قرآن مجيد پر اعراب اور نقطے

0

 

 قرآن  مجيد پر اعراب اور نقطے

            اعراب عرب سے ماخوذ ہے جس کے لفظی معنی فصاحت اور صحرا نشینی کے ہیں۔ یہاں اعراب سے مراد حروف پر لگائی جانے والی وہ علامات اور آواز کی حرکات ہوتی ہیں جو زبان کو عربی یعنی فصیح (عجمی کے عکس) بنانے کے لئے اختیار کی جاتی ہیں’ اور ان کی مدد سے زبان میں موجود صوتی تراکیب و تغیر الکلام واضح کئے جاتے ہیں۔

            اعراب کو حرکات بھی کہا جاتا ہے ۔ قواعد کی کتابوں میں اعراب کے لئے تشکیل (Formating) کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے ۔ اسی لئے حروف پر زیر’ زبر ’ پیش یاجزم لگانے کو اعراب لگانا کہا جاتا ہے۔

            قرآن کریم ابتداء سے ہی اعراب سمیت پڑھا جاتا ہے ’ اعراب کے بغیر تو کوئی عبارت نہیں پڑھی جا سکتی البتہ ابتدائے زمانہ میں قرآن کریم کے نسخوں اور تحریرات میں عربی کے قدیم رسم الخط کے مطابق نقوش پر اعراب اور نقطے نہیں لگے ہوئے تھے۔لوگ نقطے اور اعراب لگائے بغیر ہی الفاظ کا تلفظ سمجھ جاتے تھے اور درست پڑھتے تھے جس طرح آج بھی عربی کتب پر کوئی اعراب نہیں ہوتا مگر عربی زبان کا عالم اس کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن جب عجمی لوگ بکثرت اسلام میں داخل ہوئے اور ان کو اعراب اور نقطوں کے بغیر قرآن مجید پڑھنے میں دشواری ہونے لگی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد ابو الاسود دوئلی نے قرآن کریم پر نقطے اور اعراب لگانے کی ابتدا کی ۔ اس کے بعد حجاج بن یوسف کے حکم سے تین حضرات حسن بصری’ یحیی بن یعمر اور نصر بن عاصم نے اس کی تکمیل کی ۔ (بحوالہ علوم القرآن مفتی تقی عثمانی)

            بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ ابو الاسود الدوئلی نے عربی گرامر کے ابتدائی قوانین وضع کئے تھے جبکہ قرآن پر نقطے اور اعراب حجاج بن یوسف کے حکم پر لگائے گئے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)