جمع و تدوین قرآن

0

 

جمع و تدوین قرآن

معنی و مفہوم:

لغوی مفہوم: جمع کے معنی اکھٹا کرنا ’ یکجا کرنا’ ایک ساتھ کرنا وغیرہ جبکہ تدوین کے معنی ہیں مرتب کرنا ’ ترتیب دینا وغیرہ

اصطلاحی مفہوم: جمع و تدوین کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو کتابی شکل میں اکٹھا کر کے مرتب کرنا ۔

            جمع قرآن سے مراد قرآن کریم کاجمع کرنا ہے خواہ حفظ سے ہو یا کتابت سے یا تلاوت کی ریکارڈنگ سے۔ اور تدوین سے مراد اس کو کتابی صورت میں ترتیب دینا ہے۔

            علامہ عسقلانی کہتے ہیں : جمع کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ قرآن کریم کے متفرق اجزاء کاصحف یعنی کاغذ کے اوراق میں نقل کرنا۔ دوسرا یہ کہ صحف کا ایک مصحف کی شکل میں شیرازہ بند کرنا۔

جمع قرآن کا مقصد:

            جمع قرآن کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح قرآن مجید آپ ﷺ پر نازل ہوا اور جس طرح آپ ﷺ نے اسے پڑھا یا سکھایا ہے اسے لکھ کر محفوظ کر لیا جائے۔تاکہ بعد میں ممکنہ اختلافات جو قراء ت یا اس کے الفاظ ’ ترتیب اور لغت میں پیدا ہو سکتا تھا اس سے محفوظ رہے۔

جمع و تدوین قرآن کے ادوار

            قرآن مجید کی جمع و تدوین کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی جمع و تدوین تین مراحل میں پایہ تکمیل کو پہنچا ہے ۔ مرحلہ / دور اول جس میں رسو ل کریم ﷺ نے خود اس کو لوگوں کو پڑھایا’ یاد کرایا اور اس کی کتابت کرائی اور کتابت کے لئے اس وقت کے دستیاب تمام وسائل تحریر استعمال میں لائے۔ دوسرا مرحلہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے زمانہ خلافت میں اس کی کتابت ایک قاعدہ کتابی شکل میں کرائی مگر اس میں سبعہ احرف کا خیال رکھا گیا اور مختلف سورتوں کو الگ الگ صورت میں تحریر میں لائی گئیں اور مختلف متداول قراء توں میں ضبط کیا گیا۔ پھر آخری مرحلہ یا دور حضرت عثمانی غنی ؓ کے عہد میں مکمل ہوا جب قرآن کو اسی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے تیار کردہ نسخہ کے مطابق دوبارہ مرتب کیا گیا البتہ اس میں قراء ت / لغت کو قریشی قراء ت کے مطابق لکھا گیا ’ اور دیگر لہجوں کو ختم کر کے قریش کے لہجے کو برقرار رکھا گیا۔مستدرک حاکم میں ہے:

            جمع القرآن ثلاث مرات ، احدها بحضرۃ النبی ﷺ و الثانیۃ بحضرۃ أبی بکر رضی اللہ عنہ و الجمع الثالث فی زمن عثمان.(الحاکم فی المستدرک)

            قرآن کریم تین بار جمع کیا گیا ، پہلی بار نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں، دوسری بار ابو بکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اور تیسری بار عثمان کے عہد میں۔

جمع و تدوین کا دور اول : عہد رسالت

جمع و تدوین عہد رسالت میں:

            جمع وتدوین کا اہم اور ضروری کام عہد رسالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اپنی زیر نگرانی مکمل ہو چکا تھا۔اس لئےقرآن مجيد كا حقيقي جامع رسول كريم صلي الله عليه وسلم كي ذات گرامي هے ، مگر آپ صلي الله عليه و سلم كے عهد ميمون ميں قرآن كريم مختلف اشیاء پر لکھے ہوئے اور بکھرے ہوئے تھے ۔ بعد میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں باقاعدہ سرکاری سطح پر اس کو دوبارہ اسی ترتیب سے مدون کیا گیا۔

            رسول کریم ﷺ نے حفاظت قرآن کے لئے دو طرح سے ہدایات دیں: (۱) قرآن کریم کو حفظ کیا جائے (۲)      قرآن کریم کی کتابت کی جائے۔

حفظ قرآن:

            نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ جوں ہی کوئی آیت یا سورہ نازل هوتي  پهلے آپ خود اس كو یاد کر لیتے’ پھر اس كو  لکھوا دیتے اور صحابہ کرام کو بھی بتا دیتے ۔ اور صحابہ کرام کو ترغیب دیتے کہ قرآن مجید کو یاد کرنا کتنا اجر و ثواب کا کام ہے اور آپ کی ترغیب و تحریص کی وجہ سے بہت سے صحابہ کرام نے مکمل قرآن یا د کر رکھا تھااور اکثر نے قرآن مجید کا بیشتر حصہ یاد کر رکھاتھا۔

            آغاز وحی سے ہی آپ ﷺ کو قرآن مجید یاد ہونا شروع ہو گیا تھا ۔ جب آپ ﷺ قرآن کو جلدی جلدی پڑھنے لگے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ آپ جلدی نہ کریں اس کو آپ کے سینے میں محفوظ کرنا اور اس کو پڑھوانا ہمارا کام ہے چنانچہ آپ ﷺ کے قلب اطہر پر اتار کر اللہ تعالی نے محفوظ کردیا گیا۔

            ﴿ان علینا جمعہ و قرآنہ فاذا قرأناہ فاتبع قرآنہ﴾(القیامۃ:۱۷۔۱۸)

            بے شک اسے جمع کرنا اور اسے پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے جب ہم اسے پڑھ ليں تو  آپ اس كے پڑھنے كي پيروي كريں۔

            ہر سال جبرائیل ؑ کے ساتھ آپ ﷺ نازل شدہ حصے کا باقاعدہ دور کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے:

            ان جبرائیل علیہ السلام کان یعارض النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالقرآن فی کل عام مرۃ فلما کان العام الذی قبض فیہ عارضہ مرتین. (صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۹۹۸)

            جبرائیل علیہ السلام ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک مرتبہ دور کیا کرتے تھے ۔ مگر جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا جبرائیل نے آپ ﷺ کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا۔

            رسول کریم ﷺ صحابہ کرام کو صرف قرآن کے معنی و عمل ہی نہیں سکھاتے تھے بلکہ اسے حفظ بھی کراتے ۔ جب بھی کوئی شخص ہجرت کر کے مدینہ آتا آپ ﷺ اسے انصار و مہاجرین کے سپرد کر دیتے کہ اسے قرآن سکھائیں۔ اس طرح مسجد نبوی میں قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کی اتنی تعداد رہتی کہ ان کی آوازوں کا شور ہوتا اور نبی کریم ﷺ کو تاکید کرنا پڑتی کہ اپنی آوازوں کو پست رکھا کرو تاکہ مغالطہ پیش نہ آئے۔(مناہل العرفان ص:۲۳۴/۱)

            نیز صحابہ کرام کی بڑی تعداد اطراف مدینہ میں جا کر قریہ قریہ اور بستی بستی قرآن سکھاتی رہی ، اس طرح ان نوجوانوں کی قوت حافظہ بہت کام آئی اور سینکڑوں حفاظ تیار ہو گئے۔

            قرآن کریم کی حفاظت کا اولین ذریعہ ہمیشہ سے حفاظ کا حافظہ رہا ہے۔عربوں کا حافظہ ضرب المثل تھا۔ عرب جو بات ایک بار سن لیتے وہ ساری عمر یاد رکھتے تھے۔

کتابت قرآن:

            حفاظت قرآن کا اصل دار و مدار تو حفظ (زبانی یاد کرنا) تھا مگر رسول کریم ﷺ نے قرآن کریم کو محفوظ رکھنے کے لئے اس کی کتابت کا بھی اہتمام کیا۔یہ بھی قرآن مجید کا جمع کرنا ہے۔ کتابت وحی کے لئے بعض خوشنویس صحابہ کرام ؓ کو مقرر کیا ہوا تھا۔ جب بھی کوئی آیت یا سورہ نازل ہوتی آپ ﷺ کاتبین وحی میں سے جو بھی دستیاب ہوتا بلاتے اور لکھوایا کرتے ۔ کتابت کراتے وقت باقاعدہ طور پر اس کا محل ومقام اور سورہ کا نام بھی بیان فرما دیتے ۔مثلا فرماتے اس آیت کو فلان سورہ میں فلاں آیت کے بعد اور فلاں آیت سے پہلے لکھو وغیرہ۔ اس طرح قرآن کریم کے ایک ایک حرف’ آیت ’ سورہ کو کتابت کے ذریعے آپ ﷺ نے صحیفوں اور سطور میں ترتیب دے کر محفوظ کر دیا۔

            کتابت قرآن کے بارے حضرت زید بن ثابت ؓ فرماتے ہیں:

            قرآن کی جو آیات نازل ہوتیں آپ ﷺ مجھے لکھوا دیتے اس کے بعد میں آپ ﷺ کو سناتا’ اگر اصلاح کی ضرورت ہوتی تو آپ اصلاح فرما دیتے۔ پھر اس کے بعد اس لکھے ہوئے کو میں لوگوں کے سامنے لاتا۔ جو کچھ بھی لکھا جاتا وہ آپ کے گھر میں رکھ دیا جاتا تھا۔(مناہل العرفان از زرقانی ص:۲۳۹)

کتابت کی اشیاء:

            اس عہد میں کاغذ بہت کی کمیاب تھے ’ بہت کم دستیاب ہوتے تھے اور جو ملتے وہ بھی بہت مہنگا ہوتا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وقت کتابت کے لئے جو بھی شے دستیاب ہوئی اس پر آپ نے قرآن کریم کی کتابت کرائی ۔ مثلاکاغذ’ چمڑے کے ٹکڑے’ ا چوڑی ہڈیاں’ درختوں کی چھال’ پتھر کی تختیاں وغیرہ (دیکھئے مناہل العرفان ’ علوم القرآن وغیرہ)

کاتبین وحی يعني وحي لكھنے والے حضرات:

            کتابت قرآن کریم کے لئے رسول کریم نے صحابہ کرام میں سے جن کو مقرر کیا تھا ان کو ‘‘کاتبین وحی’’ یعنی وحی کی کتابت کرنے والے کہا جاتا ہے۔ اس کی واحد کاتب وحی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے صرف دو چار صحابہ کو ہی مقرر نہیں کیا تھا بلکہ ان کی تعداد چالیس سے بھی زیادہ تھی۔ ان میں سے چند مشہور کاتبین وحی یہ ہیں:

            حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت عمرفاروق ؓ، حضرت عثمان غنی ؓ’ ، حضرت علی المرتضی ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ، حضرت زبیر بن عوام ؓ، حضرت خالد بن سعید ؓ، حضرت حنظلہ بن ربیع ؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ، حضرت عمرو بن العاص ؓ، حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان ؓ، حضرت حذیفہ ؓ، حضرت عامر بن فہیرہؓ، حضرت عبد اللہ بن ارقمؓ، حضرت ثابت بن قیس ؓ، حضرت عبد اللہ بن ابی سرح ؓ، حضرت سعید بن جبیر ؓ وغیرہم۔

            عہد رسالت میں ایک نسخہ تو وہ تھا جو نبی کریم ﷺ کے پاس تھا اس کے علاوہ صحابہ نے خود اپنے نسخے بھی تیار کر رکھے تھے۔ جن صحابہ کے پاس اپنے لکھے ہوئے مصاحف تھے ان میں حضرت عبد اللہ بن مسعود’ حضرت علی’ حضرت عائشہ’ حضرت ابی بن کعب’ حضرت عثمان بن عفان’ حضرت تمیم الداری’ حضرت ابو الدرداء’ حضرت ابو ایوب انصاری’ حضرت عبد اللہ بن عمر’حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔

            رسول کریم ﷺ کی زیر نگرانی جو کتابت قرآن ہوئی وہ سبعہ حروف (سات مختلف لہجوں پر مشتمل) تھی۔ اس کی آیات کی ترتیب توقیفی تھی۔ آپ جہری نمازوں کی قرأت میں عموما اسی ترتیب کو ہی اختیار فرماتے حتی کہ سورتوں سے قبل بسم اللہ کی تحریر بھی آپ ﷺ کے حکم سے کی گئی تھی۔

            حضرت زید بن ثابت نے بھی جمع قرآن میں آیات کی وہی ترتیب ملحوظ رکھی جو رسول اللہ ﷺ نے بتائی تھی ’ جس پر تمام صحابہ کرام ؓ نے اتفاق بھی کیا۔

جمع و تدوین کا دور ثانی: عہد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

            قرآن مجید کی تدوین کا دور اول عہد رسالت نزول قرآن اور کتابت و حفظ قرآن کا دور تھا۔ اس عرصہ میں پورا قرآن مجید حفظ اور کتابت کے مراحل طے کر چکا تھا۔ ہزاروں حفاظ موجود تھے اور قرآن کریم مختلف اشیاء پر لکھا ہوا تھا۔ مگر یہ کتابی شکل میں موجود نہیں تھا بلکہ بکھرے ہوئے اوراق کی شکل میں تھا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ قرآن مجید کا ایک نسخہ تیار کیا جائے جو سرکاری اہتمام کے ساتھ حکومت کی تحویل میں ہو اور اسی نسخہ کی ایک ایک نقل (کاپی) تمام بلاد اسلامیہ پہنچا دی جائے تاکہ بعد میں تبدیلی کا امکان باقی نہ رہے۔

جنگ یمامہ اور حفاظ کی شہادت:

            عہد صدیقی اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس دور میں اسلامی مملکت میں بہت سارے فتنے اٹھے جنہوں نے اسلامی حکومت کے لئے بہت سے مسائل کھڑے کر دیئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے حسن تدبر سے ان فتنوں پر قابو پالیا۔ ان فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ جھوٹے مدعیان نبوت کا تھا۔ ان مدعیان نبوت میں سے ایک شخص مسیلمہ کذاب تھا جو کہ یمن کا رہنے والا تھا اس کے خلاف ایک جنگ ہوئی جو تاریخ میں جنگ یمامہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں سینکڑوں مسلمان شہید ہوگئے۔ بعض مؤرخین کے مطابق بارہ سو مسلمان شہید ہوئے ان میں سے سات سو قاری قرآن تھے۔

حضرت عمر فاروق ؓ کا مشورہ:

            حفاظ کی اتنی بڑی تعداد بیک وقت دنیا سے چلے گئے تو حضرت عمر نے محسوس کیا اگر جنگوں میں اسی طرح مسلمان خصوصا قراء شہید ہوتے رہیں تو کہیں قرآن کی حفاظت میں خلل نہ آ جائے ، اس لئے بہتر ہے کہ حکومت کی نگرانی میں قرآن مجید کے منتشر اجزا کو ایک جگہ حمع کر کے مدون کر دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ابو بکر ؓ مشورہ دیا کہ آپ قرآن مجید کے منتشر اوراق کو جمع کر کے ایک کتابی شکل دیں۔

حضرت ابو بکر کا صحابہ سے مشورہ اور استخارہ:

            پہلے تو حضرت ابو بکر ؓ حضرت عمر ؓ کے قول سے متفق نہ ہوئے اور کہا کہ میں وہ کام کیسے کروں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا۔ پھر بعد میں آپ نے اس بارے میں استخارہ کیا اور صحابہ سے مشورہ کر لیا اور اس کام کے لئے تیار ہو گئے۔

حضرت زید بن ثابت ؓکا تقرر اور تدوین کا اسلوب:

            جمع و تدوین کی اس اہم ذمہ داری کے لئے آپ ؓ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کا تقرر کیا۔ یہ نو جوان تھے’ حافظ و قاری قرآن تھے اور مستقل طور پر کاتب وحی تھے۔ بہت ذہین و فطین تھے ۔ رسول کریم ﷺ کا قرب حاصل رہا تھا نیز آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور بھی کرتے تھے۔ شروع شروع میں تو وہ اس بات پر رضا مند نہ ہوئے اور کہا کہ اگریہ حضرات مجھے کوئی پہاڑ دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو ایسا کرنا میرے لئے آسان ہوتا ۔ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے سمجھانے پر اللہ نے اس کا سینہ بھی کھول دیا اور وہ اس کام کے لئے تیار ہو گئے۔

            تدوین قرآن کے لئے س سب سے پہلے حضرت زید بن ثابت ؓ نے اس صندوق کو لیا جو رسول اللہ ﷺ کے گھر میں تھا اور جس میں قرآن مجید کے مختلف منتشر ٹکڑے مختلف اشیاء پر لکھا ہوا جمع تھا۔پھر ان اصحاب سے بھی رجوع کیا جنہوں نے قرآن مجید کا کچھ حصہ لکھا ہوا تھایا جن کو قرآن مجید یاد تھا ۔ قرآن مجید کی آیات کے ثبوت کے لئے مزید شواہد بھی اکٹھے کئے گئے۔جو قرآن مجید کی تحریری شکل کے علاوہ ان اصحاب کی شہادت بھی تھی جو ان کو یاد تھا۔

            تدوین قرآن میں حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کا پورا پورا ساتھ دیا ’ یہ دونوں مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاتے اور اس وقت تک کوئی آیت تحریر میں نہ لاتے جب تک کوئی شخص قرآن میں کسی آیت پر مزید دو گواہ پیش نہ کرتے۔ یہ شہادت قرآن مجید کی آیات کے ثبوت کے لئے مزید پختگی کے لئے لی جاتی تھی تاکہ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہ رہے۔ ایک روایت کے مطابق ایسا کرنے کا حکم بھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ہی دیا تھا۔

            ایک سال کی مدت میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ یہ نسخہ پہلے حضرت ابو بکر صدیق ؓ رہا ان کی وفات کے بعد حضرت عمر ؓ کے پاس رہا اور ان کی شہادت کے بعد ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس موجود رہا۔

            حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے کہ : اللہ تعالی ابو بکر ؓ پر رحم فرمائے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قرآن مجید کو کتابی صورت میں جمع کیا۔

جمع و تدوین قرآن کا دور ثالث: عہد عثمان غنی ؓ

            حضرت عمر ؓ کا عہد خلافت فتوحات کے اعتبار سے سنہرا دور ہے۔ اس عہد میں اسلام دور دراز علاقوں تک پھیل گیا ۔ عراق’ ایران’ مصر اور شام وغیرہ اسلام کے زیر نگین آگئے اور یہاں بسنے والی بہت سے اقوام بھی حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔حضرت عثمان ؓ کے عہد میں مزید فتوحات ہوئیں ۔ اس طرح سلطنت کی حدود کادائرہ مزید وسیع ہو گیا اوربہت سے غیر عرب اقوام دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔

عرب قبائل کا اختلاف قرات :

            عرب کے قبائل لہجے اور بعض لغات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے قدرے مختلف تھے۔ہجرت مدینہ کے بعد جب مختلف قبائل مشرف بہ اسلام ہوئے تو لغات اور لہجوں کے اختلاف کی وجہ سے بعض کے لئے قریشی لہجے میں قرآن پڑھنا دشوار تھا اس لئے اللہ تعالی نے مختلف لہجوں میں قرآن پڑھنے کی اجازت دے دی تھی ۔عرب میں بولیوں یعنی قرأت کے اختلاف کے لحاظ سے سات بڑے گروہ تھے اس لئے یہ اجازت دی گئی تھی کہ جس کو جس لہجے میں آسان لگے وہ اسی لہجے میں پڑھ سکتا ہے۔یاد رہے کہ اس اختلاف قرأت سے معنی و مفہوم میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔

            جو لوگ نئے مسلمان ہوتے وہ مختلف صحابہ سے قرآن مجید سیکھتے اور ہر صحابی اپنے نو مسلم شاگرد کو اسی طریقے پر قرآن سکھاتا /پڑھاتا جس لہجے میں وہ خود پڑھتا تھا چنانچہ لہجوں کے اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں میں قرأت قرآن کے سلسلے میں اختلافات نمایاں ہونے لگے۔

اختلاف قرأت کی وجہ سے نزاع کا ظہور:

            جن لوگوں نے جن مختلف معلموں سے قرآن پڑھا اور جب وہ آپس میں ملتے اور ایک دوسرے کو قرآن سناتے تو اختلاف قراء ت اور اختلاف لغت کی وجہ سے ایک دوسرے کو غلط قرار دیتے اور بعض دفعہ بات ایک دوسرے کی تکفیر کی حدتک جا پہنچتی۔ اس کا ایک مشاہدہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں ہی کیا تھا پھر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے آکر دوسرے مقامات پر ہونے والے اس نزاع کا ذکر کیا جس کی وجہ سے صحابہ کرام نے مشورہ کر کے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قراء ت پر متفق کرنے کی ضرورت پر کام شروع کیا۔

            ہو ایوں کہ حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں حضرت حذیفہ بن یمان ؓ عراق اور ایران کی شمالی سرحدوں آرمینیا اور آذربائیجان پر جہاد کے لئے گئے ہوئے تھے وہاں آپ نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ لوگ اپنی اپنی قراء ت کو صحیح قرار دیتے ہیں اور دوسروں کی قراء ت کو غلط سمجھتے ہیں اور اس بنا پر ان کے درمیان نزاع بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت حذیفہ حج کے لئے مکہ گئے اور حضرت عثمان سے عرض کیا کہ امیر المؤمنین قبل اس کے کہ امت اللہ کی کتاب کے بارے میں یہود و نصاری کی طرح اختلاف کا شکار ہو جائے آپ ان کو سنبھالیئے۔

صحابہ کرام سے مشورہ:

            حضرت عثمان ؓ نے اختلاف قرأت کی وجہ سے نزاع ایک تو مدینہ منورہ میں ہی دیکھ چکے تھے پھر اب حضرت حذیفہ بن یمان کی زبانی سرحدوں پر رو نما ہونے والے نزاع کے بارے میں سنا تو صحابہ کرام سے مشورہ کیا ۔ سب نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ امت کو ایک ہی قرأت پر جمع کرنا چاہئے۔

جمع القرآن علی القرأت کے لئے بورڈ کی تشکیل:

            قرآن کریم چونکہ مختلف لہجوں میں سبعہ احرف کے اعتبار سے لکھے ہوئے تھے اس لئے اس کو اب صرف ایک لہجے ‘‘لہجہ قریش’’ میں جمع کرنے کا پروگرام بنایا گیا اس لئے کہ رسول کریم ﷺ قریشی تھے اور اللہ تعالی نے قرآن کو قریش کے لہجے میں نازل فرمایا تھا دوسرے لہجوں میں قرأت کی اجازت محض سہولت کے لئے تھی۔ چنانچہ حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابت ؓ کی سربراہی میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ، حضرت سعید بن العاص ؓ ’ اور حضرت عبد الرحمن بن حارث بن ہشام پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ’ اور ان کو ہدایت کی کہ وہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے عہد میں تیار کردہ نسخہ قرآن کے مطابق قرآن کے نسخے تیار کریں۔ اور جہاں کہیں کوئی اختلاف رو نما ہوجائے تو لغت قریش کے مطابق درج کریں۔ اور جہاں کہیں قرأت بالتفسیر وغیرہ کے بارے میں اندراج ہو گئے ہوں وہ مٹا دیئے جائیں تاکہ اختلاف کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

            جب انہوں نے ایک نسخہ تیار کر لیا تو اس کے سات نقول تیار کئے گئے اورتمام صوبوں میں بھیج دیئے تاکہ لوگ اس نسخہ کے مطابق اپنے نسخے تیار کریں اور ایک نسخہ مدینہ منورہ میں رکھ لیاجسے ‘‘مصحف امام ’’کہا جاتا تھا۔ اس نسخہ کے علاوہ جتنے بھی نسخے تھے ان کو تلف کر دیا گیا تاکہ اختلافات جنم نہ لے سکیں۔

جامع القرآن کا لقب:

            حضرت عثمان ؓ کا یہ کارنامہ بہت بڑا کارنامہ تھاکہ انہوں نے امت کو ایک قراء ت پر جمع کر دیااور امت مسلمہ کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچا لیا اسی لئے حضرت عثمان کو ‘‘جامع القرآن ’’کے لقب سے یاد کیا جاتاہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)