بون مت
تاریخ ’ عقائد و نظریات
تحریر: ابراہیم عبد اللہ یوگوی
بون مت
ایک قدیم مذہب ہے جوبدھ مت سے پہلے لداخ او ر بلتستان میں رائج تھا اور بدھ مت کے
عروج کے ساتھ اس کو زوال آنا شروع ہوا اور آخر کار بدھ مت کے ساتھ کشمکش میں ان
دونوں کے ملغوبے سے ایک اور مذہب رواج پذیر ہوا جس کو لامائیت یا تبتی بدھ مت (Tibetan
Buddhism)کہا جاتا ہے۔ بون مت بلتستان میں یہ مذہب
بون چھوس کے نام سے معروف ہے۔ اس کی تاریخ اور عقائد و نظریات کیا تھے ’ اس کا
اختصار کے ساتھ جائزہ پیش خدمت ہے۔
بون چھوس کا مطلب:
لفظ
بون چھوس دو ذیلی الفاظ بون اور چھوس سے مرکب ہے جس میں بون (Bon) کسی خاص فرد کے نام کو ظاہر کرتاہے جبکہ چھوس کے معنی مذہب کے
ہیں۔ جس کا مطلب ہے بون کا مذہب۔ بون کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ لفظ’’پون
‘‘ ہے۔ اوربعض کا کہنا ہے اصل میں یہ لفظ ’’برن‘‘تھا جس کے معنی عبادت کے ہیں۔(۱)
سہروردی
کے خیال میں یہ لفظ اصل میں ’’ چھوس پون‘‘ (Chhus
Pon)ہے ’ جس کے معنی مذہب والے کے ہیں۔وہ کہتے
ہیں ’ در اصل پون ایک مقامی مذہب تھا جو صدر اسلام کے زمانے میں عرب و عجم میں
رائج صابی مذہب کی مانند تھا۔(۲)
شیخ
عبد الرشید صدیقی (مدیر التحریر مجلہ التراث )کے مطابق یہ لفظ اصل میں ’’برن چھوس‘‘
تھا
جس کے معنی عبادت کرنے کے ہیں۔ کثرت استعمال سے یہ لفظ بگڑ کر بون چھوس بن گیا۔ ان
کا کہنا تھا چونکہ اس مذہب کے ماننے والے مظاہر پرست تھے’ ہر شے کی عبادت کرتے تھے
لہٰذا برن یعنی عبادت ہی ان کا چھوس یعنی مذہب بن گیا۔(۳)
جبکہ
دوسرے محققین کا کہنا ہے کہ یہاں لفظ بون سے مراد کوئی خاص شے یا جانور نہیں بلکہ
ایک مخصوص انسان ہے جو اس مذہب کا بانی ہے۔ بون تبت اصلی کے ایک شخص کا نام تھا جس
نے اس مذہب کو ایجاد کر کے رائج کیا۔(۴) اور
بلتی الفاظ کی ترکیب کو دیکھنے سے یہی زیادہ قرین قیاس لگتاہے ۔
بعض لوگ بون مت کو ‘‘می چھوس’’ بھی کہتے ہیں۔ جس کے
معنی اخلاقیات کے ہیں۔ یعنی بون مت کا بلند ترین مقصد یہ تھا کہ تمام جانداروں کی
بہبود کی بات کرے۔ اور اسی اصول کو اپنی انا یا شخصیت کی بقا کا ذریعہ بنائے۔می
چھوس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ رواج جو گیتوں اور روایات پر مشتمل سمجھے جاتے ہیں’
کا بھی احترام کیا جائے۔(۵)
بون چھوس کی ابتداء:
اس
مذہب کی ابتدا کب ہوئی اس کے بارے میں کاچو سکندر خان وغیرہ لکھتے ہیں: یہ مذہب
تبت میں شاہی دور حکومت سے پہلے رائج تھا۔ تبت میں قدیم شاہی خاندان کا سلسلہ
نیاٹھی چن پو سے شروع ہوتا ہے وہ لوگ بون مت کے پیروکار تھے جنہوں نے نیاٹھی چن پو
کو تبت کا پہلا بادشاہ نامزد کیا تھا۔ بونپو عالموں کی اساطیر کے مطابق نیاٹھی چن
پو کا دور حکومت مہاتما بدھ کی پیدائش سے قبل کا ہے۔ جبکہ عام تبتی روایتوں کے
مطابق وہ کوشل کے راجہ پرسناجیت کا بیٹا تھا اور اس کاعہد حکومت تخمینا 50ق م سے
416ق م کے درمیانی عرصہ میں ہے۔ تبتی روایات کے مطابق شانگ شونگ بون مت کا گہوارہ
تھا۔یہ وہی مذہب ہے جسے تبتیوں نے بدھ مت سے پہلے اختیار کر رکھاتھا۔(۶)
لوبسانگ
رقمطراز ہے: "تبت کے باشندوں کا ابتدائی مذہب بون مت
تھا جس کی بنیاد خود تبتیوں نے رکھی تھی اور پروان بھی انہوں نے ہی چڑھایاتھا۔ یہی
وجہ ہے کہ تبتی تہذیب سے باہر اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ بون عقائد پر تحقیق کرنے
سے پتہ چلتا ہے کہ قبل از تاریخ کے دور میں فطری مظاہر سے متعلق جن ماورائی نظریات
و عقائد کو فروغ ملا وہ بتدریج بون مت کو فروغ دینے کا باعث بنا۔" (۷) ’’ -‘‘
ٖ مولوی حشمت اللہ تاریخ جموں میں لکھتے
ہیں: چاٹھی کا دوسرا نام پوتی کونگیال ہے’ اس کے عہد حکومت میں مذہب پون رائج ہوایہ
ابتدائی مذہب اس ملک کا ہے جس کا پتہ لھاسی تاریخ سے چلتا ہے۔(۸)
کاچو سکندر کا کہنا ہے کہ بدھ ازم کی اشاعت سے پہلے تبت
و لداخ سمیت بہت سے ملکوں کا مذہب بون مت تھا۔ اس مذہب کے بانی شین رب می دو (Shen
Rab Miwo)غالبا کوگے کے باشندے تھے۔ اس لئے اس مذہب
کا پھیلاؤ تبت سے شروع ہوا۔ اس مذہب کے پیرو دیوی دیوتاؤں اور مظاہر قدرت کی پرستش
کرتے تھے۔ اس کے بنیادی اصول مذہبی کتابوں اور تحریروں کے علاوہ مقامی قصے کہانیوں
اورگیتوں میں بھی مذکور ہیں جن میں رزمیہ (کیسر ساگا) اہم ترین مجموعہ ہے۔ کیسر
ساگا کامذہب لنگ چھوس بتایا جاتا ہے’ جو خیال کیا جاتا ہے بون مت یعنی پون چھوس کا
دوسرا نام ہے۔(۹) غلام
حسن سہروردی کے مطابق یہ مذہب اس علاقے میں 105ق م میں رائج ہوا ۔ (۱۰)
بون مت
کی ابتداء کس علاقے سے ہوئی اس بارے میں مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تبتی
روایات کے مطابق اس کی ابتداء زانگ زونگ (Zang Zung) کے علاقہ سے ہوئی تھی جو کہ مغربی تبت میں واقع ہے ۔ بعض کہتے
ہیں اس کا آغاز علاقہ لونگ رنگ (Long Ring) سے ہوا ہے جبکہ کاچو سکندر کا کہنا ہے کہ تبتی روایات میں جس
علاقے کو زانگ زونگ کانام دیا گیا ہے وہ اصل میں شانگ شونگ (Shang
Shung) ہو سکتاہے جو گلگت یا دردستان میں کہیں
واقع ہو سکتاہے۔اورلوبسانگ نے یہ باور کرایا ہے کہ کاچو سکندر کا یہ موقف درست
نہیں ہے جبکہ وہ خود یہ لکھتے ہیں کہ بون مت کا اصل وطن جہاں سے اس کی اشاعت کا
آغاز ہوا وہ بلتستان ہے۔(۱۱)
اگر
بلتستان کے لوگوں میں پائے جانے والے اوہام کا مطالعہ کیا جائے تو لوبسانگ کی بات
کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے’ اگرچہ بون مت پر لکھنے والوں نے اسے تبت قدیم کا
مذہب قرار دیا ہے ۔ اس بارے میں تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس مذہب نے جس
علاقے میں جنم لیا وہ مشرق میں زانگ زونگ اورمغرب میں گلگت کے درمیان ہیں واقع ہے
اور یہ بات سو فیصد بلتستان پر صادق آتی ہے۔
دوسری
بات یہاں کے لوگوں کے اعتقادات کے حوالے سے تحقیق کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اب بھی
ان لوگوں کے ہاں جو تخیلاتی ادب پایا جاتاہے اس میں عوامی اعتقادات کے زیر اثر
ہلا’ ہلانو’ اور ہلو(۱۲) کے
تذکرے بکثرت پائے جاتے ہیں ۔
ایک
اور اہم ثبوت یہاں کے باشندوں کے تحت الشعور میں پایا جانے والا وہ ماورائی خوف ہے
جسے بون مت نے نفسیاتی حربے کے طور پر فروغ دیا تھا۔(۱۳)
بون چھوس کا بانی:
بون
چھوس کے بانی کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ لداخی روایات کے حوالے سے لداقس رگیال
راپس میں مرقوم ہے کہ بون مت کا پرچارسب سے پہلے ‘‘گریگرم چھن پو’’ نے ڈین بون
اورنم بون کے نام سے سپودے گونگیال کے عہد میں شروع کیا۔(۱۴)
کاچو سکندر نے اس پر زیادہ روشنی ڈالی ہے ان کا
خیال ہے کہ بون مت کا بانی ‘‘شین رب می وو’’ نامی شخص ہے جس کا تعلق شین قبیلے سے
تھا۔اس کی جائے پیدائش کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق وہ اوملو لونگ
رنگ (OMLO-LUNGRING)
میں پیدا ہوا جو یا تو شانگ شونگ (کوگے) میں واقع تھا یا ایران (TASIK) میں۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق یہ مقام وسطی تبت میں واقع تھا۔
بون مت کی بعد کی اختیار کی گئی شکل سے متعلق مقدس کتابوں میں جن غیر ملکی زبانوں
سے ان کاترجمہ کیاجانا فرض کیاگیاہے وہ اکثر شانگ شونگ یادرد شا (گلگت) کی زبانیں
ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بانی مذہب بون کا اصلی وطن شانگ شونگ
یا اطراف گلگت میں کہیں واقع تھا ۔ ان میں شانگ شونگ یعنی ژانگ ژونگ زیادہ قرین
قیاس ہے۔(۱۵)
اور لوبسانگ کا کہنا ہے کہ بون چھوس کا بانی بون نامی
کوئی شخص تھا جو اصلا بلتستان کا رہنے ولا تھا۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ اول
تو یہ لفظ ہی بلتی ہے اور دو الفاظ سے مرکب ہے جس کے معنی بون کا مذہب ہے اور بون
کسی شے یا جانور کانام نہیں بلکہ ایک مخصوص انسان کا نام ہے۔ پھر یہ کہ بلتستان
اور لداخ کے شجرہائے نسب پرنظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شجرہ نسب ایسا ہے
جسے بوندے پہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ لوبسانگ کے خیال میں یہی وہ شجرہ نسب
ہے جس کا جد امجد بون کے نام سے معروف تھا اور وہی بون مذہب کا بانی تھا۔(۱۶)
حسین
آبادی لکھتے ہیں کہ بون مت تبت کا قدیم مذہب تھا۔ اس کی بنیاد تبت کے موجودہ صوبہ
ناری کے موضع سندہ دزونگ کے ایک شخص شینزب میبوچے (Shenrab
Miboche) نے رکھی تھی۔ روایات کے مطابق سکیامنی کے
نروان حاصل کرنے کے کچھ ہی عرصے کے بعد شین نامی لڑکے کو تیرہ سال کی عمر میں کسی
بھوت نے اغوا کیا۔ چھبیس سال کی عمر میں جب وہ واپس پہنچاتو وہ بڑی معجزانہ قوتوں
کامالک بن چکا تھا۔ وہ صحیح پیشن گوئی کر سکتاتھا اور دم جھاڑ کے ذریعہ آسیب اتار
سکتاتھا۔ لوگوں نے اسے ‘‘شین رب’’ یعنی عظیم استاد کانام دیا۔ اس نے لوگوں کو
خداؤں کی پرستش کرنا’ دعا کرنا’ آسیب نکالنا’ اور بھوتوں کو قابو میں لانا سکھایا۔
چونکہ مظاہر قدرت کو سمجھنے سے قاصر تھے اس لئے انہیں الوہیت سے منسوب کیااور نتیجۃ
سورج’ چاندتاروں اور جانوروں تک کی پوجا شروع ہوئی۔یہ چیزیں رفتہ رفتہ بون مت کی
بنیاد بن گئیں۔(۱۷)
بون
مت کے عقائد و نظریات:
بون مت
کے عقائد مظاہر پرستی اور اوہام باطلہ کا ملغوبہ ہے ۔ اس میں ایسی کوئی چیز نہیں
جس کو عقل سلیم تسلیم کرے۔ بون مت کے باقیات اب بھی بلتستان بھر میں دیکھے اور سنے
جا سکتے ہیں۔بون مذہب کے عقائد کے بارے میں تاریخ بون فلسفہ کا مصنف کہتا ہے:
‘‘بون مت کے ماننے والے وجود کو دو حالتوں میں منقسم تصور کرتے ہیں ایک وجود مخفی
اور دوسرا وجود ظاہری۔ وجود مخفی سے مراد وہ ماورائی ہستیاں ہیں جو کائنات میں
موجود تو ہیں مگر وجود ظاہری یعنی انسان انہیں دیکھ نہیں سکتے البتہ محسوسات کی
مدد سے ان کی موجودگی کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔’’(۱۸)
غلام حسن سہروردی تاریخ بلتستان میں اس مذہب کے بنیادی
عقائد یوں بیان کرتے ہیں: ‘‘در اصل پون ایک مقامی مذہب تھا جو صدر اسلام کے زمانے
میں عرب و عجم میں رائج صابی مذہب کی مانند تھا۔ جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی آیا
ہے۔ اس کے ماننے والے دیوی دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھے۔ اوہام باطلہ ’ خیالات فاسدہ
پر یقین رکھتے تھے۔ حلت و حرمت کی ان میں تمیز نہیں تھی۔ مختلف رسمیں ادا کی جاتی
تھیں اور میلے منعقد کئے جاتے تھے جن میں مذہب و ثقافت کے نام پر انسانیت سوز
رسمیں ادا کی جاتی تھیں۔’’(۱۹)
مصنف
کیسار رقمطراز ہے: جسے ‘‘بون چھوس ’’ اہل بلتستان بھی اپنا مذہب مانتے تھے۔ بلتی
ثقافت میں اس کے چند غیر واضح اثرات اب تک باقی ہیں ...بون کے ماننے والے مافوق
الفطرت مخلوقات کے وجود پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس طرح پر اسرار
مخلوقات لامحدود کمالات کے مالک ہوتے ہیں۔ اسی عقیدے کی بناء پر لوگ انہیں پوجتے
تھے۔(۲۰)
کاچو سکندر خان لکھتے ہیں: ‘‘رزمیہ کے علاوہ بون مت کے
عقائد کی عکاسی ان قومی گیتوں میں بھی کی گئی ہے جن میں انسانوں اور دیوتاؤں کی
پیدائش اوردنیا کی آفرینش کا منظر بیان کیا گیا ہے۔ یہ گیت سالانہ تہواروں خصوصا
لوسر’ ساکا’ شادی بیاہ کے موقعوں پر گائے جاتے ہیں اور پورے لداخ و تبت میں رائج
رہے ہیں۔ان میں ‘‘پراسول’’(سومالیک) کے قدیم گیت جو سوال و جواب کی شکل میں ہیں۔
اس قبیل کے گیت لامائیت کے مخصوص نظریوں ’ بون مت کے خصوصی عناصر’ رزمیہ کی روایات
اور عوامی تخیل کاعطر مجموعہ ہوتے ہیں۔اور کسی حد تک ‘‘می چھوس’’ کابھی احاطہ کرتے
ہیں۔ بقول آر۔ اے سیٹن ’ می چھوس ان اقوال کے مجموعے کا نام ہے جو قبیلے کے بزرگوں
کی زبان سے نکلے ہیں اور عموما ابیات میں یا شاعرانہ انداز میں بیان کی گئی
تشبیہوں اورکہاوتوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔می چھوس میں مذہبی عقائد کا بھی خیال
رکھاجاتاہے۔ می چھوس کے معنی اخلاق کے سمجھے جاتے ہیں’ جو درحقیقت مذہب کے لئے
تیاری کاعمل ہوتے ہیں۔(۲۱)
ان
کے عقائد و نظریات کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ درج ذیل عقیدے کے حامل تھے:
· وجود کی دو حالتیں ہیں ایک ظاہری دوسرا
باطنی۔ وجود باطنی یامخفی سے مراد وہ ماورائی ہستیاں ہیں جو کائنات میں موجود تو
ہیں لیکن انہیں انسان نہیں دیکھ سکتے۔
· وجود مخفی کو بھی دو شجروں میں تقسیم کیا
جاتاہے ایک کو ہلا (Hla)کہا
جاتا ہے اور دوسرے کو ہلو (Hlu)
کہا جاتاہے۔معروف تہذیبی پس منظر میں ہلا سے دیوتا اور ہلو سے ارواح خبیثہ مراد
ہیں۔
· بون مت کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ
دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ انہی دونوں قوتوں کی ایما پر ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کوخوش
کرنے کے لئے مختلف مواقع پر رقص و سرور کی محلفیں منعقد کی جاتی ہیں۔ بلتستان بھر
میں اب بھی ساز ہلا کار اور ہلو کار کے نام سے مشہور ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا
ہے کہ ہلا کو خوش کرنا ہو تو ہلاکار ساز بجایا جاتاہے اور اگر ہلو کو خوش کرنا ہو
اور ارواح خبیثہ کو کھروں اور مال و مویشی سے دور رکھنا مقصود ہو تو ہلوکار کا ساز
بجایا جاتاہے۔
· بون چھوس والوں کا خیال ہے کہ ہلا اور ہلو
رقص اور سرور کے دلدادہ ہوتے ہیں اور ان کودیکھنے کے لئے دور دراز کا سفر کرکے
پہاڑوں کی چوٹیوں سے نیچے اتر آتے ہیں چنانچہ ان کو خوش کرنے کے لئے میندوق ہلتنمو
نامی میلہ منایا جاتاہے ۔
· اگر بارش وغیرہ نہ ہو اور قحط سالی ہو جائے
تو اس کو ہلا اور ہلو کی ناراضگی تصور کرتے ہیں اور ان کو خوش کرنے کی غرض سے رقص
و سرود کی محفلیں منعقد کرتے ہیں اور یہ مسلسل ہفتہ تک جاری رہتا ہے۔
· بون مت والے ان دونوں قوتوں کو خود مختار
سمجھتے ہیں البتہ‘‘ ہلا’’ کو ‘‘ہلو’’ پر فوقیت دیتے ہیں اور پوری کائنات میں اس
کوارفع تصور کرتے ہیں۔
· ان کے نظرے کے مطابق ساری کائنات کے لو گ
اور مخلوقات ہلا کے ماتحت اور ایک منظم صورت میں ہوتے ہیں۔ جبکہ ہلو ان کے اندر بد
نظمی اور انتشار پیدا کرتے ہیں۔ گویا ان کے ہاں ہلا تصور خیر ہے اور ہلو تصور شر۔
· بون مت کے پیرو کاروں کا یہ عقیدہ تھا کہ
ہلا جہاں انسانوں کو ارواح خبیثہ کی شر سے بچائے رکھتا ہے وہاں بد اعمال انسانوں
کی روحوں پر ارواح خبیثہ مسلط کرکے انہیں خوف و ہراس اور ذہنی کرب میں مبتلا کر
دیتا ہے۔ چنانچہ اس عقیدے کی رو سے لوگ دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کو نجات کا
واحد ذریعہ خیال کرتے تھے اور یہی بات دیوتاؤں کی پرستش کا سبب تھا۔ ان کے ہاں ہلا
کو خدا کی حیثیت حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ہلا کی کثرت یعنی بہت سے الٰہوں
کے قائل ہیں۔
· بون عقیدے میں قیامت کا کوئی تصور نہیں ہے
صرف نفسیاتی حربوں کے ذریعہ انسانی رویوں میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی
ہے۔(۲۲)
· بون مت کے پیرو کار اپنے ہر کام کو ‘‘ہوپ
پالہ ہو’’ کے کلمات سے شروع کرتے ہیں۔ ریاضت کے دوران بھی اسی کلمہ کی ورد کرتے
ہیں۔ بلتستان میں اب بھی لوگ لاشعور طور پر بوجھ یا بھاری چیز اٹھاتے وقت یا اٹھتے
وقت ‘‘ہوپ پالہ ہو’’ یا ‘‘اومنی پدی ہم’’ وغیرہ کے الفاظ پڑھتے ہیں۔ لوبسانگ کے
مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ عمر رسیدہ لوگ لاشعوری طور پر اس کلمہ کو حوصلہ افزائی
اور ہمت افزائی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اور لفظ ‘‘اومنی پدی ہم’’ کو بدھ مت کی وجہ
سے بگڑی ہوئی شکل سمجھتے ہیں۔(۲۳)
جبکہ
مولانا عبد الرشید صدیقی کہتے ہیں یہ کلمات حصول مدد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں
’ ‘‘ہوپ پالہ’’ اور ‘‘اومنی پدی ہم’’ بون عقیدے کے مطابق ان کے طاقت کے دیوتا کے
نام ہیں لہٰذا ایسے موقع پر جب انسان کے لئے طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ
کلمات استعمال کر کے اپنے دیوتا سے مدد کا طلب گار ہوتاہے۔(۲۴)
کاچو
سکندر لکھتے ہیں بونپو دوسرے فرقوں کے ‘‘اوم مانی پدماہوم’’(۲۵)کی جگہ اپنی دعا رکھتے
ہیں جو آٹھ کلمات اوم با’ مون یائی’ سا’ لیہہ’ دون’ پر مشتمل ہے۔ جن کے معنی اب تک
نہیں جانے جا سکے ہیں۔(۲۶)
یونگ ڈونگ: (YUNG DUNG): قدیم تہذیبوں کا مقدس نشان سواستیکا (Swastika) کے طرز پر قدیم تبتیوں کا بھی ایک امتیازی نشان تھا جسے یونگ
درونگ کہا جاتا تھا۔ تبت و لداخ کے لوگ اسے آج بھی مقدس و متبرک سمجھتے ہیں۔ اکثر
محققین اس نشان کو بون مت کی تہذیبی شناخت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ زمانہ قبل
مسیح سے لے کر بون مت کے زوال تک اسے انیٹی کلاک وائز کی حالت میں ظاہر کیاجاتا
تھا مگر بدھ مت کے دور میں اس کا رخ تبدیل کر دیا گیا اور اسے کلاک وائز کر دیا
گیا۔بون عقیدے کے مطابق یہ گردشِ دوران کی علامت ہے۔ لہٰذا پہلی صورت میں گردش
دوران کو الٹا ظاہر کیا گیا جبکہ دوسری صورت میں گردش دوران کو سیدھا دکھایا گیا
ہے۔(۲۷)
بون مت
میں یونگ ڈونگ کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ اور اس کو حصول برکت کا ذریعہ خیال کیا
جاتا تھا۔لداخ وغیرہ میں شادی کی رسومات میں یونگ ڈونگ کی اب بھی اہمیت ہے۔
دلہادلہن کو ایسے قالین پر بٹھایا جاتاہے جس پر یونگ ڈونگ کا نشان بنایاگیا ہو۔
کاچو لکھتا ہے ‘‘بدھ مت سے قبل رائج مذہب یعنی بون’ سورج اوردیگر مظاہر قدرت کی
پرستش کا ایک نظام تھا۔ کمپاس کے چار نقاط یا اطراف مرکز سورج ہے۔ چار نقاط سورج
کے مختلف مظاہر ہیں اور یہی ایک (PHYSIOLOCAL RELIGION) میں ان کی اہمیت ہے۔یہ چیزیں بون مت کی قدیم علامت یونڈونگ کی
تشریح کے مشکل مسئلے کے لئے ایک حل تجویز کرتی ہے۔ یہ علامت سورج کو شمال ’ مشرق’
جنوب اور مغرب کاخالق ظاہر کرنے کی غرض سے وضع کی گئی ہے۔ ہر خط کے سرے پر پر کا
نشان سورج کے ایک سمت سے دوسری سمت کی جانب گھومنے کے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔’’(۲۸)
بلتستان
میں جن لوگوں سے ‘‘یونگ درونگ’’ کی حقیقت کے بارے میں پوچھا گیا ان میں سے بعض نے
تو اس کی حقیقت سے لاعلمی کا اظہار کیا’ جبکہ بعض کا کہنا تھا کہ یہ اصل میں یونگ
ڈونگ ہے۔ ‘‘یونگ’’ کے معنی ہیں یہ سب یا تمام لوگ’ جبکہ‘‘ ڈونگ /درونگ’’ کے معنی
ہیں سیر ہونا’ پیٹ بھرنا ’ گویا یہ سیرابی اور طمانیت کی علامت تھی جس کو بالفاظ
دیگر ‘‘برکت’’ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ماہ
دسمبر 2007ء میں میرے گاؤں یوگو کے قریب فونگ نق نامی مقام پر ڈاکٹر محمد اسماعیل
چنگیزی کونسلنٹنٹ ڈاکٹر کیڈٹ کالج سکردو نے چند غاروں کی تلاشی لی تو کسی غار میں
سے ان کو ایک مٹکا اور لکڑی سے بنا ہوا یونگ درونگ ملا جس کی لکڑی بہت بوسید ہ ہو
چکی تھی۔ ان سے اس کی تحقیق کے سلسلے میں رابطہ کیا گیاتو انہوں نے اس کی تصدیق کی
اور کہا کہ میں نے خو د دیکھا اور اس کو وہاں سے نکالا مگر اس کی لکڑی اور اس میں
لگائی گئی لکڑی کی میخ بہت زیادہ بوسیدہ ہو چکی تھی ہاتھ لگتے ہی لکڑی بھربھری ہو
کر گر جاتی تھی۔ اس طرح اس کو محفوظ نہیں کیا جا سکا۔
مظاہر پرستی: اس مذہب میں مظاہر پرستی عام تھی ’ ہر
طاقتور شے کی عبادت کی جاتی تھی۔ آج كل اس كى ايك
شكل كيلاش كے لوگوں كے نظريات كى صورت ميں
ديكھ سكتے ہیں۔
· اوہام پرستی: بون مت میں مظاہر پرستی کے
ساتھ اوہام پرستی بھی تھی۔ جیسا کہ خاور لکھتے ہیں: ‘‘چھوس پون مذہب مظاہر پرستی
اور اوہام پرستی کا ایک ملغوبہ تھا۔’’(۲۹)
· ان کے معقدات مصائب و مشکلات کے وقت بھی
آشکارا ہوتے تھے۔ مثلا مریضوں کے علاج و معالجہ کے سلسلے میں دیوی دیوتاؤں کی
خوشنودی حاصل کرنے اور ارواح خبیثہ کو بھگانے کی کوشش کی جاتی تھی۔اس مقصد کے حصول
کے لئے کئی طریقے اختیار کئے جاتے ۔ مثلامنتر پڑھے جاتے تھے’ موسم کے سب سے پہلے
پکنے والے میوؤں کی نذر چڑھائی جاتی’ پھو لہا (نر دیوتا) سے معافی مانگی جاتی’ یول
لہا(ملکی دیوتا)سے معذرت کی جاتی اور گرالہا کو تاوان کی پیشکش کی جاتی۔ناگ کی
خوشنودی کے لئے دودھ میں قیمتی پتھر اوردوائیاں ڈالی جاتی تھیں۔(۳۰)
بلتستان کے لوگوں میں سے بہت سے اب بھی اوہام
قدیم کا شکا ر ہیں ۔ بون مت کے اوہام اب تک ان کے تحت الشعور میں جاگزیں ہیں لہٰذا
اب بھی انہی اوہام قدیم میں مبتلا ہیں ۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
· اپی سہ ردونگ : بلتستان کے طول و عرض میں
یہ وہم پایا جاتا ہے کہ زمین کی تہہ میں ایک بڑھیا رہتی ہے جس کا سر بہت بڑا ہے جس
کی وجہ سے وہ اٹھ نہیں سکتی ’ وہ جب بھی اٹھنے کی کوشش کرتی ہے اس کاسر نیچے زمین
سے زور سے لگ جاتا ہے جس کی وجہ سے ‘‘بونگ’’ کی زور دار آواز پیدا ہو جاتی ہے۔ بہت
سے لوگ اس قسم کی آواز سننے کے دعویدار ہیں۔(۳۱)
بعض
علاقے کے لوگوں کا خیال ہے کہ زمین کی تہہ میں ایک بڑھیا ‘‘ہلٹانوسی بو’’ یعنی
ہاون کے دستے کی مانند بڑا سا کوٹنے کاآلہ لیکر زمین کو کوٹتی ہے جس سے یہ آواز
پیدا ہو جاتی ہے۔بہت سے لوگ اس آواز کو سننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں نے اس سلسلے
میں جن لوگوں سے دریافت کیا ان میں سے کئی ایک نے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے خود یہ
آواز سنی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ مکان کے تہہ خانے سے یہ آواز آتی تھی جب تہہ
خانے کے ایک کمرے میں جاتا تو لگتاتھا کہ آواز دوسرے کمرے سے آرہی ہے اور جب اس
کمرے میں جاتاتو معلوم ہوتا آواز دوسرے کمرے سے آرہی ہے۔ ان کا یہ دعوی کہاں تک
سچا ہے واللہ اعلم۔
· ہلا اور ہلانو کے جانور: بلتستان کے لوگوں
میں سے بہت سے لوگ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہلا اور ہلانو کے بھی جانور اور
دوسری اشیاء ملکیت ہوتی ہے مثلا ان کا خیال ہے کہ برفانی چیتے ان کے کتے’ مارخور
اور کیل ان کے بھیڑ بکری’ مارکوپولو شیپ اور اڑیال ان کے مینڈھے اور بھیڑ’ یاک ان
کے بھینس ’ بھوج پتر اور صنوبر ان کے درخت ہیں۔(۳۲)
· بعض ایام کو منحوس سمجھتے ہیں اور ان میں
سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
· بلی اگر راستہ کاٹے تو اس کو نحوست خیال
کیا جاتا ہے۔
· کالے کوے کی آواز کو بری خبر سے تعبیر کرتے
ہیں۔ اور ابلق کوے کی آواز کو خوشخبری آنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
· رات کو بلی یا لومٹری کے بھونکنے کی آواز
آئے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی کی موت واقع ہونے والی ہے۔
· اگر کسی کی آنکھ ہلنے لگے تو سمجھتے ہیں کہ
مال و مویشی میں نقصان اٹھائے گا۔وغیرہ
سومالیک:
بون
چھوس میں ایک ارتقائی فلسفے کو فروغ حاصل ہوا اس ارتقائی فلسفے کا اصل ماخذ ایک
قدیم مکالماتی تخلیق ہے جو کہ قبل مسیح سے لیکر اب تک سینہ بسینہ چلی آرہی ہے۔ عرف
عام میں اسے سومالیک (Somalake)کہا
جاتا ہے۔ اس میں ایک شخص کائنات کی ارتقا سے متعلق سوال کرتا ہے جبکہ دوسرا شخص
غور و فکر کر کے اس کا جواب دیتا ہے۔
سومالیک کا مفہوم:
بعض
لوگ لفظ سومالیک کو سوال کے معنوں میں لیتے ہیں لیکن خود سومالیک کے اندر جو انداز
اختیار کیا گیا ہے وہ خطاب کا ہے اس لئے اس کا مخاطب ہونا ضروری ہے ۔ لوبسانگ کے
مطابق سومالیک دو ذیلی الفاظ سوما(Soma) اور میلیک ( Milek) کا مخفف مرکب ہے جن کے معنی علی الترتیب نئی اور کنجی کے ہیں۔
لہٰذا موضوعی اعتبار سے سومالیک سے مراد ایک ایسی نئی کنجی جس سے کائنات کے مختلف
گتھیوں کو سلجھانے میں مد د ملے۔(۳۳)
جبکہ
شیخ صدیقی کے مطابق سومالیک کسی شخص کا نام نہیں بلکہ بون مت کے کسی دیوتا کا نام
ہے جس سے تخاطب کے انداز میں کائنات کی ارتقاء اور ابتداء کے بارے میں سوال کیا
جارہا ہے اورجواب دینے والا سومالیک کے تخاطب کے ساتھ کائنات کے ارتقاء کے بارے
میں جواب دے رہا ہے۔(۳۴)
عبد
اللہ کریم کا کہنا تھا کہ یہ لفظ اصل میں ‘‘سو مالنگ لے’’ تھا۔ لفظ ‘‘سو’’(So) کے معنی ہیں کون’ جب کہ‘‘ مالنگ ’’(Malang)’ دو لفظ ‘‘ما’’ اور ‘‘لنگ’’ سے مرکب ہے۔ ‘‘ما’’ نفی استفہامیہ ہے
اور ‘‘لنگ’’ فعل’ جس کے معنی ہیں کھڑا نہیں ہوا’ یعنی ‘‘سومالیک’’ کا مطلب ہوا کہ
اور کون کون کھڑ ا نہیں ہوا؟ یعنی اور کونسی چیز پیدا نہیں ہوئی؟(۳۵)
لداخ
وغیرہ میں یہ گیت گایاجاتا ہے مگر اس میں لفظ ‘‘سومالیک’’ کی بجائے لفظ ‘‘سلالی
بومو’’ ہے۔(۳۶)‘‘بومو’’
یا ‘‘بونو’’ کے معنی بیٹی کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ‘‘سلالی’’ نامی
لڑکی سے سوال کیا جاتاہے’ جو ممکن ہے ان کے کسی دیوتایا دیوی کانام یا ان کے عقیدے
کے مطابق ان کی بیٹی ہو۔
سومالیک
گیت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ ایک سو پچاس سے زیادہ سوالوں اور ان کے جوابات
پر مشتمل ہے ’ مگر ضبط تحریر میں نہ آنے کی وجہ سے پورا مکالمہ اب کہیں دستیاب
نہیں ۔ اس وقت بلتستان میں جو کچھ دستیاب ہے وہ زیادہ سے زیادہ سو سوالوں اور ان
کے جوابات پر مشتمل ہے۔ ان کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بھی کچھ
سوالات ایسے بھی ہیں جو صریحاً بعد کی تخلیق معلوم ہوتے ہیں۔ نیز سومالیک گیت کے
بھی مختلف ورژن ہیں ۔ ہر علاقے کے اعتبار سے ان کے الفاظ اور ترتیب میں بھی فرق
ہے۔ مثلاً لوبسانگ نے اپنی کتاب میں جو گیت کے الفاظ نقل کیئے ہیں وہ چھوربٹ کا
ورژن ہے’ جبکہ میں نے اپنے گاؤں کے ایک شخص سے سومالیک کے گیت حاصل کیا ہے اس کے
الفاظ اور چھوربٹ والے کے الفاظ میں اور تلفظ میں کافی فرق ہے مگر مفہوم تقریبا
ایک جیسا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بون مت کے تمام پیروکاروں میں ارتقائی نظریہ
تو ایک ہی تھا مگر اس کے اظہار کا طریقہ اور الفاظ ہر علاقہ کا الگ تھا۔
کائنات
کی ابتداء سے متعلق مکالمے میں ابتدائی طور پر اٹھائے گئے سوالات سے بون مت کے
تخلیق کائنات اور اس کی ارتقاء کے بارے میں نظریات واضح ہوجاتے ہیں۔ یہاں سومالیک
مکالمہ کے شروع میں سے کائنات کی ابتدا کے بارے بیان کردہ چند اشعار بطور نمونہ
پیش کئے جاتے ہیں۔
میول نہ تانگپو چی کھہ لدن لے سومالیک؟
میول نہ تانگپو ژھوے کھہ لدن لے سومالیک
ژھو سنونموے ستیانگ نہ یانگ چی لدن لے سومالیک
ژھو سنونموے ستیانگ نہ دول دوم کن لدن لے سومالیک
دول دوم کنی ستیانگ نہ یانگ چی لدن لے سومالیک
دول دوم کنی ستیانگ نہ میول خسوم لدن لے سومالیک
میول چیگی منتخ پولہ یانگ چی زیرید لے سومالیک
میول چیگی منتخ پولہ اوق ہلو یول زیرید لے سومالیک
اے یول چیگی منتخ پولہ یانگ چی زیرید لے سومالیک
اے یول چیگی منتخ پولہ ستیانگ ہلا یول زیرید لے سومالیک
اے یول چیگی منتخ پولہ یانگ چی زیرید لے سومالیک
اے یول چیگی منتخ پولہ برژھمی یول زیرید لے سومالیک
یول خسومی ستیانگ نہ یانگ چی لدن لے سومالیک
یول خسومی ستیانگ نہ ری خسوم لدن لے سومالیک
ری چیگی منتخ پولہ یانگ چی زیرید لے سومالیک
ری چیگی منتخ پولہ جونگ ری سنونمو زیرید لے سومالیک
جونگ ری سنونموے ریو گا یولی ری ان لے سومالیک
جونگ ری سنونموے ریو اوق ہلو یولی ری ان لے سومالیک
جونگ ری سنونموے ری کھہ یانگ چی لدن لے سومالیک
جونگ ری سنونموے ری کھہ چار گیال سنونمو لدن لے
سومالیک(۳۷)
ترجمہ:
یہ دنیا اور کائنات کس چیز پر بنی ہے اے سومالیک؟
یہ دنیا اور کائنات سمندر کے اوپر بنی ہے اے سومالیک
اس نیلے سمندر سے اور کیا چیز بنی اے سومالیک؟
اس نیلے سمندر سے گرد و غبار اٹھے اے سومالیک
گرد و غبار سے اور کیا چیز بنی اے سومالیک؟
گرد و غبار سے تین دنیائیں بنیں اے سومالیک
ایک دنیا کا کیا نام ہے اے سومالیک؟
ایک دنیا کو جو نیچے ہے ہلو(بد رحوں)کی دنیا کہتے ہیں
اے سومالیک
دوسری دنیا کا کیا نام ہے اے سومالیک؟
دوسری دنیا کو جو اوپر ہے دیوتاؤں کی دنیا کہتے ہیں اے
سومالیک
تیسری دنیا کا کیا نام ہے اے سومالیک؟
تیسری دنیا کو درمیانی دنیا کہتے ہیں اے سومالیک
تین دنیاؤں پر اور کیا چیز بنی اے سومالیک؟
تین دنیاؤں پر تین اونچے پہاڑ بنے اے سومالیک
ایک پہاڑ کا کیا نام ہے اے سومالیک؟
ایک پہاڑ کو نیلا اونچا پہاڑ کہتے ہیں اے سومالیک
نیلا اونچا پہاڑ کونسی دنیا کا پہاڑ ہے اے سومالیک؟
نیلا اونچا پہاڑ نیچے گاؤں کی دنیا ہے اے سومالیک
نیلے اونچے پہاڑ پر اور کیا چیز بنی اے سومالیک؟
نیلے اونچے پہاڑ پر ایک بڑا پرندہ پیدا ہوا اے سومالیک
وضاحت:
سومالیک
کا گیت بلتستان بھر میں مشہور و معروف ہے’ ہر بڑے بوڑھے کو یہ نظم زبانی یاد ہے۔
اور اب عموما یہ گیت خلو بحث یعنی گیت کے مقابلے میں گائے جاتے ہیں۔بلتستان کے طول
و عرض میں یہ گیت اگرچہ سومالیک کے گیت کے نام سے ہی معروف ہے مگر علاقے کے
اعتبارسے اس کے بعض الفاظ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثلا اس گیت کے ابتدائے حصے
میں درج بالا گیت کے پہلے مکالمہ میں سوالیہ مکالمہ یوں ہے ‘‘میول پونہ تانگوپو چی
کھہ لدن لے سومالیک ؟’’ اور جوابی مکالمہ میں ہے ‘‘میول پونہ تانگپوژھوے کھہ لدن
لے سومالیک ’’ یہ علاقہ چھوربٹ میں معروف ہے۔ جبکہ ہمارے گاؤں میں ‘‘تانگپو’’ کا
لفظ نہیں بولا جاتا اور اسی طرح لفظ ‘‘ژھو’’ (سمندر)کے بجائے ‘’ لفظ ‘چھو’’ ہے جس
کے معنی پانی ہے۔اگرچہ الفاظ مختلف ہیں مگر مطلب ایک ہی ہے۔
لداخ
اور اس کے گرد و نواح میں بھی جہاں بومت مت رائج تھی ’یہ گیت معروف ہے مگر وہاں کے
الفاظ میں بھی اختلاف پایاجاتاہے۔ جو کہ علاقائی زبانی کی اختلاف کی وجہ سے ہے۔
مثلا کاچو سکندر لکھتے ہیں ساکا گیت میں ابتدائے آفرینش کے بارے میں قدیم دردوں
کاتصور پیش کیا گیا ہے جو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ کا ابتدائی مصرعہ کچھ یوں
ہے۔‘‘می یول تانگپو چی کا ژھوکس لے سلالی بومو’’ یعنی ابتدا میں انسانوں کی دنیا
(بمعنی زمین) کس چیز پر قائم ہوئی اے سلی بیٹی؟اور دوسرے حصہ کو شندوم کے گیت کہا
جاتا ہے اس میں حضرت آدم کے خروج کے بارے میں ہے کہ جس کا شروع ‘‘باوا اتم گانا
بینگ؟’’ یعنی باوا آدم کہاں سے نکلا/نمودار ہوا؟ ’’سے ہوتا ہے۔دونوں گیت
ہلتنمو(ناچ گانے) کے دوران سوال و جواب کی شکل میں گائے جاتے ہیں۔(۳۸)
اے ایچ
فرینکے نے بھی بون مت کے قدیم عقائد اور خیالات کے ضمن میں اس گیت کا ترجمہ دیا ہے
جس میں انہوں نے لفظ ‘‘Lake’’
استعمال کیا ہے۔(۳۹) جس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی تبت اور لداخ کے ورژن میں یہ لفظ ‘‘چھو’’ کی بجائے
‘‘ژھو’’ یعنی سمندر ہے۔
اس گیت
کے ابتدائی مکالمے میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ سب سے پہلے پانی یا سمندر
وجود میں آیا اور اس نیلے سمندر سے بخارات اٹھے اور سحابیہ یا بادل وجود میں آیا
اور پھر ان سحابیوں سے تین دنیائیں بنیں ۔ ان میں سے ایک دنیا جو نیچے واقع ہے ہلو
یول یعنی بد روحوں کی دنیا کہلاتی ہے اور جو دنیا اوپر واقع ہے اسے ہلایول یعنی دیوتاؤں
کی دنیا کہا جاتا ہے اور جو دنیا ان دونوں کے درمیان میں واقع ہے وہ درمیانی دنیا
کہلاتی ہے۔
لوبسانگ
کے مطابق ان تین دنیاؤں سے مراد سیارہ زمین’ سورج اور چاند ہے یعنی ہلو یول یا
ارواح خبیثہ کی دنیا سے مراد زمین’ دیوتاؤں کی دنیا سے مراد سورج اور درمیانی دنیا
سے مراد چاند ہے۔(۴۰)
جبکہ
کاچو خان سومالیک میں مذکور تین دنیاؤں سے متعلق بتاتے ہیں کہ اوق ہلو یول سے مراد
بلتستان’ برژھمی یول (درمیانی دنیا) سے مراد لداخ اور ستیانگ ہلایول (دیوتاؤں کی
دنیا) سے مراد تبت اصل ہے۔(۴۱)
سومالیک میں پیش کردہ زندگی کی ابتداء کے متعلق
بون مت کے نظریہ سے متعلق چند اشعار درج ذیل ہیں:
ژھو سنونموے ستیانگ نہ یانگ چی لدن لے سومالیک؟
ژھو سنونموے ستیانگ نہ سپانگ تھنگ چھینمو لدن لے
سومالیک
سپانگ تھنگ چھینموے ستیانگ نہ یانگ چی لدن لے سومالیک؟
سپانگ تھنگ چھینموے ستیانگ نہ چندن زگونگمو لدن لے
سومالیک
چندنی رمپاسی چی ہرتینے یود لے سومالیک؟
چندنی رمپاسی سہ ہرتینے یود لے سومالیک
چندنی ڈم پو سی چی ہرتینے یود لے سومالیک؟
چندنی ڈم پو سی برق ہرتینے یود لے سومالیک
چندنی شرونی چی ہرتینے یود لے سومالیک؟
چندنی شرونی ری ہرتینے یود لے سومالیک
چندنی چوڑو سی چی ہرتینے یود لے سومالیک؟
چندنی چوڑو سی خنم ہرتینے یود لے سومالیک
چندنی لونو چی لونا ان لے سومالیک؟
چندنی لونو توگی لونا ان لے سومالیک
چندنی فلو چی فلو ان لے سومالیک؟
چندنی فلو بیوری فلو ان لے سومالیک(۴۲)
ترجمہ:
اس نیلے سمندر سے اور کیا چیز پیدا ہوئی اے سومالیک؟
اس نیلے سمندر پر ایک عظیم سبزہ زار پیدا ہوا اے
سومالیک
اس عظیم سبزہ زار سے اور کیا چیز پیدا ہوئی اے سومالیک؟
اس عیظم سبزہ زار سے صندل کا درخت پیدا ہوا اے سومالیک
صندل کی جڑوں نے کس چیز کو سہارا دیا ہوا ہے اے
سومالیک؟
صندل کی جڑوں نے زمین کو سہارا دیا ہوا ہے اے سومالیک
صندل کے تنے نے کس چیز کو سہارا دیا ہوا ہے اے سومالیک؟
صندل کے تنے نے چٹانوں کو سہارا دیا ہوا ہے اے سومالیک
صندل کی شاخوں نے کس چیز کو سہارا دیا ہوا ہے اے
سومالیک؟
صندل کی شاخوں نے پہاڑوں کو سہارا دیا ہوا ہے اے
سومالیک
صندل کے بالائی سرے نے کس چیز کو سہارا دیا ہوا ہے اے
سومالیک؟
صندل کے بالائی سرے نے آسمان کو سہارا دیا ہوا ہے اے
سومالیک
صندل کے پتے کس قسم کے پتے ہیں اے سومالیک؟
صندل کے پتے زہریلے پتے ہیں اے سومالیک
صندل کے پھل کس قسم کے پھل ہیں اے سومالیک؟
صندل کے پھل حسن و جمال کے پھل ہیں اے سومالیک
ان
اشعار میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ سب سے پہلے نیلے سمندر وجود میں آیا اس
کے بعد اس کے اوپر زمین کی تہہ بچھائی گئی اور اس پر سب سے پہلے سبزہ اور نباتات
نمودار ہوئے ۔ بون عقیدے کے مطابق اس سبزہ زار کے بعد صندل کا درخت پیدا ہوا ۔
لوبسانگ کے مطابق یہ علامتی زبان میں اظہار ہے اس کے مختلف حصوں نے مختلف چیزوں کو
سہارا دیا ہوا ہے اس سے مراد موسم اور حالات ہیں جن کے ارتباط سے کائنات کا نظام
چل رہا ہے۔
کاچو سکندر لکھتے ہیں:‘‘آفرینش عالم کے بارے میں ان کا
تصور کچھ اس قسم کاتھا کہ ابتداء میں کرہ ارض پانی پر قائم ہوا وہ اس طرح کہ پانی
کی سطح پر بتدریج دھول جمتی گئی۔ جس پر نباتات اُگ آئی۔ پھر چٹانیں وجود میں آئیں
اور درخت اُگے۔ چندن (صندل ) کے درخت پر چاٹونگ ٹونگ کرگو پنچھی اترا یعنی جاندار
وجود میں آئے۔ چاٹونگ ٹونگ کرگو لہایول (دیوتاؤں کے دیس یعنی آسمان) سے تھا۔
ابتدائے آفرینش کا یہ تصور بون مت کی عکاسی کرتا ہے۔(۴۳)
انسائیکلوپیڈیا
بریٹنیکا میں بون مت کے متعلق مرقوم ہے:
Bon, indigenous religion
of Tibet that when absorbed by the Buddhist tradition introduced form India in
the 8th century, gave Tibetan Buddhism much of its distinctive character.
The original features of
Bon seem to have included a cult of divine kingship. The king being regarded as
manifestations of the sky divinity (reformulated in Buddhism as the
reincarnation of Lamas) an order of oracular priests (their counterpart the
Buddhist sooth Sayers) a cult of the gods of the atmosphere, the earth, and
subterranean regions (now lesser deities in the Buddhist pantheon) and the
practice of blood sacrifices.
In the 8th and 9th
centuries, struggles took place between the ruling house of Tibet, whose
members sided with Buddhism, and the powerful noble families who sided with
Bon. Bon, in order to compete with its more sophisticated rival, was deliberately
developed into a systematized religion with specific doctrine and a sacred
literature. Although any serious Bon claims to religious supremacy were ended
by the late 8th century persecution by king Kharisong Desten, it was never
completely destroyed and continues to survive as religion it is own right on
the northern and eastern frontiers of Tibet.(۴۴)
بون’
تبت سے تعلق رکھنے والا مذہب ہے یہ مذہب جب بدھی روایت کے ساتھ مدغم ہوگیا جسے
بھارت کی طرف سے آٹھویں صدی عیسوی میں متعارف کیا گیا تھاتو اس نے تبتی بدھ مت کو
اس کی بہت سے خصوصیات بھی عنایت کئے۔ بون مت کی اصل خصوصیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ
آسمانی بادشاہت کا قائل ہے۔ اآسمانی دیوتا کی علامت کے طور پر بادشاہ کی عزت کی
جاتی ہے۔ جس طرح لامائیت میں اس کی تجدید کی گئی ہے اسی طرح بدھ مت میں بھی اس کو
ری فارمولیٹ کیا گیا ہے۔ ان کے مذہبی گرو کے حکم کے مطابق یہ لوگ مختلف دیوتاؤں کی
عبادت کرتے ہیں مثلاآسمانی دیوتا’زمین کادیوتا ’ زمین کے نیچے کا دیوتا اور ان کے
لئے خون کے نذرانے چڑھاتے ہیں۔ آٹھویں اور نویں صدی میں تبت کے حکمران خاندان جو
کہ بدھ مت کے پیرو کار تھے اور وہاں کے طاقت ور و معزز خاندان جو بون مت کے پیرو
کار تھے کے درمیان رسہ کشی شروع ہوگئی۔ بون مت کو حریف کے غلط استدلالات کے ساتھ
مقابلہ کرنا پڑا جس کی وجہ سے دانستہ طور پرمذہبی اصول و عقائد اور مقدس کتابوں کی
صورت میں ایک منتظم مذہب کے طور پر ترقی کی ۔جبکہ کوئی بھی سنجیدہ بون یہ دعوی
کرتا ہے کہ مذہبی تفوق کو آٹھویں صدی کے آخر میں بادشاہ کھری سونگ دستن نے ایذا
رسانی کے ذریعہ ختم کر دیا تھا۔ یہ بالکل ہی ختم نہیں ہوا بلکہ تبت کے شمالی اور
مشرقی سرحدوں پر ایک مذہب کے طور پر باقی اور جاری رہا۔
Caxton
Encyclopediaمیں بون مت کا تعارف ‘‘بون پو’’ کے عنوان
کے تحت یوں کیا گیا ہے:
Bon-po :The indigenous
religion of Tibet before the introduction of Buddhism in the 7th century A.D.
It originated in the Ngari district of Tibet and was essentially a faith of
nature worship full of strange rites and hideous gods. The world was thought of
as being divided into three spheres: the heaven, the surface of the earth which
was the home of men, and the lower sphere, or the waters inhabited by water
sprites or demigods in the shape of eels. The heaven were ruled by a god of his
awesome wife, while the sky supported on a column that rested on the back of a
golden turtle which swan in the cosmic waters. The world of men was created by
the chopping up of a dragon with nine heads and was then dominated by a female
divinity riding a red colt, and governed by a hierarchy of genies, dwarfs and
giants whom it was essential to placate.
Bon-po was in conflict
in Buddhism for several centuries, ending in a compromise by which Buddhism
absorbed a number of Bon-po rites in Tibet. Among these are the annual dance
for the exorcising of devils and the offering of stones and flags over sacred
places. At the present time, Bon-po priests in Buddhist monasteries are a
tolerated but subsidiary clergy, engaging almost entirely in exorcism and
divination.(۴۵)
بون
پو’ ساتویں صدی عیسوی میں بدھ مت کے تعارف سے پہلے تبت سے تعلق رکھنے والامذہب
تھا۔ یہ اصلا تبت کے نگری ضلع سے تعلق رکھتاہے اور بنیادی طور پر یہ مظاہر پرستی’
بہت ہی تعجب خیز رسومات اور بھیانک اور وحشت انگیز الٰہوں پر ایمان رکھناہے۔ ان کے
خیال میں عالم تین حصوں میں منقسم ہے ایک عالم بالا یاآسمان’ زمین جہاں انسان آباد
ہیں اور زیر زمین جہاں بد روحیں آباد ہیں۔ آسمان پر دیوتا اپنی خوبصورت بیوی کے
ساتھ حکومت کرتا ہے جبکہ آسمان ایک ستون کے سہارے قائم ہے جو کہ سنہرے پرندے کی
پیٹھ سے لگا ہوا ہے اور وہ راج ہنس ہے جو کائنات کے پانی میں ہے۔انسانوں کی دنیا
ایک نو سروں والے اژدھے کو مار کر بنایا گیاہے پھر اس پر ایک دیوی کے ذریعہ غلبہ
پایا گیا جو کہ سرخ رنگ کے جوان گھوڑے پر سوار تھی۔اس پر جنوں میں سے ایک پیشوا ’
بونے’ اور عفریت کے ذریعہ حکومت کی گئی جن کے لئے تسلی دینا اور منانا لازمی تھا۔
بون پو مختلف ممالک میں بدھ مت سے ٹکڑایا اور متصادم ہوا ۔ بالاخر بدھ مت کے ساتھ
مفاہمت کر لی جس نے بہت سے بون پو رسومات کوتبت میں اپنے اندر جذب کر لیا۔ان میں
سے ایک سالانہ رقص ہے جو وہ اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے منعقد کرتے ہیں اور
مقدس مقامات پر پتھر اور جھنڈوں کے نذرانی چڑھاتے ہیں۔ بون پو مرشد بدھ مت کی
خقانقاہوں میں برداشت کیا جاتاہے مگر کلیسا ئی رکن کے امداد ی لوازم کے طور پر۔ اس
کی دلکشی عموما اس کے جنتر منتر ’ جھاڑ پھونک اور مستقبل کی پیش گوئی میں ہے۔
بون مت کی کتابیں:
بونپووں
’جو بون مذہب کے علماء اور مذہبی اسکالر ہوتے تھے ’نے بہت سی باتوں میں بدھ مت
کاتتبع کرنے او ر ان کی پیروی کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ چنانچہ انہوں نے
خود اپنے مقدس ‘‘کاگیور’’ اور ‘‘استن گیور’’ ترتیب دے رکھے تھے جو ان کی مقدس
کتابیں تھیں۔ اسی طرح دھیان استغراق اور فلسفے کی اصطلاحات کا فنی ذخیرہ الفاظ
لامائیت کے نمونے پر مرتب کیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ کتاب ‘‘گرب تھب سیل گی میلونگ’’
میں بون مت کے مختلف مدارج درج ہیں۔ نیز اس مت کے مختلف زبانوں میں ہندو دیوی
دیوتا اپنانے کا بھی ذکر ہے۔ بونپو کتاب ‘‘لہوبوم’’ لامائیت نے رد و بدل کے ساتھ
قبول کی ہے۔(۴۶)
بون مت کا عروج و زوال:
بون مت
کو ہلافو کیسار کے زمانہ میں عروج حاصل ہوا۔ بون تہذیب ہی کے زیر اثر تبت کو بھی
عروج ملا ’ ایک طرف سنکیانگ سمیت چین کے بہت سارے علاقے فتح کر لئے گئے تو دوسری
طرف ہندوستان کے بہت سے سرحدی علاقوں کو تبتی نوآبادیوں میں تبدیل کر دیا۔ چوتھی
صدی اوردوسری صدی قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں ختن سمیت چینی ترکستان پر تبت کا
مکمل قبضہ ہوا تھا۔ کیسار جسے تبتی تہذیب کا ہیرو مانا جاتا ہے اسی دور کے ہیں۔ وہ
بنیادی طور پر ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا مگر ذہانت ’ بہادری ’ حکمت عملی
اور دیگر کمالات کی وجہ سے تبت کا بادشاہ بن گیا۔ اس نے اپنے عہد حکومت میں اپنے
ملک کو اس قدر وسعت دی کہ تبت لداخ سے لیکر شمالی افعانستان تک کو اپنی سلطنت میں
شامل کر لیا تھا۔اس کے بارے میں تبت’ چین’ لداخ اور بلتستان میں لوک گیت اور لوک
کہانیاں بہت مشہور ہیں۔ ہلافو کیسار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہلا یعنی
دیوتاتھا۔ مگر تحقیق سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی بلکہ محققین کی رائے یہ ہے کہ یہ
انسان ہی تھا مگر عام انسان کے مقابلے میں بڑی صلاحیتوں کامالک تھا اسی وجہ سے
لوگوں نے اس کو ہلافو یعنی دیوتا کا بیٹا /چھوٹا دیوتا کاخطاب دیا۔(۴۷)
ہلافو
کیسار کا زمانہ بون مت کے عروج کا زمانہ تھا ۔ بعض مؤرخین کاخیال ہے کہ ہلافو
کیسار کی وفات کے ساتھ ہی بون مت کو بھی زوال آگیا جیسا کہ سہرودری لکھتے
ہیں:‘‘محققین کا خیال ہے کہ بلتستان میں چھوس پون کو اس وقت عروج حاصل ہوا جب ان
علاقوں پر رگیلفو کیسر(رگیالفو کیسار) کی حکومت قائم تھی۔ جس نے اپنی سلطنت میں
تبت’ لداخ’ بلتستان’ گلگت’ چترال اور شمالی افغانستان کو شامل کیا تھا۔ اس کی طرف
منسوب لوک کہانی بہت مشہور ہے۔ شاید رگیالفو کی موت کے بعد چھوس پون کازوال شروع
ہوا اور بدھ مت کو فروغ ملنے لگا۔’’(۴۸)
اس کے
زوال سے متعلق تاریخ قدیم لداخ کا مصنف لکھتے ہیں کہ غالبا چھٹی یا ساتویں صدی
عیسوی میں تبت میں بون مت کازوال شروع ہوا اور اس کی جگہ بدھ مت نے لے لی۔ ساتویں
صدی عیسوی میں شاہ سونگ سن زگمپو نے بدھ مت کی سرپرستی شروع کی اورکھری سونگ الدے
چھن (۷۵۵ء
لغایت۷۹۷ء)
نے بون مت کو دبایا اور اس مذہب کا زوال شروع ہوا۔ یہاں تک کہ نیماگون کے ورودلداخ
(دسویں صدی عیسوی) کے وقت لداخ میں اس مت کے غالبا بہت کم نام لیوا موجود تھے۔
نیماگون کے بعد اس کی اولاد بدھ مت کی شیدائی رہی اور بدھ مت شاہی سرپرستی کی
بدولت ترقی کی منزلیں طے کرنے لگی اوربون مت کی صرف یادیں اورکچھ یادگاریں باقی رہ
گئیں۔(۴۹)
چونکہ
اس کو رواج دینے والا حکمران وقت تھا اس لئے اس کو قبولیت حاصل ہو تی گئی اور مرور
زمانہ کے ساتھ ساتھ سیاسی اقدار اور اثر ونفوذ کی بنا پر یہ مذہب لداخ اور بلتستان
میں بھی پھیلتا گیا۔مگر جب رواج دینے والے نہ رہے تو آہستہ آہستہ یہ مذہب بھی رو
بہ زوال رہا اور آخر جب ان علاقوں میں بدھ مت نے قدم رکھا تو یہاں کے لوگ بدھ مت
کے پیرو کار بن گئے اور ان کے اندر اپنا قدیم مذہب کا رنگ بھی قائم رہا جس کی بنا
پران دونوں کا ملغوبہ ایک نیا مذہب رواج پا گیا جسے لاما ازم کہا جاتا ہے’ یا جس
کو تبتی بدھ مت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پھر جب آٹھویں صدی ہجری میں بلتستان
اور اس کے گرد و نواح میں مسلم مبلغین نے باقاعدہ تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا اور
امیر کبیر سید علی ہمدانی اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ان علاقوں میں آئے اور یہاں کے
لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا تو یہاں سے بون مت ’ بدھ مت اور لاما ازم کا خاتمہ ہو
گیا مگر قدیم نظریات کا اثر اب بھی یہاں کے معاشرے میں پایا جاتا ہے ۔ اس وقت
کیلاش گرام( کافرستان) کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی یہ مذہب نہیں پایا جاتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حواله جات
(۱) دیکھئے لوبسانگ’ غلام حسن’ تاریخ بون فلسفہ
’ سگما پریس اردو بازار راولپنڈی 1997ء’ ص:۲۱
(۲) دیکھئے سہروردی ’ غلام حسن’ تاریخ بلتستان
’ص:۳۶
(۳) عبد الرشید صدیقی مولانا’ سابق مدیر تعلیم
جامعہ دار العلوم بلتستان ’ موجودہ رئیس مجلس العمل جمعیت أہل حدیث بلتستان و مدیر
التحریر سہ ماہی مجلہ التراث ’ بلتستان
(۴) دیکھئے لوبسانگ’ غلام حسن’ تاریخ بون فلسفہ
’ص:۲۱
(۵) دیکھئے کاچو سکندر خان سکندر’ قدیم لداخ
تاریخ و تمدن’ ص:۴۹۵
(۶) دیکھئے لوبسانگ’ تاریخ بون فلسفہ ’ص: ۱۹۔۲۰’ سکندر کاچو’ قدیم لداخ
تاریخ و تمدن’ ص:۴۸۸
(۷) لوبسانگ’ تاریخ بون فلسفہ ’ص:۱۱
(۸) دیکھئے ’حشمت اللہ مولوی
۔ تاریخ جموں ، ویری ناگ پبلیشرز میر پور آزاد کشمیر ’ ص:۲۰۳
(۹) دیکھئے سکندر ’ کاچو سکندر خان’ قدیم لداخ
تاریخ و تمدن ’ص:۴۲۱
(۱۰) دیکھئے ’غلام حسن سہروردی’ تاریخ بلتستان
’ص:۳۶
(۱۱) دیکھئے لوبسانگ ’ تاریخ بون فلسفہ ص:۲۲
(۱۲) ہلا (Hla): بون عقیدے کے مطابق ہلا سے مراد ایک ایسی ہستی ہے جو موجود تو
ہے مگر انسان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے’ صرف وجدانی کیفیت میں اس کی موجودگی
کومحسوس کیاجا سکتا ہے۔کبھی ان سے مجسم صورت میں بھی ملاقات ہو سکتی ہے۔ ہلا سے
دیوتا بھی مراد لیتے ہیں۔بلتستان کے لوگ اب بھی یہ عقید ہ رکھتے ہیں کہ ہلا نامی
مخلوق جن اور فرشتوں کے درمیانی ایک مخلوق ہے اور وہ اپنی شکل بدلنے پر قدرت رکھتی
ہے ۔ ہلانو یا ہلامو: ہلا کا وہ نوع جسے جنسی لحاظ سے مؤنث شمار کیا جاتاہے ہلامو
یا ہلانو کہلاتا ہے۔ ہلو: بون عقیدے میں ہلو سے مراد مافوق الفطرت مخلوقات کی وہ
قسم جنہیں ارواح خبیثہ کے طور پر لیتے ہیں۔
(۱۳) دیکھئے لوبسانگ ’ تاریخ بون فلسفہ ص:۲۳
(۱۴) سکندر’ کاچو سکندر خان’ قدیم لداخ تاریخ و
تمدن ’ کاچو پبلشرز لیہہ لداخ’ ص:۴۸۷۔۴۸۸
(۱۵) کاچو سکند ’ قدیم لداخ تاریخ و تمدن ص:۴۸۸
(۱۶) لوبسانگ ’ تاریخ بون فلسفہ ص:۲۱
(۱۷) دیکھئے حسین آبادی’ تاریخ بلتستان ص:۲۱
(۱۸) لوبسانک ’غلام حسن۔ تاریخ بون فلسفہ ’ص:۲۴۔ سگما پریس راولپنڈی
(۱۹) سہرودری ’غلام حسن ۔ تاریخ بلتستان ص:۳۶
(۲۰) دیکھئے لوبسانگ’ غلام حسن۔ می منگ
رگیاسترت’ سیریز کیسار ص:۱۶
(۲۱) دیکھئے سکندر خان کاچو’ قدیم لداخ ص:۴۹۶
(۲۲) دیکھئے لوبسانگ’ تاریخ بون فلسفہ ص:۲۴۔۲۶، سہروردی تاریخ بلتستان
ص:۴۰
(۲۳) دیکھئے لوبسانگ ’ تاریخ بون فلسفہ ص:۳۲
(۲۴) ماخوذ از انٹرویو از صدیقی عبدالرشید
مولانا ’ مدیر التحریر سہ ماہی التراث’ رئیس مجلس العمل جمعیت اہل حدیث بلتستان
(۲۵) اختلاف مکانی کی وجہ سے لہجے کا فرق ہے’
ورنہ مطلب ایک ہی ہے۔
(۲۶) سکندر ’ کاچو ’ قدیم لداخ ص:۴۹۱
(۲۷) تفصیل کے لئے دیکھئے لوبسانگ ’ تاریخ بون
فلسفہ’ ص:۲۴۔۳۵
(۲۸) دیکھئے سکندر کاچو ’ قدیم لداخ ص:۴۹۹
(۲۹) دیکھئے خاور عبد الحمید’ قراقرم ہندوکش’
مضمون شمالی علاقہ جا ت میں اشاعت اسلام’ ص:۲۰۱
(۳۰) دیکھئے سکندر کاچو’ قدیم لداخ ص:۴۹۴۔۴۹۵
(۳۱) سہروردی’ تاریخ بلتستان ص:۴۳
(۳۲) سہروردی ’ تاریخ بلتستان ص:۴۰
(۳۳) دیکھئے لوبسانگ ’ تاریخ بون فلسفہ ص:۹۶
(۳۴) صدیقی’ عبد الرشید مولانا ’ مدیر التحریر
مجلہ التراث
(۳۵) عبد اللہ کریم ماہر بلتی ثقافت
(۳۶) سکندر ’ کاچو سکندر خان’ قدیم لداخ تاریخ و
تمدن ص:۵۹۸
(۳۷) یہاں درج کردہ سومالیک کا گیت چھوربٹ ورژن
ہے’ جس کو لوبسانگ نے اختر علی سے لیا ہے۔ میں نے اپنے گاؤں کے محمد ابراہیم حیدر
پہ ’ محمد علی عرف کھی فرو اور عبد اللہ کریم اور بعض دوسرے علاقوں کے لوگوں سے
بھی اس بارے میں تحقیق کی تو ان میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ’ صرف بعض الفاظ میں
فرق ہے اگرچہ معنوی طور پر ایک جیسا ہے۔
(۳۸) دیکھئے سکندر ’ کاچو سکندر خان’ قدیم لداخ’
ص:۵۹۸
(۳۹) A.H. Francke, Baltistan and Ladakh a
History p.25 Lok Virsa
Publishing House
Islamabad 1986, First Published as "History of Western Tibet" London
1907
(۴۰) دیکھئے لوبسانگ’ تاریخ بون فلسفہ’ ص:۱۰۱
(۴۱) دیکھئے ’ سکندر ’کاچو سکندر خان’ قدیم لداخ
تاریخ و تمدن’ ص:۶۱۸
(۴۲) دیکھئے لوبسانگ ’ تاریخ بون فلسفہ’ ص:۱۰۷، انٹرویو از محمد
ابراہیم حیدر پہ ساکن گاؤں یوگو
(۴۳) دیکھئے سکندر کاچو’ قدیم لداخ ’ص:۵۹۸
(۴۴) دیکھئےp.350
vol.2 The New Incyclopedia Britanaca ’’ ‘‘Bon
(۴۵) دیکھئے Caxton
Encyclopedia p.758 vol.3
(۴۶) دیکھئے سکندر کاچو’ قدیم لداخ تاریخ و
تمدن’ ص:۴۹۲۔۴۹۳
(۴۷) تفصیل کے لئے دیکھئے لوبسانگ’ تاریخ بون
فلسفہ’ باب کیسارزم’ ص:۴۰۔۸۰
(۴۸) دیکھئے سہروردی ’ تاریخ بلتستان ’ص:۴۳
(۴۹) سکندر ’ کاچو ’ قدیم لداخ ’ص:۴۲۱’ ۴۹۸