امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، افكار و نظريات

0

 

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ

نام و نسب:۔

            نام احمد والد کا نام محمد اور کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے: احمد بن محمد بن حنبل شیبانی۔ آپ اپنے دادا حنبل کی نسبت سے زیادہ مشہور ہوئے،  چنانچہ عموما آپ کو احمد بن حنبل کہا جاتا ہے ’اور آپ کے فقہی مسلک کو حنبلی ۔ آپ کا آبائی شہر مرو ہے چنانچہ اس کی نسبت سے آپ مروزی بھی کہلاتے ہیں۔

تاریخ و جائے پیدائش:۔

            امام احمد بن حنبل سنه ۱۶۴ھ میں بغداد  عراق میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی حالات اور تعلیم:۔

            آپ بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے۔ قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد چودہ برس کی عمر میں تحصیل حدیث میں مصروف ہوگئے۔ مختلف اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا ۔ آپ نے حصول علم کی خاطر بصرہ’ کوفہ’ حجاز’ شام اور یمن کی طرف کئی بار سفر کئے ۔ یمن میں جا کر امام عبد الرزاق سے استفادہ کرتے رہے وہاں دو برس نہایت تنگ دستی میں بسر کئے۔

آپ نے بهت سے اساتذه اورشيوخ سے كسب فيض كيا جن ميں سے چند مشهور اساتذه درج ذيل هيں:

امام شافعي، سفيان بن عيينه، عبد الرزاق بن همام ، ابو يوسف، يحيي بن معين،بهز بن اسد، ابو داود طيالسي، عبد الرحمن دارمي، عبد الرحمن بن مهدي ،اسحاق بن راهويه وغيره۔

تدریس:۔

            آپ نے چالیس سال کی عمر میں سلسلہ تدریس شروع کیا۔ آپ کے درس کی دو نشستیں ہوتی تھیں۔ ایک خصوصی طلبہ کے لئے مکان پر منعقد کرتے اور دوسری احاطہ مسجد میں عمومی نوعیت کی ہوتی تھی۔ آپ چودہ پندہ سال تک اطمینان کے ساتھ درس و تدریس میں مصروف عمل رہے’ اس کے بعد آپ کا دور ابتلاء شروع ہو گیا۔

آپ سے كسب فيض كرنے والوں كي تعداد بھي بهت هيں ان ميں سے بعض تو آپ سے بھي زياده نامور اور شهرت كے حامل هوئے هيں مثلا امام بخاري ، امام مسلم وغيرهما. آپ چندمشهور تلامذه كے نام درج كئے جاتے هيں:

امام محمد بن اسماعيل بخاري، امام مسلم بن حجاج, آپ كے فرزند عبد الله اور صالح ، ابو زرعه رازي، ابو القاسم بغوي، ابو بكر مروزي، ابو بكر الاثرم، حرب بن اسماعيل كرماني, بشر بن موسي وغيره۔

دور ابتلاء:۔

            عہد بنو عباسیہ میں عباسی خلیفہ مامون پر معتزلہ کا بہت اثر تھا۔معتزلیوں نے مسلمانوں میں مختلف قسم کے نظریات پھیلا دیے تھے اور ان کے عقیدے کو خراب کرنے کی بھر پور کوشش رہتی تھی انہی میں سے ایک عقیدہ خلق قرآن بھی تھا۔ معتزلہ کا عقیدہ تھا کہ قرآن مخلوق ہے جو اس عقیدے کو نہیں مانتا وہ مرتد اور واجب القتل ہے۔مامون نے اس عقیدے کی جبری اشاعت شرو ع کر دی۔ امام احمد بن حنبل نے اس عقیدے کی مخالفت کی تو ان کو بیڑیوں میں جکڑ کر مامون کے دربار میں لے چلے’ ابھی راستے ہی میں تھے مامون کی موت کی خبر آئی۔ اس کے بعد آپ کو خلیفہ معتصم کے دربار میں پیش کیا گیا جہاں معتزلی علماء جمع تھے۔امام احمد بن حنبل کاان سے مناظرہ ہوا آپ نے ان کے عقیدے کی مذمت کی اور دلائل سے ان کے بطلان کوثابت کیا ۔ جس پر آپ کو اس حد تک کوڑے لگوائے گئے کہ آپ بے ہوش ہو گئے اور بے ہوشی کی حالت میں پاؤں تلے روندا گیا۔ پھر زندان میں ڈالا گیا۔ بعد میں معتصم نے آپ کو رہا کر دیا ۔ اس کے بعد واثق باللہ کا دور آیا اس نے بھی آپ کومجبور کرنا چاہا کہ قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کریں مگر آپ نے صاف انکار کر دیا جس کی پاداش میں آپ پر پھر سختیاں کی گئیں اور قید و ضرب کی سزائیں دی گئیں۔ اس کے بعد آپ کو جلا وطن کیا گیا۔ آپ نے پانچ برس تک جلاوطنی میں گزارے ۔ پھر متوکل کا دور آیا اس نے آپ کی جلاوطنی کی سزا ختم کر دی ’ آپ کو بلایا اور آپ کی بڑی قدر منزلت کی ۔ آپ نے ساری عمر تنگدستی میں بسر کی ’ گاہے سوت کاتتے اور کپڑا بن کر بیچتے ۔ یہ نوبت بھی آئی کہ لوگوں کا سامان ڈھوتے رہے۔

فقہی افکار و نظریات:۔

            آپ پر حدیث واثر کا غلبہ تھا اس لئے آپ نے فقہ میں کوئی کتاب نہیں لکھی۔ آپ كے فقهي افكار و نظريات كو مختصرا پيش كياجاتا هے۔

·       آپ بدعتی فرقوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل نہ تھے۔

·        فقہی دائرہ کے اندر بھی حدیث و اثر میں محدود رہنے کی کوشش کرتے تھے۔

·       آپ نے حنفی’ مالکی اور شافعی مذاہب کی پیروی قبول نہ کی اور اپنے لئے الگ مکتب فکر کی بنیاد رکھی۔

·       آپ نے کتاب و سنت’ اجماع صحابہ و اقوال صحابہ کی اس طرح پیروی اختیار کی کہ جہاں ضعیف حدیث یا سلف کا کوئی قول مل جاتا وہاں ذاتی اجتہاد کی طرف توجہ نہ دیتے۔

·       اگر صحابہ کی آراء میں اختلاف دیکھتے اور کتاب و سنت کی رو سے ان میں ترجیح قائم نہ کر سکتے تو فتویٰ دونوں قولوں پر چھوڑ دیتے ۔

·       جس مسئلہ میں خود قیاس کرنے پر مجبور ہو تے وہاں بھی اگر دو احتمال پیش آتے تو دونوں بیان کر دیتے’ چنانچہ آپ کے ہاں دو قولوں کے مسائل بہت ہیں۔

·       آپ کے نزدیک قیاس سے زیادہ حدیث کو اہمیت حاصل تھی لہٰذا حدیث خبر واحد بھی ہوتی اس کو قیاس پر ترجیح دیتے۔اگر آپ کو قوی روایت نہ ملتی تو حدیث مرسل ہی کو اختیار کرتے اور اسے قیاس پر ترجیح دیتے۔

·       اجماع صحابہ کو حجت مانتے تھے۔

·       آپ کی رائے میں صحابہ کے بعد اجماع ختم ہو گیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اجماع کا دعویٰ کرے تو وہ درست نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ اس مذکورہ مسئلہ میں کسی عالم کو اختلاف ہو جس کا علم اجماع کے دعویدار کو نہ ہو۔

·       آپ صرف اس وقت قیاس کرتے جب کتاب و سنت یا اقوال صحابہ میں سے کوئی چیز بھی صراحتاً رہنمائی نہ کرتی ۔

·       آپ مصلحت عامہ کو مد نظر رکھتے تھے۔ مصلحت عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں کتاب و سنت اور اجماع صحابہ خاموش ہوں وہاں حکومت وقت کی مصلحت اور دفع ضرر کو ملحوظ رکھ کر آئین سازی کرے۔

تصانیف:۔

            آپ کی تصانیف میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1)             کتاب الزہد (2) کتاب الناسخ و المنسوخ(3)  کتاب الرد علی الجہمیۃ (4 ) کتاب المناسک الصغیر و الکبیر (5)  فضائل الصحابۃ (6)  فضائل صدیق اکبر و حسنین (7)  مسند احمد بن حنبل

وفات:۔

            امام احمد بن حنبل نے ۱۲ ربیع الاول ۲۴۱ھ بروز جمعہ بغداد شہر میں وفات پائی۔ اس وقت آپ کی عمر ۷۷ برس تھی۔ آپ کے انتقال پر سارا شہر امڈ آیا کسی کے جنازے میں خلقت کا ایسا ہجوم دیکھنے میں نہ آیا تھا ۔ آٹھ لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار خواتین نے نماز جنازہ پڑھی۔ (طبقات شافعیہ ص۲۰۳/۱’ تاریخ ابن خلکان ۴۸/۱)

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)