اسلام اور سائنس
تحریر: ابراہیم عبد اللہ یوگوی
سائنس کی تعریف:
سائنس کی
نوعیت اور ماہیت کے اعتبار سے اس کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں۔
۱) سائنس
ایک لاطینی لفظ سائنتیا( Scientia) سے
ماخوذ ہے جس کے معنی جاننے کے ہیں۔
جبکہ اصطلاح
میں اس کے معنی نظام فطرت کی علم کے ہیں جو مشاہدے ’ تجربے اور عقل سے حاصل ہوتا
ہے۔
بعض اس کی تعریف یوں کرتے ہیں:
سائنس وہ علم
ہے جو محنت سے حاصل کیا جائے اور جس کے ماخوذ نتائج کو تجربہ کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔
۲) مارٹن
نے سائنس کی تعریف یوں کی ہے:
''Science is a systematized
positive knowledge.''
۳) کانٹ
(Kant) کہتا ہے:
‘‘سائنس
تصورات اور تصوراتی منصوبوں کا ایک مربوط سلسلہ ہے جس نے تجربات اور مشاہدات کے
نتائج میں نشو و نما و ارتقاء حاصل کیا اور اس مزید تجربات اور مشاہدات بار آور
ہوئے۔’’
۴) سائنس
طبیعی حقائق کا وہ علم ہے جو مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو۔
بالفاظ دیگر
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس کی بنیاد صرف تجربے پر ہی مشتمل نہیں اور نہ ہی محض
عقل اور غور و فکر کا نتیجہ ہے بلکہ ان سب اشیاء کی آمیزش ہے۔
علم سائنس
گرد و نواح کو سمجھنے اور مخصوص حقائق سے آگاہی کی باشعور کوشش کا نام ہے۔ یہ
مظاہر فطرت کا مشاہدہ ہے جو ہمارے حواس خمسہ کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔
سائنس دان
کائنات کی مشاہدے سے جو نتائج اخذ کرتا ہے پھر ان نتائج کو ایک قابل فہم تنظیم اور
ترتیب کے ساتھ جمع کرتا ہے ’ تجربات کے بعد درست سائنسی نتائج کو ایک مستقل علمی
حیثیت یا قانون سمجھا جاتا ہے۔ یعنی علمی حقائق یا مشاہدے سے دریافت ہونے والے
نتائج کو جب مرتب اور منظم کر لیا جائے تو اسے ‘‘علم سائنس’’ کہتے ہیں۔
سائنس کی ابتداء:
سائنس کی
ابتدا یقینا انسان کی ابتداء کے ساتھ ہی اسی وقت شروع ہوگئی تھی جب انسان نے زمین
پر قدم رکھنے کے بعد یہاں بود باش اختیار کیا اور زمین کو مستقر قرار دے کر یہاں
رہنے لگا۔ کہا جاتاہے سائنس کی کہانی در اصل انسان کی اپنی کہانی ہے۔ لیکن اس
کہانی کے دو حصے ہیں: ایک حصے میں توانسان کی ان کوششوں کی روئیداد ہے جو وہ اپنے
آپ کوسمجھنے کے لئے کرتا رہا ہے۔ دوسرے حصے میں ان کوششوں کا بیان ہے جو وہ اپنے
ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کے بھیدوں کو سمجھنے کے لئے کرتا رہا ہے۔ قرآن کریم میں
ہے:
وَ
عَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّها.... (سورۃ البقرۃ:۳۱)
اور اس
(اللہ) نے آدم علیہ السلام کو تمام نام سکھا دئیے۔
اس آیت کریمہ
میں ‘‘اسماء’’ سے مراد مسمیات (اشیاء) کے نام اور ان کے خواص و فوائد کا علم ہے جو
اللہ تعالی نے روئے زمین کے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو القاء و الہام کے
ذریعے سکھادیا تھا۔ اور اشیاء کے خواص و فوائد کا علم آج ‘‘علم سائنس ’’ کی ایک
اہم شاخ ہے۔
علم سائنس کی اہمیت:
دنیا کو
سمجھنے اور اس کو بامقصد بنانے کی ذہنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے جو علوم وجود
میں آئے ’ سائنس ان میں سے ایک اہم علم ہے۔مطالعہ کائنات ’ اجرام فلکی’ علم ہیئت ’
علم الابدان’ میڈیکل سائنس میں ترقی ’ انفارمیشن ٹیکنالوجی ’ جدید رسل و رسائل کے
ذرائع وغیرہ یہ سب علم سائنس کی مرہون منت ہیں۔
سائنس کی اہمیت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔
آج دنیا ترقی کی جس سطح پر ہے وہ بلا شبہ سائنس کی بدولت ہے۔ سائنس نے دنیا کو
سکیڑ کر گلوبل ولیج (Global Village) بنا
دیا ہے۔مختصر وقت میں انسان دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رسائی حاصل کر سکتا
ہے’ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے اس کا علم منٹوں نہیں بلکہ سیکنڈو ں میں حاصل کر
سکتا ہے ’ اوریہ کہ سائنس نے انسان کو ہر طرح کی آسانیوں اور آسائشوں سے لطف اندوز
ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔
سائنس نے آج
کے انسان کا معیار زندگی بہت بلند کر دیا ہے۔ سائنس نے ایسے اسرار افشاکئے ہیں
جوقدیم انسان کے لئے ناقابل فہم اور ناقابل تسلیم تھے۔ آج کا انسان تو ایک طلسماتی
اور محیر العقول دور میں رہتا ہے جہاں وہ پرندوں کی مانند فضاؤں میں محو پرواز
ہوسکتا ہے اور مچھلیوں کی طرح سمندر کی تہہوں میں بھی سفر کرسکتا ہے۔ مہینوں کا
سفر گھنٹو ں بلکہ منٹوں میں طے کر سکتا ہے۔ پہاڑوں کو چیر کر ان کے اندر سے اپنے
لئے راستے بنا لئے ہیں ۔ انسان نے ایسے ایسے ہتھیار بنا لیا ہے کہ آن واحد میں
دنیا کی بیشتر آبادی کو ملیامیٹ کر کے اس کا نام و نشان مٹا سکتا ہے۔ یہ سب کبھی
مافوق الفطرت تصور کیا جاتا تھا اب ایک روشن حقیقت میں تبدیل ہو گیا ہے۔کمپیوٹر کی
ایجاد نے سائنسی اور صنعتی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔سائنس اب امن اور جنگ
دونوں حالتوں میں دنیا پر حکمرانی کر رہی ہے۔
مذہب اور سائنس:
بعض لوگ یہ
خیال کرتے ہیں کہ مذہب اور سائنس میں تضاد ہے’ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متصادم
ہیں مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ان میں کوئی تضاد نہیں ہے اور نہ ہی ان کے درمیان
کوئی تصادم ہے۔بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ممد و معاون ہیں ۔ سائنس جتنی بھی ترقی
کرتی جاتی ہے مذہب کی اہمیت اور اس کی تعلیمات کے اثبات میں اور بھی اضافہ ہوتا
جاتا ہے۔ مشہور سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن کا ایک مشہور مقولہ ہے:
''Science
without religion is lame and Religion without science is Blind.''
یعنی سائنس بغیر مذہب کے لنگڑی ہے اور مذہب بغیر سائنس کے اندھا
ہے۔
سائنس کی
تاریخ کا مطالعہ اور حوالہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذہب اور سائنس کے درمیان
ایک روایتی مخالفت یا عداوت رہی ہے۔ یہ مخالفت محض جھوٹ اور غلط فہمی پر مبنی تھی
اور اس عداوت کی کوئی معقول وجہ نہ تھی۔ کیونکہ یہ بے بنیاد تھی اور یہ بات مشاہدے
میں آئی ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ ایک اکائی کی
مانند ہیں اور دو شاخے دریا کی طرح ہیں جن کا منبع ایک ہے اور ایک ہی سمندر میں
گرتے ہیں۔ ان کے دائرہ کار اور مقاصد ایک ہی ہیں یعنی سچائی (Truth) کی تلاش۔
مذہب اور
سائنس کے درمیان عداوت اور دشمنی کا علم قرون وسطی میں ہوا یعنی 476 تا 453عیسوی
میں جب یونانی عالم قسطنطنیہ (موجودہ استنبول ترکی) سے سارے یورپ میں پھیل گئے اور
اپنے ساتھ یونانی تہذیب بھی لے گئے۔ وہان یورپ کے مذہبی علماء اور اہل کلیسا کے
ذہنوں میں ایک مد مقابل یا حریف کا تصور پیدا ہوا اور ان کو یہ فکر شدت سے دامن
گیر ہوئی کہ کہیں یہ یونانی عالم ان سے اتھارٹی (اقتدار یا اختیار) اور اثرو رسوخ
نہ چھین لیں یا وہ محروم نہ ہو جائیں۔یہ مذہبی علماء دنیاوی اتھارٹی رکھتے تھے اور
نئے نظریات ان کے اثر و رسوخ کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ تھا لہٰذا اس طرح مذہب او
سائنس میں مخالف بلکہ نفرت شروع ہوگئی۔(دیکھئے قرآن اور سائنس ص:۷۰)
مولوی عبد
الحق مرحوم معرکہ مذہب و سائنس کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
‘‘نظام
کائنات پر نظر ڈالنے اور اپنے باطن پر غور کرنے سے ہم یہاں تک پہنچے ہیں کہ کوئی
ایسی شے ضرور ہے کہ مادہ سے بالا ہی جسے ہم روح کہتے ہیں اور کوئی ایسی قوت ابھی
اور ہے جو اس سے بھی بالا اور افضل ہے اور ساری کائنات پر حاوی اور ساری ہے۔ مذہب
کی اصل یہیں سے پیدا ہوتی ہے جس سے سائنس بے خبر ہے اور اس بے خبری میں اس پر حملے
کرتا اور مضحکہ اڑاتا ہے۔پچھلی صدی میں جب سائنس کی ترقی معراج کمال پر نظر آتی
تھی اکثر مذہب پر حملے کرنا’ اس کا ہنسی اڑانا اور اس سے نفرت او ر حقارت ظاہر
کرنا اہل سائنس و فلاسفہ و حکما اور اکثر بڑے بڑے مصنفین کا عام دستور ہوگیا تھا
اور اب یہ دستور رفتہ رفتہ فیشن ہوگیا۔ اور یہ سمجھا جاتا تھا اور اب بھی اکثر
سمجھا جاتا ہے کہ مذہب بڑھیوں کی کہانی اوربچوں کاکھیل ہے.....سائنس کے پرزور اور
بے جا حملوں اور اس کی حیرت انگیز ترقی سے یہ یقین ہوچلا تھا کہ مذہب کوئی دن کا
مہمان ہے ۔ دنیا پر اب حکومت سائنس کی ہوگی اور ان پیچیدہ مسائل اور گتھیوں کو
سلجھائے گا جو اب تک لا ینحل سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن خود اسی کے زور نے اسے کمزور
کر دیا اور وہ نشہ جس سے اہل سائنس مخمور تھے اترنے لگا اورباوجود حیرت انگیز ترقی
اور عروج کے معلوم ہوا کہ وہ بے بس ہے اور اپنی حد سے آگے نہیں چل سکتا۔’’(معرکہ
مذہب و سائنس ص:۵۲۔۵۳)
دیکھا جائے
تو اس زمانے میں مذہبی لوگوں کی جنگ سائنس اوراس کے پیش کرنے والوں سے تھی لیکن
مذہب کبھی بھی سائنس کے خلاف نہ تھا اور نہ آئندہ ہوگااس لئے کہ مذہبی تعلیمات
سائنس کے خلاف نہیں ہیں۔ آج کے جدید دور میں اگرچہ مذہب اور سائنس کی آویزش ختم
ہوگئی ہے مگر پھر بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب سائنس کی تعلیم کے پھیلاؤ میں
رکاوٹ ہے اور سائنس کی تعلیم کے پھیلاؤ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اس الزام میں کوئی
سچائی نہیں ہے۔ اگر مذہب اور سائنس میں فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ کہ مذہب کی بنیاد
عقیدہ (Faith) پر ہے اور سائنسی تحقیق کی بنیاد کھوج (Investigation) پر ہے۔آپ مذہب میں یقین کریں یا نہ کریں لیکن مذہب آپ کو اس کے
اصولوں سے متعلق بحث کرنے سے قطعا نہیں روکتا۔
سائنس اور
مذہب میں مخالفت کی ایک بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مغرب کے سائنس دانوں کے ایک
گروہ نے خدا کے وجود کا انکار کیا اور مذہب سے فرار کی کوشش کی’ لیکن اقلیتی گروہ
کی اس کاروائی میں سائنس کومورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی لہر ہے
جو زیادہ دیر بلند نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ مورس (Maurice)نے اپنی کتاب ''Man is not alone''میں لکھا ہے:
‘‘ہم ابھی
سائنس کی ترقی کے دور میں سے گزر رہے ہیں لیکن جیسے جیسے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا
حا رہا ہے یہ بھی واضح ہو تا جاتا ہے کہ کائنات کا کوئی خالق ایسا ضرور ہے جس کی
دانائی اور حکمت کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا۔ علم نے ہمارے سینوں میں
انکسار اور یقین پیدا کر دیا ہے’ اس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ
ہم خدا سے دور جانے کی بجائے خدا کے وجود کو تسلیم کرنے اور اس پر ایمان لانے کے
قریب آ رہے ہیں۔’’(بحوالہ یہودیت ’ عیسائیت اور اسلام ص:۴۴۹)
ڈاکٹر ڈوزلے
نے اپنی کتاب "The Human Destiny"
میں لکھتے ہیں:
‘‘اگر ہم
سائنس کے جمع شدہ سرمائے کاتنقیدی مطالعہ کریں اور اس سے منطقی اور عقلی نتائج
مستنبط کریں تو یہ لازمی طور پر ہمیں خدا تک لے آتے ہیں۔’’
اسی طرح
پروفیسر Jude نے اپنی کتاب ''God and
Evil'' میں لکھا ہے کہ:
‘‘آج سائنس
اور مذہب کائنات کی حقیقت کے بارے میں ایک ہی طرح کی بات کہہ رہے ہیں ’ گوکہ اپنے
نتائج فکر تک پہنچنے کے لئے دونوں کے طریقہ ہائے تحقیق اور مطالعہ جدا جدا ہیں ’
بہر حال ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج سائنس نے خدا کے تصور کا اثبات کر دیا ہے۔’’
اسلام اور سائنس:
دین اسلام کا
مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک صحت مند معاشرہ پیدا کرنے پر اصرار
کرتا ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کے قیام اور اس کی بقا و ترقی کے لئے تین بنیادی
شرائط ہیں۔
(۱) انسانی
شخصیت کی نشو و نما (۲) ہیئت
عمرانی کی تشکیل (۳) ماحول کی
تسخیر
پہلی دو
شرائط کی تکمیل کے لئے وحی کی رہنمائی سے کامل ہدایت میسر آتی ہے اور ماحول کی
تسخیر کے لئے سائنس کی گنجائش موجود ہے۔ اسلام انسان کو حکم دیتا ہے کہ وحی الٰہی
کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ کائنات اور اس میں موجود ات کی حقائق
کے بارے میں غور و فکر کرو تاکہ تمہیں حقانیت کا علم ہو جائے۔ مظاہر قدرت کی جستجو
اور مطالعہ کائنات کے بارے میں اسلام نے ہی دعوت فکر دی ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
اِنَّ
في خَلْقِ السَّموَاتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الّليْلِ وَ النَّهارِ وَ
الْفُلْك الَّتي تَجْرِی في الْبَحْرِ
بِمَا نيْفَعُ النَّاسَ وَ مَا اَنْزَلَ اللّه مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحيَا
بِه الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها وَ بَثَّ فيها مِنْ كلِّ دَآبّةٍ وَّ تَصْريفِ الرِيَاحِ
وَ السَّحَابِ الْمُسَّخَرِ بيْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَآياتٍ لِّقَوْمٍ يعْقِلُونَ.(البقرۃ:۱۶۴)
بے شک
آسمانوں اور زمین کی پیدائش ’ رات دن کا ہیر پھیر’ کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے
والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا’ آسمان سے پانی اتار کر مرودہ زمین کو
زندہ کرنا’ اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلادینا’ ہواؤں کا رخ بدلنا’ اور بادل
جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہیں’ ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی
نشانیاں ہیں۔
اس آیت کریمہ
میں اللہ تعالی نے کائنا کی تخلیق اور اس کے نظم و تدبیر کے متعلق سات اہم امور
بیان کئے ہیں۔
۱) آسمان
اور زمین کی پیدائش’ جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان نہیں ۔
۲) رات
اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا’ دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کردینا تاکہ کاروبار
معاش بھی ہو سکے اور آرام و راحت بھی مہیا ہو۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا
ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اوررات کا چھوٹا ہونا وغیرہ۔
۳) سمندروں
میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا ’ جن کے ذریعے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے
حساب سے سامان ضرورت و آسائش ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔
۴) بارش
جو زمین کی شادابی اور روئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔
۵) ہر
قسم کے جانوروں کی پیدائش’ جونقل و حمل ’ کھیتی باڑی’ اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں
اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔
۶) ہر
قسم کی ہوائیں’ ٹھنڈی بھی ’ گرم بھی ’ بار آور بھی اور غیر بار آور بھی’ شرقی و
غربی بھی ’ اور شمالی و جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق ۔
۷) بادل
جنہیں اللہ تعالی جہاں چاہتا ہے برساتا ہے۔جہاں چاہتا ہے چلاتاہے۔
سورہ اعراف
میں ارشاد باری تعالی ہے:
اَوَ
لَمْ یَنْظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ
مِنْ شَیْءٍ وَاَنْ عَسٰی اَنْ یَّکُونَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهمْ.(سورۃ
الاعراف:۱۸۵)
کیا ان لوگوں
نے غور نہیں کیا زمین و آسمان کے عالم میں اور ان چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کی
ہیں اور اس بات پر کہ ان کی اجل قریب آ پہنچی ہو۔
دوسر جگہ
باقاعدہ طور پر صیغہ امر کے ساتھ یہ کہاگیا کہ زمین میں چل پھر کر آغاز آفرینش کے
بارے میں غور فکر کرو۔
اَوَلَمْ
یَرَوْا کَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰہُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہُ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی
اللّٰہِ یَسِیْرٌ. قُلْ سِیْرُوا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ
الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰہُ یُنْشِیءُ النَّشْأَۃَ الْآخِرَۃَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی
کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.(سورۃ العنکبوت:۱۹۔۲۰)
کیا انہوں نے
نہیں دیکھا کہ مخلوق کی ابتداء کس طرح اللہ نے کی پھر اللہ اس کا اعادہ کرے گا’ یہ
تو اللہ تعالی پر بہت ہی آسان ہے۔ کہہ دیجئے ! زمین پر چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ
کس طرح اللہ تعالی نے ابتداً پیدائش کی ’ پھر اللہ تعالی ہی دوسری نئی پیدائش کرے
گا ’ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ایک جگہ اللہ
تعالی نے بارش سے پیدا ہونے والی زمینی پیداواروں کا ذکر نے کے بعد ان میں غور و
فکر کر نے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:
وَهوَ
الَّذِی اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجْنَا بِہِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ
فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْہُ حًبًّا مُّتَرَاکِبًا وَ مِنَ
النَّخْلِ مِنْ طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَۃٌ وَ جَنَّاتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ
الزَّیْتُونَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِہٍ ’ اُنْظُرُوا
اِلٰی ثَمَرِہِ اَذَا اَثْمَرَ وَ یَنْعِہِ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ
یُّؤْمِنُونَ.(الانعام:۹۹)
اور وہ
(اللہ) وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا ’ پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر قسم کے
نبات کو نکالا پھر ہم نے اس سے سبز شاخ (کونپلیں) نکالی کہ اس سے ہم اوپر تلے دانے
چڑھے ہوئے نکالتے ہیں(یعنی سب غلہ جات)’ اور کھجور کے درختوں سے یعنی ان کے گچھے
میں سے ’ خوشے ہیں جو نیچے کو لٹکے جاتے ہیں’ اور انگوروں کے باغ اورزیتون اور
انار کہ بعض ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے ہیں اور کچھ ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہیں
ہوتے۔ ہر ایک کے پھل کو دیکھو جب پھل لگتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو۔ بلاشبہ ان
میں د لائل ہیں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔
ایک اور جگہ
اللہ تعالی نے تخلیق کائنات پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے اس کے چند شعبہ جات کا
خصوصیت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
اَفَلاَ
یَنْظُرُونَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ. وِ اِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ
رُفَعَتْ . وَ اِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ. وَ اِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ
سُطِحَتْ.(سورۃ الغاشیۃ:۱۷۔۲۰)
کیا وہ
اونٹوں کونہیں دیکھتے وہ کس طرح پیدا کئے گئے ہیں۔ اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا
کیاگیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑ دئیے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کس
طرح بچھائی گئی ہے۔
درج بالا
آتیں نمونے از خرارے کے طور پر چند مثالیں بیان کی گئی ہیں ان میں دیکھا جائے تو
اس وقت علم سائنس میں شامل تمام شعبہ جات سے متعلق غور و فکر کی دعوت ہے۔ تخلیق
ارض و سماء’ اختلاف لیل و نہار سے متعلق علوم کا تعلق طبیعیات (Physics)سے ہے جبکہ حیاتیاتی دلیل کے طور پر مظاہر قدت کی طرف جو توجہ
دلائی گئی ہے اس کا تعلق حیاتیاتی علوم(Biology) سے ہے ’حیاتیات میں بھی کچھ کا تعلق حیوانات سے ہے جسے علم
الحیوانات (Zooglogy) کہا
جاتا ہے اور اسی طرح کچھ کا تعلق نباتات سے یعنی زمین کی روئیدگی ’ لہلہاتے کھیتوں
’ پیداوار’ غلہ اور اناج پھل اور پھول سب کے مشاہدے اور مطالعے سے جسے نباتاتی
علوم(Botany) کہا جاتا ہے۔اور جو علم ستاروں اور سیاروں
سے متعلق ہو اسے علم فلکیات (Astronomy)اسی
طرح قرآن کریم نے دنیا اور انسان کی تاریخ کے مختلف پہلوں اور قوانین کے ذکر بھی
کیا ہے جن کا تعلق علم بشریات (Anthropology)سے ہے۔
بالفاظ دیگر
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے تمام علوم مثلا فزکس’ کیمسٹری’ بیالوجی’ زولوجی’
بوٹنی’ جیالوجی’ اسٹرانومی’ انجینئرنگ’ میڈیسن’ جغرافیہ’ جیومیٹری’ علم التشریح
وغیرہ سب مطالعہ کائنات و ما فیہا کا نتیجہ ہیں۔ اور اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں
مختلف انداز میں ان میں غور و فکر کرنے کی ترغیب و تاکید کی ہے۔
مندرجہ بالا
آیتوں میں بیان کردہ یہ سارے امور جن کا تعلق کائنات اور کائنات میں چھپے ہوئے
اسرار سے متعلق ہیں سب اللہ تعالی کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں۔ان
کی تخلیق اور ان کے نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔پھر اہل عقل و خرد کو
دعوت فکر دی گئی ہے ان نشانیوں میں غور فکر کریں اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
پھر فرمایا وہی لوگ غور و فکر کرتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں اور ان کے اندر سوچنے
سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کامطلب ہے کہ اسلام سائنسی علوم کی حوصلہ افزاء
کرتاہے حوصلہ شکنی نہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ
وسلم سے قبل کسی نبی’ فلسفی یا حکیم نے مطالعہ کائنات کی طرف اس قدر زور دار انداز
میں توجہ دلائی تھی یا کوئی شخص کسی ایسی بات کی دعوت دے سکتا ہے جس کی اہمیت کا
انکشاف بارہ تیرہ سو سال بعد ہونا ہو؟ لہٰذا معلوم یہی ہوتا ہے یہ دعوت فکر و
تدبر’ تعقل و تفکر اللہ کی طرف سے ہے جو ازل سے عالم بالغیب ہے اور وہی جانتا ہے
کہ کب کیا ظہور اور کیا انکشافات ہوں گے۔اس لئے کہاجاسکتا ہے کہ اسلام سائنس کا
کبھی بھی مخالف نہیں رہا بلکہ ساری دنیا جب جہالت کے اندھیر میں ڈوبا ہوا تھا
اسلام ہی نے اس کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا اور علم و ہنر کی شاہراہ پر ڈال دیا
تھا۔
مورس بوکائے لکھتے ہیں:
‘‘ہمارے علم
کے مطابق اسلام کے نقطہ نظر سے مذہب اور سائنس کی حیثیت ہمیشہ دو جڑواں بہنوں کی
سی رہی ہے۔ شروع ہی سے اسلام نے لوگوں کو حصول علم کی ترغیب دی ہے اور اس کا نتیجہ
یہ رہا ہے کہ اسلامی تمدن کے دور عروج میں سائنس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے جس سے
نشاۃ ثانیہ سے قبل خود مغرب نے بھی استفادہ کیا ہے۔ موجودہ سائنسی معلومات نے قرآن
کی آیات پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے صحیفوں اور سائنس کے درمیان مقابلہ کے لئے فہم
و ادراک کی ایک نئی راہ نکل آئی ہے۔ پہلے یہ آیتیں اس معلومات کے عدم حصول کی بنا
پر مبہم تھیں جو ان کی توضیح و تشریح میں ممد و معاون ہو سکتی ہے۔’’(بائیبل ’ قرآن
اورسائنس ص:۱۸)
اگر مضامین
قرآن کا بنظر عمیق جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم عام طور پر ان علوم
کی بابت تحریک پیدا کرتا ہے جن کا براہ راست تعلق عمل سے ہے۔اور انسان کو ان علوم
اور امور میں تفکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔مثلا جب قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ تم
آسمان ’ زمین’ سورج’ چاند’ ستاروں پر نظر کرو تو اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ صرف
خیال پر اکتفا کرو بلکہ عملی اور تنقیدی رنگ میں انہیں دیکھو اور تجربہ کی کسوٹی پر
ان کو پرکھو’ ان کی ماہیت پر غور کرو ’ ان کی باقاعدگی کے اسباب پر غور کرو ۔الغرض
قرآن کریم ان تمام علوم و فنون سے بحث کرتا ہے جن کا تعلق انسان’ کائنات اور
کائنات کے جملہ اشیاء سے ہے’ اس لئے ہم علوم جدیدہ کو قرآنی علوم سے علیحدہ قرار
نہیں دے سکتے۔(دیکھئے قرآن اور جدید علوم ص:۷)
مولانا ظفر
علی خان جان ولیم ڈریپر مصنف معرکہ مذہب و سائنس کے اس متعصبانہ فعل پر تنقید کرتے
ہوئے لکھتے ہیں جس میں اس نے اسلام کی خوبی کا بیان اسلام کے ایک مستقل دین ہونے
اور سائنس کی عدم مخالف اورمسلمان سائنسدانوں کی عظمت کے اعتراف کے ساتھ کرنے کی
بجائے اسلام کو نصرانیت کی ایک شاخ قرار دیکر کیا ہے:
‘‘.... پھر تو
ان سے اس امر کی بدرجہ اولی توقع تھی کہ وہ اسلام کو مذہبی ترقی کی معراج یا منتہا
قرار دے کر اور سائنس کی اس حیرت انگیز ترقی کو پیش نظر رکھ کر جو اسلام کی
سرپرستی میں اسے میسر ہوئی اور جس نے یونان و مصر’ کالدو ایران’ ہندوستان و چین کی
فرسودہ ہڈیوں میں نئی روح پھونک کر علوم جدیدہ کی بنیاد قائم کی اس نتیجہ پر
پہنچتے کہ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو فطرت الٰہی اور سنت ایزدی سے تطابق رکھتا
ہے۔ بالفاظ دیگر مذہب و سائنس میں اگر وفاق پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں
جب کہ مذہب سے مراد اسلام لی جائے۔ اور یہ تعبیر نادرست بھی نہ ہوگی اس لئے کہ اگر
کوئی مذہب دنیا کے تمام مذاہب کے حسنات کے شیرازہ بند ہونے کی وجہ سے ہمہ گیری
کاادعا کر سکتا ہے اور اس حیثیت سے تمام مذاہب کا بچشم انصاف قائم مقام بن سکتا ہے
تو وہ اسلام ہے۔’’(مقدمہ معرکۂ مذہب و سائنس ص:۸۳۔۸۴)
مورس بوکائے
لکھتے ہیں:
‘‘جب میں نے
پہلے پہل قرآنی وحی تنزیل کا جائزہ لیا تو میرا نقطہ نظر کلیۃ معروضی تھا۔ پہلے سے
کوئی سوچا سمجھامنصوبہ نہ تھا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ قرآنی متن اور جدید
سائنس کی معلومات کے مابین کس درجہ مطابقت ہے۔ تراجم سے مجھے پتہ چلا کہ قرآن ہر
طرح کے قدرتی حوادث کا اکثر اشارہ کرتا ہے لیکن اس مطالعہ سے مجھے مختصر سی
معلومات حاصل ہوئیں۔ جب میں نے گہری نظر سے عربی زبان میں اس کے متن کا مطالعہ کیا
اور ایک فہرست تیار کی تو مجھے اس کام کو مکمل کرنے کے بعد اس شہادت کا اقرار کرنا
پڑا جو میرے سامنے تھی۔ قرآن میں ایک بھی بیان ایسا نہیں ملا جس پر جدید سائنس کے
نقطہ نظر سے حرف گیری کی جا سکے۔’’(بائیبل ’ قرآن اور سائنس ص:۱۶)
ایک جگہ بوکائے لکھتے ہیں:
‘‘قرآن کریم
میں مقدس بائیبل سے کہیں زیادہ سائنسی دلچسپی کے مضامین زیربحث آئے ہیں ۔ بائیبل
میں یہ بیانات محدود تعداد میں ہیں لیکن سائنس سے متبائن ہیں اس کے برخلاف قرآن
میں بکثرت مضامین سائنسی نوعیت کے ہیں اس لئے دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں۔ مؤخر
الذکر(قرآن کریم) میں کوئی بیان بھی ایسا نہیں جو سائنسی نقطہ نظر سے متصادم ہوتا
ہو۔یہ وہ بنیادی حقیقت ہے جو ہمارے جائزہ لینے سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔’’(بائیبل
’ قرآن اور سائنس ص:۱۴)
سائنس کی ترقی میں مسلمانوں کا کردار
اسلام کا
مطالعہ کرنے والا یہ بات بخوبی جانتاہے کہ اسلام سائنس کے خلاف کبھی نہیں رہا جس
طرح عیسائیت میں پاپائیت سائنس کے خلاف تھی اور اس نے سائنسی علوم کی تحصیل کو کفر
کا درجہ دے رکھا تھا’ جبکہ اسلام شروع سے ہی علم اور اہل علم کی فضیلت کا قائل رہا
ہے اور حصول علم کی تلقین کرنے کے ساتھ اہل علم کو جاہل لوگوں پر فوقیت دیتے ہوئے فرمایا:
قُلْ
ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ.(الزمر:۹)
کہہ دیجئے
کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟
یہاں استفہام
انکاری ہے کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے ۔ اہل علم کو جاہل اور بے
علم لوگوں پر فضیلت و فوقیت حاصل ہے۔ علم کی اس اہمیت کو مسلمانوں نے ہمیشہ مد نظر
رکھا اور علم کی ترویج و تعمیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔مسلمانوں نے تمام شعبہائے
زندگی میں اپنا کردار ادا کیا جس میں سائنس کا شعبہ بھی قابل ذکر ہے۔ سائنس میں جو
کام یونانی کر رہے تھے وہ آٹھویں صدی عیسوی کے لگ بھگ مسلمانوں نے سنبھال لیا ۔ اس
میں انہوں نے جو تحقیقات اور انکشافات کئے انہیں نہایت احتیاط سے قلم بند کر دیا۔
اس طرح آئندہ کے سائنسدانوں اور محققوں کے لئے مفید معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ چھوڑ
گئے۔
مسلم سلاطین
کے عہد میں بغداد’ قاہرہ’ قرطبہ (ہسپانیہ) اپنے زمانے میں تہذیب و تمدن اور علم و
فنون کا مرکز تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ یونانیوں نے فلکیات’ طبیعیات ’ طب ’ جغرافیے ’
ریاضی ’ علم ہندسہ اور علم کیمیا میں جو ابتدائی تحقیقات کی تھیں انہیں مسلمان
سائنس دانوں نے بہت آگے بڑھایا۔
ڈیپرمسلمانوں
کے علم سائنس میں ترقی اور تجربہ و ایجادات کے بارے میں اعتراف کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
‘‘المنصور نے
اپنے عہد خلافت (۷۵۳۔۷۷۵ء) میں حکومت کا مرکز دمشق سے
بغداد میں منتقل کیا اور نئے دار الخلافہ کو عروس البلاد بنا دیا۔ اس کا بہت سا
وقت علم ہئیت کے مطالعہ اور اس فن شریف کو ترقی دینے میں صرف ہوتا تھا اس کے علاوہ
اس نے سلطنت میں جا بجا طب اور قانون کے مدارس قائم کئے۔ اس کا پوتا ہارون الرشید
(۷۸۶ء ) بھی
اسی کے نقش قدم پر چلا چنانچہ اس کے حکم سے دولت عباسیہ کی ہر مسجد کے ساتھ ایک
مدرسہ قائم کیا گیا۔لیکن علم و حکمت کا سب سے زیادہ روشن زمانہ جو ایشیا کے لئے
سرمایہ افتخار و نازش ہے المامون کاعہد خلافت (۸۱۳۔۸۳۲ء) ہے ۔ اس نے بغداد کو سائنس
کامرکز بنا دیا۔عظیم الشان کتب خانے قائم کئے اور اپنے دربار کو علماء و فضلاء کی
مجلس بنا دیا۔
یہ اعلی درجہ
کا علمی مذاق اس وقت تک بھی بدستور قائم رہاجب کہ اندرونی تنازعات و فسادات کی وجہ
سے عربی سلطنت تین جداگانہ حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ بنی عباس ایشیا میں بنی
فاطمہ مصر میں اور بنی امیہ اندلس میں ایک دوسرے کے سیاسی رقیب تو تھے ہی لیکن علم
و حکمت اور ادب و انشا کی سرپرستی میں بھی ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ دوسروں پر
فوقیت لے جائے۔
شعر و سخن
میں عربوں نے ہر دلچسپ و نتیجہ خیز مضمون پر کتابیں لکھیں۔ ان کو اس امر پر ناز
تھا کہ ایک اکیلے عرب نے جس قدر شاعر پیداکئے ہیں وہ تعداد میں دنیا بھر کے شاعروں
سے زیادہ ہیں۔ سائنس میں ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے اکتساب میں انہوں نے
یورپ کے یونانیوں کاطریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ اسکندریہ کے یونانیوں کی روش کا
اتباع کیا۔ ان کی عقل سلیم نے انہیں یہ بات سمجھا دی تھی کہ سائنس کی ترقی محض
تخیل ہی سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس ترقی کا صحیح اور یقینی ذریعہ صحیفہ فطرت کا عینی
مطالعہ ہے۔ وہ حکمت نظری پر حکمت عملی کو ترجیح دیتے تھے یعنی ان کے علم کی بنیاد
تجربہ اور مشاہدہ پر تھی۔ فن ہندسہ و ریاضیات کو وہ استدلال و استنباط کا آلہ تصور
کرتے تھے۔ فن جر ثقیل ۔ توازن و ابعاد۔ فن مناظر و مرایا پر جو کثیر التعداد
کتابیں انہوں نے لکھی ہیں ان میں یہ دلچسپ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ ہر مسئلہ کسی
تجربہ یا کسی آلہ مشاہدہ کے ذریعہ سے حل کیا گیا ہے۔ یہی خصوصیت تھی جس نے ان کو
فن کیمیا کا موجد بنا دیا جس نے ان سے تقطیر (عرق کھینچنے) تصعید (بخار اڑا کر
منجمد کرنے) تسییح (پگھلا نے) اورتردیق (چھاننے) کے آلات ایجاد کرائے۔جس نے فن
ہئیت میں آلات منقسمہ مثلا لبنہ و اصطرلاب سے کام لینے کی ترغیب دلائی۔ جس نے فن
کیمیا میں ان سے ترازو کا استعمال کرایا حس کے اصول سے وہ بخوبی واقف تھے۔ جس نے
ان سے بغداد ’ اندلس اور سمرقند میں اجسام کے اوزان کی میزانیں اور ہیئت کے نقشے
تیار کرائے۔ جس نے ان کو علم ہندسہ’ علم مثلث’ علم جبر و مقابلہ اور ہندی طریقہ
اعداد نویسی میں نئے نئے نکتے پیدا کرنے کے قابل بنایا۔یہ وہ نتائج ہیں جو ارسطو
کے عملی و استقرائی طریقہ کو افلاطون کی خیال آرائی پر ترجیح دینے کی بدولت ان کی
کوششوں نے پیدا کئے۔’’(ولیم ڈریپر’ معرکۂ مذہب و سائنس ترجمہ ظفرعلی خان ص:۲۲۲۔۲۲۳)
ڈاکٹر
گستاؤلی بان علم کیمیا میں مسلمانوں کی ایجادات اور انکشافات کا تذکرہ کرتے ہوئے
لکھتے ہیں:
‘‘علم کیمیا
میں عربوں نے جوکچھ یونانیوں سے پایا تھا وہ بہت ہی کم تھا وہ بڑے بڑے مرکبات جس
سے یونانی بالکل ناواقف تھے مثلا الکحل ’ گندھک کاتیزاب’ شورے کاتیزاب ’ ماء الملک
وغیرہ کوعربوں نے ایجاد کیا۔ انہوں نے ہی کیمیا کے ابتدائی علمیات عرق کشی وغیرہ
جاری کیا۔ کیمیا کی کتابوں میں یہ لکھا جاتا ہے کہ اس علم کا موجد لوائی زئر ہے ’
تو یاد رکھنا چاہئے کہ کسی قسم کے علوم نہ کیمیا اور نہ کوئی اور علم کبھی دفعتہ
ایجاد نہیں ہوئے اور ہزار برس پہلے عربوں میں اس قسم کے علمی کارخانے موجود تھے جس
سے وہ اکتشافات اور ایجادیں شائع ہوئی تھیں جس کے بغیر لوائی زئر کچھ نہ کر سکتا
تھا۔’’تمدن عرب ترجمہ سید علی بلگرامی ص:۲۷۵)
ڈیپر علم
سائنس میں مسلمانوں کی ترقی اور ان کی درسگاہوں کے متعلق لکھتا ہے:
‘‘غرض دنیائے
اسلام میں علوم و فنون کی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی ۔ منگولیا’ سماترا’
ایران’ عراق’ شام’ مصر’ شمالی افریقہ’ مراکش’ فیض’ اور اندلس میں کثرت سے مدرسے
اور درسگاہیں موجود تھیں۔دولت روما کا رقبہ با آن ہمہ عظمت و جبروت اتنا نہ تھا
جتنا اس عربی سلطنت کا۔ اس عظیم الشان سلطنت کے ایک کنارہ پر تو سمرقند کا مشہور
مدرسہ اور رصد گاہ تھی اور دوسرے کنارے پر اندلس کا شہرہ آفاق مینارہ ترصد آسمان
سے ہم کلام تھا۔’’(’ معرکۂ مذہب و سائنس ص:۲۲۵)
مسلمانوں کی
علوم و فنون کی سرپرستی کا ذکر کرتے ہوئے گبن لکھتا ہے:
‘‘صوبوں کے
خود مختار امیر بھی علم و ہنر کی سرپرستی میں شاہانہ اقتدارات برتتے تھے اور ان کی
رقیبانہ مساقبت نے مذاق علمی کی ترویج میں غیر معمولی حصہ لے کر سائنس کے نور کو
سمرقند و بخارا سے لے کر فیض اور قرطبہ تک پھیلا دیا۔ ایک سلطان کے وزیر نے ایک
دفعہ ایک لاکھ اشرفیاں اس غرض سے وقف کر دیں کہ اس سرمایہ سے بغداد میں ایک کالج
قائم کیاجائے اور اس کالج کے مصارف کے لئے پندرہ ہزار دینار سالانہ کا دوامی عطیہ
مقرر کر دیا۔’’(دیکھئے بحوالہ ڈیپر ’ معرکۂ مذہب و سائنس ص:۲۲۵)
شیخ
احمد دیدات لکھتے ہیں:
‘‘مسلمانوں
نے انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر دور میں علم اور سائنس کے بڑی خدمت کی اور یہی
اسلامی اثرات اور یورپ پر اس کے نتائج اندلس کے ذریعے مختلف ممالک پر وارد ہوئے۔
اگر قرون وسطی کے زمانے میں یورپ میں اسلامی خدمات ان کی تاریخ کے اوراق کو رنگین
بنانے کے لئے دوبدو نہ ہوتیں تو آج برلن’ واشنگٹن ’ لندن’ ماسکو اور پیرس کی حالت
کچھ اور ہوتی۔ یہ صرف مسلمانوں کی محنت کا نتیجہ تھا کہ یورپ نے اس سے آگے قدم رکھ
کر گزشتہ خدمات کا سہرا بھی اپنے سر سجا لیا اور سائنسی علوم و فنون میں پیش رو
قرار پائے۔’’(دیکھئے احمد دیدات’ یہودیت ’ عیسائیت اور اسلام ص:۴۴۸)
اہل یورپ کے
پاس نہ کوئی تعلیمی ادارہ تھا اور نہ ہی کوئی تجربہ گاہ۔ ابتدائی طور پر ان کو جو
طبی مدرسہ (Medical School) ملا
وہ مسلمانوں نے قائم کیا تھا اسی طرح جو رصد گاہ ان کو ملی وہ بھی مسلمانوں ہی کا
قائم کردہ تھا اس لئے یہ کہاجا سکتا ہے کہ ان کی علمی ترقی مسلمانوں کے قائم کردہ
اداروں کی مرہون منت ہے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ڈیپر لکھتا ہے:
‘‘یورپ کا
پہلا طبی مدرسہ وہ تھا جسے عربوں نے اٹلی کے شہر سارنو میں قائم کیا اور پہلی رصد
گاہ جویورپ کونصیب ہوئی وہ تھی جو اموی خلفاء کی سرپرستی میں بمقام اشبیلیہ
(اسپین) قائم ہوئی۔’’(معرکۂ مذہب و سائنس ص:۲۲۶)
مسلمانوں کے علمی استعداد و ترقی سے دنیا پر کیا
اثرات مرتب ہوئے اور دنیا نے صنعت و حرفت میں کس طرح ترقی کی اس بارے میں ڈریپر
لکھتا ہے:
‘‘اس علمی
مستعدی کااثر اس ترقی میں صاف نظر آتا ہے جو صنعت و حرفت کے متعدد فنون میں جلد
ہوئی شروع ہوئی۔ فن فلاحت (Agriculture) میں
آبپاشی کے طریقے پہلے سے بہتر ہوگئے۔ کھاد کا استعمال ہنر اور سلیقہ کے ساتھ کیا
جانے لگا۔ چوپایوں کی افزائش نسل کے متعلق قیمتی نکتے معلوم ہوگئے۔ دیہی قوانین کا
ضابطہ کاشتکاروں اور مزارعین کے حقوق کے لحاظ سے بہت زیادہ کامل و مکمل ہوگیا۔ جن
کھیتوں میں پہلے دہان کی کاشت نہ ہوتی تھی وہاں اب اس کی لہلہاتی فصلیں نظر آنے
لگیں۔ جہاں ایکھ اور قہوہ کا نام و نشان نہ تھا وہاں اب ان کی پیداوار بھی ہونے
لگی۔ سلطنت میں جا بجا ریشم روئی اور ان کے کپڑوں کے کارخانے قائم ہوگئے۔ قرطبہ
اور مراکو میں چرم سازی و کاغذ سازی کا کام شروع ہوگیا۔ معدنوں پر کام ہونے لگا۔
مختلف دھاتیں ڈھلنے لگیں۔ ٹالیڈو میں ایسے فولادی خنجر اور تلواریں تیار ہونے لگیں
کہ ایک دنیا ان کا لوہا مان گئی۔’’(معرکہ مذہب و سائنس ص:۲۲۸)
سائنس کی
ترقی میں مسلمانوں کے کردارکو سراہتے اور ان کے احسان کا اعتراف کرتے ہوئے موریس
بوکائے لکھتے ہیں:
‘‘اسلام کی
انتہائی ترقی کے زمانہ میں جو آٹھویں اور بارہویں صدی عیسوی کے درمیان کازمانہ ہے
یعنی وہ زمانہ جب سائنسی ترقی پر عیسائی دنیا میں پابندیاں عائد تھیں اسلامی
جامعات (یونیورسٹیوں) میں مطالعہ اور تحقیقات کا کام بڑے پیمانہ پر جاری تھا۔ یہی
وہ جامعات ہیں جہاں اس دور کے قابل ذکر ثقافتی سرمائے ملتے ہیں۔ قرطبہ کے مقام پر
خلیفہ (الحکم ثانی) کے کتب خانہ میں چار لاکھ کتابیں تھیں۔ابن رشد وہاں درس دیتا
تھا اوریونانی ’ ہندوستانی اور ایرانی علوم سکھائے جاتے تھے۔ یہ وجہ ہے کہ تمام
یورپ سے کھنچ کر طلبہ قرطبہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جایا کرتے تھے’ بالکل اسی
طرح جیسے آج کل لوگ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے ریاستہائے متحدہ (United
States) جاتے ہیں۔ مہذب عربوں کا یہ ہمارے اوپر بڑا
احسان ہے کہ ان کی بدولت قدیم مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ ہمیں دستیاب ہو گیا ہے۔ ان
ہی عربوں نے مفتوحہ ممالک کے کلچر کو منتقل کرنے کا کام کیا۔ ہم ریاضی (الجبرا
عربوں کی ایجاد ہے) فلکیات’ طبیعیات (مناظر و مرایا) ارضیات ’ نباتات ’ طب وغیرہ
کے لئے بھی بڑی حد تک عربی تمدن کے ممنون احسان ہیں۔ سائنس نے پہلے پہلے قرون وسطی
کی اسلامی جامعات (یونیورسٹیوں) میں بین الاقوامی صورت اختیار کی۔ اس زمانہ میں
لوگ مذہبی رنگ میں آج کل سے کہیں زیادہ رنگے ہوئے تھے لیکن اسلامی دنیا میں یہ چیز
ان کو اس بات سے نہیں روکتی تھی کہ وہ مذہبی اور سائنسدان دونوں ایک ساتھ ہوں۔
سائنس مذہب کے ساتھ توام تھی اور اس کی یہ حیثیت کبھی ختم نہیں ہو سکتی
تھی۔’’(بائیبل ’ قرآن اور سائنس ص:۱۴۵)
مسلمانوں نے
سائنس کی ترقی کے لئے جو کوشش کیں وہ بلا شبہ ناقابل فراموش ہیں ’ اگر ہم تجزیہ
کریں تو بنیادی کام مسلمانوں نے کیا جسے مغربی سائنس دانوں نے آگے بڑھایا۔