جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

0

 

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

تحریر: ابراہیم عبد اللہ يوگوي

                       

            انسان مجموعہ ہے روح و بدن’ قلب و عقل اور جوارح کا ۔ انسان حقیقی سعادت اور فلاح اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ انسان کی یہ تمام قوتیں متناسب طور پر اس کے مرتبہ کے شایان شان نشو و نما اور پرورش نہ پائیں۔ دنیا میں صالح تمدن و سیاست کا اس وقت تک وجود نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک ایسا دینی’ اخلاقی ’ عقلی مادی ماحول قائم نہ ہوجائے جس میں انسان کے لئے بسہولت تمام اپنے کمال انسانی کو پہنچنا ممکن ہو اور تجربہ نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ زندگی کی رہنمائی اور تمدن کی جہاز رانی ان لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہو جو روحانیت و مادیت دونوں کے قائل دینی و اخلاقی زندگی کا نمونہ کامل’ عقل سلیم اور علم صحیح سے متصف ہوں۔ اگر ان کے عقیدہ یا تربیت میں ذرا بھی رخنہ ہوگا تو وہ ان کے قائم کر دہ تمدن و معاشرت میں بہت پھیل جائے گا اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوگا۔

             اگر کوئی ایسی جماعت غالب آگئی جو صرف مادیت کی پرستار ’ مادی لذتوں اور محسوس منفعتوں کی قائل ہو اور اس زندگی کے علاوہ کسی اور زندگی پر اعتقاد نہ رکھتی ہواور حواس کے ماوراء کسی اور حقیقت پر اس کا یقین نہ ہو’ تو اس کے مزاج ’ اس کے اصول اور میلانات کا اثر تمدن کی شکل و ساخت پر پڑنا ناگزیر ہے۔ وہ تمدن اس کے مخصوص سانچہ میں ڈھل کر رہے گا اور اس پر اس کی چھاپ ہمیشہ باقی رہے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسانیت کے بہت سے خانے بھر جائیں گے اور بہت سے خالی رہ جائیں گے۔ اس تمدن و معاشرہ کی نمود صرف اینٹ ’ پتھروں’ کاغذ’ کپڑے’ اور لوہے اور سیسے میں ہوگی۔ جنگ کے میدان’ عدالتیں’ لہو و لعب کے مراکز اور عیش و عشرت کے حلقے اس کے مرکز ہوں گے اور وہاں وہ اپنی پوری بہار اور شباب پر ہوگا۔ باقی دل اور روح’ لوگوں کے اخلاق’ خانگی زندگی اور معاشرت ’ تعلقات باہمی ’ سیاسی و معاشی ’ سماجی و قانونی اوردیگر معاملات اس کے حلقہ اثر سے خارج ہوں گے اور وہاں انسان حیوانات سے ممتاز نہ ہوگا۔ تمدن کی کیفیت اس جسم کی سی ہوگی جس میں غیر طبعی فربہی طاری ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ظاہری نگاہ میں بڑا شاندار اورپرشکوہ معلوم ہوتا ہے لیکن اندرونی طور پر وہ بیسیوں امراض اور تکالیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس کا قلب ضعیف اورماؤف ہوتا ہے۔اور اس کی صحت نقطہ اعتدال سے ہٹی ہوئی ہوتی ہے۔

            اس کے برعکس اگر ایسی جماعت غالب آجائے جو سرے سے مادیت کی منکر ہو یا اس کی طرف سے بے پرواہ اور صرف روحانیت اور مابعد الطبیعات حقائق کی قائل ہو اور اس کا رویہ زندگی کے بارے میں مخالفانہ اور معاندانہ ہو تو تمدن کا شاداب پھول کمھلا جائے گا۔ انسانی قوتیں اور فطری صلاحیتیں ٹھٹھر جائیں گی۔ اس قیادت کے اثر سے لوگ صحراؤں اور غاروں کی زندگی کوشہری زندگی اور تجرد کو ازدواجی زندگی پر ترجیح دینے لگیں گے۔ خود آزاری اور جسمانی تعذیب مستحسن متصور ہو گی تاکہ جسم کا تسلط کمزور پڑجائے اور روح پاک و بے آمیز ہوجائے۔ لوگ موت کو زندگی پر ترجیح دیں گے تاکہ مادیت کے پرشور اور پر تلاطم اقلیم سے نکل کر روحانیت کی پرسکون اور پر امن جہاں میں پہنچ جائیں اور وہاں اپنی تکمیل کے مدارج حاصل کر سکیں اس لئے کہ ان کے عقیدے کے مطابق اس عالم مادی میں انسان کی تکمیل ممکن نہیں ۔ اس کاطبعی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمدن پر عالم نزع طاری ہو جاتا ہے ’ شہر ویرانے بننے لگتے ہیں اور زندگی کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ چونکہ یہ اصول و عقائد فطرت انسانی سے برسر پیکار ہیں اس لئے فطرت ان کے خلاف رہ رہ کر بغاوت کرتی ہے اور اس کا انتقام ایسی حیوانی مادیت سے لیتی ہے جس میں روحانیت و اخلاق کے ساتھ کوئی رواداری نہیں برتی جاتی۔ اس انقلاب میں انسانیت کی جگہ ایک بہیمانہ زندگی یا درندگی یا مسخ شدہ انسانیت ظہور پذیرہوجاتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس رہبانی جماعت پر کوئی طاقت ور مادی جماعت کو غلبہ حاصل ہوتاجاتا ہے ’ یا رہبانی جماعت خود امور دنیاوی کے انصرام میں مشکلات محسوس کر کے تمام سیاسی اموراہل مادیت کے سپرد کر کے خود عبادات اور مذہبی رسوم کی ادائیگی پر قانع ہو جاتی ہے یوں دین و سیاست میں تفریق وجود میں آتی ہے۔ روحانیت و اخلاق روز بروز بے اثر اور عملی زندگی سے بے دخل ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ انسانی سوسائٹی ان کی گرفت سے بالکل آزاد ہوجاتی ہے۔ زندگی خالص مادہ پرستانہ بن کر رہ جاتی ہے اور دین واخلاق ایک علمی نظریہ کے طور پر باقی رہ جاتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں مادیت پرستی کی بنا پر ہر طرح کے جور و ستم کو روا رکھاجاتا ہے۔ انسانی تمدن راہ اعتدال سے ہٹنے لگتاہے۔

            اگر تمدن کی جہاز رانی اور سیاست کی بھاگ دوڑ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو روحانیت اور مادیت دونوں کے قائل ہیں تو وہ بہترین فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں دین و دنیا میں کوئی تفریق نہ ہوگی ’ سیاست اور دین الگ الگ متصور نہیں ہوں گے۔صحابہ کرام کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ دین و اخلاق اور قوت و سیاست کے مکمل پیکر تھے اور اخلاق حسنہ کے منتشر صفات ان میں بیک وقت جمع تھیں۔ ان میں انسانیت اپنے تمام گوشوں ’ شعبوں اور محاسن کے ساتھ نمود تھی۔ اور اخلاقی و اعلی روحانی تربیت اس عجیب اعتدال کے ساتھ اور غیر معمولی جامعیت کے ساتھ تھی جس کی وجہ سے انہوں نے جو معاشرہ تشکیل دیا وہ دین و دنیا کا حسین امتزاج تھا۔نہ رہبانیت تھی نہ مادہ پرستانہ زندگی۔تجارت و صنعت کے ساتھ اخلاق و فضیلت بھی اپنے پورے عروج پر تھی۔ فتوحات کی وسعت اور تمدن کی ترقی کے ساتھ اخلاق و روحانیت کی ترقی بھی جاری تھی۔ چنانچہ اسلامی حکومت کی غیر معمولی وسعت ’ آبادی کی انتہائی افزونی ’ عیش و عشرت کے وسائل و اسباب و ترغیبات کے باوجود جرائم و بداخلاقیوں کے واقعات نہ ہونے کے برابرتھے۔ افراد و جماعت کا باہمی تعلق حیرت انگیز طور پرمثالی تھا۔ یہ ایک معیاری دور تھا جس سے زیادہ ترقی یافتہ دور کا انسان خواب نہیں دیکھ سکا اور اس سے زیادہ مبارک و پر بہار زمانہ فرض نہیں کیاجا سکا۔ اسی زمانہ کے لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا ‘‘خیر الناس قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم۔’’(صحیح بخاری’ ص:۴۰۵/۱۲، سنن النسائی’ ص: ۴۹۴/۳، ) یعنی سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ جو اس کے بعد آئے۔

            عہد نبوی کو دیکھیں تو دین و سیاست میں کوئی تفریق نظر نہیں آتی’ رسول کریم ﷺ دین کا پیشوا بھی ہے اور مدینہ کا حاکم بھی’ اسلامی لشکر کا سپہ سالار بھی ہے اور عدلیہ کا منصف بھی’ نماز کا پیش امام بھی ہے اور سیاسی رہنما بھی۔ آپ کا طرز زندگی دین بھی سیاست بھی’ آپ کے احکامات کا تعلق خواہ دین سے متعلق ہو یا سیاست ’ دین ہی ہے ۔ اس لئے کہ ارشاد ربانی ہے:

﴿ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهوٰی اِنْ هوَاِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾(النجم:۳)

وه اپني خواهش سےكوئي بات نهيں كهتا جو بھي وه كهتا هے وه وحي هوتي هے جو (اس كي طرف) كي جاتي هے۔

            صحابہ کرام کی تربیت رسول کریم ﷺ نے اس انداز میں کی تھی کہ وہ جہاں اور جس حال میں ہوتے دین و اخلاق کا اعلی نمونہ ہوتے’ وہ حکام کی حیثیت میں ہوتے یا معمولی کارکن کی’ پولیس کی حیثیت میں ہوتے یا فوج کی’ ہمیشہ محتاط و پاک دامن’ دیانت دار و امانت شعار ’ خدا ترس و منکسر المزاج پائے جاتے۔ایک رومی سردار مسلمان فوجوں کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے۔ ‘‘رات کوتم ان کو عبادت گزار پاؤگے اور دن کو روزہ دار’ عہد وفا کرتے ہیں’ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ آپس میں پورا انصاف اور مساوات برتتے ہیں۔’’ (کتاب المجالسہ و جواہر العلم بروایت احمد بن مراوان المالکی ص:۲۷۵)

            دنیااور دنیا کی زندگی کے بارے میں اسلامی تعلیمات واضح ہیں’ اسلام نے نہ اس کو لعنت قرار دے کر اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور نہ ہی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ کر اسی کے پیچھے پڑنے کا حکم دیا ہے ۔ یہی وجہ سے رسول کریم ﷺ کے تربیت یافتہ اور آپ کی تعلیمات سے بہرہ مند مسلمان اور مؤمنین بعض اہل مذاہب کی طرح دنیا کی زندگی کو لعنت کاطوق نہیں سمجھتے ’ اسی کے ساتھ وہ اس کو عیش و عشرت کی آخری فرصت ومہلت بھی نہیں سمجھتے۔ نہ وہ اس زندگی کو کسی سابق گناہ کی سزا سمجھتے جو ان کے لئے مقدر ہو چکی ہو۔ نیز مادہ پرست اقوام کی طرح وہ دنیا کو خوان یغما بھی نہیں سمجھتے جس پر وہ بھوکوں کی طرح گریں اور نہ ہی زمین کی دولتوں اور خزانوں کو پڑا ہوا لاوارثی مال سمجھتے جس کے لوٹنے کے لئے وہ ٹوٹ پڑیں۔ وہ کمزور قوموں کو شکار نہیں سمجھتے جس کے شکار کرنے کے لئے وہ ایک دوسرے کامقابلہ کریں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ یہ زندگی اللہ کی ایک نعمت ہے جس میں اللہ سے قرب حاصل کرنے اور اپنے کمال انسانی تک پہنچنے کا موقع دیا گیا ہے ۔ یہ زندگی ایک اور زندگی کا پیش خیمہ ہے جس کی تیاری کے لئے یہاں بھیجا گیا ہے۔ یہ زندگی ابتلاء و آزمائش ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔

﴿اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً﴾(سورۃ الملک:۲)

اللہ تعالی نے موت اور حیات کو محض اس لئے تخلیق کیا تاکہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔

             انسان کو اللہ تعالی نے جو زندگی بخشی ہے وہ ابتلاء کے لئے ہے اگر کوئی اس زندگی میں قیادت و سیادت ملنے پر اس کو احکامات خدا وندی کے مطابق چلانے کی بجائے دین کو سیاست سے الگ ٹھہرا کر سیاسی معاملات کو وحی الٰہی کی روشنی میں طے کرنے کی بجائے اس میں اپنی مرضی برتے گا تو یقینا یہ نظام جبر و استبداد پر مبنی ہوگا۔ ایک وقت ایسا تھا کہ عیسائیت میں کلیسا کوبہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ وقت کا بادشاہ کلیسا کے سامنے بے بس نظر آتا تھا پھر حالات ایسے بدل گئے کہ عیسائیوں نے دین و دنیا کو الگ الگ کر دیا ۔ دین سمٹ کر کلیسا تک محدود ہوگیا اور بادشاہت کو آزادی مل گئی چنانچہ بعد میں عیسائیت مدر پدر آزاد ہوگئی اس کامشاہدہ آج بھی عیسائی ممالک میں کیا جا سکتا ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں کو اس طرح کی آزادی نہیں دیتا کہ دین اور دنیا کو الگ کر کے زندگی کو احکام الٰہی سے خالی کر کے اپنی مرضی سے زندگی گزارے ۔ اسلام میں دین و دنیا ایک ہی ہے یعنی ایک مسلمان دنیاوی امور جس ضابطہ اور دستور کے مطابق طے کرے اور زندگی جس اصول کے مطابق گزارے وہ دین ہے۔ اسی لئے دین کو شریعت کہاگیا ہے جس کے معنی قانون اور ضابطہ کے ہیں۔اسلام میں دنیا کوئی بری چیز نہیں جس سے اجتناب برتا جائے۔ اور نہ سیاست بری ہے اگر اس کو اسلامی اصولوں کے مطابق کیا جائے۔ ایک یورپین نومسلم لکھتا ہے۔

            ‘‘اسلام عیسائیت کی طرح دنیا کے متعلق بری رائے نہیں رکھتا ’ اس کی تعلیم ہے کہ ہم دنیاوی زندگی کی قدر و قیمت میں موجودہ مغربی تہذیب کی طرح مبالغہ نہ کریں۔ عیسائیت دنیاوی زندگی کی مذمت کرتی ہے اور اس سے نفرت رکھتی ہے ۔ موجودہ یورپ روح عیسویت کے خلاف زندگی پر ایسا گرتا ہے جیسے بو الہوس کھانے پر’ وہ اس کو نگلتا تو ہے لیکن اس کی عزت کرنا نہیں جانتا۔ اسلام ان دونوں کے برعکس زندگی کو سکون و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ زندگی کی پرستش نہیں کرتا بلکہ ایک بلند تر زندگی کے سفر کی ایک ضروری منزل سمجھتا ہے جس سے گزر جانا ہے۔ اس بنا پر انسان کو اس کی تحقیر اور اپنی اس دنیاوی زندگی کی بے وقعتی نہیں کرنی چاہئے۔ .... اسلام اس مادہ پرستانہ نظریہ کا روادار نہیں جس کا قول ہے کہ میری سلطنت یہی ہے اور نہ ہی وہ عیسائیت سے متفق ہے جو زندگی کی تحقیر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ دنیا میری سلطنت نہیں۔ اسلام کی راہ ان دونوں کے درمیان ہے ۔ قرآن کریم ہم کو اس جامع دعا کی تعلیم دیتا ہے ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً﴾ (البقرۃ: ۲۰۱)( اے ہمارے پروردگار ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطاء فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر۔)اس دنیااور اس کی چیزوں کی قدر شناسی ہماری روحانی جد و جہد کے راستہ میں سنگ گراں نہیں’ مادی ترقی اور خوش حالی نہ مقصود بالذات ہے اور نہ ناپسندیدہ شیء۔ ہماری ساری کوششوں اور جد وجہد کامقصد یہ ہونا چاہئے کہ ایسے انفرادی اور اجتماعی حالات و اسباب پیدا ہوجائیں اور ایسا ماحول قائم ہو جائے جو انسان کی اخلاقی طاقت کی ترقی میں مدد گار ہو۔ اس اصول کے مطابق اسلام مسلمان میں ہر چھوٹے بڑے کام کے موقع پر اخلاقی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کا مذہبی نظام انجیل کی اس تقسیم کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ قیصر کا حق قیصر کو دے دو اور اللہ کا حق اللہ کو دو۔’’(محمد اسد سابق لیوپولڈ ویز’ Islam at the Cross Roadمنقول از ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ص:۱۷۴۔۱۷۵)

            دین کو اگر شعبہائے زندگی سے نکال دیا جائے تو وہ زندگی بے روح زندگی ہوتی ہے ۔ قرآن کریم میں ایسی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے ۔ فرمایا۔

﴿اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنَاہُ وَ جَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِی بِہِ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْها﴾(سورۃ الانعام :۱۲۲)

 ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کوزندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے ۔ کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا۔

            سیاست دو طرح کی ہوتی ہے ایک قسم وہ ہے جو دین سے الگ نہیں ہوتی وہ عدل و انصاف پر مبنی ہوتی ہے اور ایک قسم وہ ہوتی ہے جس میں دین کو کوئی دخل نہیں ہوتاجو دین اور قانون الٰہی سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اس میں قانون سازی کا سارا اختیار انسانوں کو حاصل ہوتا ہے ۔ انسان ہی انسان کے لئے قوانین وضع کرتے ہیں خدائی قوانین کو فرسودہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسی سیاست ‘‘سیاست ظالمہ’’ کہلاتی ہے۔ڈاکٹر عبد الوہاب خلاف لکھتے ہیں۔

            ‘‘سیاست کی دو قسمیں ہیں ایک سیاست عادلہ جس میں ظالم و فاجر سے حق کو نکال کر حقدار کو دلایا جاتا ہے اور اس میں احکام شرعیہ پر عمل کرایا جاتا ہے۔ دوسری قسم سیاست ظالمہ کی ہے شریعت نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔’’ (خلاف’ السیاسۃ الشرعیۃ او نظام الدولۃ الاسلامیۃ فی الشوؤن الدستوریۃ و الخارجیۃ و المالیۃ ص:۶)

            اگر سیاست سے دین کو جدا کر دے اور مغربی دنیا کی طرح دین و دنیا کا الگ الگ نظام رائج کیا جائے تو سیاست احکام الٰہی اور دینی اخلاق سے بالکل خالی ہوجائے گی اور ایسی سیاست جبر و اکراہ اور ظلم و استبداد سے عبارت ہوتی ہے۔ اور جو سیاست دین اور احکام الٰہی کے دائرے میں رہ کر کی جائے وہ خلق خدا کے لئے سراپا رحمت ہوتی ہے اور خلق خدا کو اس سیاسی نظام میں عدل و انصاف’ معاشی ’ معاشرتی’ سماجی’ قانونی’ مذہبی مساوات نصیب ہوتی ہے اور معاشرہ فساد و بگاڑ سے محفوظ و مصون رہتا ہے۔غریب پر ظلم نہیں ہوتا ’ امیر قانون سے بالا تر نہیں سمجھاجاتا۔ حکمران کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ زمین پر اللہ کا نظام نافذ ہو اور خلق خدا کو ظلم و بربریت سے تحفظ ملے ۔ جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے خلیفہ بنائے جانے کے بعد جو پہلا خطبہ دیا تھا اس میں اسی چیز کی وضاحت کی تھی فرمایا: اے لوگو! میں تم پر حاکم بنا دیا گیا ہوں حالانکہ میں تمہاری جماعت میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں تومیری اطاعت کرو اور اگر غلط راستہ پر چلوں تومجھے سیدھاکرو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں دوسروں سے اس کاحق نہ دلادوں اور تم میں سے قوی ترین شخص بھی میرے نزدیک کمزور ہے حتی کہ اس سے دوسرے کا حق نہ لے لوں۔ یاد رکھو! جو قوم جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ اس کو عام مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اگر میں اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کو اور اگر اس کی نافرمانی کروں توتم پر میری اطاعت لازم نہیں۔’’ (ابن سعد’ الطبقات الکبری’ ص:۱۸۲/۳’ ابن خلدون التاریخ’ ص:۲۲۴/۱)

            شریعت اسلامی میں حکمران کی اطاعت ’ اطاعت خدا و رسول سے مشروط ہوتی ہے۔ جس حاکم کے دل میں خوف خدا ہوگا اور جس کا شب و روز احکام خدا وند ی کی تعمیل میں گزرتاہوگا وہ ظلم و ستم سے کوسوں دور ہوگا اور وہ خلق خدا پر قہر الٰہی بننے کی بجائے ان کے لئے رحمت خدا وندی بن کر واقعی میں وہ زمین پر ظل الٰہی کا کام دے گا۔

             اللہ تعالی نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر حکومت و سیاست کے لئے بھیجاتو اس کے ساتھ زندگی گزارنے اور حکومت و سیاست کے اصول و قوانین بھی وضع کر کے بھیجے ۔ اور یہ رہنمائی وقتا فوقتا نازل فرماتا رہا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے ہبوط الی الارض کے وقت اللہ تعالی نے کہا تھا کہ

﴿فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِنِّی هدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلاَخَوْفٌ عَلَیْهمْ وَ لاَ همْ یَحْزَنُوْنَ﴾(سورۃ البقرۃ:۳۸)

  جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔

 یعنی انبیاء کرام کے ہدایتیعنیزندگی گزارنے کے احکام و ضابطے تم تک پہنچے گی جو اس کو قبول کرکے اس کے مطابق زندگی گزارے گا وہ انعامات الٰہی کا مستحق ہوگا اور جو اس سے انحراف کرے گا و تعذیب کا سزاوار ٹھہرے گا۔

            انسانیت کی فوز و فلاح کے لئے اللہ تعالی نے جو دستور زندگی اور ضابطہ حیات مختلف اوقات میں مختلف انبیاء و رسل کے ذریعہ بھیجتا رہا وہ دین’ شریعت اور اسلام کے ناموں سے موسوم رہا ہے اور یہ دستور العمل چونکہ خالق کائنات کی طرف سے نازل شدہ ہوتا’ اس لئے اس میں کمالیت و اتمامیت کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان کی دنیاوی و اخروی دونوں زندگیوں میں کامیابی کے لئے مکمل طور پر ضامن ہوتا ۔منزل من اللہ دستور حیات کے مطابق سیاست کرنے والوں اور انسانی وضع کردہ قوانین کے مطابق سیاست کرنے والوں میں فرق بعد المشرقین ہوتا ہے۔ قوانین الٰہی اور احکام خدا وندی کے مطابق سیاست کرنے میں بیمار اقوام کی صحیح سمت میں رہنمائی کے ساتھ عام لوگوں کی فلاح و سعادت کی ضمانت ہوتی ہے اس لئے کہ

٭         ان کے پاس آسمانی کتاب اور الٰہی شریعت ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو قیاس اور اپنی طرف سے قانون سازی کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے سیاست و معاملات میں اندھا دھند نہیں چلتے نہ ہی اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارتے ہیں بلکہ ان کے پاس وحی اور شریعت الٰہی کی روشنی ہوتی ہے جس میں وہ اپنے سیاسی معاملات طے کرتے ہیں۔

٭        ان کے پاس قانون الٰہی ہوتا ہے جس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ سخت سے سخت اشتعال اور برہمی اور عداوت کی حالت میں بھی انصاف و صداقت کادامن ہاتھ سے چھوڑنے اور نفس کاانتقام لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ فرمایا: ﴿یَا اَیُّها الَّذِیْنَ آمَنُوا کُونُوا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُهدَاءَ بِالْقِسْطِ وَ لاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَأَنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی، وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾(المائدۃ:۸)

 اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم رہو اور راستی و انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے۔ عدل کیاکرو جوپرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ’ یقین مانو کہ اللہ تعالی تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

٭        دین کا پابند حکومت و قیادت کے منصب پر مستحکم اخلاقی تربیت و مکمل تہذیب نفس کے بعد فائز ہوتاہے ۔ جس کی وجہ سے ان کے اندر ورع و زہد’ اخلاص و عدم حرص’ خلق خدا کے ساتھ الفت و محبت اورایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ خوف خدا خوگر بن جاتا ہے۔ چنانچہ حکومت و مناصب کی حرص و طمع ان کے دل میں نہیں ہوتی وہ اس حکومتی منصب کو امانت الٰہی سمجھتے ہوئے اس کی ذمہ داریوں سے عہد برآ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

٭        دین کا پابند جس کسی ذمہ داری کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس کو مال غنیمت یا لقمہ تر نہیں سمجھتا بلکہ اس کو اپنے ذمہ ایک امانت اور اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اور اپنی ذمہ داری کے بارے میں جواب دینا ہے۔ جواب دہی کا احساس اس کو ہمیشہ راستی پر مجبور کرتا ہے۔

٭        دین انسان کو وحدت فکر و وحدت نسل کی تعلیم دیتا ہے چنانچہ دین کاپابند سیاست کار ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہوتا ہے اور ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی علاقہ’ زبان’ رنگ و نسل سے ہو۔

٭        دین کا پابند سیاست کار لوگوں کو اپنا غلام نہیں سمجھتے کہ ان کے ساتھ غلامانہ سلوک روا رکھا جائے بلکہ اپنے آپ کو ان کا خادم تصور کرتے ہیں اور ہمہ وقت ان کی خدمت کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔

٭        لوگوں کو دوسروں کی غلامی سے نکال کر اپنا غلام نہیں بناتے بلکہ لوگوں کوبندگان خدا کی غلام سے چھڑا کر صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی بندگی میں داخل کرتے ہیں۔ مسلمان سفیر ربعی بن عامر نے یزدگرد شاہ ایران کے دربار میں اسی حقیقت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘‘اللہ نے ہم کو اس لئے بھیجا ہے کہ لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی کی طرف ’ دنیا کی تنگی سے رہائی دے کر اس کی وسعت کی طرف اور مذاہب کے ظلم و ستم سے نجات دے کر اسلام کے عدل و انصاف میں لائیں۔’’ (ابن کثیر البدایہ و النہایۃ ’ص:۴۶/۷)

            قرون اولی میں عہد خلافت راشدہ میں جب تک لوگوں نے دین کے دائرے میں رہ کر سیاست کی ’ دین و دنیا کو الگ الگ نہیں سمجھا اس وقت تک دنیا میں اسلام کو غلبہ حاصل رہا اور لوگ پرامن و خوش حال رہے لیکن جب دنیا کی رہنمائی کے منصب پر ایسے لوگ حاوی ہو گئے جن کو دین سے زیادہ شغف نہیں تھا ’ ان کو اعلی دینی و اخلاقی تربیت نہیں ملی تھی ۔ جن کے اندر نہ روح جہاد تھا نہ قوت اجتہاد جو دنیا کی پیشوائی اور عالمگیر قیادت کے لئے ضروری ہے ۔ عمر بن عبد العزیز کے علاوہ عام خلفائے بنی امیہ اور بنی عباس کا حال یہی تھاچنانچہ اس سے اسلام کی دیوار آہنی میں کئی رخنے پیدا ہوگئے جن سے مسلسل فتنے اور مصائب نفوذ کرتے رہے۔ دین و سیاست میں اگرچہ نظری و اعتقادی طور پر نہیں مگر عملی طور پر تفریق ہوگئی اسلئے کہ خلفاء علم دین میں ایسا مرتبہ نہیں رکھتے تھے جس سے ان کو علماء اور اہل دین کی ضرورت نہ پڑے۔ انہوں نے حکومت و سیاست کو تنہا اپنے ہاتھ میں رکھا اور مشیر یا ماہرین خصوصی کے طور پر جب چاہا یا جب ان کے مصالح کاتقاضا ہوا علماء اور اہل دین سے مدد لی اور جتنی بات انہوں نے چاہی قبول کی اور جب چایا ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا۔اس طرح سیاست دین کی نگرانی سے آزاد ہوگئی اور ایک پیل بے زنجیر بن گئی۔ جب عملا دین و سیاست میں علحدگی ہوگئی تو دور ملوکیت میں خلافت راشدہ سے پہلے دنیا کے نظام سلطنت کا جو حال تھا اس کا ایک رنگ پیدا ہوگیا۔ دین روز بروز بے زور اور بے دست و پا ہوتا گیا اور سیاست کے ہاتھ کھلتے گئے ۔ ارکان حکومت یہاں تک کہ بذات خود خلفاء دین و اخلاق کا کامل نمونہ نہیں تھے بلکہ ان میں سے بعض میں جاہلی جراثیم اور میلانات پائے جاتے تھے۔ قدرتی طور پر ان کی روح اور نفسیات کا اثر قومی زندگی پر پڑا اور لوگ عموما انہیں کے اخلاق و عادات و رجحانات کی تقلید کرنے لگے۔ دین کی نگرانی ختم ہوگئی تو احتساب کا عمل بھی اٹھ گیا اور بے قید و آزاد زندگی کی ترغیبات ’ عیش و عشرت’ ترفع و تنعم کی زندگی عام ہوگئی... تفریحات اور لہو و لعب کی گرم بازاری ہوئی ’ لذت اندوزی اورنفس پروری کا غلبہ ہوگیا اور دنیا کی زندگی اور اس کی لذتوں کی ہوس بڑھ گئی۔ چنانچہ ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم ہوگیا اور لوگ دیناوی مفاد کے حصول کے لئے دین کو بیچ دیتے اور حصول زر و اقتدار کی خاطر اپنے بھائیوں کاخون کرتے۔حصول دنیا کے لئے دین سے دوری کا رویہ جو پیدا ہوا تھا اب تک چلا آرہا اور اس وقت بھی مسلم معاشرہ دو متوازی طبقات میں منقسم ہے ایک دینی طبقہ کہلاتاہے اور دوسرا دنیاوی طبقہ ۔ حالانکہ اسلام میں دین و دنیا کی تفریق نہیں ہے ۔ دنیا میں اس وقت سے ظلم و ستم کا بازار گرم ہے جب سے سیاست میں دین داری کو بے جا دخل سمجھ کر دین کو سیاست سے الگ کر دیا گیا۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا۔ ؂

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)