہ’’ کے نام سے ایک مجموعہ کی صورت میں مرتب کیا اس کے بعد امام مالک   ؒ کے ایک شاگرد عبد الرحمن بن قاسم نے اس مجموعہ میں کمی بیشی کی’ بعد میں اسدیہ کے تمام موضوعات ‘‘المدونہ’’ میں شامل کر لئے گئے۔ ابو زہرہ نے مالکیہ کی امہات الکتب کی تعداد چار بتائی ہے۔

            (۱) المدونہ : جس کی ترتیب و تدوین میں قاضی اسد بن فرات’ عبد الرحمن بن القاسم اور عبد السلام بن سعید التنوخی الملقب بہ سحنون نے حصہ لیا۔ (۲) الواضحہ : تصنیف عبد الملک بن حبیب السلمی (۳) العتیبیہ از محمد بن احمد القرطبی الاندلسی’ اس کتاب کو المستخرجہ بھی کہا جاتا ہے۔ (۴) الموازیہ از محمد بن ابراہیم بن زیاد الاسکندری المعروف بابن متواز۔

            امام مالک کا مسلک اگرچہ حجاز سے نکل کر عراق کے بعض شہروں بغداد’ بصرہ’ خراسان’ قزوین اور نیشاپور وغیرہ میں پھیلا مگر اس کا زیادہ فروغ بلاد مغرب و افریقہ تونس’ الجزائر’ مراکش’ اندلس اور مصر میں ہوا۔ابن خلدون  اپني مشهور كتاب المقدمہ ميں اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مغرب و افریقہ کے علماء کا منتہائے سفر حجاز رہا۔ مدینہ اس زمانے میں دار العلم تھا اور عراق ان کے راستے میں نہیں پڑ تا تھا چنانچہ انہوں نے علماء مدینہ ہی پر اخذ و اکتساب میں انحصار کیا اور امام مالک ؒ کی تقلید کی۔(بحوالہ دائرہ معارف اسلامیہ)

فقہی افکار و نظریات:۔

q   امام مالک   ؒ  مابعد الطبعیات کے بعید از فہم مسائل بیان کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔

q   اللہ کی صفات سے متعلقہ احادیث پر مطلق ایمان رکھتے تھے۔ صفات الٰہی اور تقدیر کی کرید میں نہیں پڑتے تھے۔

q   آپ روایت قبول کرنے میں یہ معیار پیش نظر رکھتے کہ روایت قرآن کے معارض نہ ہو’ راوی کا حافظہ قوی ہو ۔ کمزور حافظہ کے راوی کی حدیث لینے سے منع کرتے تھے۔

q   اجماع مدینہ کے خلاف کوئی حدیث قبول نہیں کرتے تھے۔ ا ن كا خيال تھا كه اهل مدينه كا عمل حديث كے خلاف نهيں هو سكتا اس لئے وه اجماع اهل مدينه كو ترجيح ديتے تھے۔

q   ان کے نزدیک کتاب و سنت کے بعد حجت کا درجہ اجماع کو حاصل ہے۔

q   آپ اقوال صحابہ کو قیاس پر ترجیح دیتے تھے ’ لیکن جہاں صحابی کا انفرادی قول اجماع مدینہ کے موافق نہ ہوتا اس کو ترک کر دیتے تھے۔

q       آپ مفروضہ مسائل میں فتویٰ نہیں دیتے تھے۔

q   واقعاتی مسائل میں جہاں سمجھ کام نہ کرتی وہاں صاف کہہ دیتے ‘‘لا ادری’’ یعنی میں نہیں جانتا۔

q   جن مسائل میں دو فتوؤں کا احتمال ہوتا وہاں دونوں بیان کر دیتے ۔

q   ان کے امام ابو حنیفہ کے استحسان سے ایک حد تک متوازن اصول ‘‘استصلاح ’’ یا ‘‘مصالح مرسلہ’’ ہے۔ اس سے مراد ایسی مصالح ہیں جن کے بارے میں کوئی شرعی نص موجود نہیں ہوتی ان میں نفع کا حصول اور نقصان کو دور کرنے کی مصلحت کو سامنے رکھا جاتا ہے۔بالفاظ دیگر جلب منفعت اور رفع نقصان کا اصول پایا جاتا ہے۔

تصانیف:۔

            امام مالک   ؒ  سے منسوب مندرجہ ذیل کتب ہیں۔

(1)            احکام القرآن(2)کتاب الاقضیہ(3) کتاب المناسک (4)تفسیر غرائب القرآن (5) کتاب المجالسۃ (6)کتاب المسائل (7)  رسالۃ مالک (8)  مؤطا۔

وفات:۔

            آپ کو مدینہ منورہ سے والہانہ محبت تھی چنانچہ آپ سوائے سفر حج کے مدینہ سے باہر نہیں گئے اور مدینہ ہی میں ۸۶ برس کی عمر میں ۱۱ ربیع الاول ۱۷۹ھ میں انتقال فرمایااور وہیں مدینہ میں جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)