فترۃ الوحی (وحی کی بندش)
پہلی وحی کے
بعد کچھ عرصہ تک وحی کا سلسلہ منقطع رہا اس عرصہ کو ‘‘فترۃ الوحی’’ کا زمانہ کہا
جاتا ہے۔وحی کی بندش کا یہ زمانہ کتنے عرصے پر مشتمل تھا اس بارے میں مؤرخین کے
مابین اختلاف ہے۔
کچھ لوگ کہتے
ہیں یہ عرصہ تین سال پر محیط تھا’ اور کچھ لوگوں کے نزدیک وحی کی یہ بندش ڈھائی
سال تک رہی اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ عرصہ چھ ماہ کا تھا جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں
فترۃ الوحی کا یہ عرصہ دس دن پر محیط ہے’ علامہ ابن حجر عسقلانی چند دن کے قائل
ہیں۔(دیکھئے اردو دائرہ معارف اسلامیہ بذیل مادہ قرآن’ فتح الباری ص:۲۷/۱’ ۳۶۰/۱۲)
صفی الرحمن
مبارک پوری کے نزدیک تین سال یہ ڈھانی ماہ کا عرصہ کہنا کسی حال میں درست نہیں ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
‘‘اما
مـدۃ فـترۃ الوحی فروی ابن سعد عن ابن عباس ما یفید انها کانت ایاما۔ و هذا الذی
یترجح بل یتعین بعد ادارۃ النظر فی جمیع الجوانب و اما ما اشتهر من انها دامت طیلۃ
ثلاث سنوات او سنتین و نصف فلا یصح بحال۔’’(الرحیق
المختوم عربی ص:۶۹)
رہی یہ بات
کہ وحی کتنے دنوں تک بند رہی تو اس سلسلے میں ابن سعد نے ابن عباس ؓ سے ایک روایت
نقل کی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ یہ بندش چند دنوں کے لئے تھی ’ اور سارے پہلوؤں پر
نظر ڈالنے کے بعد یہی بات راجح بلکہ یقینی معلوم ہوتی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ
وحی کی بندش تین سال یا ڈھائی سال تک رہی تو یہ قطعا صحیح نہیں ہے۔
مبارک پوری
کہتے ہیں کہ فترۃ الوحی کا یہ عرصہ تقریبا دس دنوں پر مشتمل تھا۔(دیکھئے الرحیق
اردو ص:۱۰۲ حاشیہ
نمبر۱۱)
حافظ ابن حجر
ؒ فترۃ الوحی یعنی وحی کی بند ش کی وجہ اور حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘ وحی کی یہ
بندش اس لئے تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو خوف طاری ہوگیا تھا دور ہو جائے
اور وحی کی آمد کا شوق اور انتظار پیدا ہوجائے۔(فتح الباری ص:۲۷/۱)