غیبت ایک معاشرتی گناہ

0






غیبت ایک معاشرتی گناہ

          بعض گناہ ایسے ہیں جن کے اثرات دور رس اورتباہ کن ہوتے ہیں لیکن انسان ان کے بارے میں احتیاط کرنے کے بجائے ان کو کمتر اور حقیر سمجھ کر لاپروائی کے ساتھ ان کا مسلسل ارتکاب کرتا جاتا ہے ان میں سے ایک گناہ "غیبت" ہے۔

غیبت کا مفہوم:

          غیبت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے بھائی کی اس کمزوری اور عیب کو اس کی غیر موجودگی میں بیان کرے جس کو اگر اس کی موجودگی میں بیان کیاجائے تو وہ برا محسوس کرتا ہے۔علامہ راغب اصفہانی غیبت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          "الغيبة  أن يذكر الانسان غيره  لما فيه من عيب من غير ان احوج إلى ذكره."(المفردات ص:۳۶۷)

          غیبت یہ ہے کہ ایک شخص بلا کسی ضرورت و حاجت کے دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں موجود ہے۔

          علامہ ابن الاثیر غیب کی یوں تعریف کرتے ہیں:

                "هو أن يذكر الإنسان في غيبته سوء  و إن كان فيه ، فإذا ذكرته بما ليس فيه فهو البهت و البهتان". (النہایۃ ص:۹۹۳/۳)

          غیبت یہ ہے کہ انسان کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کا ذکر کیا جائے بشرطیکہ وہ برائی اس میں موجود ہو اور اگر تم اس برائی کا ذکر کرو جو اس میں موجود نہیں ہے تو یہ سراسر بہتان ہوگا۔

          گویا کسی کی غیر موجود گی میں اس کی اس برائی کا ذکر کنا جو اس شخص کے اندر موجود ہے وہ غیبت ہے اور اگر وہ برائی یا عیب اس شخص کے اندر موجود ہی نہ ہو مگر اس کی طرف منسوب کر کے بیان کیا جائے تو یہ اس شخص پر بہتان ہے غیبت نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہی بات ایک حدیث میں یوں بیان فرمائی ہے۔

          عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قيل يا رسول الله ما لغيبة؟قال ذكرك أخاك بما يكره، قيل أفرأيت إن كان في أخي ما أقول؟ قال صلى الله عليه و سلم: إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته و إن لم كن فيه ما تقول فقد بهته. .(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ باب تحریم الغیبۃ ’ ابو داود کتاب الاداب باب فی الغیبۃ ’ ترمذی کتاب البر و الصلۃ باب ما جاء فی الغیبۃ)

          حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ غیبت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کے اس عیب کا ذکر کرے جس کا ذکر اس کو نا پسند ہو۔ کہا گیا تو یہ فرمائیے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو جس کا میں ذکر کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم وہ عیب بیان کرے جو اس میں موجود ہے تبھی تم نے اس کی غیبت کی اور اگر تم نے وہ عیب بیان کیا جو اس میں موجود ہی نہیں ہے تو پھر تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔

غیبت کرنے کے طریقے:

          غیبت اور عیب جوئی صرف زبان کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کے عیب کو کسی بھی طریقے سے بیان کیا جائے جس سے اس کی تذلیل اور تحقیر ہو‘‘ غیبت ’’ہے۔ علامہ زبیدی لکھتے ہیں:

          ‘‘غیبت صرف زبان ہی تک محدود نہیں بلکہ آنکھ ’ اشارہ آبرو اور دوسرے اعضاء کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے۔’’(تاج العروس ص:۴۱۷/۱)

          غیبت کا تعلق انسان کے ہر عیب کے بیان سے ہے خواہ اس کا تعلق امور دینیہ سے ہو یا دنیا سے’ امور خلقیہ سے ہو یا امور کسبیہ سے کسی بھی حال میں عیب جوئی کا پہلو نکلتا ہو وہ غیبت ہے۔ علامہ نووی لکھتے ہیں:

          "فاما الغيبة فهی ذکرك الانسان بما فیه مما یکره سواء کان فی بدنه او دینه او دنیاہ او نفسه او خلقه او خلقه او ماله او ولده او والده او زوجه او خادمه او مملوکه او عمامته او ثوبه او مشیته و حرکته و بشاشته وخلاعته و عبوسه و طلاقته او غیر ذلك مما یتعلق به سوا ء ذکرته بلفظك اوکتابك او رمزت او اشرت الیه بعینك او یدك او رأسك او نحو ذلك."(الاذکار للنووی باب تحریم الغیبۃ والنمیمۃ)

          غیبت یہ ہے کہ تم کسی شخص کے بارے میں اس عیب کا ذکر کرو جو اس کو ناگوار اور ناپسند ہو عام ازیں کہ وہ عیب اس کے بدن کا ہو یا اس کے دین کا ’ یا اس کی دنیا کا یا اس کے نفس کا یا اس کی جسمانی بناوٹ کا یا اس کے اخلاق کا یا اس کے مال یا اس کی اولاد کا یا اس کے والد کا یا اس کی بیوی کا یا اس کے نوکر کا یا اس کے لباس کا یا اس کی چال ڈھال کا یا اس کے ہنس مکھ اور ترش روہونے کا یا اس کے متعلق کسی اور شے کا۔ اور یہ کہ خواہ تو اس کے (عیب) کا ذکر اپنے الفاظ اور گفتگو میں کرے یا تحریر کے ذریعے یا اپنی آنکھ یا ہاتھ یا سر وغیرہ کے اشارہ کنایہ سے۔

          امام غزالی بھی تقریبا اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں غیبت کی حدود اور وہ امور بیان کرتے ہیں جن میں عیب جوئی کرنا غیبت میں شامل ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

          غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کے متعلق اس چیز کا ذکر کرو جس کاتذکرہ اگر وہ سنے تو اس کو ناگوار ہو’ خواہ اس کے بدن کا کوئی نقص ذکر کرو یا اس کے نسب کا یا اس کے اخلاق کا یا اس کے قول و فعل کا یا اس کے دین کا یا اس کی دنیا کا حتی کہ کپڑوں یا مکان یا اس کی سواری کے متعلق عیب اور نقص کا ذکر کرو۔‘‘حتی فی ثوبہ و دارہ و دابتہ’’ (احیاء العلوم باب الغیبۃ)

          رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جہاں دینی عیب جوئی کو غیبت قرار دیا ہے وہاں انسانی جسمانی عییب جوئی کو بھی غیبت قرار دیا ہے۔ احادیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہا کہ وہ کوتاہ قد ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ‘‘ تو نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اس کو سمندر میں ملا دیا جائے تو اس کو بھی کڑوا کردے۔’’ حدیث کے الفاظ ہیں:

لقد قلت کلمة لو مزجت بماء البحر لمزجته. (ابوداود کتاب الادب باب فی الغیبۃ’ ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب تحریم الغیبۃ)

          گویا کسی انسان کا وہ عیب جس کا بیان وہ پسند نہ کرتا ہو اس کو اس کی عدم موجودگی میں کسی بھی طریقے سے بیان کیاجائے وہ ‘‘غیبت’’ ہی ہے۔ آج کل میڈیا کا دور ہے لوگ الیکٹرونک میڈیا ’ پرنٹ میڈیا’ انٹر نیٹ ’ ایس ایم ایس اور دیگر سوشل نیٹ ورک کے ذریعے لوگوں کے عیوب بیان کرتے ہیں ’ یہ سارے طریقے غیبت میں شمار ہوتے ہیں۔

          مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:

          ‘‘خوب یاد رکھو کہ جو حکم زبان کا ہے وہی قلم کا ہے’ زبان سے جھوٹ بولنا’ غیبت کرنا جس طرح جائز نہیں قلم سے بھی جائز نہیں۔ ایسے ہی قلم سے فضول مضامین لکھے کا اثر ہے ۔ موٹی سے بات ہے کہ جیسے زبان ترجمان قلب ہے ایسے ہی قلم بھی ترجمان قلب ہے۔ جو بات زبان سے منع ہوگی قلم سے کیوں منع نہ ہوگی’ بلکہ قلم کا گناہ زبان سے سخت ہونا چاہئے کیونکہ زبان کی باتوں کو ثبات اور بقا نہیں۔ زبان کی باتوں کا اثر تھوڑی دور تک پہنچتا ہے یعنی صرف وہاں تک جہاں تک وہ آواز پہنچے۔ اگر کسی نے زبان سے غیبت کی تو سننے والے دو چار ہوں گے ’ غیبت کرنے والا اتنے ہی مجمع کے گناہ گار کرنے کا سبب بنا اور اس شخص کی برائی صرف اتنے ہی مجمع میں ہوئی بخلاف قلم کے کہ اس کی آواز مشر ق سے مغرب تک پہنچتی ہے جتنے آدمی اس برائی میں شریک ہوں گے اس سب کا سبب یہی شخص ہوگا۔ ہزاروں اشخاص کے سامنے اس کی بی عزتی ہوگی’ تنہائی میں کسی کے جوتا مارنا اور اثر رکھتا ہے اور ہزار دوہزار کے مجمع میں مارنا اور اثر رکھتا ہے۔ اہل قلم اپنے آپ کو مرفوع القلم سمجھتے ہیں جیسے آج کل شاعروں نے سمجھ رکھا ہے کہ شعر میں سب روا ہے۔یہ خیال بالکل غلط ہے۔’’(التبلیغ از اشرف علی تھانوی ص:۲۵/۲۲)

غیبت ایک وبائے عام:

          غیبت ایک معاشرتی وبا ہے جس میں ہر خاص و عام مبتلاء ہے۔ آج کل ہماری ہر مجلس میں چسکے لے لے کر نہ صرف اپنے دشمنوں کی بلکہ دوستوں کی بھی غیبت کی جاتی ہے۔ دین دار طبقہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ہماری مذہبی مجالس میں بھی غیبت ہوتی ہے وہ بڑے مزے سے غیبت کرتے ہیں اور غیبت سنتے بھی ہیں اور ان کے چہروں پر اس گناہ کی ذرا بھی ناگوار ی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اس میں بڑا چسکا ہوتا ہے۔بعض لوگوں کو تو اس سے شراب کی طرح سرور ملتا ہے ۔ علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

          غیبت کرنے میں اگر لوگ مبتلا ہیں ’ غیبت میں کھجوروں کی میٹھاس ’ شراب کی سی تیزی اور سرور ہے’ حالانکہ در اصل غیبت لوگوں کے گوشت کا سالن ہے ’ اللہ تعالی اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔’’(روح المعانی ص:۱۶۱/۲۶)

          گاؤں دیہات میں لوگ چوپالوں ’ بیٹھکوں میں جمع ہو کر بیٹھتے ہیں وہاں دنیا کا اور کوئی کام نہیں ہوتا نہ ہی دین کا کوئی کام ہوتا ہے سوائے ہنسی مذاق’ غیبت ’ عیب جوئی ’ دروغ گوئی ’ چغلی ’ لطیفہ گوئی اور دیگر فضولیات کے’ لوگوں نے اس کا م کا نام تفریح طبع اور دل بہلانا رکھا ہے۔ بعض لوگ ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھتے ہیں اور مختلف چینلوں پر ہونے والے مختلف لغویات اور فضولیات سے دل بہلاتے ہیں۔ان چینلوں پر یا تو دروغ گوئی پر مشتمل ڈرامے اور فلمیں چل رہی ہوتی ہیں یا ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی اور غیبت کرنے والے ماہرین ابنی زبان درازی کاجوہر دکھا رہے ہوتے ہیں۔آج کل سوشل میڈیا نے تو اور بھی تباہی مچائی ہوئی ہے۔ لوگ انٹر نیٹ پر مختلف قسم کی فضولیات کے ساتھ دروغ گوئی اور لوگوں کی غیبت کرنے کا مزہ لیتے ا نظر آتے ہیں۔

          الغرض تمام لوگ کسی نہ کسی صورت میں غیبت اور چغل خوری کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ غیبت اور عیب جوئی سے شاید کوئی محفوظ ہو ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ عالم ہو یا جاہل’ طالب علم ہو یا استاد’ سیاستدان ہو یا قانون دان’ امیر ہو یا غریب’ چھوٹا ہو یا بڑا’ مرد ہو یا عورت ’ عوام ہو یا خواص سب اس گناہ میں مبتلا ہیں۔کوئی بھی محفل ہو’ اجتماع ہو’ مجلس ہو’ بیٹھک ہو سب لوگ اس سے لطف اٹھاتے ہیں اور مزے سے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتے ہیں۔مولانا تھانوی کے مطابق اس میں سب سے زیادہ طالب علم اور دین دار لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

          ‘‘عوام الناس اگر غیبت میں مبتلا ہیں تو وہ اکثر ایسے لوگوں کو برا کہتے ہیں جو واقع میں برے ہیں اور ہم لوگ (علماء و فضلاء) ایسے لوگوں کو برا کہتے ہیں جو کہ نہایت صالح’ متقی اور عالم فاضل ہیں۔ اکثر طالب علموں کی زبان سے سنا ہوگا کہ فلاں شخص کو آتا ہی کیا ہے؟فلاں میں یہ عیب ہے ۔ اگرچہ ان فضلاء میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہ فضول سے مشتق ہیں اور ان کی غیبت (بعض صورتوں میں) جائز بھی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو خلق اللہ کو گمراہ کر رہے ہیں’ لیکن بہتر یہ ہے کہ ان کی غیبت سے بھی اجتناب کیا جائے کیونکہ جب غیبت کی عادت ہو جاتی ہے تو اچھے برے کی تمیزنہیں رہتی اور حفظ حدود نہیں ہو سکتا۔ یہ حالت ہوتی ہے کہ جس کی طرف سے ذرا بھی کدورت ہوئی فورا اس کا تذکرہ برائی کے ساتھ شروع کر دیا۔’’(التبلیغ ص:۲۳/۲۳)

غیبت کے اسباب:

          مادی طور پر کوئی مالی ’ جسمانی یا روحانی فوائد حاصل نہ ہونے کے باوجود لوگ غیبت کے گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔اگراس کے اسباب پر غور کیاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ درج ذیل اسباب کی وجہ سے انسان اس مرض میں مبتلا ہو جاتاہے:

۱۔ غرور و تکبر :

           غیبت کا ایک اہم سبب تکبر اور غرور ہے۔ انسان جب اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر اور کمتر خیال کرتا ہے تو پھر وہ ان کی غیبت’ عیب جوئی و عیب گوئی کرتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص مذہبی یا دین داری کے اعتبار سے اپنے آپ کو دین دار اور باعمل جبکہ دوسروں کو بے دین اور بے عمل خیال کرتا ہے تب وہ دوسروں کی عیب جوئی و عیب گوئی پر اتر آتا ہے۔

          اسی طرح جب کسی عالم کو اپنے علم پر گھمنڈ ہو اور وہ اپنے آپ کو علامۃ الدہر خیال کرتا ہو تو پھر وہ دوسرے علماء کی تحقیر کرتا ہے اور ان کی کمزویوں کوموقع بموقع مجالس اور محافل اور دروس میں بیان کرتا رہتا ہے تاکہ ان کی توہین ہو اور اس کی اپنی توقیر بڑھے۔

۲۔ غصہ اور غضب:

           بعض دفعہ جب کوئی شخص کسی پر غصہ ہوتا ہے تو وہ شخص دوسروں کے عیوب و نقائص بیان کرکے اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔یوں غیبت کا ارتکاب کرتا ہے۔

۳۔ اپنے عیوب و نقائص کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے:

          بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے عیوب اور نقائص کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے دوسروں کے عیوب و نقائص کو بیان کیاجاتا ہے اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس گناہ یا برائی میں میں اکیلا ملوث نہیں ہوں بلکہ فلاں فلاں میں بھی یہ عیب پایا جاتا ہے۔

۴۔ ہاں میں ہاں ملانا:

          بعض دفعہ کسی شخص کو خوش کرنے اور اس کے ہاں میں ہاں ملانے کے لئے یا اہل مجلس کی ہاں میں ہاں ملانے کے لئے جہاں کسی کی غیبت کی جارہی ہو بندہ بھی بڑھ چڑھ کر اس غیبت میں شریک ہو جاتا ہے۔

۵۔ چاپلوسی اور جی حضوری:

          کبھی انسان کسی انسان کو خوش کرے اور اس کی چاپلوسی کے لئے بھی دوسروں کی برائی بیان کرتا ہے اور ان کے عیوب گنواتا ہے۔خصوصا ایسے شخص کی برائی کرتا ہے جو اس کا دشمن ہو اور ان کے درمیان عداوت کا معاملہ ہو۔

۶۔ اپنی بڑائی اور اہمیت جتلانے کے لئے:

          کبھی انسان اپنی بڑائی اور اہمیت جتلانے کے لئے دوسروں کے عیوب و نقائص بیان کرتا ہے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ وہ شخص بہت پارسا اور کامل ایمان والا ہے اور فلاں شخص جس کی برائی کی جا رہی ہے وہ بہت برا اور نقائص اور عیوب کا پتلا ہے۔ عموما اہل ثروت و اہل علم و صاحبان اقتدار و منصب قسم کے لوگ دوسروں کی برائی اور غیبت اسی لئے کرتے ہیں کہ ان کو اپنے علم’ دولت’ عہدہ وو منصب پر ناز ہوتا ہے چنانچہ وہ دوسروں کی تنقیص و تحقیر کرے اپنی اہمیت جتلاتے ہیں ۔ایسے لوگوں کو جب بھی دوسروں کی غیبت اور برائی کرنے کا موقع ملتا ہے اس کو غنیمت جان کر خوب دل کھول کر غیبت کرتے ہیں اور مزے لے کر دوسروں کے گوشت کا سالن کھاتے ہیں۔

غیبت کی حرمت:

          ہمارے معاشرے میں غیبت عام ہو گئی ہے اور ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اگر دیکھاجائے تو معاشرے کا کوئی فرد اور کوئی جماعت اس سے محفوظ نہیں ۔ ہماری کوئی مجلس اور کوئی محفل اس سے محفوظ نہیں ہوتی’ جہان تین چار آدمی جمع ہو جاتے ہیں وہیں وہ دوسروں کی غیبت شروع کر دیتے ہیں جبکہ شریعت اسلامی نے اس کی حرمت بڑے سخت انداز میں بیان کی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس فعل شنیع کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا ہے جس سے نہ صرف اس کی حرمت بلکہ اس کا گھناؤناپن بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ارشاد بار ی تعالی ہے:

          ﴿وَ لَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوہُ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ﴾(الحجرات:۱۲)

          اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے’ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

          اس آیت کریمہ میں صیغہ نہی کے ساتھ پہلے ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے منع کیا پھر اس عمل کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا تاکہ لوگ اس سے باز رہیں جس طرح انسان اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتا اسی طرح اس فعل کو بھی ناپسندیدہ قرار دے کر اس سے اجتناب کرے۔

مولانا محمد شفیع معارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

          ‘‘اور وہ آدمی غائب ہو اس کے پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہنا جس سے اس کی آبرو میں خلل آئے اور اس کی تحقیر ہو ’ یہ ایسا ہے جیسے کسی مردہ انسان کاگوشت کھایا جائے کہ جیسے مردہ کا گوشت کھانے سے مردے کو جسمانی اذیت نہیں ہوتی ایسے ہی اس غائب کو جب تک غیبت کی خبر نہیں ہوتی اس کوبھی کوئی اذیت نہیں ہوتی مگر جیسا کہ کسی مردہ مسلمان کا گوشت کھانا حرام اور بڑی خست و دناء ت کا کام ہے اسی طرح غیبت حرام بھی ہے اور دناء ت بھی کہ پیٹھ پیچھے کسی کو برا کہنا کوئی بہادری کا کام نہیں۔اس آیت میں ظن و تجسس اور غیبت تین چیزوں کی حرمت کا بیان ہے۔ مگر غیبت کی حرمت کا زیادہ اہتمام فرمایا کہ اس کو کسی مردہ مسلمان کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر اس کی حرمت و خست و دنائت کو واضح فرمایا۔ حکمت اس کی یہ ہے کہ کسی کے سامنے اس کے عیوب ظاہر کرننا بھی اگرچہ ایذا رسانی کی بنا پر حرام ہے مگر اس کی مدافعت وہ آدمی خود بھی کر سکتا ہے اور مدافعت کے خطرے سے ہر ایک کی ہمت بھی نہیں ہوتی اور وہ عادتا زیادہ دیررہ بھی نہیں سکتا بخلاف غیبت کے کہ وہاں کوئی مدافعت کرنے والا نہیں ’ ہر کمتر سے کمتر آدمی بڑے سے بڑے کی غیبت کر سکتا ہے اور چونکہ کوئی مدافعت نہیں ہوتی اس لئے اس کا سلسلہ بھی عموما طویل ہوتا ہے اوراس میں ابتلاء بھی زیادہ ہے اس لئے غیبت کی حرمت زیادہ مؤکدکی گئی ہے۔’’(معارف القرآن ص:۱۲۱/۶۔۱۲۲)

          قرآن کریم میں ‘‘غیبت’’ کو اپنے مسلمان بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دینے کا مقصد اس کے گھناؤنا پن ظاہر کرنا ہے تاکہ لوگ اس سے گھن محسو س کریں جس طرح مردہ انسان کا گوشت کھانے سے گھن محسوس کرتے ہیں اور اس سے اجتناب کرتے ہیں۔

حکیم محمود اظفر حرمت غیبت کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          ‘‘انسانی گوشت کو صرف اس کی عزت و حرمت کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے اس لئے ہر وہ شے جو انسان کی عزت و حرمت کو مجروح کرتی ہے وہ بھی حرام ہے۔ غیبت سے چونکہ دوسرے انسان کی عزت و حرمت کو نقصان پہنچتا ہے اور دوسرے لوگوں کی نگاہوں سے وہ گرجاتا ہے اور لوگ اسے ذلیل و خوار سمجھنے لگتے ہیں اس لئے اس کو مردہ بھائی کے گوشت کی طرح حرام قراردیا گیا۔’’(غیبت ایک گھناؤنا گناہ ص:۹)

غیبت باعث تعفن و ایذاء و تحقیر مسلم:

          غیبت کی وجہ سے معاشرہ متعفن اور بدبو دار ہو جاتا ہے اور بدبونہ صرف اخلاقی طور پر پھیلتی ہے بلکہ کبھی تو یہ حقیقتا بھی ہوتاہے ایک حدیث میں وارد ہے:

          عن جابر قال کنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فهاجت ریح منتنۃ فقال: اتدرون ما هذا؟ قالوا: لا’ قال: قوم من المنافقین اغتابوا اناسا من المؤمنین.(شعب الایمان للبیہقی حدیث نمبر ۶۳۰۶’ الادب المفرد للبخاری حدیث نمبر ۷۳۲۔۷۳۳)

          حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ اچانک بدبو پھیل گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو اس بدبو کی وجہ کیا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی : نہیں’ فرمایا: منافقین کی ایک جماعت نے مسلمانوں کی ایک جماعت کی غیبت کی ہے۔

          ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کو عیب جوئی اور انسان کی رسوائی کا ذریعہ و سبب قرار دیتے ہوئے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

          یامعشر من آمن بلسانہ و یدخل الایمان فی قلبہ لا تغتابوا المسلمین و لا تتبعوا عوراتهم فانہ من یتبع عوراتهم یتبع اللہ عورتہ و من یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ.(ابو داود کتاب الادب باب فی الغیبۃ)

          اے لوگو! جو زبان سے تو ایمان لائے ہیں لیکن ایمان ان کے دلوں میں جاگزیں نہیں ہواہے ’ تم نہ تو مسلمانوں کی غیبت کرو’’یفضحہ و لو فی جوف رحلہ‘‘ اور نہ ہی ان کے عیوب کی تلاش میں رہو’ کیونکہ جو شخص ان کے عیوب کی تلاش میں رہتا ہے اللہ تعالی اس کے عیوب کی تلاش میں رہتا ہے اور اللہ تعالی جس شخص کے عیوب کی تلاش میں رہے اس کو خود اس کے گھر کے اندر رسوا کرتا ہے۔

          ابو یعلی کی روایت میں ‘‘یفضحہ فی جوف بیتہ’’ کے الفاظ ہیں جبکہ ترمذی کی روایت میں کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے۔ یعنی اگر وہ اپنے گھر کے بیچ میں ہی کیوں نہ رہے۔حدیث کے الفاظ ہیں:

          عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال صعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المنبر فنادی بصوت رفیع فقال: یامعشر من آمن بلسانہ و یفض الایمان الی قلبہ لا تؤذوا المسلمین و لا تعیروهم و لا تتبعوا عوارتهم فانہ من تتبع عورۃ أخیہ المسلم تتبع اللہ عورتہ و من یتبع اللہ عورتہ یفضحہ و لو فی جوف رحلہ.(کتاب البر و الصلۃ باب ما جاء فی تعظیم المؤمن)

          حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ منبر پر چڑھ کر اونچی آواز میں فرمایا : اے لوگو! جو زبان سے تو ایمان لائے ہیں لیکن ایمان ان کے دلوں میں جاگزیں نہیں ہواہے ’ تم مسلمانوں کو ایذا نہ دو ’ نہ ان کو عار دلاؤ اور نہ ہی ان کے عیوب کی تلاش میں رہو’ کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب کی تلاش میں رہتا ہے اللہ تعالی اس کے عیوب کی تلاش میں رہتا ہے اور اللہ تعالی جس شخص کے عیوب کی تلاش میں رہے اس کو رسوا کرتا ہے خواہ وہ اپنے گھر کے بیچ میں کیوں نہ رہے۔

          شیخ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو کو حسن اور صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے مشکوٰۃ بتحقیق شیخ البانی رقم ۵۰۴۴ (تحقیق ثانی) و التعلیق الرغیب ص:۲۷۷/۳)

          ایک حدیث میں کسی مسلمان آدمی کی عزت پر حملہ کرنے اور اس کی توہین کرنے کو سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ سنن ابی داود میں ہے:

          عن ابی هریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من اکبر الکبائر استطالۃ المرء فی عرض رجل مسلم بغیر حق.(ابو داود کتاب الادب باب فی الغیبۃ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان کسی مسلمان آدمی کی بے عزتی کرنے کے لئے اس کے بارے میں زبان درازی کرے۔(التعلیق الرغیب ص:۲۹۶/۳ میں شیخ البانی ؒنے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے)

          زنا کی حرمت کی وجوہات میں جہاں دوسرے اسباب ہیں وہاں ایک سبب عزت و حرمت کی پامالی بھی ہے ۔ چونکہ غیبت کی وجہ سے انسان کی عزت پائمال ہوتی ہے اس لئے اس کو زنا سے زیادہ بدتر گناہ قرار دیا گیا ہے۔

          عن جابر بن عبد اللہ و ابی سعید الخدری قالا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الغیبۃ اشد من الزنا’ فقیل و کیف؟ قال: الرجل یزنی ثم یتوب فیتوب اللہ علیہ و ان صاحب الغیبۃ لا یغفر لہ حتی یغفر لہ صاحبہ. (الہیثمی فی مجمع الزوائد باب ما جاء فی الغیبۃ و النمیمۃ’ البیہقی فی شعب الایمان ۲/۳۰۵/۲’ و الطبرانی فی الاوسط ص:۴۸۵/۴)

          حضرت جابر بن عبد اللہ اور ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غیبت کرنا زنا سے بھی زیادہ بدترین گناہ ہے۔ پوچھا گیا وہ کیسے؟ فرمایا: آدمی زنا کرنے کے بعد توبہ کرتاہے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرتا ہے جبکہ غیبت کرنے والے جو جب تک جس کی غیبت کی گئی ہے وہ معاف نہ کر دے اس کے لئے معافی نہیں ہے۔

          یہی حدیث ان الفاظ میں بھی وارد ہے:

          عن جابر بن عبد اللہ و ابی سعید الخدری قالا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ایاکم و الغیبۃ فان الغیبۃ اشد من الزنا’ قیل یا رسول اللہ و کیف الغیبۃ اشد من الزنا؟ قال: الرجل یزنی فیتوب فیتوب اللہ عز و جل علیہ و ان صاحب الغیبۃ لا یغفر لہ حتی یغفر لہ صاحبہٗ(الدینوری فی المجالسہ و جواہر العلم ص: ۲/۸/۲۷)

          حضرت جابر بن عبد اللہ اور ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم غیبت کرنے سے بچو اس لئے کہ غیبت کرنا زنا سے بھی زیادہ بدترین گناہ ہے۔ کہا گیا یار سول اللہ ! غیبت زنا سے بدتر کیسے؟ فرمایا: آدمی زنا کرنے کے بعد توبہ کرتاہے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرتا ہے جبکہ غیبت کرنے والے جو جب تک جس کی غیبت کی گئی ہے وہ معاف نہ کر دے اس کے لئے معافی نہیں ہے۔

          شیخ البانی نے اس حدیث کو‘‘ ضعیف جد ا’’ کہا ہے(دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ ص:۳۲۵/۴) جبکہ المجالسۃ کا محقق شیخ ابو عببدۃ مشہور بن حسن آل سلمان نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ ‘‘اسنادہ ضعیف جدا’’ یعنی اس کی سند بہت کمزور ہے۔

          اسلام اپنے ماننے والوں کی تکریم و توقیر کا درس دیتا ہے نہ کہ تحقیر و تذلیل کا’ چنانچہ اسلام نے ہر اس فعل سے منع کیا ہے جس میں کسی مسلمان بھی کی بے توقیری اور تحقیر کا پہلو ہو۔ اور جہاں کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کیا جائے وہاں اس کو سزا بھی سخت دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ زنا کرنے والے کے لئے اسلام میں سزا ‘‘حدرجم’’ ہے اگر وہ شادی شدہ ہو اور اگر غیر شادی شدہ ہو تو اس کی سزا ‘‘سو درّے ’’ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کی بے عزتی نہ کرے اور نہ ہی اس کو حقیر سمجھے چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا:

          المسلم اخو المسلم لا یظلمہ و لا یخذلہ و لا یحقرہ ...... بحسب امرئ من الشر ان یحقر اخاہ المسلم’ کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ و عرضہ. (صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ و احتقارہ ... ،  ابو داود کتاب الادب باب فی الغیبۃ ’ ترمذی کتاب البر و الصلۃ باب شفقۃ المسلم علی المسلم)

          مسلمان مسلمان کا بھائی ہے’ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا’ وہ اس کو بے یار و مدد گار نہیں چھوڑ تا اور نہ ہی وہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھی کو حقیر سمجھے۔تمام مسلمانوں کا خون’ مال اورعزت و آبرو تمام مسلمانوں پر حرام ہے۔

          حجۃ الوداع کے اہم موقع پربھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کرے اس بات پر زور دیا کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کی عزت کو پامال نہ کرے اور مسلمان کی عزت کی پامالی اور حرمت دری اسلامی تعلیمات کی رو سے قطعی حرام ہے اور اسی خطبہ میں یہ بھی حکم دیا کہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچائی جائیں جو وہاں موجود نہیں ہیں۔ فرمایا:

          ... فان دمائکم و اموالکم و اعراضکم بینکم حرام کحرمۃ یومکم هذا فی شهرکم ہذا فی بلدکم ہذا’ لیبلغ الشاہد الغائب ..... (صحیح بخاری کتاب العلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم رب مبلغ اوعی من سامع’ و باب لیبلغ الشاہد الغائب)

          بلا شبہ تمہارا خون’ تمہارا مال ’ تمہاری عزت و آبرو تمہارے درمیان آپس میں ایسے ہی حرام اور قابل احترام ہے جس طرح آج کے دن کی حرمت’ اس ماہ میں اور اس شہر میں ہے۔جو یہاں موجود ہے وہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچادے جو یہاں موجود نہیں ہیں۔

          معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کی عزت و آبرو کی حرمت حرمت والے مہینوں’ دنوں اور شہروں کو طرح قابل احترام ہے لہٰذا غیبت اور عیب جوئی کر کے کسی مسلمان کی عزت کو پامال کرنے کی کوشش کرنا یا اس کی عزت کو مجروح کرنا اور اسے ذلیل کرنا بالکل حرام ہے۔ علامہ ابن کثیر غیبت کے حرام ہونے پر اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

          و الغیبۃ محرمۃ بالاجماع و لا یستثنی من ذلك الا بما رجحت مصلحتہ. (تفسیر القرآن العظیم ص:۲۲۹/۴ متعلقہ آیت نمبر ۱۲ سورۃ الحجرات)

          غیبت کے حرام ہونے پر اجماع ہے ’ سوائے ان صورتوں کے جن میں کوئی مصلحت ہو۔

          یاد رہے جس طرح زندوں کی غیبت کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح مُردوں کی غیبت کرنا بھی حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ مردوں کو بُرائی کے ساتھ ذکر نہ کرو۔:

          عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذکرو محاسن موتاکم و کفوا عن مساویهم.(ابو داود کتاب الادب باب فی النہی عن سب الموتی ’ ترمذی کتاب الجنائز باب آخر)

          حضرت عبد اللہ بن عمر ر ضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے مردوں کی اچھائیاں بیان کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے بچو۔

غیبت کی سزا:

          شریعت نے غیبت کرنے والے کے لئے دنیا میں کوئی جسمانی سزا ( physical punishment) تو مقر رنہیں کیا مگر آخرت میں اس کے لئے تعذیب اور تکلیف سے خبردار کیا ہے۔جس گناہ کو زنا سے بدتر قرار دیا گیا ہو وہ سزا سے مستثنیٰ تو نہیں ہوگا۔قرآن کریم میں غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دیتے ہوئے اس سے بچنے کی تلقین کی ہے جبکہ علماء اسلام نے اس کو کبائر میں شمار کیا ہے۔قرآن کریم میں انسان کی عیب جوئی اور چغل خوری کرنے والوں کے لئے ‘‘ویل’’ کی سزا قرار دیتے ہوئے فرمایا:

          ﴿ویل لکل همزۃ لمزۃ﴾ (سورۃ الہمزۃ :۱)

          ویل (خرابی’ بربادی) ہے ہر اس شخص کے لئے جو عیب ٹٹولنے والا اور غیبت کرنے والا ہو۔

          ‘‘ہمزۃ’’ اور ‘‘لمزۃ’’ کے متعلق اہل لغت نے کئی معنے کئے ہیں۔

۱۔ بعض کے نزدیک یہ دونوں ہم معنی ہیں ۔

۲۔ بعض اس میں کچھ فرق کرتے ہیں :

          ۱۔ ہمزۃ’ وہ شخص ہے جو انسان کے منہ پر برائی کرے اور لمزۃ ’ وہ جو پیٹھ پیچھے برائی (غیبت) کرے۔

          ۲۔ بعض اس کے برعکس معنی کرتے ہیں یعنی ہمزۃ’وہ شخص جو پیٹھ پیچھے برائی کرے اورلمزۃوہ جو انسان کے منہ پر برائی کرے۔

          ۳۔ بعض کہتے ہیں ہمز’ہاتھ کے اشارے سے اور لمز’ زبان سے غیبت کرنا۔

          ۴۔ ہمز’ زبان سے اور لمز’ آنکھ کے اشارے سے غیبت کرنا

          ۵۔ ہمز’ آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے برائی کرنا اور لمز’ زبان سے۔(دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص:۵۸۶/۴ متعلقہ سورۃ ہمزۃ)

          ۶۔ ہمز’ کے معنی غیبت یعنی کسی کے پیٹھ پیچھے عیوب کا تذکرہ کرنا ہے اور لمز’ کے معنی آمنے سامنے کسی کو طعنہ دینے اور برا کہنے کے ہیں۔(تفسیر معارف القرآن ص:۸۱۵/۸)

          معلوم ہوا جو لوگ دوسروں کی غیبت اور غیب جوئی کرتے ہیں خواہ ہاتھوں کے اشارے سے ہو’ یا زبان سے ’ یا آنکھوں کے اشارے سے ’ یا قلم کے ذریعے’ یا کسی میڈیا کے ذریعے ’ سب لوگوں کے لئے یہ ہلاکت و بربادی ہے ۔دورِ جدید میں جہاں لوگوں نے پرانے رہن سہن کی جگہ نئے طور طریقے اپنائے ہیں وہاں لوگ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھی حظ اٹھاتے ہیں’ لہٰذا اب غیبت اور عیب جوئی کے طریقے بھی جدید اور مارڈن ہو گئے ہیں ’ پہلے لوگ چوپالوں اور بیٹھکوں میں بیٹھ کر لوگوں کی برائیاں اور غیبت کرتے تھے اور جدید دور میں لوگ یہ کام سوشل میڈیا’ پرنٹ میڈیا’ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے کرتے ہیں۔جو لوگ کسی بھی ذریعہ سے غیبت کے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوں ان سب کو قیامت کے دن یکساں سز ا دی جائے گی۔ حدیث میں ہے:

          عن انس بن مالك رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم عرج بی مررت بقوم لهم اظفار من نحاس یخمشون وجوههم و صدورهم قلت من هؤلاء یا جبریل؟ قال هؤلاء الذین یأکلون لحوم الناس و یقعون فی اعراضهم.(ابو داود ص:۱۹۴/۴’کتاب الادب باب فی الغیبۃ )

          حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اے جبرائیل؟ اس نے جواب دیا: یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی ان کی عزت و آبرو برباد کرتے ہیں۔

          شیخ البانی ؒ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ص:۵۹/۲ رقم الحدیث ۵۳۳

          حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت کردہ مسند احمد کی روایت میں ہے:

          ... فنظر فی النار فاذا قوم یأکلون الجیف’ قال من هؤلاء یا جبریل؟ قال: هؤلاء الذین کانوا یأکلون لحوم الناس. (مسند احمد’ حدیث رقم ۲۲۱۰)

          پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم میں ایک گروہ کومردہ لاش کھاتے دیکھا تو آپ نے کہا : اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی غیبتیں کرکے ان کا گوشت کھاتے تھے۔

          الترغیب و الترہیب کی روایت میں ہے:

          عن ابی هریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اکل لحم اخیہ فی الدنیا قرب الیہ یوم القیامۃ فیقال لہ کلہ میتا کما أکلتہ حیا فیأکلہ و یکلح و یضج. (الترغیب و الترہیب کتاب الأدب باب الترہیب من الغیبۃ و البہت و بیانہما و الترغیب فی ردہما حدیث نمبر ۱۶۸۵)

          حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جوشخص دنیا میں (غیبت کر کے) اپنے بھائی کا گوشت کھائے تو قیامت کے دن وہی گوشت اس کو پیش کیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ تو اس مردہ کو کھا لے جس طرح تو جب زندہ تھا اس کو کھایا کرتا تھاپس وہ اس کو منہ بگاڑ بگاڑ کر کھائے گا۔

          شیخ البانی ؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دے کر ضعیف الترغیب و الترہیب میں نقل کیا ہے۔جبکہ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کو بیان کرنے کے بعد کہا ہے ‘‘سندہ حسن’’۔یعنی اس کی سند حسن ہے۔ اس میں لفظ ‘‘یضج ’’کے بجائے ‘‘یصیح’’ ہے۔(دیکھئے فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب الادب باب فی الغیبۃ)

          سنن ابی داود کی روایت میں ہے:

          عن المستورد انہ حدثہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من اکل برجل مسلم اکلۃ فان اللہ یطعمہ مثلها من جهنم و من کسی ثوبا برجل مسلم فان اللہ یکسوہ مثلہ من جهنم و من قام برجل مقام سمعۃ و ریاء فان اللہ یقوم بہ مقام سمعۃ و ریاء یوم القیامۃ. (ابو داود کتاب الادب باب فی الغیبۃ ص:۱۹۵/۴’ الحاکم ۱۲۷/۴۔۱۲۸)

          مستورد سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کی بدگوئی کر کے (ایک لقمہ یا ایک مرتبہ )کھانا کھائے اللہ تعالی اس کو اس کے مثل جہنم سے کھلائے گا۔اور جس شخص کو کسی مسلمان آدمی کی (توہین کرنے کی وجہ سے) کپڑا پہنایا جائے ’ اللہ تعالی اس کے مثل اس کو جہنم سے پہناواپہنائے گا۔ اور جو شخص کسی شخص کو (جو نیک نہ ہو) نیک ظاہر کر کے اس کو شہرت و ناموری کے مقام پر کھڑا کرے گا اللہ تعالی قیامت کے دن سب لوگوں کے سامنے اس کو کھڑا کر کے رسوا کرے گا۔

شیخ البانی ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے( دیکھئے سلسلۃ الأحادیث الصحیحہ ۶۴۳/۲ رقم ۹۳۴)

          معلوم ہوا کہ جو شخص غیبت ’ عیب جوئی اور چغلخوری کے ذریعے اپنے مسلمان بھائی کی تذلیل و تحقیر چاہتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ دنیا میں رسوا ہوگا بلکہ اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو ضرور سزا دے گا اور سب کے سامنے کھڑا کر کے اس کو ذلیل و خوار کرے گا۔

غیبت کو معاف کرنا:

          غیبت کے بارے میں اختلاف ہے کہ ایا یہ حقوق الناس میں سے ہے یا حق اللہ میں سے’ اور یہ کہ غیبت کو کس طرح معاف کرایا جائے۔مولانا مفتی شفیع معارف القرآن میں لکھتے ہیں:

          ‘‘غیبت ایک ایسا گناہ ہے جس میں حق اللہ کی بھی مخالفت ہے اور حق العبد بھی ضائع ہوتا ہے اس لئے جس کی غیبت کی گئی ہے اس سے معاف کرانا ضروری ہے اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ غیبت کی خبر جب تک صاحب غیبت کو نہ پہنچے اس وقت تک وہ حق العبد نہیں ہوتی اس لئے اس سے معافی کی ضرورت نہیں...... مگر جس شخص کے سامنے یہ غیبت کی تھی اس کے سامنے اپنی تکذیب کرنا یا اپنے گناہ کا اقرار کرنا ضروری ہے۔’’(معارف القرآن ص:۱۲۳/۸)

(مفتی صاحب کے اس قول ‘‘اپنی تکذیب کرنا یا اپنے گناہ کا اقرار کرنا ضروری ہے’’ کی سمجھ نہیں آئی ’ اس لئے کہ غیبت میں‘‘سچ’’ یعنی متعلقہ شخص کے اندر واقعی موجود عیب کو بیان کیا جاتا ہے ’ اگر اس کا بیان جھوٹ ہو تو یہ غیبت نہیں ہوتی بلکہ بہتان ہوتا ہے ’ اب وہ اپنے بیان کردہ سچ کی تکذیب کس طرح کرے گا؟؟؟)

          اکثر علماء کے نزدیک یہ یہ حق العبد ہے لہٰذا متعلقہ شخص سے ہی معافی مانگ کر اپنے آپ کوغیبت کے گناہ سے بچا سکتا ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی عزت و آبرو پر حملہ کرنے اور ہتک عزت کرنے کو ‘‘مظلمۃ’’ سے تعبیر کرتے ہوئے دنیا میں ہی اس سے معاف کرانے کی تلقین فرمائی ہے۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے۔

          عن ابی هریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کانت لہ مظلمۃ لاخیہ من عرضہ او شیء فلیتحللہ منہ الیوم قبل ان لا یکون دینار و لا درهم ان کان لہ عمل صالح اخذ منہ بقدر مظلمتہ و ان لم تکن لہ حسنات اخذ من سیئات صاحبہ فحمل علیہ.(صحیح البخاری کتاب المظالم و الغضب باب من کانت لہ مظلمۃ فحللہا لہ ہل یبین مظلمتہ)

          حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور چیز میں کوئی مظلمۃ یعنی زیادتی کی ہو اس کو چاہئے کہ وہ آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرائے جس دن کوئی دینار اور درہم کام نہیں آئے گا۔ اگر اس کے عمل صالح ہوں تو اس کی زیادتی کے مطابق اس سے وہ نیکیاں لی جائیں گی (اور صاحب حق کو دیا جائے گا) اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں تو صاحب حق کے گناہ لے کر اس پر ڈال دئیے جائیں گے۔

          معلوم ہوا کہ جس کسی کو زبان’ ہاتھ یا کسی اور ذریعے سے تکلیف پہنچائی گئی ہو اس سے دنیا میں ہی معافی مانگ کر اپنے گناہ ختم کرنا چاہئے تاکہ قیامت کے دن اس مظلمۃ (زیادتی) کے گناہ کی گرفت سے بچ سکے۔اور غیبت کے متعلق پہلے ایک حدیث بیان کی جا چکی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب تک صاحب غیبت اس کو معاف نہ کردے غیبت کرنے والے کو معافی نہیں ملتی۔حدیث کے الفاظ ہیں:

          عن جابر بن عبد اللہ و ابی سعید الخدری قالا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الغیبۃ اشد من الزنا’ فقیل و کیف؟ قال: الرجل یزنی ثم یتوب فیتوب اللہ علیہ و ان صاحب الغیبۃ لا یغفر لہ حتی یغفر لہ صاحبہ. (الہیثمی فی مجمع الزوائد باب ما جاء فی الغیبۃ و النمیمۃ’ البیہقی فی شعب الایمان ۲/۳۰۵/۲’ و الطبرانی فی الاوسط ص:۴۸۵/۴)

          حضرت جابر بن عبد اللہ اور ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غیبت کرنا زنا سے بھی زیادہ بدترین گناہ ہے۔ پوچھا گیا وہ کیسے؟ فرمایا: آدمی زنا کرنے کے بعد توبہ کرتاہے تو اللہ تعالی اس کو معاف کرتا ہے اورغیبت کرنے والے کی اس وقت تک مغفرت نہیں ہوتی جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔

          بعض علماء کہتے ہیں کہ جس کی غیبت کی گئی ہے اس کے لئے استغفار کیا جائے تو غیبت کرنے والے کو اللہ تعالی معاف کر دے گا اور یہ ‘‘استغفار’’ غیبت کرنے والے کی طرف سے ‘‘کفارہ’’ ہوگا۔ اس کی دلیل میں درج ذیل روایت پیش کی جاتی ہے:

          عن سهل بن سعد الساعدی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من اغتاب اخاہ المسلم فاستغفر یعنی لہ فانها کفارۃ. (المتفق و المفتر ق للخطیب رقم ۴۳)

          سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کرے پھر اس کے لئے بخشش طلب کرے تو یہی اس کے لئے کفارہ ہے۔

          یہ حدیث ضعیف ہے اس لئے کہ اس میں سلیمان بن عمر النحغی نامی راوی ہے جسے کذاب کہا جاتاہے۔

          عن انس بن مالك قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من کفار الاغتیاب ان یستغفر لصاحبہ. (الخطیب ’ المتفق و المفترق رقم ۲۶۱)

          حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی جائے اس کے لئے مغفرت طلب کرے۔

          یہ حدیث بھی ضعیف ہے اس لئے کہ اس میں راوی عنبسہ بن سلیمان ہے جسے ماہرین رجال نے متروک قرار دیا ہے۔

          عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من کفار الغیبۃ ان تستغفر لمن اغتبتہ ’ و تقول اللهم اغفر لنا ولہ.(کنز العمال رقم حدیث ۸۰۶۴’ مساوئ الاخلاق للخرائطی باب ما جاء فی کفارۃ الغیبۃ رقم حدیث ۲۰۶)

          حضرت انس سے روایت ہے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تو اس کے لئے دعائے مغفرت کرے جس کی تو نے غیبت کی ہے’ اور یوں کہے اے اللہ! ہمارے اور اس کے گناہ کو معاف کر دے۔

          عبد اللہ بن مبارک اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک بھی یہ بہتر ہے کہ جس شخص کی کوئی غیبت کرے وہ اس کے لئے استغفار کرے ’ اس کو اپنی غیبت کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

          عن عبداللہ بن المبارک قال اذا اغتاب رجل رجلا فلا یخبرہ و لکن یستغفر اللہ ۔ و قال الامام احمد رحمہ اللہ قد روینا فی حدیث مرفوع باسناد ضعیف کفارۃ الغیبۃ ان تستغفر لمن اغتبتہ. (شعب الایمان کتاب تحریم اعراض الناس و ما یلزم من ترک الوقوع فیہا فصل فیما ورد من ا لاخبارفی التشدید علی من اقترض من عرض اخیہ المسلم...)

          عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں : جب کوئی شخص کسی شخص کی غیبت کرے وہ اس کو اس کے بارے میں نہ بتائے بس اس کے لئے مغفرت طلب کرے۔ اور امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں ضعیف سند کے ساتھ ایک مرفوع حدیث ہمیں بیان کی گئی ہے جس میں ہے ’ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تو جس کی غیبت کرے اس کے لئے مغفرت کی دعا کرے۔

           مجاہد کا کہتے ہیں کہ اگر تم نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا ہے یعنی اس کی غیبت کی ہے تو اس کاکفارہ یہ ہے کہ لوگوں کواس کی خوبیاں بیان کرو اور اس کے حق میں دعا کرو۔(اتحاف السادۃ المتقین ص:۵۵۹/۷)

          امام حسن بصری کا کہنا ہے:

          کفارۃ الغیبۃ ان تستغفر لم اغتبتہ.(تفسیر قرطبی ’متعلقہ آیت نمبر ۱۲ سورۃ الحجرات)

          یعنی غیبت کا کفارہ یہ ہے تم اس شخص کے لئے استغفار کرو جس کی تو نے غیبت کی ہے۔

          امام قرطبی کے نزدیک ‘‘غیبت ’’ ایک مظلمۃ یعنی زیادتی ہے جسے معاف کرانا ضروری ہے چنانچہ وہ اپنی تفسیر میں اس مسئلہ پر بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہو اس سے معاف کرانا واجب ہی اور احادیث نبویہ کے مقابلہ میں حسن بصری کی روایت حجت اور قابل استدلال نہیں(امام قول الحسن فلیس بحجۃ)(تفسیر قرطبی متعلقہ آیت نمبر ۱۲ سورۃ الحجرات)

          علامہ آلوسی لکھتے ہیں:

          و افتی الخیاطی بانها اذا لم تبلغ المغتاب کفاہ الندم و الاستغفار. و جزم ابن الصباغ بذلك و قال نعم اذا کان تنقصہ عند قوم رجع الیهم و اعلمهم ان ذلك لم یکن حقیقۃ’ و تبعها کثیر منهم النووی۔ و اختارہ ابن الصلاح فی فتاویہ و غیرہ۔ و قال الزرکشی: هو المختار و حکاہ ابن عبد البر عن ابن المبارك و انہ ناظره سفیان فیہ۔ و ما یستدل بہ علی لزوم التحلیل محمول علی انہ امر بالافضل او بما یمحو اثر الذنب بالکلیۃ علی الفور’وما ذکر فی غیر الغائب و المیت ’ أما فیہا فینبغی ان یکثر لهما الاستغفار .(روح المعانی ص:۱۶۰/۶ ’ تفسیر متعلقہ آیت نمبر ۱۲ سورۃ الحجرات)

          علامہ خیاطی نے یہ فتوی دیا ہی کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اگر وہ غیبت اس تک نہیں پہنچی تو پھر غیبت کرنے والے کو غیبت پر ندامت اور استغفار کرنا کافی ہے۔ ابن الصباغ نے اسی قول پر اعتماد کیا ہے اور کہا ہے کہ اگرغیبت کرنے والے نے کسی جماعت کے سامنے غیبت کی ہے تو اس کو چاہئے کہ ان لوگوں کے پاس جائے اور ان کو بتائے کہ در اصل بات یہ نہیں تھی۔ اکثر علماء نے اسی کو اختیار کیا ہے جن میں امام نووی بھی شامل ہے۔علامہ ابن صلاح نے بھی اپنے فتوی میں اسی بات کو اختیار کیا ہے۔ علامہ زرکشی نی کہا ہے کہ یہی مختار قول ہے۔ حافظ ابن عبد البرنے عبد اللہ بن مبارک سے اس کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے سفیان ثوری سے اس پر مناظرہ کیا تھا۔اور جن روایات سے صاحب حق سے معاف کرانے پر استدلال کیا جاتا ہے ان کا محمل یہ ہے کہ صاحب حق سے معاف کرانا افضل ہے کیونکہ اس سے فی الفور غیبت کا گناہ ختم ہو جاتا ہے۔یہ حکم غیر غائب اور غیر میت یعنی زندہ شخص کے بارے میں ہے لیکن اگر کسی مرے ہوئے شخص کی غیبت کی ہے تو اس کے لئے یہ ہے کہ بہت استغفار کیا جائے۔

          علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

          قال الجمهور من العلماء طریق المغتاب للناس فی توبتہ ان یقلع عن ذلک و یعزم ان لا یعود و ہل یشترط الندم علی ما فات؟ فیہ نزاع و ان یتحلل من الذی اغتابہ۔ و قال آخرون لایشترط ان یتحللہ فانہ اذا علمہ بذلک ربما تأذی اشد مما اذا لم یعلم بما کان منہ۔ فطریقہ اذا ان یثنی علیہ بما فیہ فی المجالس التی کان یذمہ فیہا و ان یرد عنہ الغیبۃ بحسبہ و طاقتہ لتکون تلك بتلك. (تفسیر ابن کثیر ص:۲۳۱/۴ ’ متعلقہ آیت نمبر ۱۲ سورۃ الحجرات)

          جمہور علماء کہتے ہیں کہ غیبت سے توبہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس فعل کو مکمل چھوڑ دے اور آئندہ اس کے ارتکاب نہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لے۔ اب جو غیبت سرزد ہوگئی ہے اس پر ندامت کرنے اور جس کی غیبت کی ہے اس سے اس کو معاف کرانے یا نہ کرانے کے متعلق اختلاف ہے۔دوسرے (جو معاف کرانے کے حق میں نہیں ہیں) کہتے ہیں اس کو معاف کرانا اس کے لئے شرط نہیں ہے’ اس لئے کبھی ایسا ہوتاہے کہ جب اس کو اس غیبت کے بارے میں بتایا جائے تو وہ زیادہ تکلیف محسوس کرتا ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اس کے بارے میں سرزد ہونے والے فعل سے لاعلم رہے۔ اس (فعل سے معافی حاصل کرنے ) کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جتنا ہو سکے ان مجالس میں جاکر جن میں اس نے اس کی مذمت یا برائی کی تھی اس شخص کی تعریف کرے اور اپنی کی ہوئی غیبت کی تردید کرے تاکہ یہ ادل بدل ہوجائے۔

غیبت کی جائز صورتیں:

          غیبت اگرچہ ناجائز اور ایک گھناؤنا فعل ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بد امنی اور بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے اسی لئے اسلام نے اس سے منع کیا ہے مگر بعض صورتیں ایسی ہیں جن حالات میں غیبت کرنا اور دوسروں کے عیوب کو بیان کرنا جائز ہے اور کبھی ان عیوب کا بیان کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہوجاتا ہے بلکہ کسی مصلحت دینی کی بنا پر واجب ہو جاتا ہے۔علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

          و الغیبۃ محرمۃ بالاجماع و لا یستثنی من ذلك الا بما رجحت مصلحتہ. (تفسیر القرآن العظیم ص:۲۲۹/۴ متعلقہ آیت نمبر ۱۲ سورۃ الحجرات)

          غیبت کے حرام ہونے پر اجماع ہے ’ سوائے ان صورتوں کے جن میں کوئی مصلحت ہو۔

           اسی لئے علما کہتے ہیں آیت کریمہ اور احادیث میں جو غیبت کی عام حرمت کا حکم ہے یہ مخصوص البعض ہے’ یعنی بعض صورتوں میں اس کی اجازت ہوتی ہے۔ مثلاً:

۱۔ ظالم کے ظلم کا اظہار: اگر کوئی شخص کسی پر ظلم کرتا ہے تو مظلوم کے لئے جائز ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کا اظہار کرے ’ عدالت کو اس کے ظلم و ستم کی داستان بیان کرے اور داد رسی چاہے۔اسی طرح نہ صرف یہ کہ عدالت کے سامنے اس کی برائی بیان کرسکتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کے سامنے بھی مظلوم شخص اپنے اوپر کئے گئے ظلم اور ظالم کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کر سکتا ہے ۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے لئے یہ جائز ہوگا۔ قرآن کریم میں اس بات کی باقاعدہ اجازت دی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

          ﴿لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ اِلاَّ مَنْ ظُلِمَ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا﴾(النساء:۱۴۸)

          برائی کے ساتھ آوازبلند کرنے کو اللہ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے اور اللہ تعالی خوب سنتا جانتا ہے۔

          اس آیت کریمہ میں اسلامی شریعت کا یہ حکم بیان ہوا ہے کہ کسی آدمی کے اندر برائی دیکھے تو اس کا چرچا نہ کرو ’ نہ ہر جگہ اس کی عیب جوئی کرتے پھرو ’ ہاں البتہ ظالم کے ظلم کو لوگوں کے سامنے بیان کر سکتے ہوجس کا ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شاید وہ شخص ظلم کرنے سے باز آ جائے یا وہ اپنے ظلم پر پشیمان ہوجائے اور اس کی تلافی کی سعی کرے۔نیز اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگ اس شخص سے محتاط رہیں گے۔ابو داود کی روایت میں ہے:

          عن ابی هریرۃ قال جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یشکو جارہ’ فقال: اذهب فاصبر’ فاتاہ مرتین او ثلاثا فقال: اذهب فاطرح متاعك فی الطریق. فطرح متاعہ فی الطریق فجعل الناس یسألونہ فیخبرهم خبرہ فجعل الناس یلعنونہ فعل اللہ بہ او فعل ’ فعل ’ فجاء الیہ جارہ فقال لہ: ارجع لا تری منی شیئا تکرهہ.(ابو داود کتاب الادب باب فی حق الجوار)

          حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا جاکے صبر کر۔ پھر وہ آدمی آپ کے پاس دو یا تین مرتبہ یہی شکایت لے کر آیا تو آپ نے اس سے کہا کہ تو اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو۔ (اس نے ایسا ہی کیا) چنانچہ جو بھی اس سے پوچھتا کہ کیا بات ہے؟ وہ اس کو بتاتا کہ میرا پڑوسی مجھے ایذا دیتا ہے۔(یعنی وہ اپنے پڑوسی کے ظالمانہ رویے کو بیان کرتا) چنانچہ یہ سن کر ہر رہ گزر اس پر لعنت کرتا اور اس کو بد دعا دیتا۔ پڑوسی نے یہ صورت حال دیکھی تو وہ اس کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ تو گھر جاؤ (اور سامان اندر رکھ) آئندہ مجھ سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔

شیخ البانی ؒ نے اس حدیث کے بارے میں حسن صحیح کہا ہے ۔ (دیکھئے صحیح سنن ابی داود متعلقہ باب اور التعلیق الرغیب ص:۲۳۵/۳)

ابوبکر البزاز نے یہ روایت باین الالفاظ نقل کیا ہے:

          عن ابی هریرۃ ان رجلا اتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال: ان لی جارا یؤذینی فقال لہ اخرج متاعك فضعہ فی الطریق ۔ فاخذ الرجل متاعہ فطرحہ علی الطریق فکل من مر بہ قال : ما بك؟ قال: جاری یؤذینی ۔ فیقول اللهم العنہ اللهم اخزہ۔ قال: فقال الرجل ارجع الی منزلك و اللہ لا اوذیك ابدا۔ (مسند البزاز مسند ابی ہریرۃ الجزء العاشر رقم حدیث ۸۳۴۴)

          حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا: تو اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو۔ (اس نے ایسا ہی کیا) چنانچہ جو بھی وہاں سے گزرتا وہ اس سے پوچھتا کہ کیا بات ہے؟ وہ اس کو بتاتا کہ میرا پڑوسی مجھے ایذا دیتا ہے۔ چنانچہ یہ سن کر ہر رہ گزر کہتا اے اللہ اس پر لعنت کر اے اللہ اس کو رسوا کر دے۔ پڑوسی نے (یہ صورت حال دیکھی تو) اس سے کہا کہ تو اپنے گھر جاؤ اللہ کی قسم آئندہ میں تجھے کبھی بھی تکلیف نہیں دوں گا۔

          اسی طرح اگر کوئی شخص کسی قرضہ لے کر ’ یا لین دین کر کے ’ یا کسی کو مزدور رکھ کر اس سے مزدوری کرائے مگر استطاعت ہونے کے باوجود قرضہ واپس کرنے یا کھاتہ اور مزدوری ادا کرنے سے ٹال مٹول کرے تو متاثرہ شخص لوگوں کے سامنے اس مال دار آدمی کی شکایت کر سکتا ہے یا اس کے رویے کی وضاحت کر سکتا ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال دار شخص کا قرض کی ادائیگی میں تاخیری حربہ اختیار کرنے اور ٹال مٹول کرنے کو ‘‘ظلم’’ سے تعبیر کیا ہے۔بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک ارشاد نبوی یوں روایت کی ہے:

          قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مطل الغنی ظلم ۔ (صحیح بخاری کتاب المساقاۃ باب مطل الغنی ظلم)

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مال دار آدمی کا قرض یا مزدوری وغیرہ کی ادائیگی میں ٹال مٹول اور تاخیر کرنا ظلم ہے۔

۲۔ کسی شخص کی بری خصلت کے بارے میں فتوی لینا ہو یا کسی شخص کے رویے کے بارے میں مسئلہ دریافت کرنا ہو تو مفتی کے سامنے اس شخص کی وہ خصلت بیان کر سکتے ہیں جو اس کے سامنے بیان کی جائے تو اس کو ناگوار ہو۔مثلا ابو سفیان کی بیوی ہند نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ابو سفیان کے رویے کے متعلق بتاتے ہوئے ایک مسئلہ دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کواس کے اس رویے کو بیان کرنے سے منع نہیں کیا ۔ صحیح بخاری میں ہے۔

          عن عائشۃ ان هند بنت عتبة قالت یا رسول اللہ ان ابا سفیان رجل شحیح و لیس یعطینی ما یکفینی و ولدی الا ما اخذت منہ وهو لا یعلم۔ فقال: خذی ما یکفیك و ولدك بالمعروف۔ (صحیح بخاری کتاب النفقات باب اذا لم ینفق الرجل فللمرأۃ ان تاخذ بغیر علمہ ما یکفیہا و ولدہا بالمعروف)

          حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ (ابو سفیان کی بیوی) نے کہا یا رسول اللہ ابو سفیان ایک بخیل آدمی ہے وہ مجھے میری ضرورت کے موافق بھی میرا اور میری اولاد کا خرچہ نہیں دیتاالا یہ کہ میں اس کے علم میں لائے بغیر کچھ لے لوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم (اس کو بتائے بغیر) اتنا لے لیا کرو جو تم اور تمہارے بچوں کے لئے دستور کے مطابق کافی ہو۔

          اسی طرح مسئلہ دریافت کرنے کے لئے کسی شخص کے جسمانی نقص بھی بیان کر سکتے ہیں مثلا رفاعہ القرظی کی بیوی کوجب طلاق دی گئی تو اس نے دوسری شادی عبد الرحمن بن زبیر قرظی سے کر لی مگر وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئی اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اس کے پاس تو صرف کپڑے کاپلو ہے یعنی وہ نامرد ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

          عن عائشۃ رضی اللہ عنها ان رفاعۃ القرظی تزج امرأۃ ثم طلقها فتزوجت آخر فاتت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فذکرت لہ انہ لا یأتیها و انہ لیس معہ الا مثل هدبۃ فقال لا حتی تذوقی عسیلتہ و یذوق عسیلتك۔ (بخاری کتاب الطلاق باب اذا طلقها ثلاثا ثم تزوجت بعد العدۃ زوجا غیرہ فلم یمسها)

          حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی نے ایک عورت (تمیمہ بنت وہب) سے نکاح کیا پھر اس کو (تین) طلاق دے دییے اس نے دوسرا خاوند کر لیا ۔ پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی کہے لگی یہ دوسرا خاوند اس کے پاس آتا ہی نہیں ہے (یعنی صحبت نہیں کرتا) اس کے پاس کچھ نہیں ہے سوائے کپڑے کے پلو کے جیسے(یعنی وہ نامرد ہے) آپ نے فرمایا تو پہلے خاوند کے پا اس وقت تک نہیں جا سکتی جب تک تو دوسرے خاوند سے مزہ نہ اٹھائے اور وہ تجھ سے مزہ نہ پائے۔

          معلوم ہوا کہ مسئلہ پوچھنے کے لئے کسی شخص کانقص بیان کیا جائے تو یہ ممنوعہ غیبت کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو ضرور منع کرتے کہ اس نے اپنے شوہر کی کمزور ی اور نقص کو بیان کیا ہے۔

۳۔ فاسق معلن یعنی علانیہ طور پر سب کے سامنے فسق و فجور کے مرتکب کی غیبت جائز ہے اس لئے کہ وہ اپنے فسق اور گناہ کو خود ظاہر کرتا پھر تا ہے۔ اس کے اعمال بد کا ذکر غیبت ممنوعہ میں داخل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے فجور اور مکر و فریب کو لوگوں کے سامنے بیان کرنے کا مقصد اس فاسق کی تذلیل نہیں بلکہ اس کے فسق کو آشکارا کرنا اور لوگوں کو اس سے باخبر اور ہوشیار کرنا ہے تاکہ وہ اس بدکار کے جھانسے میں نہ آئیں ۔ قرطبی کہتے ہیں کہ حدیث سے ثابت ہے کہ فاسق معلن’ ظالم حاکم اور اس بدعتی کی جو لوگوں کو بدعت کی طرف دعوت دیتا ہے۔(فتح الباری کتاب الادب باب لم یکن النبی صلی اللہ علیہ و سلم فاحشا و لا متفحشا)

          امام بخاری نے ‘‘باب ما یجوز من اغتیاب اہل الفساد و الریب’’کا باقاعدہ عنوان باندھ کر یہ مسئلہ بیان کیاہے کہ اہل فساد کی غیبت کرنا جائز ہے اس کے تحت انہوں نے جو حدیث بیان کی ہے اس میں اہل فحش اور اہل فساد کی برائی بیان کی گئی ہے۔

          ان عائشۃ رضی اللہ عنها قالت استأذن رجل علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ائذنوا لہ بئس اخو العشیرۃ او ابن العشیرۃ ۔ فلما دخل الان لہ الکلام ۔ قلت لہ یار سول اللہ قلت الذی قلت ثم النت لہ الکلام ۔ قال ای عائشۃ ان شر الناس من ترکہ الناس او دعہ الناس اتقاء فحشہ۔ (بخاری کتاب الادب باب مایجوز من اغتیاب اہل الفساد و الریب)

          حضرت عائشہ نے کہا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے (ملاقات کرنے) کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آنے دو یہ شخص اپنی قوم میں برا آدمی ہے۔جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے نہایت نرمی سے گفتگو فرمائی (جب وہ چلا گیاتو ) میں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے اس شخص کے بارے میں وہ کچھ کہا جو آپ نے کہا تھا۔ پھر آپ نے اس کے ساتھ نہایت نرمی سے کلام کیا۔ آپ نے فرمایا: اے عائشہ! بدترین لوگ وہ ہیں جن کی بد کلامی اور درشت خوئی کی وجہ سے لوگ ان سے ملنا چھوڑ دیں۔

          علامہ ابن حجر اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:

          و یستنبط منہ ان المجاهر بالفسق و الشر لا یکون ما یذکر عنہ من ذلك من رواه من الغیبۃ المذمومۃ۔ قال العلماء: تباح الغیبۃ فی کل غرض صحیح شرعا حیث یتعین طریق الی الوصول الیها بها: کالتظلم و الاستعانۃ علی تغییر المنکر’ و الاستفتاء و المحاکمۃ و التحذیر من الشر’ و یدخل فیہ تجریح الرواۃ و الشهود ’ و اعلام من لہ ولایۃ عامۃ بسیرۃ من هو تحت یدہ ’ و جواب الاستشارۃ فی نکاح و عقد من العقود و کذا من رأی متفقها یتردد الی مبتدع او فاسق و یخاف علیہ الاقتداء بہ۔ و ممن تجوز غیبتهم من یتجاهر بالفسق او الظلم او البدعۃ۔(فتح الباری متعلقہ کتاب و باب)

          اس حدیث سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ اعلانیہ گناہ کرنے والے اور برائی کرنے والے کی برائی کا ذکر کرنا مذموم غیبت میں سے نہیں ہے۔ علماء کہتے ہیں: ہر اس مقصد کے لئے غیبت کرنا مباح ہے جو شرعی طور پر درست ہو اور اس کے ذریعے اس مقصد تک پہنچنے کا راستہ متعین ہو مثلا ظلم کو روکنا’ برائی کو ختم کرنا’ استفتاء ’ عدالتی فیصلہ کے لئے’ شر سے بچانے کے لئے’ اس میں راویوں پر جرح کرنا اور گواہی دنیا بھی شامل ہے۔حکمران اور صاحب منصب کو اس کے ماتحت کی کسی کوتاہی سے آگاہ کرنا’ اور نکاح یا کسی اور عقد میں کوئی مشورہ لے تو اس کا جواب دینا اور اسی طرح اگر کوئی کسی طالب علم کو کسی بدعتی کے پاس بار بار جاتے ہوئے دیکھے اور اس کو یہ ڈر ہو کہ وہ اس کی پیروی کرنے لگ جائے گا۔اور جن کی غیبت جائز ہے وہ ہیں : اعلانیہ گناہ اور فجور کرنے والا ’ظلم کرنے والا اور بدعت کا ارتکاب کرنے والا۔

۴۔ کسی کی اصلاح خاطر کسی کے سامنے اس شخص کی برائی کرنا جس سے وہ متاثر ہو رہا ہو غیبت مذموم میں داخل نہیں ہے۔مثلا کسی بدعتی کی بدعت سے آگاہ کرنا اور اس سے بچنے کی تلقین کرنا یا کسی برے دوست کی صحبت سے بچانے کے اس کے برے دوست کی برائیوں کا ذکر کرنا تاکہ وہ شخص اس کی بری صحبت سی بچ جائے۔جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عیینہ بن حصن یا مخرمہ بن نوفل کے متعلق فرمایا کہ یہ قوم کا بدترین آدمی ہے ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس سے ہوشیار رہیں۔

          اسی طرح اصلاح کی خاطر کسی کی برے رویے کا اظہار کیا جائے تو بھی یہ غیبت مذمومہ میں شامل نہیں ہے جیسا کہ ایک واقعہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔

          عن ابی الدرداء قال کنت جالسا عند النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذ اقبل ابو بکر اخذا بطرف ثوبہ حتی ابدی عن رکبتیہ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اما صاحبکم قد غامر’ فسلم و قال انی کان بینی و بین ابن الخطاب شیء فاسرعت الیہ ثم ندمت فسالتہ ان یغفر لی فابی علی فاقبلت الیك۔ فقال یغفر اللہ لك یا ابا بکر ثلاثا ۔ ثم ان عمر فاتی منزل ابی بکر فسألہ اثم ابو بکر؟ فقالوا: لا فاتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فجعل وجہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یتمعر حتی اشفق ابو بکر فجثا علی رکبتیہ فقال یا رسول اللہ انا کنت اظلم مرتین۔ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ بعثنی الیکم فقلتم کذبت و قال ابو بکر صدق و واسانی بنفسہ و مالہ فهل انتم تارکوالی صاحبی مرتین۔ فما اوذی بعدها۔(صحیح بخاری کتاب المناقب باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لوکنت متخذا خلیلا )

          ابو الدرداء بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا حضرت ابو بکر ؓ اپنی چادر کادامن اٹھائے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ان کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا ساتھی غصے سے بھرا ہوا ہے۔ابو بکر ؓ نے سلام کرنے کے بعد عرض کی میرے اور عمر بن خطاب کے درمیان چپقلش ہوگئی ہے ۔ میں نے جلدی میں انہیں کچھ کہا پھر میں نادم ہوا اور عمر سے کہا کہ مجھے معاف کر دو۔ عمر ؓ نے مجھے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔اب میں آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا: ابو بکر اللہ تمہیں معاف کرے۔کچھ دیر بعد عمر ؓ بھی نادم ہوئے کہ ابو بکر ؓ نے معذرت کی لیکن میں نے ان کی معذرت قبول نہیں کی۔ اور وہ ابو بکر کے گھر گئے ان کو وہاں نہ پاکر وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ آپ کا چہرہ متغیر ہو رہا ہے ۔ ابو بکر ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو دیکھ کر ڈر گئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دو مرتبہ کہا یا رسول اللہ زیادتی میری ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ نے تمہارے پاس بھیجا تم لوگوں نے میری تکذیب کی جبکہ ابو بکر نے میری تصدیق کی اور اپنے جان و مال سے میری مواسات و غمخواری کی۔ آپ نے فرمایا: کیا تم میری خاطر میرے ساتھی کو ایذا رسائی سے چھوڑ دو گے’ دو مرتبہ کہا۔اس کے بعد ان کو تکلیف نہیں دی گئی۔

          اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابو بکر ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت عمر ؓ کی عدم موجودگی میں ان کے معاف نہ کرنے کے رویے کی شکایت کی یہ ایک طرح سے غیبت تھی آپ ؓ نے یہ محض ان کی اصلاح اور نصیحت کی خاطر کی تھی ورنہ وہ ان کی غیبت کبھی نہ کرتے۔

۵۔ اگر کوئی شخص کسی سے کسی دوسرے شخص کے متعلق مشورہ طلب کرے تو مشورہ لینے والے کی خیر خواہی کی خاطر اس شخص کے عیوب بیان کرنا جائز ہے اس لئے کہ اس میں مقصود متعلقہ شخص کی توہین و تذلیل نہیں بلکہ کسی کی خیر خواہی مقصود ہوتی ہے اس لئے یہ غیبت ممنوعہ غیبت کے زمرے میں نہیں آتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ابو جہم اور معاویہ بن ابی سفیان کی کمزوری فاطمہ بنت قیس کے سامنے بیان فرمائی۔صحیح مسلم میں ہے۔

          عن فاطمۃ بنت قیس ان ابا حفص بن عمرو طلقها البتۃ و هو غائب فارسل الیها وکیلہ بشعیر فسخطتہ فقال و اللہ مالك علینا من شیء فجاء ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکرت ذلك لہ فقال لیس لك علیہ نفقۃ فامرها ان تعتد فی بیت ام شریك ثم قال تلك امرأۃ یغشاها اصحابی اعتدی عند ابن ام مکتوم فانہ رجل اعمی تضعین ثیابك فاذا حللت فاذنینی قالت: فلما حللت ذکرت لہ ان معاویۃ بن ابی سفیان و ابا جهم خطبانی ۔ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما ابو جهم فلا یضع عصاہ عن عاتقہ و اما معاویۃ فصعلوك لا مال لہ ’ انکحی اسامۃ بن زید فکرهتہ ثم قال انکحی اسامۃ فنکحتہ فجعل اللہ فیہ خیرا و اغطبت۔(صحیح مسلم کتاب الطلاق باب المطلقۃ ثلاثا لا نفقۃ لها)

          فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے کہ ابو حفص بن عمرو نے اسے طلاق مغلظہ دی اس وقت وہ خود موجود نہیں تھا چنانچہ اس کے وکیل نے کچھ جو بھیجا تو وہ اس پر ناراض ہو گئی تو اس نے کہا اللہ کی قسم تمہارے لئے ہمارے ذمہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا : اس کے ذمہ تمہارا نفقہ (خرچہ) نہیں ہے۔ اور اس کو ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا پھر کہا نہیں ام شریک کے گھر میں میرے صحابہ کا آنا جانا لگا رہتا ہے ایسا کرو کہ تم عبد اللہ بن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو وہ نا بینا آدمی ہے اس لئے تم وہاں اپنے کپڑے وغیرہ اتار سکتی ہو۔ اور جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھے بتا دو۔جب میری عدت پوری ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابو جہم نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو جہم تو اپنے کندھے پر سے لاٹھی نہیں اتارتا (یعنی وہ عورتوں کو بہت مارتا ہے) اور رہا معاویہ تو وہ مفلس ہے اس کے پاس مال نہیں ہے۔ تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔ پہلی مجھے وہ پسند نہیں آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ کہا کہ تم اسامہ سے نکاح کر لو چنانچہ میں نے اسامہ سے نکاح کر لیا ۔ اللہ تعالی نے ہمارے لئے اس میں خیر کردی اور مجھ پر رشک کیا جاتا تھا۔

          معلوم ہوا کہ اگر کسی سے کسی معاملہ (مثلا نکاح یا بیع و شرا وغیرہ) کے سلسلے میں مشورہ لیا جائے یا پوچھا جائے تو اس کو اس متعلقہ شخص کے احوال’ اس کے رویے اور حالات زندگی کے نشیب و فراز سے صحیح طور پر آگاہ کرنا چاہئے تاکہ مشورہ لینے والے کو مستقبل میں کوئی نقصان نہ پہنچے۔

۶۔ کسی شخص کے شر سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے اس کا عیب بیان کرنا بھی غیبت محرمہ میں نہیں آتا۔ جیسے مجروح رایوں ’ گواہوں اور مقدمات میں مختلف لوگوں پر جرح کرنا جائز ہے۔بلکہ بعض دفعہ ایسے لوگوں کے عیوب بیان کرنا واجب ہو جاتا ہے جس طرح علم الرجال میں راویوں پر جرح کی جاتی ہے اور ان کے عیوب و نقائص بیان کئے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد ان کی تذلیل اور توہین کے لئے ان لوگوں پر طعن کرنا اور غیبت کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کی غرض ان راویوں کا ضعف بیان کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ پہچانے جائیں اور احکام شرعیہ صحیح طریقے سے لوگوں کے سامنے آ جائیں اور کذاب راویوں کی وضعی حدیثوں اورروایتوں سے لوگ محفوظ رہیں اس لئے کہ حدیث کی متن کی صحت اس کی سند پر موقوف ہوتی ہے’ لہٰذا راویوں کی بابت تحقیق کرنا ایک عظیم دینی فریضہ اور ذمہ درای ہے اس لئے کہ حدیث شریعت اسلامی کا ایک اہم ماخذ ہی نہیں بلکہ دین کا ایک حصہ ہے۔امام مسلم نے حدیث میں اسناد کی اہمیت کے سلسلے میں باب باندھتے ہوئے لکھا ہے کہ

          و ان جرح الرواۃ بما هو فیهم جائز بل واجب و انہ لیس من الغیبۃ المحرمۃ بل من الذب عن الشریعۃ المکرمۃ ۔(صحیح مسلم المقدمۃ)

          اور بلاشبہ رایوں میں موجود کمزوریوں پر جرح کرنا نہ صرف جائزہے بلکہ واجب ہے اور یہ غیبت محرمہ میں سے نہیں بلکہ یہ شریعت مکرمہ کا دفاع ہے۔

           محمد بن سیرین علم حدیث اور بیان سند کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

          ان هذا العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم۔(صحیح مسلم المقدمۃ)

          بے شک یہ علم (حدیث ) دین ہے پس دیکھ لیا کرو کہ تم کن لوگوں سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔

          عبد اللہ بن مبارک ؒ نے اسناد کو دین کاحصہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے :

          الاسناد من الدین ’ لولا الاسناد لقال من شاء ما شاء۔(العلل امام ترمذی ص:۵۴۰/۵’ دار احیاء التراث العربی بیروت)

          اسناد دین کا حصہ ہے اگر اسناد نہ ہوتی تو ہر شخص جو چاہتا (دین کا حصہ قرار دے کر حدیث وضع کر کے) کہہ دیتا ۔

۷۔ غیر متعین شخص کی غیبت اورعیب بیان کرنا جائز ہے۔ یہ غیبت محرمہ میں داخل نہیں ۔ یعنی کسی شخص کا نام لیے بغیر خطاب عام کے ساتھ برے لوگوں کاذکر کیا جائے مثلا کچھ لوگ سود کھاتے ہیں یا فلان قبیلہ والے یہ برا کام کرتے ہیں یا جو لوگ برائی کا ارتکاب کرتے ہیں وغیرہ۔حدیث میں آتا ہے۔

          قالت عائشۃ صنع النبی صلی اللہ علیہ وسلم شیئا فرخص فیہ فتنزہ عنہ قوم فبلغ ذلك رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فخطب فحمد اللہ ثم قال: ما بال اقوام یتنزهون عن الشیء اصنعہ فواللہ انی لأعلمهم باللہ و اشدهم لہ خشیۃ۔( بخاری کتاب الادب باب من لم یواجہ الناس بالعتاب)

          حضرت عائشہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک کام سرانجام دیا اور آپ نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی لیکن کچھ لوگوں نے اس سے دور رہنا چاہا۔ یہ بات رسول اللہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اس کام سے دور رہنا چاہتے ہیں جس کو میں نے کیا ہے۔اللہ کی قسم میں ان سے زیادہ اللہ (کے احکام و عذاب) کا علم رکھتا ہوں اور ان سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔

          اس خطاب میں ان لوگوں کا نام لیے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی برائی بیان فرمائی جو آپ کے اقتداء میں آپ کی عطا کردہ رخصت پر عمل کرنے کے بجائے تکلف کے ساتھ عمل کرتے تھے۔

          اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کچھ لوگ نماز میں اپنی نگاہیں اوپر کی طرف اٹھا رہے ہیں ۔ آپ نے ان کا نام لیے بغیر خطاب عمومیت کے ساتھ ان کو اس کام سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

          ما بال اقوام یرفعون ابصارهم فی صلاتهم فاشتد قولہ فی ذلک فقال لینتهن عن ذلك او لتخطفن ابصارهم۔(بخاری کتاب الصلاۃ باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ ’ ابو داود کتاب الصلاۃ باب النظر فی الصلاۃ)

          لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ آپ نے اس بارے میں سختی کے ساتھ فرمایا یہاں تک کہ کہا: ان لوگوں کو اس سے باز آنا چاہئے ورنہ ان کی بینائی اچک (چھین) لی جائے گی۔

          مسلم شریف میں ہے:

          عن انس ان نفرا من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سألوا ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن عملہ فی السر فقال بعضهم لا اتزوج النساء و قال بعضهم لا آکل اللحم و قال بعضهم لا انام علی فراش۔ فحمد اللہ و اثنی علیہ فقال: ما بال اقوام قالوا کذا و کذا۔ لکنی اصلی و انام و اصوم و افطر و اتزوج النساء ۔ فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔(صحیح مسلم کتاب النکاح باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ و وحد مؤنۃ)

          حضرت انس سے روایت ہے کہ صحابہ کرام میں سے چند لوگوں نے ازواج مطہرات میں سے کسی سے علیحدگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں استفسار کیا(جب ان لوگوں کو آپ کے عمل کے بارے میں بتایا گیا تو) ان میں سے کسی نے کہا میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا’ کسی نے کہا میں گوشت نہیں کھاؤں گا’ کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔(جب آپ نے ان کی باتیں سنیں تو ) اللہ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں جبکہ میں نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں’ روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں’ میں نے عورتوں سے شادی بھی کی ہے۔پس جو شخص میری سنت اور طریقے سے رو گردانی کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

          اس حدیث میں بھی یہ بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا نام نہیں لیا جنہوں نے آپ کی ازواج مطہرات سے آپ کے عمل کے متعلق پوچھنے کے بعد یہ بایں کہیں بلکہ خطاب عام کے ذریعے ان کی اس غلط بات کی تردید فرمائی ۔

۸۔ جو شخص اپنے الحاد اور بدعقیدگی کو لوگوں سے مخفی رکھتا ہو تو دوسرے لوگوں کو اس کے اس دینی ضرر سے بچانے کے لئے اس کی برائی سے آگاہ کرنا اور اس کے عیب کو بیان کرنا غیبت محرمہ میں شمار نہیں ہوتا۔بلکہ اس کے اس گمراہی سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور بچانا لازمی ہے۔

          امام نووی لکھتے ہیں:

          اذا رأی متفقها یتردد الی مبتدع او فاسق یأخد عنہ العلم و خاف ان یتضرر المتفقہ بذلك فعلیہ نصیحتہ ببیان حالہ بشرط ان یقصد النصیحۃ۔(ریاض الصالحین باب ما یباح من الغیبۃ)

          جب کسی طالب علم کو کسی بدعتی یا فاسق کے پاس حصول علم کے لئے بار بار جاتے ہوئے دیکھے اوراس سے طالب علم کو(عقیدہ اور دین کے سلسلے میں) نقصان پہنچنے کا ڈر ہو تو اس کی حالت بیان کرکے اس کے ساتھ خیر خواہی کرنا لازم ہے بشرطیکہ اس کا مقصد نصیحت کرناہو۔

          بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منافقین میں سے کچھ لوگوں کا نام لے کر کہا کہ یہ لوگ ہمارے دین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ حدیث کے الفاظ ہیں:

          عن عائشۃ قالت قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما اظن فلانا و فلانا یعرفان من دیننا شیئا۔ قال اللیث کانا رجلین من المنافقین۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب ما یکون من الظن)

          عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نہیں خیال کرتا کہ فلان اور فلان آدمی ہمارے دین کا کچھ علم رکھتے ہیں۔ لیث کہتے ہیں یہ منافقین میں سے دو آمی تھے۔

۹۔ کسی برائی کو مٹانے اور نہی عن المنکر پر تعاون حاصل کرنے کے لئے کسی کی غیبت یا عیب بیان کیا جائے تو یہ جائز ہے بشرطیہ یہ عیوب ایسے آدمی کے سامنے بیان کئے جائیں جو برائی کو مٹانے پر قدرت رکھتا ہو۔ اگر عیوب کے ذکر کامقصد نہی عن المنکر نہ ہو تو یہ حرام ہے۔

۱۰۔ اگر کوئی صاحب عہدہ یا منصب دار اپنے عہدے اور منصب کے مطابق کام نہ کر رہا ہو خواہ وہ اس کی غفلت کی وجہ سے ہو یا نا اہلی کی وجہ سے یا فسق و فجور کی وجہ سے یا وہ کرپشن کا ارتکاب کرتا ہو تو اس کی برائی کو ان لوگوں کے سامنے بیان کرنا واجب ہے جو ان سے عہدے میں بڑے اور با اختیار ہوں تاکہ یاتو اس کی اصلاح کرے یا ایسے آدمی کا تقرر کرے جو اس عہدے کے لئے موزون ہو اور اہلیت رکھتا ہو۔

۱۱۔ اگر کوئی شخص کسی عیب والے نام یا لقب سے مشہور ہو تو اس عیب کے ساتھ اس کا ذکر کرنا جائز ہے بشرطیکہ وہ شخص اس کو ناپسند نہ کرتا ہو۔جیسے عربی میں اعور (کانا) ’ اعمش (نا بینا) اعرج (لنگڑا) وغیرہ ۔ اردو میں جیسے جو شخص قدر آور ہو اس کو اس کو ‘‘لمبو’’ کہا جائے یا جس کا رنگ سیاہ ہو اس کو ‘‘کالیا’’ یا ‘‘کالو’’ کہا جائے وغیرہ۔ اگر اس طرح کے نام یا لقب سے ان کو پکارنا ان کو نا پسند ہو تو یہ غیبت محرمہ میں شمار ہوتا ہے جوکہ جائز نہیں ہے۔

 ۱۲۔ آپ بیتی غیبت نہیں: اگر کوئی شخص اپنی آپ بیتی یا اپنے ساتھ پیش آنے والا کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے کسی شخص کا ذکر کرتاہے جس میں اس شخص کے کسی عیب کے بارے میں اظہار ہو مگر اس شخص کا مقصد غیبت کرنا نہیں بلکہ اپنا واقعہ بیان کرنا ہو تو یہ بھی غیبت محرمہ کے زمرے میں نہیں آتا ۔

          مولانا انور شاہ کشمیری کہتے ہیں اگر کوئی اپنے کسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کسی کا ذکر کرے تو یہ غیبت میں شمار نہیں ہوتا۔

          ان الغیبۃ هی التی کانت لتبرید الصدر و التلذذ بها و جعلها شغلا ۔ اما اذا کان بصدد ذکر حوادث الایام و صروفها فذکر فیہ اشیاء لایکون من الغیبۃ المحظورۃ۔(فیض الباری شرح البخاری کتبا الادب باب الغیبۃ)

          ممنوعہ غیبت سے مراد وہ غیبت ہے جو سینے کو ٹھنڈا کرنے اوراس سے لذت حاصل کرنے کے لئے کسی کی برائی کرے اور اس کو اپنامشغلہ بنا لے’ لیکن اگر وہ اپنے گزرے ایام کے واقعات بیان کرتے ہوئے کسی کے بارے میں کچھ بیان کرے تو یہ ممنوعہ غیبت میں شامل نہیں ہے۔

غیبت سے بچنے کے طریقے اور تدابیر:

          غیبت ایک وبائی مرض بن چکی ہے لہٰذا اکثر لوگ اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیادین دار کیا بے دین’ سب اس کا شکار ہیں۔ انسان کو غیبت کی عادت پڑ جائے تو چھوٹنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ بقول علامہ آلوسی کے غیبت میں کھجور کی سی میٹھاس’ شراب کی سی تیزی اور سرور ہوتا ہے بلکہ غیبت در اصل لوگوں کے گوشت کا سالن ہے جو لوگ مزے سے کھاتے ہیں اور چسکیاں لیتے ہیں اس لئے اس کی عادت جاتی ذرا مشکل سے ہے مگر نا ممکن نہیں اس کے لئے انسان کو کوشش اور عزم بالجزم کے ساتھ اس کو ترک کرنے کے طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔غیبت سے بچنے کے لئے درج ذیل طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔

۱۔ کثرت کلام سے اجتناب: کثرت کلام یعنی زیادہ بولنا انسان کو ہلاکت میں ڈالنے کا سبب ہے۔یہ مشاہدہ کی بات ہے جن لوگوں کو زیادہ بولنے کی بیماری ہوتی ہے وہ جھوٹ بولنے اور غیبت کرنے میں دوسروں کی نسبت زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔باتونی لوگوں کے لئے ہر بات سوچ سمجھ کر کرنا دشوار ہوتا ہے اس لئے جھوٹ بھی بولتے ہیں اور ساتھ میں دوسروں کی برائی بھی کرتے جاتے ہیں۔ لہٰذا کثرت کلام سے اگر اجتناب کیا جائے تو غیبت سر زد ہونے کا امکان بھی کم ہو جاتا ہے۔اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا ہے کہ بات کرنی ہوتو اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ارشاد نبوی ہے:

          من کان یؤمن باللہ و الیوم الآخر فلیقل خیرا او لیصمت۔(صحیح بخاری کتاب الادب باب من کان یؤمن باللہ و الیوم الآخر فلایؤذ جاره.  (کتاب الرقاق باب حفظ اللسان و ... صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار و الضیف و لزوم الصمت الا علی الخیر)

          جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔

          ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت کلام سے اجتناب کرنے اور خاموشی اختیار کرنے والے کے لئے نجات کی خوشخبری دی ہے۔

          عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من صمت نجا۔(ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب ’ سنن الدارمی کتاب الرقاق باب فی الصمت’ و الاستذکار ص:۵۶۹/۸)

          حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پائی۔

          یہ حدیث اگرچہ ترمذی کی سند سے ضعیف ہے مگر دوسرے طرق سے سندجید کے ساتھ مروی ہے اس لئے صحیح ہے اور شیخ البانی ؒ نے اس کو صحیح قرار دیتے ہوئے اپنی مشہور کتاب سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ میں نقل کیا ہے’ اور اس پر بحث کرنے کے بعد آخر میں حکم لگاتے ہوئے لکھا ہے:

          قال المنذری رواہ الترمذی و قال حدیث غریب و رواہ الطبرانی و رواتہ ثقات ۔ و نقل المناوی عن الزین العراقی انہ قال: سند الترمذی ضعیف و هو عند الطبرانی بسند جید۔(دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۵۳۶)

          منذری کہتے ہیں کہ ترمذی نے اس کو روایت کر کے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور طبرانی نے اس کو روایت کیا ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ اور مناوی نے زین العراقی سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ترمذی کی سند ضعیف ہے اور یہ طبرانی میں جید سند (بہتر سند) کے ساتھ مروی ہے۔

          ابو داود کی روایت میں ہے ابوظبیہ نے کہا۔

          ان عمرو بن العاص قال یوما ’ و قام رجل فاکثر القول فقال عمرو لو قصد فی قولہ لکان خیرا لہ۔سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لقد رأیت او امرت ان اتجوز فی القول فان الجواز هو خیر۔(ابو داود کتاب الادب باب ما جاء فی المتشدق فی الکلام)

          عمرو بن عاص نے ایک دن کہاجب ایک آدمی کھڑا ہوا اور بہت زیادہ باتیں کیں تو عمرو نے کہا اگر یہ اپنی باتیں کم کرتا تو یہ اس کے لئے بہتر ہوتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میراخیال ہے یا مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں باتیں کم کروں اس لئے باتیں کم کرنے میں ہی بھلائی ہے۔

۲۔ فضول مجالس کے انعقاد سے اجتناب: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کچھ دوست و احباب تفریح اور شغل بازی کے لئے مجالس منعقد کرتے ہیں اور ان میں بیٹھ کر دوسروں کی عیب گوئی ’ غیبت اور مذاق کے شغل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اگر انسان ان فضول اور بے مقصد کی محفلیں قائم کرنے یا ان میں شرکت کرنے سے اجتناب کرے تو غیبت سے بچ سکتا ہے۔

۳۔ بے مقصد کثرت اختلاط یعنی بلا ضرورت میل جول سے گریز: بعض دفعہ کثیرت اختلاط اور بلا ضرورت دوستوں کا میل جول بھی غیبت سرزد ہونے کا سبب بنتا ہے۔اس لئے کہ جب کوئی کسی سے زیادہ دیر تک ملتاہے اور ساتھ رہتا ہے تو اس عرصہ میں دونوں کا خاموش رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے چنانچہ وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں اور اس گفتگو کے دوران کسی کا ذکر چھڑ جاتا ہے جس میں اکثر اوقات کسی کی غیبت اور شکایت ہی ہوتی ہے۔

۴۔ ہنسی مذاق بھی غیبت کا سبب : ہنسی مذاق میں انسان دوسروں کا مذاق اڑانے کے لئے ان کی غیبت اور عیب گوئی کرتا ہے ۔ یہی وجہ سے جہاں غیبت سے منع کیا گیا ہے وہیں دوسروں کا تمسخر اڑانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

          ﴿یا ایها الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منهم و لا نساء من نساء عسی ان یکن خیرا منهن﴾(الحجرات:۱۱)

          اے ایمان والو! مرد دسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں۔

۵۔ غیبت کرنے سے منع کیا جائے: غیبت سے باز رہنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی کسی کے سامنے کسی کی غیبت کرے تو سننے والوں کو چاہئے کہ مزے سے اس کی باتیں سننے کے بجائے اس شخص کو غیبت کرنے سے منع کریں۔اس طرح کرنے سے یہ ممکن ہے کہ غیبت کا سلسلہ ختم ہوجائے اس لئے کہ جب غیبت کرنے والے کو پتہ چل جائے گا کہ اس کی بات سننے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے تو وہ خود آئندہ اس سے باز آئے گا۔

۶۔ اسی طرح غیبت سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہی کہ اگر کوئی شخص کسی کے سامنے غیبت کرنے لگ جائے تو سننے والا فوری طور پر اس کو کسی اور بات میں لگا دے اور اس کی توجہ دوسری طرف پھیر دے۔ یوں غیبت کرنے اور سننے سے بچے رہیں گے۔

          یہ وہ چند تدابیر ہیں جن کے ذریعے انسان غیبت کی برائی اور گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتا ہے۔

خلاصہ کلام:

          خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جہاں دوسرے مسلمانوں کی جان و مال کی سلامتی اور تحفظ کاحکم دیا ہے وہاں ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کی بھی تلقین کی ہے تاکہ معاشرے کے باہمی تعلقات خوشگوار اور پاکیزہ رہیں اور ہر مسلم دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آئے کسی کے دل میں دوسرے کے لئے کدورت اور خلش نہ ہو’ مسلمان ایسے امور سے گریز کریں جن سے دوسرے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہو۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا ہمدرد اور خیر خواہ ہو نہ کہ دشمن اور بدخواہ۔ مسلمان اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو دکھ اور تکلیف نہ پہنچائے۔ لہٰذا اسلام نے ہر اس کام کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے جس سے دوسروں کی جان و مال کو نقصان پہنچتا ہو یا ان کی عزت و آبرو پر حرف آتا ہواور ان کے باہمی ناخوشگواری اور کھینچاؤ پیدا ہوتا ہو۔چنانچہ شریعت اسلامیہ نے چغلخوری ’ بدگوئی’ بہتان طرازی’ دغا بازی’ بد گمانی’ فحش گوئی کو ناجائز اور حرام قرار دیا ۔

          غیبت سے بھی چونکہ دوسروں کی ساکھ مجروح ہوتی ہے ’ عزت و آبرو بر حرف آتا ہے اور باہمی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے اس لئے شریعت اسلامی نے اس کو بھی حرام قرار دیا اور غیبت کرنے کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دیتے ہوئے سخت تاکید کی ہے کہ کسی کی غیبت اور عیب جوئی کرنے سے اجتناب کریں۔ واضح حکم امتناعی کے باوجود اگر کوئی اس کا ارتکاب کرے گا وہ قیامت کے دن سزا سے نہ بچ سکے گا۔

          لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ قرآن و حدیث کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اس فعل شنیع سے باز آئیں اور باز رہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عنایت کرے۔آمین - و السلام

 ابراہیم عبد اللہ یوگوی








ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں (0)