اصحاب الاخدود
ايك درسِ عبرت
تحریر: ابراہیم عبد اللہ یوگوی
نجران: سعودی عرب کا ایک مشہور منطقہ ہے جو مملکت کے جنوب مغرب
میں واقع ہے ۔ اس کے جنوب میں شمالی یمن ’ مغرب میں ظہران اور عسیر اور مشرق میں
سلطنت عمان واقع ہے۔ زمانہ قدیم میں نجران یمن کا حصہ تھا ۔لیکن بیسویں صدی کے
اوائل میں جب عرب مختلف قبائل میں منقسم تھا یہاں ایک کمزور حکمرانی تھی ۔ مؤرخین
کے مطابق ملک عبد العزیز نے جب نجد اور حجاز کو متحد کر کے سعودی سلطنت کی بنیاد
رکھی اس وقت بھی نجران سعودی عرب اور یمن کے درمیان بفرزون کی طرح تھا ۔ بعد میں
دونوں ملکوں نے اس پر اپنا اپنا حق جتایا اور دعویٰ کیا کہ یہ اس کا علاقہ ہے ۔
پھر سرحد کے سلسلہ میں ۱۹۳۴ء
میں ایک خونریز لڑائی بھی ہوئی جو ایک بات پر منتج ہوئی کہ نجران باقاعدہ طور پر
سعودی عرب کا علاقہ تسلیم کر لیا گیا۔ ظہور اسلام کے وقت نجران عیسائیوں کا گڑھ
تھا ۔ نجران ہی سے عیسائیوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا
جنہوں نے مباہلہ کی دعوت دی مگرانجام بدکے خوف سے چپکے سے کھسک گئے۔ اس سر زمین پر
دو مشہور واقعات پیش آئے ہیں جن میں اہل ایمان کے لئے عبرت و نصیحت ہے جن کا ذکر
قرآن کریم میں بھی آیا ہے۔ ایک اصحاب الاخدود کا واقعہ وقت کے بادشاہ نے اہل ایمان
کو آگ کے گڑھوں اور خندقوں میں پھینک کر جلا دیا تھا دوسرا ابرہہ اشرم کا واقعہ جو
خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے ارادے سے یمن سے نکلا اور خود مسمار ہوا۔ ان واقعات کے
آثار اب بھی وہان موجود ہیں۔
چھٹی صدی عیسوی کے اوائل کی بات ہے کہ یمن کے
علاقے میں ذو نواس کی حکومت تھی ۔ اس کااصلی نام زرعہ تھا مگر اپنے عہد حکومت میں یوسف
ذو نواس کے نام سے مشہور تھا۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ یمن کے مختلف علاقوں کے حاکم
‘‘ذو’’ کہلاتے تھے ۔ اور جس علاقے کا وہ حاکم اعلیٰ ہوتا وہاں کے مرکزی قلعہ کا جو
نام ہوتا تھا اس کی نسبت سے اس علاقے کے حاکم کا نام قرار پاتا تھا۔ اسی طرح قلعہ
کی نسبت سے قلعہ دار کا لقب بھی پڑ جاتا مثلا ذو ثعلبان’ ذو ریدان وغیرہ۔ اور
بادشاہ کا بھی ایک مضبوط قلعہ ہوتا اور بادشاہ یمن کے لقب انہی قلعوں کے انتساب سے
رکھے جاتے۔ نجران میں نواس نامی قلعہ تھا جس کی نسبت سے زرعہ ‘‘یوسف ذو نواس’’ کے
نام سے جاناجاتا تھا۔ وہ مشرک اور بت پرست تھا’ غیر اللہ کو پوجتا اور لوگوں کو غیراللہ
کی عبادت کا حکم دیتا۔
بعض مؤرخین کہتے ہیں وہ یہودی تھا اور غیر یہودیوں
سے بہت زیادہ بغض رکھتا تھا خصوصا جو لوگ یہود یت کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرتا
ان کو بہت سخت سزائیں دیتا۔ اس وقت کی معلوم دنیا میں تین طرح کے مذاہب رائج تھے۔
مشرکین’ جو غیر اللہ کو پکارتے ’ ان کی عبادت کرتے ان میں دوسرے مشرکین کے ساتھ
مجوسی یا آتش پرست بھی شامل ہیں’ یہودی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہونے
کے دعویدار تھے اور وہ یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ وہی حق پر ہیں اور حضرت عیسیٰ اور
ان کی والدہ محترمہ مریم علیہما السلام کے بارے میں غلط عقیدہ رکھتے اور ان کے
بارے میں نازیبا کلمات کہتے ’اور عیسائی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار
ہونے کے دعویدا ر تھے۔ اان میں سے بہت سے لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صحیح دین
سے ہٹ گئے تھے پولوس جیسے لوگوں نے عیسائیت کو مسخ کر دیا تھا پھر بھی ان میں ایسے
لوگ تھے جو لوگوں کو کفر اور شرک سے باز رہنے اور عقیدہ توحید پر چلنے کی دعوت دیتے
تھے۔
اس زمانہ میں
شاہ یمن ذو نواس کا دار السلطنت نجران تھا ۔ بادشاہ کا ایک جادو گر کاہن تھا وہ جب
بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے ایک ذہین اور ہوشیار لڑکا دو جسے میں یہ
علم سکھا دوں’ تاکہ وہ میرے بعد میرا عہدہ سنبھالے۔ چنانچہ بادشاہ نے ایک سمجھ دار
لڑکا تلاش کر کے اس کے سپرد کر دیا کہ وہ اس لڑکے کو اپنا علم سکھا دے ۔لڑکے کا
گھر نجران کے قریب کسی گاؤں میں تھا ’وہ جادو سیکھنے کے لئے صبح نجران جاتا شام کو
گھر لوٹ آتا۔ لڑکے کے راستے میں ایک راہب کا مکان تھا ’ یہ لڑکا کاہن کے پاس آتے
جاتے اس کے پاس بھی بیٹھتا اور اس کی باتیں سنتا جو اسے اچھی لگتیں۔ اسی طرح سلسلہ
چلتا رہا۔ ایک مرتبہ لڑکا جارہا تھا کہ راستے میں ایک بہت بڑے موذی جانور (شیر یا
سانپ وغیرہ) نے لوگوں کا راستہ مسدود کر رکھا تھا۔ اس بلائے ناگہانی کی وجہ سے
لوگوں کو راستہ بدل کر جانا پڑتا اور لوگ بڑی دشواری میں مبتلا تھے۔
لڑکے نے سوچا
آج میں پتہ کرتا ہوں کہ جادو گر راہِ حق پر ہے یا راہب؟ اس نے ایک پتھر پکڑا اور
کہا: اے اللہ! اگر راہب کا معاملہ تیرے نزدیک بہتر اور پسندیدہ ہے تو اس جانور کو
مار دے تاکہ لوگوں کی آمد و رفت جاری ہو جائے۔ یہ کہہ کر اس نے پتھر مارا اور وہ
جانور مر گیا اور اس راستے پر لوگوں کی آمد و رفت پھر سے شروع ہو گئی۔
لڑکے نے جا
کر یہ واقعہ راہب کو بتلا دیا۔ راہب نے کہا: بیٹے! اب تم فضل و کمال کو پہنچ گئے
ہو اور تمہاری آزمائش و ابتلا شروع ہونے والی ہے’ لیکن اس دور ابتلا میں میرا نام
ظاہر نہ کرنا۔ راہب کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر بادشاہ کو اس کا علم ہو گیا کہ میں
نے اس لڑکے کو اس کے جادو گر کے برعکس کسی اور طرح کا علم سکھایا ہے اور وہ بادشاہ
کے دین سے پھر گیا ہے تو بادشاہ اس کو بہت سخت سزا دے گا۔ یہ لڑکا ایمان باللہ کی
شرط پر مادر زاد اندھے’ برص اور دیگر بعض بیماریوں کا بھی علاج کرتا تھا ۔ بادشاہ
کا ایک مصاحب اندھا ہوگیا اس کو اس لڑکے کے بارے میں علم ہوا تو بہت سارے ہدیے لے
کر اس کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے بھی شفا دیں یہ سارے مال و اسباب آپ کے لئے ہیں۔
لڑکے نے کہا: میں شفا نہیں دیتا’ شفا تو اللہ دیتا ہے۔ اگر آپ ایمان لے آئیں تو میں
اللہ سے دعا کروں گا وہ آپ کو شفا دے گا۔ چنانچہ بادشاہ کا مصاحب ایمان لے آیا اور
اس لڑکے نے دعا کی اور اللہ نے اس کی آنکھیں صحیح کر دیں۔ پھر وہ بادشاہ کے پاس
آکر اس کے دربار میں پہلے کی طرح بیٹھ گیا’ بادشاہ نے اس سے کہا:اے فلاں (اس کا
نام لیا) ! تمہاری آنکھیں کس نے ٹھیک کر دیں؟
اس
نے جواب دیا : میرے رب نے۔
بادشاہ نے کہا: میں نے؟
کہا
: نہیں’ میرے اور آپ کے رب اللہ نے۔
باشاہ نے کہا: کیا میرے علاوہ بھی تمہارا کوئی
رب ہے؟
کہا:
ہاں ! میرا اور آپ کا رب اللہ ہے۔
بادشاہ نے اس
کو بہت زیادہ سزائیں دیں یہاں تک کہ اس نے اس لڑکے کے بارے میں بتادیا۔ بادشاہ نے اس
لڑکے کو بلایا اور کہا: بیٹے! اب تم جادو اور کہانت میں اس درجہ کمال کو پہنچ گئے
ہو کہ تم اب مادر زاد اندھوں اور برص والوں اور دیگر بیماریوں کوٹھیک کرتے ہو؟
اس نے کہا: میں شفا نہیں دیتا ’ شفا تو اللہ دیتا ہے۔
بادشاہ نے کہا: کیا میں؟
کہا
: نہیں۔
باشاہ نے کہا: کیا میرے علاوہ تمہارا کوئی رب
ہے؟
کہا:
ہاں ! میرا اور آپ کا رب اللہ ہے۔
اس کو بھی
بہت زیادہ دکھ اور تکلیف دیاآخر کار اس نے راہب کا پتہ بتا دیا۔ راہب کو پکڑ کر لایا
گیا ۔ اس سے کہا : تم اپنے دین سے باز آجاؤ’ اپنے دین کو ترک کردو’ ہمارا دین قبول
کرو’ مگر وہ نہیں مانا’ اس نے انکار کر دیا چنانچہ آری اس کے سر کے پیچ میں رکھ کر
اس کوچیر کر دو ٹکڑے کر دیا گیا۔ پھر اپنے مصاحب سے کہا کہ اپنے دین سے باز آجاؤ
اور دوبارہ اپنے آبائی دین اپناؤ ’ اس نے انکار کیا تو اس کو بھی اسی طرح چیر کو
دو ٹکرے کر کے پھینک دیا۔
پھر لڑکے سے کہا کہ اپنے دین سے باز آ جاؤ۔ اس نے انکار کیاتو
بادشاہ نے اپنے چند آدمیوں کو کہا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جاؤ اگر یہ اپنے دین
سے باز آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو پہاڑ کی چوٹی سے گرادو۔ بادشاہ کے آدمی اسے
پہاڑ کی چوٹی پر لے کر گئے ۔ اس نے وہیں اللہ سے دعا کی پہاڑ میں لرزش پیدا ہو گئی
جس سے وہ سب گر کر مر گئے اور اللہ نے اس لڑکے کو بچا لیا۔
لڑکاڈھونڈتا ہوا پھر بادشاہ کے پاس آ پہنچا۔ بادشاہ نے اس سے
پوچھا تمہارے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: میرا اللہ ہی میری طرف سے ان کے لئے
کافی ہوا۔ بادشاہ نے اسے اپنے دوسرے آدمیوں کے سپرد کر کے کہا کہ اسے ایک کشتی میں
بٹھا کر سمندر کے بیچ میں جاؤ اگر یہ اپنے نظریے سے پھر جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے
سمندر میں پھینک دو۔ بادشاہ کے ہر کارے اسے لیکر سمندر کے بیچ میں پہنچے اس لڑکے نے
اللہ سے ویسے ہی دعا کی جس سے کشتی الٹ گئی اور وہ سب غرق ہو گئے اور لڑکا بچ گیااور
بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا تمہارے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے
کہا: میرا اللہ ہی میری طرف سے ان کے لئے کافی ہوا۔
پھر اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا تو جب تک وہ طریقہ اختیار نہ کرے
جو میں کہتا ہوں تو مجھے قتل نہیں کر سکتا ۔
بادشاہ نے کہا: وہ طریقہ کیا ہے؟
لڑکے نے جواب دیا: اگر تو مجھے ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ
یہ ہے کہ ایک کھلے میدان میں لوگوں کو جمع کرو اور میرے ترکش سے تیر نکال کر ‘‘بسم
اللّٰہ رب الغلام’’ (اس بچے کے رب اللہ کے نام سے) کہہ کر مجھے تیر مارو۔ بادشاہ
نے ایسا ہی کیا اور تیر اس لڑکے کی کنپٹی پر لگا اس نے اس جگہ اپنا ہاتھ رکھا اور
مرگیا’ لیکن سارے لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ بادشاہ اور زیادہ
پریشان ہوگیا چنانچہ اس نے لوگوں کو دوبارہ کافر بنانا چاہا اور توحید سے روکنے کے
لئے اس نے خندقیں کھدوائیں اور اس میں آگ جلوائی اور حکم دیا جو ایمان سے انحراف
نہ کرے اس کو آگ کے آلاؤ میں پھینک دو۔ اس طرح ایمان دار آتے رہے اور آگ کے حوالے
ہوتے رہے حتی کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ ایک شیر خوار بچہ تھا وہ ذرا ٹھٹھکی تو
بچہ بول پڑا’ اماں! صبر کر تو حق پر ہے۔ قرآن میں سورہ البروج میں اصحاب الاخدود
کا تذکرہ موجود ہے اور احادیث میں اس کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔
مشہور مؤرخ
محمد بن اسحاق کہتے ہیں اس لڑکے کا نام عبد اللہ بن تامر تھا ۔ حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ کے عہد خلافت میں نجران کے ایک کھنڈر کو کھودا گیا تو اس کے نیچے عبد
اللہ بن تامر مدفون تھا اس نے ہاتھ کو کنپٹی پر رکھا ہوا تھا ۔ جب ہاتھ کو وہاں سے
ہٹایا جاتا تو اس جگہ سے خون بہنے لگتا اور ہاتھ کو چھوڑ دیا جاتا تو پھر سے اسی
جگہ جا لگتا اور خون بند ہو جاتا۔ اس کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس پر ‘‘ربی
اللہ’’ لکھا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں اطلاع دی گئی تو انہوں
نے لکھا کہ اس کو اسی جگہ دفن رہنے دو اور اس پر پھر سے اسی طرح مٹی ڈال دو چنانچہ
ایسا کیا گیا۔
بعض مؤرخین
کا کہنا ہے کہ یوسف ذو نواس صنعاء یمن کا بادشاہ تھا پہلے عیسائی تھا پھر یہودی ہو
گیا تھا ۔اس نے مدینہ پر حملہ کیا اور کعبہ پر غلاف چڑھایا ۔ مدینہ کے یہودیوں میں
سے دو عالم اپنے ساتھ لے گئے جنہوں کے ہاتھوں بہت سے اہل یمن نے یہودیت اختیار کیا۔
ایک دفعہ روم سے کچھ لوگ عیسائیت کی تبلیغ کے لئے صنعاء آئے تو ذو نواس نے ان
لوگوں پر بڑا ظلم کیا اور انہیں آگ میں ڈال دیا ۔ ان مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ
حادثہ ۵۳۴ء میں پیش
آیا۔
محمد بن کعب
القرظی نے اہل نجران میں سے کسی کے حوالے سے اصحاب الاخدود کا قصہ کچھ اور طرح بیان
کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ اہل نجران مشرک اور بت پرست تھے ۔ نجران کے قریب ایک گاؤں میں
ایک جادو گر رہتا تھا جو نجران کے لڑکوں کو جادو سکھاتا تھا۔ نجران اور اس جادو گر
کی بستی کے درمیان میں ایک زاہد ’ صاحب کشف و کرامت عیسائی آدمی خیمہ لگا کر رہنے
لگا۔ بعض نے اس کا نام فیمیون بتایا ہے۔ اہل نجران اپنے لڑکوں کو اس جادو گر کے
پاس جادو سیکھنے بھیجتے تھے۔ تامر نے بھی اپنا بیٹا عبد اللہ کو نجران کے دوسرے
لڑکوں کے ساتھ جادو گر کے پاس جادو سیکھنے کے لئے بھیجا۔ جب وہ صاحب خیمہ کے پاس
سے گزرتا تو اس کو اس کی عبادت کا طریقہ ’ اس کی نماز پڑھنے کا انداز اچھا لگتا
چنانچہ وہ اس کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سنتا اور اس سے علم سیکھتا۔ پھر وہ اس سے
متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا اور اللہ کی وحدانیت کا قائل ہوا ’ صرف اسی کی عبادت کرنے
لگا اور شریعت کے احکام سے بھی آگاہ ہو گیا تو اس نے اس عالم سے اسم اعظم کے بارے
میں پوچھا اور وہ اسم اعظم جانتاتھا اس کو لکھ رکھا تھا مگر اس نے اس سے کہا اے میرے
بھتیجے! تو اس کو سہار نہیں سکتا مجھے تیرے ضعف اور ناتوانی کا ڈر ہے۔ اور عبداللہ
کا باپ تامر یہ خیال کرتاتھا کہ اس کا بیٹا بھی دوسرے لڑکوں کی طرح جادوگر کے پاس
جادو سیکھنے جاتا ہے۔
عبد اللہ نے
جب یہ دیکھا کہ اس کا استاد اسم اعظم بتلانے میں بخل سے کام لے رہا ہے اور اس کے ایمان
میں ضعف اورکمزوری خیال کرتا ہے اس نے پیالیاں جمع کر لیں اور اللہ کا جو بھی نام
اس کو معلوم تھا اس کو ایک ایک پیالی میں لکھا ہر نام کے لئے الگ پیالہ تھا۔ پھر
جب اس نے اللہ کے سارے نام لکھ لئے تو آگ جلائی اور ایک ایک پیالہ اس میں پھینکتا
گیا جب اسم اعظم والے پیالے کی باری آئی تو وہ آگ سے اچھل کر باہر آگیااس کو کچھ
نقصان نہ پہنچا تھا۔ جب اس کو اس کا علم ہوا تو اپنے استاد کے پاس آیا اور ان سے
کہا کہ میں نے اسم اعظم معلوم کر لیا ہے۔ استاد نے پوچھا : کونسا ہے؟ اس نے وہ بتا
دیا۔ استاد نے کہا: تو نے اس کو کیسے معلوم کیا؟ اس نے اپنا ماجرا سنایا۔ استاد نے
کہا: اے بھتیجے! تو نے صحیح معلوم کیا ہے مگر اس کو اپنے حد تک محدود رکھنا’ لیکن
میرا خیال ہے تو ایسا نہیں کرے گا۔ پھر عبد اللہ بن تامر جب بھی نجران آتا وہاں کسی
بھی بیماری یا تکلیف والے سے ملتا اس سے کہتا اے اللہ کے بندے! اگر تو اللہ کی
وحدانیت کا قائل ہو کر میرے دین میں داخل ہوجائے تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ
وہ تجھے تمہارے بیماری سے شفا دے گا۔وہ کہتا ہاں میں ایمان لاتا ہوں اور آپ میرے
لئے دعا کریں ’وہ شخص ایمان لاتا اور عبد اللہ بن تامر اس کے لئے دعا کرتا اور
اللہ اس کو شفا عطا کرتا اس طرح نجران میں کوئی بیمار ہوتا وہ عبداللہ بن تامر کے
پاس آتا اور مؤمن بن جاتا۔ آخر کار جب اس کا شہر ہ ہونے لگا تو بادشاہ کے سامنے اس
کا معاملہ اٹھایا گیا۔ بادشاہ نے اس کو بلا یا اور کہا کہ تو نے میری مملکت میں
فساد مچادیا’ اہل قریہ کو برباد کردیا ہے اور میرے اور میرے باپ دادے کے دین کی
مخالفت شروع کر دی ہے اب تیری سزا یہ ہے کہ میں تیرا مثلہ (ناک کان کاٹ) کرکے تجھے
قتل کر دیا جائے۔
عبد
اللہ نے کہا: تو ایسا نہیں کر سکتا’ میرا قتل تیری بس سے باہر ہے۔ بادشاہ نے
غضبناک ہوکر حکم دیا کہ اس کو پہاڑ کی چوٹی سے گرا دو۔ سرکاری اہل کاروں نے بادشاہ
کے حکم کی تعمل کی اور اس کو لے جا کر ایک بہت اونچے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے گرایا
مگر اس کو کچھ بھی نہیں ہوا۔ بادشاہ نے جھلا کر حکم دیا کہ اس کو سمندر میں غرق کر
دو ۔ نجران کے ایسے گہرے سمندر میں پھینکا گیا جہاں کوئی شے پھینکا جائے ہلاک ہو
جاتا ہے مگر اس کو کچھ بھی نہیں ہوا صحیح سالم باہر نکل آیا۔ جب بادشاہ مغلوب ہوا
’ اس پر قابو نہ پا سکا تو عبداللہ بن تامر نے کہا: واللہ تو مجھ پر اس وقت تک
قدرت نہیں پا سکتا جب تک تو ایمان لا کر اللہ کی وحدانیت کا قائل نہ ہو جائے۔ اگر
تو ایسا کرے گا تو تو مجھے قتل کرسکے گا۔ چنانچہ اس بادشاہ نے توحید کا اقرار کیا
اور عبد اللہ بن تامر جو شہادت دیتا تھاوہ دیا اور اپنے ہاتھ میں جو عصا تھی اس کو
عبداللہ پر مارا تو اس کو تھوڑا سا زخم آیا اور وہ قتل ہوگیا’ اس کے بعدعذاب الٰہی
سے بادشاہ بھی وہیں ہلاک ہو گیا۔ بادشاہ کے مرنے کے بعد اہل نجران عبد اللہ بن
تامر کے دین پر جمع ہوگیا ۔ اور عبد اللہ بن تامر کا دین وہ خالص دین تھا جو حضرت
عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد ذو نواس اپنے لشکر کے ساتھ
نجران آیا اور اہل نجران کو یہودیت کی طرف بلایا اور ان سے کہا کہ یہودیت اخیتار
کرو یا قتل ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اہل نجران نے یہودیت اختیار کرنے کی بجائے
قتل ہونے کو ترجیح دی چنانچہ ذو نواس نے خندقیں کھدوائیں اور اہل نجران میں بعض کو
جلا کر ہلاک کیا اور بعض کو قتل کرکے’اس طرح تقریبا بیس ہزار آدمیوں کو اس نے ہلاک
کر دیا۔
اس قصہ اور
اوپر مذکورہ قصہ میں نمایاں فرق ہے اہل سیر محدثین کے نزدیک ماقبل مذکور واقعہ زیادہ
قابل ترجیح ہے اس لئے کہ اس کے بارے میں صحیح مسلم میں اس کا پورا واقعہ بیان ہوا
ہے جبکہ مابعد مذکور واقعہ محدثین کے اصول درایت پر نہیں اترتا۔ امام ابن کثیر نے
سورہ البروج کی تفسیر میں اس کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ محمد بن اسحاق کہتے ہیں
کہ عبد اللہ بن تامر کے بارے میں یہ محمد بن کعب قرظی اور بعض اہل نجران کی حدیث
ہے ان میں سے کونسا صحیح ہے یہ اللہ جانتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ابن کثیر
کہتے ہیں اصحاب الاخدود کے بعد وہاں عیسائیت کی حکومت شروع ہو گئی اور یہ تقریباً
ستر سال تک جاری رہا ۔ اس طور پر اگر دیکھا جائے تو غالبا یہ چھٹی صدی عیسوی کے
اوائل بنتے ہیں اس لئے کہ فروری ۵۷۱ء
میں اصحاب الفیل کا واقعہ پیش آیا اور ابرہہ اپنے انجام کو پہنچا اس کے بعد اس کے
بیٹے کو یمن کا حاکم بنایا گیا لیکن بعد میں سیف بن ذی یزن حمیری نے جو شاہان یمن
کی اولاد میں سے تھا’ کسریٰ شاہِ ایران کی مدد سے عیسائیوں سے بادشاہت چھین لیا۔